Mualim-ul-Irfan - Faatir : 19
وَ مَا یَسْتَوِی الْاَعْمٰى وَ الْبَصِیْرُۙ
وَمَا يَسْتَوِي : اور برابر نہیں الْاَعْمٰى : اندھا وَالْبَصِيْرُ : اور آنکھوں والا
اور نہیں برابر اور اندھا اور بینا
ربط آیات گزشتہ آیات میں مشرکین کا رد تھا۔ نیز ساری مخلوق کے احتیاج اور اللہ تعالیٰ کی بےنیازی کا ذکر تھا۔ اس بنا پر تمام حاجات اللہ وحدہ لاشریک سے طلب کرنی چاہئیں اور اسی کی عبادت کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے ، وہ چاہے تو ساری مخلوق کو صفحہ ہستی سے نابود کرکے اس کی جگہ دوسری مخلوق کو لے آئے۔ لہٰذا ہر انسان کو محاسبہ اعمال کی فکر کرنی چاہئے۔ قیامت والے دن کوئی عزیز ترین رشتہ دار بھی کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اللہ نے حضور ﷺ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ آپ ایسے لوگوں کو ڈراتے ہیں جو خدا تعالیٰ سے بن دیکھے ڈرمتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ وہ لوگ نماز پڑھتے ہیں اور ظاہری و باطنی تزکیہ حاصل کرتے ہیں۔ فرمایا جو کوئی پاکیزگی اختیار کرے گا تو اس میں خود اسی کا فائدہ ہے جس کا نتیجہ اللہ کی بارگاہ میں پیشی کے وقت سامنے آئے گا۔ اس طرح اللہ نے قیامت کا مسئلہ بھی سمجھا دیا۔ نیک و بد کی مثال گزشتہ درس میں میٹھے اور کڑوے سمندر کی مثال بیان کی گئی تھی کہ یہ دونوں برابر نہیں مگر مخلوق خدا ان سے یکساں طور پر فائدہ اٹھاتی ہے۔ اب اسی تسلسل میں بعض دوسری مثالیں بیان کی ہیں کہ متضاد چیزیں آپس میں برابر نہیں ہوسکتیں۔ ارشاد ہوتا ہے وما یستوی الاعمی والبصیر اور اندھا اور بینا برابر نہیں ہیں۔ ہر شخص یہی کہے گا کہ بینا آدمی اندھے سے بہتر ہے کیونکہ وہ دیکھ کر اچھے اور برے میں تمیز کرسکتا ہے اور نقصان سے بچ کر مختلف چیزوں سے فائدہ حاصل کرسکتا ہے۔ اسی طرح فرمایا ولا الظلمت ولا النور اندھیرے اور روشنی بھی برابر نہیں ہوسکتے۔ اندھیرے میں انسان ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے جب کہ اجالے میں سارے کام انجام دیتا ہے۔ لہٰذا ان کو بھی کوئی شخص برابر تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ پھر فرمایا ولا الظل ولا الحرور سایہ اور دھوپ بھی برابر نہیں ہوسکتے۔ سائے میں آدمی کام کاج کرسکتا ہے کچھ دیر کے لیے مسافر آرام کرسکتا ہے۔ جب کہ دھوپ کی شدت میں نہ تو سکون سے کوئی کام ہوسکتا ہے اور نہ ہی آرام کرسکتا ہے۔ یہ بھی متضاد چیزیں ہیں جن میں سے ایک مفید اور دوسری غیر مفید ہے۔ فرمایا وما یستوی الاحینا ولا الاموات زندہ اور مردہ بھی برابر نہیں ہیں۔ زندہ انسان دنیا میں چلتے پھرتے ہیں ، کام کاج کرتے ہیں ، عبادت کرتے ہیں جب کہ مردہ انسان قبروں میں خاموش پڑے ہیں۔ یہ دونوں گروہ کیسے برابر ہوسکتے ہیں۔ یہی مثال نیک اور بد یا مومن اور کافر کی ہے ، ایک طرف مومن ہے جس کے دل کی آنکھیں اللہ نے روشن کر رکھی ہیں ، اس کو بصیرت ہے۔ جس کے ذریعے وہ نیکی اور بدی میں تمیز کرسکتا ہے۔ وہ جس طرح ظاہری روشنی کو دیکھ رہا ہے اسی طرح دل کی بصیرت سے وحی کے اجالے کو بھی دیکھ رہا ہے اور اپنی منزل کو طے کرتے چلا جارہا ہے۔ ظاہری روشنی آنکھوں کے لیے ضروری ہے جب کہ وحی الٰہی کی روشنی عقل کے لیے لازمی ہے جب تک انسان کو وحی الٰہی کی روشنی میسر نہ ہو وہ اپنی منزل طے نہیں کرسکتا ، عقل ایک قیمتی جوہر ہے مگر تمام چیزوں میں وہ بھی خود مکتفی نہیں ہے بلکہ وحی الٰہی کا محتاج ہے۔ جو شخص وحی الٰہی کی روشنی میں آخرت کے سفر پر گامزن ہوتا ہے وہ بالاخر خطیرۃ القدس اور جنت تک پہنچ جاتا ہے دوسری طرف جو شخص وحی الٰہی کی بصیرت سے محروم ہے اور اس کے دل پر کفر اور شرک اور معاصی کی تاریکیاں چڑھی ہوئی ہیں وہ خدا کی رحمت کے مقام میں کبھی نہیں پہنچ سکے گا ، بلکہ وہ تو جہنم کی آگ میں ہی پہنچے گا۔ حضور ﷺ نے ایسے شخص کو بھی مردہ سے تشبیہ دی ہے جس کا دل ذکر الٰہی سے خالی ہے۔ فرمایا (بخاری ص 948 ج 2 فیاض) مثل الذی یذکر اللہ والذی لا یذکرہ کمثل الحی والمیت یعنی خدا تعالیٰ کا ذکر کرنے والے اور ذکر نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ کی ہے۔ زندہ شخص تو نصیحت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے ، امکان ہے کہ وہ کسی نہ کسی وقت ایمان قبول کرلے مگر مردہ شخص تو دارالعمل سے نکل کر دارالجزا میں پہنچ چکا ہے ، اب اس کے لیے کوئی نصیحت قطعاً مفید نہیں ہوسکتی۔ وہ نہ تو کسی ایمان کی بات کو سن سکتا ہے نہ نیکی کما سکتا ہے اور نہ اسے کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ مومن اور کافر بھی ایسے ہی ہیں مومن کی مثال ایک زندہ کی ہے جو نیکی کما رہا ہے اور کافر ایک مردہ ہے جو ایک رائی کے دانے کے برابر بھی نیکی حاصل نہیں کرسکتا۔ اسی ضمن میں فرمایا ان اللہ یسمع من یشاء بیشک اللہ تعالیٰ سنا دیتا ہے جس کو چاہے وما انت سمع من فی القبور اور آپ نہیں سناسکتے ان کو جو قبروں میں پڑے ہوئے ہیں۔ مطلب یہ کہ جس طرح آپ قبروں والے مردوں کو نہیں سناسکتے یعنی ان پر آپ کی نصیحت کارگر نہیں ہوسکتی ، اسی طرح کفر اور شرک کرنے والوں کے لیے بھی آپ کی کوئی نصیحت فائدہ مند نہیں ہوسکتی۔ اسی بات کو سورة القصص میں اس طرح فرمایا انک لا تھدی من احببت ولکن اللہ یھدی من یشاء جسے آپ چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے ، بلکہ ہدایت کا نور اس کو حاصل ہوتا ہے جس کمو اللہ چاہے وانک لتھدی الی صراط مستقیم (الشوریٰ 52) آپ تو صرف سیدھے راستے کی طرف راہنمائی کرتے ہیں ، باقی ہدایت دینا اللہ کا کام ہے یعنی ہر بات اللہ کی حکمت اور ارادے کے مطابق ہوتی ہے۔ اگر اللہ چاہے گا تو کسی کافر ، مشرک کو ہدایت نصیب ہوجائے گی ، اگر اس کی مشیت نہیں تو پھر ہدایت نصیب نہیں ہوسکتی۔ آپ اپنی مرضی سے قبر والوں یعنی کفار و مشرکین کو سنانا چاہیں تو نہیں سناسکتے۔ سماع موتی سے متعلق اس قسم کی آیت سورة کل ، نمل اور روم اور آگے سورة احقاف میں بھی ہے ، یہ تمام آیات بظاہر سماع موتی کے متعلق ہیں مگر دراصل ان سے مردے نہیں بلکہ کافر مراد ہیں۔ یعنی کافروں کی حالت مردوں جیسی ہے جن پر نصیحت کی کوئی بات کارگر نہیں ہوتی۔ چونکہ ان آیات سے حقیقی مردوں کے سننے یا نہ سننے کی بحث چھیڑ لی جاتی ہے ، اس لیے مفسرین کرام نے اس مسئلہ کو سلجھانے کی کوشش کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سماع موتی کا مسئلہ صحابہ کرام ؓ کے زمانہ سے لے کر مختلف فیہ چلا آرہا ہے۔ ام المومنین (روح المعانی ص 55 ج 21) حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سماع موتی سے انکار کرتی ہیں اور جو احادیث سماع کے حق میں آئی ہیں ان کی تاویل کرتی ہیں۔ بعض دوسرے صحابہ ؓ بھی ان کے ہم مسلک ہیں ، البتہ حضرت عمر ؓ ، عبداللہ بن عمر ؓ اور عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ فی الجملہ مردوں کا سننا صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ بعض فرماتے ہیں کہ جن جن مقامات پر مردوں کے سننے کا ذکر آیا ہے صرف انہی مقامات پر سماعت کا عقیدہ رکھیں گے نہ کہ ہر وقت اور ہر مقام پر۔ چناچہ فقہائے حنفیہ کے امام ابن ہمام (رح) لکھتے ہیں کہ مردے عام طور پر نہیں سنتے البتہ بعض مقامات پر اس اصول سے مستثنیٰ ہیں ، وہاں مردے سنتے ہیں۔ البتہ اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اپنی آواز ضرور ہی کسی مردے کو سنا سکتا ہے تو یہ دعویٰ درست نہیں کیونکہ یہ کام کسی انسان کے اختیار میں نہیں ہے لیکن علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اگر مردے فی الجملہ نہیں سنتے تو بڑی مشکلات پیش آتی ہیں۔ امام بخاری (رح) نے تو باب باندھ کر سماع موتی کو ثابت کیا ہے۔ باب یہ ہے (بخاری ص 178 ج 1 فیاض) المیت یسمع قرع نعال یعنی جب لوگ مردے کو دفن کرکے واپس جاتے ہیں تو مردہ ان کے جوتوں کی کھٹکھٹاہٹ کی آواز سنتا ہے۔ یہ درجہ اول کی حدیث ہے جس کی کوئی بھی توجیہہ یا تاویل نہیں کرسکتا۔ مولانا محمد قاسم نانوتوی (رح) فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے مردوں کے لیے بھی سلام کا وہی طریقہ بتلایا ہے جو زندوں کے لیے مقرر فرمایا ہے۔ یعنی جب تم قبرستان میں جائو تو ان کو یوں سلام کرو السلام علیکم یا اھل القبور یعنی اے قبروں والو ! تم پر سلام ہو۔ اگر یہ سماع فی الجملہ نہ ہو تو یہ کلام ہی بےمقصد ہے۔ محدثین کرام ایسی احادیث کو صحیح تسلیم کرتے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ جب کوئی مسلمان کسی مسلمان بھائی کی قبر پر گزرتے ہوئے سلام کرتا ہے تو مردہ اس سلام کو سنتا ہے اور جواب بھی دیتا ہے مگر ہم اس کے جواب کو نہیں سن سکتے۔ اگر مردہ سلام کرنے والے کو دنیا میں پہچانتا تھا تو بعد از مرگ بھی پہچانتا ہے۔ محدث ابن عبدالبر (رح) نے اس حدیث کو صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ہے۔ بعض اصحاب نے مذکور آیات کو عام معانی میں لیا ہے کہ آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے۔ اس بنا پر انہوں نے سماع موتی والی احادیث کی تاویل کی ہے جبکہ بعض نے احادیث کو صحیح مان کر آیات کی تاویل کی ہے تاکہ بات سمجھ میں آجائے امام بیضاوی (بیضاوی ص 271 ج 2) ، امام قرطبی (رح) (قرطبی ص 340 ج 14) اور صاحب روح المعانی (رح) (روح المعانی ص 55 ج 21) وغیرہ (البحر المحیط ص 309 ج 7 فیاض) کہتے ہیں کہ مردوں کے سننے سے متعلق سننا مراد نہیں بلکہ ایسا سماع مراد ہے جو مفید ہو۔ آپ قبر پر کھڑے ہو کر دو گھنٹے تک وعظ و نصیحت کریں مگر مردے کو کچھ فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ وہ عمل کی دنیا سے نکل کر جزا کی دنیا میں پہنچ چکا ہے۔ بالکل اسی طرح کافر حضور ﷺ کی آوازا تو سنتے ہیں مگر یہ سماع ان کے لیے مفید نہیں کیونکہ وہ ایمان نہیں رکھتے۔ گویا ان آیات میں سماع نافع کی نفی کی گئی ہے کہ مردوں کو نصیحت کرنا بیکار ہے ، نہ یہ کہ وہ بالکل سنتے ہی نہیں۔ امام ابن تیمیہ (رح) جو ان مسائل میں بڑے شدید ہیں ، وہ بھی لکھتے ہیں کہ مردے سلام بھی سنتے ہیں اور قرآن پڑھنے والے کی آواز بھی سنتے ہیں۔ الغرض ان آیات کا یہی مفہوم لینا پڑے گا کہ اگر کوئی شخص چاہے کہ اپنی مرضی سے کسی مردے کو سنا دے تو یہ تو ممکن نہیں کیونکہ اس کمے لیے مشیت خداوندی ضروری ہے۔ اور اگر بلافائدہ کوئی مردہ سنتا بھی ہے تو سنتا رہے ، اس سے کیا فرق پڑے گا۔ بعض لوگ سماع موتی کو اس لیے نہیں مانتے کہ اس سے شرک پیدا ہونے کا خطرہ ہے اگر سماع مانیں گے تو لوگ ان سے مرادیں مانگنے لگیں گے اس میں شرک کو داخل نہیں کرنا چاہئے کیونکہ مراد مانگنا تو مردہ چھوڑ زندہ سے بھی جائز نہیں وہ بھی شرک ہے۔ بہرحال سماع موتی کے مسئلہ میں شروع سے اختلاف چلا آرہا ہے۔ عام مردوں کے سماع کے سلسلے میں دونوں طرف دلائل موجود ہیں ، تاہم مولانا گنگوہی فرماتے ہیں کہ نبیوں کے سماع میں کسی کا اختلاف نہیں۔ جب کوئی شخص حضور ﷺ کی قبر مبارک پر جا کر درود وسلام پڑھتا ہے تو آپ اس کو سنتے ہیں۔ اسی لیے صاحب ” فتح قدیر “ اور بعض دیگر فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ جو شخص آپ کی قبر پر جا کر درود وسلام پیش کرتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اپنے حق میں دعا کی درخواست بھی کرے کہ آپ اللہ کی بارگاہ میں خاتمہ بالایمان کی سفارش فرمادیں۔ اس زمانے میں بعض اصحاب نے سماع موتی کا بالکل انکار کیا ہے حالانکہ اہل حدیث بزرگ مولانا نذیر حسین (رح) بھی فتاویٰ نذیریہ میں لکھتے ہیں کہ اگر حضور ﷺ کی قبر پر جا کر درود شریف پڑھا جائے تو آپ سنتے ہیں تاہم دور سے صلوۃ وسلام فرشتوں کے ذریعے پہنچایا جاتا ہے۔ حافظ ابن قیم (رح) نے اپنی کتاب جلاء الافہام میں صحیح سند کے ساتھ ذکر کیا ہے اور مولانا نانوتوی (رح) نے بھی یہ بات سمجھائی ہے کہ عام سماع موتی کا مسئلہ اختلافی ہے۔ بعض اس کے قائل ہیں اور بعض قائل نہیں۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جسے اب کوئی بھی حل نہیں کرسکتا۔ اس کی حقیقت تو قبر میں پہنچ کر ہی معلوم ہوگی کہ سنائی دیتا ہے یا نہیں۔ بہرحال یہ کوئی اعتقادی مسئلہ نہیں کہ ماننے یا نہ ماننے والے پر کفر یا شرک کا فتویٰ لگا دیا جائے۔ مولانا رشید احمد گنگوہی (رح) عام مردوں کے متعلق بھی عدم سماع کو ترجیح دیتے ہیں لیکن دوسری طرف بھی دلائل ہیں جنہیں یکسر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ چونکہ قرآن و حدیث میں سماع اور عدم سماع دونوں کا ذکر ہے لہٰذا جس نے جو بھی پہلو اختیار کیا ہے وہ درست ہے دوسرے فریق کو برا بھلا نہیں کہنا چاہئے۔ انبیاء کے سماع کا مسئلہ اتفاقی ہے۔ حضرت گنگوہی (رح) نے فتاویٰ رشیدیہ میں تین دفعہ لکھا ہے کہ انبیاء کے سماع میں کوئی اختلاف نہیں کسی ایک معتبر عالم کا بھی ذکر نہیں ملتا جس نے اختلاف کیا ہو۔ بہرحال فرمایا ان انت الا نذیر آپ تو ڈرانے والے ہیں۔ آپ کسی شخص کو اپنے اختیار سے راہ راست پر نہیں لاسکتے۔ البتہ تمام انبیاء (علیہم السلام) بشیر اور نذیر ہوئے ہیں جو اپنی اپنی قوم کو نیک اعمال کی بشارت اور برے اعمال سے ڈراتے رہے۔ تاریخ میں حضرت علائو الدولہ سمنانی (رح) کا ذکر ملتا ہے۔ انہوں نے یہ بڑا قیمتی فقرہ لکھا ہے کہ تمام انبیاء دنیا میں اس لیے تشریف لائے کہ مخلوق کی آنکھیں اس طور پر کھول دیں کہ ان کو اپنا عیب اور حق تعالیٰ کا کمال نظرم آنے لگے۔ اپنی عاجزی اور اللہ کی قدرت نظر آنے لگے ، اپنی ظلم و زیادتی اور حق تعالیٰ کا عدل و انصاف نظر آنے لگے ، اپنی جہالت اور حق تعالیٰ کا علم نظر آنے لگے ، اپنی پستی اور حق تعالیٰ کی عزت نظر آنے لگے۔ اپنی بندگی اور حق تعالیٰ کی مالکیت نظر آنے لگے ، اپنا فقر اور حق تعالیٰ کا غنا نظر آنے لگے ، اپنی کوتاہی اور حق تعالیٰ کی نعمتیں نظر آنے لگیں ، اپنا فنا ہے اور بقا ہستی صرف خدا تعالیٰ کی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے انا ارسلنک بالحق بشیرا و نذیرا بیشک ہم نے آپ کو خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے اہل ایمان کے لیے جنت میں اعلیٰ مقام کی بشارت ہے جب کہ کفر ، شرک اور معاصی کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے برے انجام کی وعید ہے۔ فرمایا وان من امۃ الاحد فیھا نذیر ہر امت میں کوئی نہ کوئی ڈرانے والا گزرا ہے کوئی ایسی امت نہیں جس میں اللہ کے صاحب کتاب اور صاحب شریعت نبی یا ان کے نائب نہ آئے ہوں۔ نبیوں کے بعد ان کی امت کے مبلغین ہی انذار کرنے والے ہوتے ہیں اور یہ تسلسل کے ساتھ ہر قوم و ملک میں آتے رہتے ہیں اور آتے رہیں گے۔ فرمایا وان یکذبوک اگر یہ لوگ آپ کو جھٹلادیں تو گھبرائیں نہیں یہ تو ان کی پرانی ریت ہے۔ فقد کذب الذین من قبلھم ان سے پہلے لوگوں نے بھی اپنے اپنے نبیوں کو جھٹلایا۔ جاء تھم رسلھم بالبینت ان کے رسول ان کے پاس کھلی اور واضح نشانیاں احکام اور دلائل لے کر آئے۔ وبالزبر وہ اپنے ساتھ صحیفے بھی لائے۔ اللہ نے بہت سے انبیاء (علیہم السلام) پر صحیفے بھی نازل فرمائے وبالکتب المنیر اور وہ روشن کتابیں بھی لائے۔ چار آسمانی کتابیں زبور ، تورات ، انجیل اور قرآن ہیں۔ ان کے علاوہ امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ نے ایک سو چھوٹے موٹے صحیفے بھی نازل فرمائے۔ جب اللہ نے انبیاء اور کتب کے ذریعے حجت پوری کرلی اور جو پھر بھی نہ مانے تو فرمایا ثم اخذت الذین کفروا پھر میں نے کفر کرنے والوں کو پکڑ لیا۔ پہلے انذار کیا ، مہلت دی مگر جب وہ کسی طرح نہ مانے تو میری گرفت آئی فکیف کان نکیر پھر دیکھو میری گرفت کیسی ہوئی۔ جب حق تعالیٰ کی طرف سے عذاب آیا تو پھر نافرمان قوم کا فرد واحد بھی نہ بچ سکا ، سب دنیا سے ناپید ہوگئے۔ فرمایا دیکھو ایسے لوگوں کا کیا حال ہوا۔ ۔
Top