Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 64
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا
وَمَآ : اور نہیں اَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجا مِنْ رَّسُوْلٍ : کوئی رسول اِلَّا : مگر لِيُطَاعَ : تاکہ اطاعت کی جائے بِاِذْنِ اللّٰهِ : اللہ کے حکم سے وَلَوْ : اور اگر اَنَّھُمْ : یہ لوگ اِذْ ظَّلَمُوْٓا : جب انہوں نے ظلم کیا اَنْفُسَھُمْ : اپنی جانوں پر جَآءُوْكَ : وہ آتے آپ کے پاس فَاسْتَغْفَرُوا : پھر بخشش چاہتے وہ اللّٰهَ : اللہ وَاسْتَغْفَرَ : اور مغفرت چاہتا لَھُمُ : ان کے لیے الرَّسُوْلُ : رسول لَوَجَدُوا : تو وہ ضرور پاتے اللّٰهَ : اللہ تَوَّابًا : توبہ قبول کرنیوالا رَّحِيْمًا : مہربان
اور نہیں بھیجا ہم نے کوئی رسول مگر اس لیے تاکہ اس کی اطاعت کی جائے اللہ سے۔ اور اگر یہ لوگ جب کہ انہوں نے اپنے نفسوں پر زیادتی کی ، آپ کے پاس آتے اور اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرتے اور بخشش طلب کرتا ان کے لیے اللہ کا رسول بھی ، البتہ پاتے وہ اللہ تعالیٰ کو بہت ہی توبہ قبول کرنے والا اور نہایت مہربان
ربط آیات گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان سے خطاب کر کے ، اللہ ، اس کے رسول اور اولی الامر کی اطاعت کا حکم دیا تھا اور پھر یہ بھی واضح فرما دیا تھا کہ اگر حکام اور رعیت کے درمیان یا افراد کے درمیان کوئی تنازعہ پیدا ہوجائے تو ایسے معاملہ کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹانا ضروری ہوجاتا ہے۔ مقصد یہ کہ کسی بھی معاملہ میں آخری اور حتمی فیصلہ کتاب و سنت سے ہی حاصل کرنا ہوگا اگر دا اور قیامت پر ایمان پختہ ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے منافقین کی مذمت بیان فرمائی اور واضح کیا کہ جب انہیں کہا جاتا ہے کہ کتاب اللہ اور اس کے رسول کی طرف آؤ ۔ تو یہ لوگ اعراض کرتے ہیں اور خدا و رسول کے فیصلے کو تسلیم کرنے کی بجائے اپنے مقدمات طاغوت کی طرف لے جاتے ہیں۔ یہ بیماری منافقین مدینہ میں فی الواقع موجود تھی ، وہ اپنا معاملہ حضور ﷺ کے پاس لے جانے کی بجائے کعب بن اشرف جیسے کافر ، فاجر ، سود خور اور بداخلاق یہودی کے پاس لے جانے کو ترجیح دیتے تھے۔ اب آج کی آیات میں اطاعت کا بنیادی مقصد بیان کیا گیا ہے اور یہ کہ بنی نوع انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ کے رسول کی اطاعت کریں۔ گزشتہ درس میں یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ اطاعت بالذات تو فقط خدا تعالیٰ کی ہوتی ہے اور وہی مطاع مطلق ہے مگر رسول کی اطاعت بالذات نہیں ہوتی بلکہ اس کی رسالت کی وجہ سے ہوتی ہے کہ وہ اللہ کا پیغام مخلوق تک پہنچاتا ہے اور اس ابلاغ میں کسی قسم کی غلطی یا شبہ کا امکان نہیں ہوتا۔ اطاعتِ رسول فرض ہے ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اطاعتِ رسول کا مرکزی نکتہ بیان فرمایا ہے ارشاد ہوتا ہے و ما ارسلنا من رسولٍ الا لیطاع باذن اللہ ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی اور رسول مبعوث فرما کر انہیں بنی نوع انسان کی ہدایت پر مامور کیا اور اس سلسلہ کی آخری کڑی کے طوپر حضور خاتم النبیین ﷺ کو مبعوث فرمایا۔ ان تمام انبیاء اور رسل کی بعثت کا مقصد ان کی اطاعت تھا اور وہ بھی باذن اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل ہیں۔ اس لحاظ سے رسول کی اطاعت کو درجہ فرضیت حاصل ہے اور یہ اس لیے کہ رسول کی اطاعت دراصل اللہ ہی کی اطاعت ہوتی ہے۔ یہ بات اسی سورة میں آگے دوسرے طریقے سے بھی سمجھائی گئی ہے ” من یطع الرسول فقد اطاع اللہ “ یعنی جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے درحقیقت اللہ ہی کی اطاعت کی۔ اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت تک پہنچنے کے لیے رسول ہی واحد ذریعہ ہے۔ رسول کے پاس کسی شک و شبہ اور غلطی سے مبرا قطعی اور یقینی علم ہوتا ہے۔ نبی کے علاوہ ایسی کوئی دوسری ہستی موجود نہیں جس کے اخذ اور بیان میں شبہ کا امکان نہ ہو۔ نبی کو اس بات کی گارنٹی حاصل ہوتی ہے کہ وہ اللہ کے احکام ٹھیک ٹھیک اخذ کرتا ہے اور پھر انہیں آگے مخلوق کے سامنے بلا کم و ست کا بغیر کسی شبہ اور غلطی کے بیان کردیتا ہے۔ نبی کے بیان اور اولیاء اللہ کے کشف میں یہ بنیادی فرق ہے کہ پیغمبر کا بذریعہ وحی اخذ ، اس کا ضبط اور پھر بیان شک و شبہ سے پاک سو فیصدی درست ہوتا ہے جب کہ صاحب کشف کے کشفی بیان کو یہ قطعیت حاصل نہیں ہوتی۔ ولی کے کشف کو سمجھنے ، اسے ضبط کرنے اور پھر بیان کرنے میں خطا کا امکان ہے ، لہٰذا یہ سو فیصدی قطعی اور یقینی نہیں ہوتا۔ نبی کی اطاعت دراصل اطاعت الٰہی کی قطعی علامت ہوتی ہے اور ہر نبی کی اطاعت اللہ ہی کے حکم سے ہوتی ہے۔ دنیا میں آنے والے ہر نبی نے یہی کہا ” ان اعبدواللہ لوگو ! عبادت اللہ کی کرو۔ ” واطیعون “ اور اطاعت میری کرو۔ گویا مستحق عبادت صرف اللہ کی ذات ہے اور میری اطاعت کے بغیر کسی کو فلاح نصیب نہیں ہو سکتی کیونکہ قطعی اور یقینی علم کے حصول کا میں ہی واحد ذریعہ ہوں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی اپنے باپ سے کہا تھا ” یابت انی قدجاء نی من العلم مالم یاتلک فاتبعنی اہدک صراطاً سویاً “ اے باپ ! میرے پاس ایسا علم ہے جو تیرے پاس نہیں ہے ، اسی لیے میں کہتا ہوں کہ میری بات مان لو میں تمہیں صراط مستقیم کی منزل دکھا دوں گا۔ یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے اطاعت کا یہی مرکزی مضمون سمجھایا ہے کہ نبی کی اطاعت اللہ کے حکم سے ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ فرض ہے اور اس سے سرتابی کفر ہے۔ طلبِ معافی کے آداب فرمایا کہ لوگوں کا فرض تھا کہ وہ اللہ کے رسول کی اطاعت کرتے۔ خدا کی نازل کردہ ہدایت کی طرف رجوع کرتے مگر یہ لوگ اپنے معاملات اللہ کے رسول کے پاس لانے کی بجائے طاغوتوں کے پاس لے جاتے ہیں۔ ولو انہم اذ ظلموا انفسہم اور جب کہ ان لوگوں نے اپنے نفسوں پر ظلم کیا یعنی گناہ اور زیادتی کا ارتکاب کر بیٹھے ، تو ادھر ادھر جانے کی بجائے جاء وک آپ کے پاس آجاتے فاستغفروا اللہ اور اللہ سے بخشش طلب کرتا۔ لوجدوا اللہ تواباً رحیماً تو اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا اور نہایت مہربان پاتے۔ گویا طلب بخشش کے لیے یہ طریقہ اختیار کرتے کہ اللہ کے نبی کے پاس آجاتے ، خود بھی اللہ سے اپنی لغزش کی معافی مانگتے۔ اللہ کے رسول سے بھی درخواست کرتے اور وہ بھی ان کے لیے بارگاہ رب العزت میں ہاتھ اٹھا دیتے۔ تو اللہ تعالیٰ تو ہے ہی تواّب اور رحیم ، ان کی معافی کا انتظام ہوجاتا ہے۔ معلوم ہوا کہ معافی کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ انسان ایمان سے متصف ہو۔ کیونکہ ایمان کے بغیر بخشش نہیں۔ نبی اسی صورت میں گنہگار کے لیے بخشش کی دعا کرے گا جب کہ اس کے اندر ایمان موجود ہو۔ کیونکہ مشرک ، جس کا خاتمہ کفر اور شرک پر ہوا ہو ، اس کے لے معافی کی درخواست کرنا جائز نہیں۔ بہرحال فرمایا اولاً یہ لوگ خود ایمان دار ہوں اور ثانیاً اپنی بخشش کے لیے خود اللہ تعالیٰ سے عرض کریں کیونکہ اللہ کا ارشاد ہے ” من یغفرالذنوب الا اللہ “ اللہ کے سوا کون ہے جو انسان کی غلطیوں ، کوتاہیوں کو معاف فرما دے۔ اور تیسری بات یہ کہ اللہ کا رسول بھی ان کی معافی کے لیے اللہ تعالیٰ سے سفارش کرے۔ اور ایسا کرنا نبی کے لیے عین روا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ” واستغفر لذنبک و للمومنین والمومنت “ (سورۃ محمد) یعنی اپنی لغزشوں کی بھی اللہ سے معافی مانگیں اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لیے بھی بخشش کی دعا کریں۔ آپ کے اپنے متعلق تو اللہ تعالیٰ نے سورة فتح میں خوشخبری سنا دی لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک و ماتاخر اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کی تمام اگلی پچھلی خطائیں فرمادیں تاہم مومنین اور مومنات کی بخشش طلب کرنے کا قانون موجود ہے۔ اسی لیے فرمایا کہ اگر وہ لوگ آپ کے پاس آجاتے ، وہ خود بھی اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے اور اللہ کا رسول بھی انکے لیے معافی کی درخواست کرتا تو یقینا وہ اللہ کو تواب اور رحیم پاتے۔ عرضِ اعمال مولانا عبیداللہ سندھی (رح) فرماتے ہیں کہ اس آیت میں مذکورہ نبی ﷺ کی طرف سے طلب معافی کی درخواست بظاہر آپ کی حیات مبارکہ کے ساتھ ہی مختص معلوم ہوتی ہے کہ جو کوئی غلطی کا مرتکب آپ کی حیات مبارکہ میں ہی آپ کی خدمت میں حاضر ہوگیا ، خود بھی استغفار کی اور اللہ کے رسول سے بھی طلب معافی کی درخواست کی تو اللہ نے معاف کردیا ، تاہم مولانا فرماتے ہیں کہ اس کا تعلق عالم برزخ میں بھی قائم ہے۔ عرضِ اعمال کے متعلق صحیح احادیث موجود ہیں جن کے مطابق امت کے اعمال ملاء اعلیٰ میں حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کیے جاتے ہیں اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) کے مطابق ملاء اعلیٰ کے ممبران میں تین گروہ شامل ہیں۔ پہلا گروہ ملائکہ مقربین اور دیگر بلند پایہ فرشتوں کا ہے جس میں حاملین عرش فرشتے بھی ہیں۔ دوسرا گروہ بھی فرشتوں کا ہے جو دوسرے نمبر پر ہیں اور تیسرا گروہ بنی نوع انسان میں افاضل الآومیین کا ہے یعنی وہ کامل الایمان لوگ جو اپنی زندگیاں دین کی خاطر وقف کردیتے ہیں اور بنی نوع انسان کی اصلاح کا فریضہ انجام دیے ہیں۔ اس گروہ میں تمام انبیائے کرام اور اللہ کے دیگر نیک بندے شامل ہوتے ہیں۔ اور ان ممبران ملاء اعلیٰ کا کام کیا ہے ؟ ان کی پہلی مصروفیت یہ ہے کہ ان کی نگاہ ہر وقت خدا تعالیٰ کی تجلی اعظم پر مرکوز رہتی ہے اور ان کا دوسرا کام یہ ہے کہ وہ اللہ کے نیک بندوں کے لیے بخشش کی دعائیں مانگتے ہیں۔ حالمین عرش کے متعلق تو خود قرآن پاک میں موجود ہیں کہ وہ ایمان والوں کے لیے بخشش کی دعائیں کرتے ہیں الذین یحملون العرش و من حولہ یسبحون بحمد ربہم ویومنون بہ ویستغفرون للذین امنوا (سورۃ المومن) تو مولانا عبیداللہ سندھی (رح) فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کی اس دنیا سے رحلت کے بعد بھی امت کے اعمال ان کی خدمت میں ملاء اعلیٰ کے مقام پر پیش کیے جاتے ہیں اور وہ امت کے لیے بخشش کی دعا بھی کرتے ہیں۔ کیونکہ اس گروہ میں شامل ہونے والوں کی ایک مصروفیت طلب بخش بھی ہے۔ روضہء رسول پر استشفاع حضرت مولانا مفتی محمد شفیع (رح) اپنی تفسیر معارف القرآن میں لکھتے ہیں کہ اس آیت کریمہ کے الفاظ سے حضور ﷺ کی حیات طیبہ میں آپ سے استشفاع تو بالکل واضح ہے جب کوئی شخص غلطی کرتا ، پھر اسے ندامت ہوتی تو وہ حضور ختمی رسالت کی خدمت میں حاضر ہو کر اللہ سے اپنے گناہ کی معافی طلب کرتا ، پھر آپ سے بھی بخشش طلب کرنے کی درخواست کرتا تو حضور ﷺ اس کے لیے معافی مانگتے تو اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتا۔ اس قسم کے واقعات بہت سے صحابہ ؓ کے متعلق احادیث میں آتے ہیں۔ مثلاً حضرت اسامہ ؓ سے غلطی ہوگئی تو آپ ناراض ہوگئے ، پھر اسامہ ؓ نے عرض کیا ، حضور میرے لیے بخشش کی دعا کریں تو آپ نے ایسا کیا تاہم مفتی صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ آیت کا عموم بتاتا ہے کہ اگر حضور ﷺ کی وفات کے بعد بھی کوئی شخص آپ کے روضہ اقدس پر حاضر ہو کر اپنی غلطی کی اللہ سے معافی طلب کرے اور نبی (علیہ السلام) کی خدمت میں بھی طلب معافی کی درخواست کرے تو ایسا کرنا جائز ہے۔ مولانا رشید احمد گنگوہی (رح) فرماتے ہیں کہ تمام فقہا اس بات پر متفق ہیں کہ حضور ﷺ سے استشفاع کی دعا کرنا جائز ہے ۔ صلوٰۃ وسلام عرض کرنے کے بعد بندہ حضور ﷺ سے درخواست کرے کہ وہ اللہ کی بارگاہ میں سفارش کریں کہ اللہ میرے گناہ معاف فرما دے میراخاتمہ بالایمان ہو اور میں آپ کی ملت میں شریک رہوں۔ سماعِ موتیٰ سماعِ موتیٰ کے متعلق حضور ﷺ کی یہ صحیح حدیث موجود ہے 1 ؎ من صلی علی نائیاً ابلغتہ جو مجھ پر درود سے درود شریف پڑھتا ہے وہ مجھے پہنچا دیا جاتا ہے و من صل علی عند قبری سمعتہ اور جو کوئی میری قبر پر آ کر درود پڑھے تو میں اس کو سنتا ہوں۔ مولانا گنگوہی (رح) فرماتے ہیں کہ عام مردوں کے سننے کے متعلق علما میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض سماع کے حق میں ہیں اور بعض مخالفت میں ، مگر صحابہء کرام کے دور سے لے کر آج تک یہ اختلاف ختم نہیں ہوسکا ، لہٰذا اس مسئلہ میں زیادہ سختی کا اظہار نہیں کرنا چاہئے۔ تاہم انبیاء (علیہم السلام) کی سماعت کے متعلق کسی کو اختلاف نہیں۔ اگر نبی (علیہ السلام) کی قبر اطہر پر جا کر سلام عرض کیا جائے تو آپ بنفس نفیس اسے سماعت فرماتے ہیں۔ علمائے دیوبند کے مسلک کے مطابق بھی یہ مسئلہ متفق علیہ ہے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے متعلق آتا ہے کہ وہ سفر پر روانگی سے پہلے اور سفر سے واسپی پر حضور ﷺ کے روضہ اقدس پر حاضر ہو کر سلام عرض کرتے۔ ظاہر ہے کہ وہ سمجھتے تھے کہ قبر شریف پر حاضر ہو کر سلام کرنے سے حضور خود سنتے ہیں۔ اگر ایسی بات نہ ہوتی تو انہیں وہاں قبر پر جانے کی کیا ضرورت تھی ، درودو سلام تو ہر مقام سے آپ کی خدمت میں پہنچ ہی جاتا ہے۔ اس ضمن میں امام ابن کثیر (رح) نے عتبی والی روایت بھی نقل کی ہے۔ عتبی کہتے ہیں کہ روضہ رسول پر موجود تھا کہ ایک اعرابی قبر مبارک پر حاضر ہوا اور یہی آیت تلاوت کی ولو انہم… (الآیۃ پھر عرض کیا اللہ کے رسول میں اپنی غلطی کا اعتراف کرتا ہوں اور اللہ سے معافی ملانگتا ہوں اب آپ کے پاس آیا ہوں ، آپ بھی خدا کی بارگاہ میں میرے لیے بخشش کی دعا کریں یہ کہہ کر دیہاتی چلا گیا۔ عتبی کہتے ہیں کہ وہیں مجھ پر نیند غالب آگئی۔ خواب میں حضور ﷺ کی زیارت نصیب ہوئی اور آپ نے مجھے حکم دیا کہ دوڑ کر اس اعرابی کے پیچھے جاؤ اور اسے خوشخبری سنا دو کہ اللہ نے اس کے گناہوں کو معاف فرما دیا ہے۔ رضا برقضائے رسول اگلی آیت میں ارشاد ہوتا ہے فلا و ربک تیرے رب کی قسم۔ یہاں پر تاتاکید قسم کے لیے استعمال ہوا ہے اور اس قسم کی مثالیں قرآن پاک میں دوسرے مقامات پر بھی موجود ہیں مثلاً لا اقسم بیوم القیمۃ اور ” لا اقسم بہذا البلد تو معنی یہہوا ، تیرے رب کی قسم لا یومنون یہ لوگ ایماندار نہیں ہو سکتے حتی یحکموک فیما شجر بینہم جب تک کہ وہ آپ کو اپنے تنازعات میں حکم یا منصف مقرر نہ کریں۔ شجد میں ہر قسم کے معاملات اور تنازعات شامل ہیں خواہ وہ احکام میں ہوں یاعقائد میں۔ ہر معاملہ میں اللہ کے رسول کو منصف بناؤ اور پھر آپ کے ارشادات میں جو چیز مل جائے اسے صدق دل سے تسلیم کرلو۔ شان نزول اس آیت کریمہ کی شان نزول کے متعلق ترمذی شریف اور صحاح کی دیگر کتب میں حدیث موجود ہے جسے مفسرین کرام نے نقل کیا ہے۔ حضرت زبیر ؓ اور ایک انصاری کے درمیان کھیت کو سیراب کرنے کے متعلق تنازعہ پیدا ہوا ہوگیا۔ حضرت زبیر ؓ کا کھیت پانی کے راستے میں پہلے واقع تھا لہٰذا وہ اپنے کھیت کو پہلے سیراب کرتے تھے اور بعد میں پانی انصاری کے لیے چھوڑ دیتے تھے۔ انصاری کا مطالبہ یہ تھا کہ اس کا کھیت چونکہ دور ہے اس لیے سیرابی کا حق پہلے اسے ملنا چاہیے۔ معاملہ حضور ﷺ کی خدمت میں پیش ہوا آپ نے اخلاقی طور پر زبیر ؓ سے فرمایا کہ اپنا کھیت تھوڑا بہت سیراب کرکے پانی اپنے انصاری بھائی کے لیے چھوڑ دیا کرو۔ انصاری صحابی کو یہ فیصلہ پسند نہ آیا ، کہنے لگا کہ آپ نے حضرت زبیر ؓ کی رعایت کی ہے کیونکہ وہ آپ کا پھوپھی کا بیٹا ہے۔ اس پر حضور ﷺ سخت ناراض ہوئے اور حضرت زبیر ؓ سے فرمایا کہ تم اپنے کھیت کو خوب سیراب کیا کرو حتیٰ کہ پانی دیواروں تک چڑھ جائے اور اس کے بعد انصاری کے لیے چھوڑا کرو۔ حضرت زبیر ؓ فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ ہمارے اس معاملہ کے بارے میں نازل ہوئی۔ انصاری صحابی بھی پکا سچا مسلمان تھا بلکہ بدری صحابی تھا مگر جہالت میں ایسی بات کہہ دی جس سے حضور ﷺ کو کوفت ہوئی ۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تیرے رب کی قسم یہ لوگ اس وقت تک کامل الایمان مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ ہر معاملہ میں آپ کو حکم مقرر نہ کرلیں۔ ولی تسلیم و رضا فرمایا کامل الایمان ہونے کے لیے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہر معاملہ میں حضور ﷺ ہی کو حکم بنایا جائے۔ اور جب آپ فیصلہ فرما دیں گے ثم لایجدوا فی انفسہم حرجاً مما قضیلت بلکہ ویسلموا تسلیماً آپ کے فیصلے کو خوشی سے قبول کرلیں۔ اسی میں اللہ کی رضا اور ہماری بہتری ہے خواہ اس فیصلے میں کوئی نقصان ہی کیوں نہ اٹھانا پڑے۔ بہرحال حضور ﷺ کا فیصلہ انجام کے لحاظ سے لازماً بہتر ہوگا جیسا کہ گزشتہ آیت میں بھی گزر چکا ہے ذلک خیرٌ و احسن تاویلاً ۔ حضور ﷺ کے ہر فیصلے کو قبول کرنا تین اعتبار سے ہوگا پہلا یہ کہ انسان کا اعتقاد درست ہو اور اسے اس بات پر اعتماد ہو کہ حضور ﷺ کا فیصلہ بالکل صحیح اور برحق ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ انسان زبان سے بھی فیصلہ کی صحت کا اقرار کرے اور تیسرے یہ کہ عملی طور پر اپنا معاملہ حضور کے سامنے پیش کر دے۔ اگر دل سے تسلیم کرتا ہے اور زبان سے اقرار بھی کرتا ہے مگر عملاً اپنے معاملات دربار نبوی کی طرف نہیں لے جاتا تو بھی فاسق متصور ہوگا کیونکہ اس نے تسلیم و رضا کے تین درجات مکمل نہیں کیے۔ دائمی تحکیم نبوی حضور ﷺ اللہ تعالیٰ کی جانب سے حاکم تو بہرحال ہیں۔ اب تنازعات آپ کے پاس لانا ہی آپ کی تحکیم کا قیام ہے۔ ایمان کا تقاضا بھی یہی ہے کہ تمام معاملات حضور ہی کے سامنے پیش کیے جائیں اگر ایسا نہیں کریں گے تو نفاق ثابت ہوگا۔ آپ (علیہ السلام) کی حیات مبارکہ میں ایسے معاملات ذاتی طور پر آپ کے سامنے پیش ہوتے رہے اب آپ کے بعد یہ معاملات آپ کی سنت ، شریعت اور تعلیمات کے سامنے پیش کر کے فیصلہ حاصل کیا جائے گا۔ رسول کی اطاعت کا یہی مطلب ہے۔ اس لیے آیت مبارکہ میں فرمایا گیا ہے کہ یہ لوگ اس وقت تک کامل الایمان نہیں ہو سکتے جب تک اپنے معاملات میں نبی اکرم کو منصف نہ مقرر کریں اور پھر آپ کے فیصلہ پر سرتسلیم خم نہ کرلیں۔
Top