Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Maaida : 38
وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْۤا اَیْدِیَهُمَا جَزَآءًۢ بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
وَالسَّارِقُ
: اور چور مرد
وَالسَّارِقَةُ
: اور چور عورت
فَاقْطَعُوْٓا
: کاٹ دو
اَيْدِيَهُمَا
: ان دونوں کے ہاتھ
جَزَآءً
: سزا
بِمَا كَسَبَا
: اس کی جو انہوں نے کیا
نَكَالًا
: عبرت
مِّنَ
: سے
اللّٰهِ
: اللہ
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
عَزِيْزٌ
: غالب
حَكِيْمٌ
: حکمت والا
اور چوری کرنے والا مرد اور چوری کرنے والی عورت ‘ پس کاٹ ڈالو ان کے ہاتھ یہ سزا ہے اس کی جو انہوں نے کمایا۔ یہ عبرت ناک سزا ہے اللہ تعالیٰ کی جانب سے اور اللہ تعالیٰ غالب ہے اور حکمت والا ہے
ربط آیات گذشتہ سے پیوستہ درس میں اللہ تعالیٰ نے فساد الارض کی ایک اہم شکل ڈکیتی کا ذکر کیا تھا کہ اس میں جان ‘ مال ‘ عزت اور آبرو کا ضیاع ہونا ہے ۔ پھر ڈکیتی کی چار اقسام اور ہر ایک قسم کے لیے مقررہ سزا کا بیان ہوچکا ہے۔ اس کے بعد گذشتہ درس میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو تقوی اور جہاد کی ترغیب دی۔ پھر اللہ نے کافروں کے برے انجام سے آگاہ فرمایا۔ اب آج کے درس میں فساد فی الارض کی ایک دوسری قسم سر قہ کا بیان ہے۔ ڈاکہ اور چوری ایک ہی قبیل سے ہیں۔ تاہم ڈاکے کی صورت میں بیگانے مال پر بزور قوت قبضہ کیا جاتا ہے اور بعض اوقات جان کا اتلاف بھی ہوتا ہے۔ اسے سرقہ کبری بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں چوری سرقہ صغری ہے ‘ اور اس میں محفوظ مقام سے خفیہ طور پر مال حاصل کیا جاتا ہے ۔ چوری کبیرہ گناہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس پر حد مقرر کی ہے۔ کہ چور خواہ مرد ہو یا عورت اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے اس کے ساتھ ساتھ خیانت بھی کبیرہ گناہ تصور ہوتا ہے ‘ مگر اس کے لیے اللہ نے حد مقرر نہیں کی۔ مردوزن میں تقدم و تاخر حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رح) نے اس مقام پر اپنی تفسیر میں ایک نہایت لطیف نکتہ بیان کیا ہے۔ اور پھر اس کا جواب بھی لکھا ہے فرماتے ہیں۔ کہ اس آیت کریمہ میں السارق ( چوری کرنے والا مرد) کا ذکر پہلے کیا ہے اور السارقۃ ( چوری کرنے والی عورت) کا ذکر بعد میں۔ اس کے برخلاف سورة نور میں جہاں جرم زنا کی سزا کا ذکر ہے۔ وہاں زانیہ عورت کا ذکر پہلے ہے اور زانی مراد کا بعد میں ” الزانیۃ والزانی “ فرماتے ہیں کہ اس تقدم و تاخر کی حکمت کے متعلق میں نے اپنے استاد محترم حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی (رح) سے استفسار کیا ‘ آپ حضرت مولامحمد قاسم نانوتوی (رح) کے شاگردوں میں سے ہیں۔ آپ دارالعلوم دیوبند کے پہلے صدر مدرس تھے ۔ مولانا تھانوی (رح) فرماتے ہیں کہ استاد مکرم نے اس کی تشریح اس طرح بیان فرمائی کہ چوری کے معاملے میں عورت کی نسبت مرد طاقتور اور باہمت ہوتا ہے ‘ کام کاج اور محنت مشقت کرنے کے قابل ہوتا ہے لہذا اگر وہ چوری کا ارتکاب کرے تو عورت کی نسبت زیادہ ذمہ دار اور زیادہ گناہ گار ہوتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے چوری کے معاملہ میں اس کا پہلے ذکر کیا ہے السارق۔ اور عورت چونکہ مرد کے مقابلہ میں کمزور واقع ہوئی ہے۔ زیادہ محنت مشقت بھی نہیں کرسکتی ‘ اس لیے اس میں سرقہ کا گناہ کم نوعیت کا ہوتا ہے یہی وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر مرد کے ذکر کے بعد کیا ہے۔ جہاں تک فعل زنا کا تعلق ہے۔ اس میں عورت اس فعل شینع کی زیادہ ذمہ دار ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں شرم وحیا کا زیادہ مادہ رکھا ہے اس لیے اگر عورت اس فعل کا ارتکاب کرتی تو مرد کی نسبت زیادہ ذمہ دار اور زیادہ گنہگار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زنا کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ نے عورت کو مقدم رکھا ہے اور مرد کو موخر کیا ہے۔ سرقہ کا نصاب ارشاد ہوتا ہے والسارق والسارقۃ فاقطعوآ ایدیھما چور مرد اور چور عورت کے ہاتھ کاٹ ڈالو۔ اس آیت کریمہ میں صرف قطع ید کا حکم ہے ‘ مگر اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی کہ چور کا ایک ہاتھ کاٹا جائے گا یادونوں۔ تاہم تمام علماء اس بات پر متفق ہیں کہ چوری کا جرم ثابت ہونے پر صرف ایک ہاتھ کاٹا جائے گا ‘ نہ کہ دونوں البتہ چوری کے نصاب کے متعلق فقہائے کرام میں اختلاف پایاجاتا ہے ‘ حسن بصری (رح) ‘ فرقہ خوارج کے لوگ اور بعض دیگر حضرات فرماتے ہیں کہ یہاں پر مطلق چوری کا ذکر ہے لہذا اس کا کوئی نصاب نہیں ‘ کم سے کم مالیت کی چوری پر بھی ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ تاہم جمہور علماء و فقہا ‘ صحابہ کرام ؓ ‘ تابعین عظام (رح) اور سلف صالحین سرقہ کے نصاب کے قائل ہیں۔ احادیث سے بھی چوری کا نصاب ثابت ہوتا ہے۔ چناچہ امام مالک (رح) فرماتے ہیں کہ چوری کا نصاب ایک چوتھائی دینار یا تین درہم کی مالیت کے برابر ہے۔ اس سے کم مالیت کی چوری پر قطع ید کی سزا نہیں ہے۔ یاد رہے کہ دینار سونے کا سکہ ہوتا تھا اور اس کا وزن چار ماشے ہوتا تھا۔ درہم چاندی کا سکہ تھا اور اس کا وزن تقریباً سوا تین ماشے ہوتا تھا۔ امام شافعی (رح) کے نزدیک بھی چوری کا نصاب تین درہم ہی ہے ‘ بعض علما پانچ درہم کے بھی قائل ہیں۔ البتہ امام ابوحنیفہ (رح) ‘ اور ان کے شاگرد ان رسید امام ابو یوسف (رح) اور امام محمد (رح) اور امام سفیان ثوری (رح) فرماتے ہیں کہ چوری کا نصاب دس درہم ہے اس سے کم ‘ مالیت کے سرقہ پر حد جاری نہیں ہوگی۔ دراصل روایات میں اختلاف پایا جاتا ہے حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ حضور ﷺ کے زمانہ مبارک میں ایک ڈھال کی چوری پر چور کا ہاتھ کاٹا گیا۔ اس وقت تک ڈھال کی قیمت تین درہم یا پانچ درہم تھی۔ بعض روایات میں دس درہم کا ذکر بھی آتا ہے اس لیے مختلف فقہائے کرام کے نزدیک چوری کا نصاب تین پانچ یا دس درہم ہے۔ بہرحال دس درہم پر کسی کا اختلاف نہیں اور احتیاط بھی اسی میں ہے کہ دس درہم سے کم مالیت کی چوری پر ہاتھ نہ کاٹا جائے۔ قابل حد سرقہ حد سرقہ جاری کرنے کے لیے بعض دیگر چیزوں کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے ۔ مثلاً یہ کہ چوری محفوظ جگہ سے کی گئی ہو۔ محفوظ جگہ سے مراد یہ ہے کہ جس مکان سے چوری کا ارتکاب ہوا اس میں قفل پڑا ہو یا جس صندوق سے چیز نکالی گئی ہے ‘ اس میں تالا لگا ہوا ہو ‘ یا مال کی حفاظت کے لیے پہریدا ر مقرر ہے مگر اس کے باوجود چوری کا ارتکاب ہوگیا تو ایسا سرقہ قابل حد ہوگا۔ اور اگر ایسا مال چوری کیا گیا ہے جس کی حفاظت کا کوئی بندوبست نہیں کیا گیا تھا ‘ تو اس پر حد جاری نہیں ہوگی۔ شراکت کے مال میں سے اگر حصے دار کوئی چوری کرلے تو اس پر بھی حد نہیں لگے گی۔ اسی لیے صحابہ کرام ؓ سے منقول ہے۔ کہ بیت المال کی چوری پر حد نہیں کیونکہ بیت المال میں ملکی باشندہ ہونے کی حیثیت سے چور کا بھی حق شامل ہے بعض معمولی چیزوں پر بھی حد جاری نہیں کی جاتی مثلاً جلد خراب ہو جانیوالی اشیاء منجملہ سبزی ‘ تر کاری ‘ پکا ہوا گوشت ‘ ہنڈیا وغیرہ یا روٹی وغیرہ کا سرقہ حد سے مستثنیٰ ہے۔ ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے کہ باغ سے پھل توڑ نے یا کھجور کے درخت کے تنے سے گودانکالنے پر بھی نہیں لگتی۔ اس کے علاوہ بعض رعایتیں بھی حاصل ہیں مثلاً قحطہ سالی کے زمانہ میں اگر کوئی شخص فاقہ کشی سے مجبور ہو کر چوری کرتا ہے تو اس کو ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ قطع ید چونکہ سخت سزا ہے۔ اس لیے شریعت نے اس معاملہ میں بعض رعایات بھی دی ہیں۔ ایک عام قانون یہ ہے کہ اذرء وا الحدود بالشبھات یعنی اگر کسی معاملہ میں شک پڑجائے تو بھی حد کو ساقط کردو۔ حد جاری کرنے کے لیے قطعی ثبوت ہونا لازمی ہے 1 ؎ ۔ اگر کسی پر حد سرقہ جاری ہوگئی تو مسروقہ مال اگر موجود ہے ت واپس کیا جائیگا اور اگر ضائع ہوگیا تو ملزم پر تاوان نہیں ڈالا جائے گا البتہ اگر حد جاری نہیں ہوسکی تو پھر مسروقہ مال یا اس کا بدل واپس کرنا لازمی ہوگا۔ کیفیت قسطع ید ہاتھ کی تعریف میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے کہ ثبوت جرم پر کتنا ہاتھ کا ٹا جائے گا۔ ایک شاذ قول یہ بھی ہے کہ کندھے تک ہاتھ تصور ہوتا ہے۔ لہذا کندھے تک کاٹا جائے گا مگر راجح قول یہ ہے۔ کہ ہاتھ کلائی سے قطع ہوگا پہلی دفعہ چوری ثابت ہونے پر دائیاں ہاتھ کاٹا جائیگا اور دوسری مرتبہ ارتکاب جرم پر بائیاں پائوں ٹخنے سے نیچے کاٹ دیا جائیگا۔ امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ تیسری دفعہ چوری ثابت ہونے پر ہاتھ یا پائوں نہیں کاٹا جائیگا بلکہ ملزم کو قید میں 1 ؎ البتہ ‘ اگر عالم مناسب سے تو اس پر تعزیر لگا سکتا ہے ۔ سواتی ڈال دیا جائیگا تاوقتیکہ یقین ہوجائے کہ وہ اس فعل شنیع سے تائب ہوچکا ہے ‘ البتہ یہ حاکم کی صوابدید پر ہے ‘ اگر وہ مناسب سمجھے تو دوسرا ہاتھ پائوں کا ٹنے کا حکم بھی دے سکتا ہے۔ یہ تعزیر آ ہوگا اور تعزیر میں تو سزائے موت بھی دی جاسکتی ہے ‘ یہ حالات کے مطابق فیصلہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ شرابی کے متعلق بھی آتا ہے۔ کہ تین دفعہ حد جاری کرنے کے باوجود اگر کوئی شخص شراب نوشی سے باز نہیں آتا تو حاکم وقت تعزیرا اس کے قتل کا حکم دے سکتا ہے ۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) اس قسم کے عادی مجرم کے متعلق فرماتے ہیں۔ اعدامہ او فق من وجودہ یعنی اس کے وجود سے اس کا معدو م کردیا جانا بہتر ہے تاکہ سوسائٹی ایسے گندے شخص سے پاک ہوجائے بہر حال ایسی سزا تعزیر ا ہوگی ‘ یہ حد میں شامل نہیں ہے۔ کہ چوری وغیرہ کے معاملات آپس میں رفع دفع کرلیا کرو۔ حضور نے فرمایا جب معاملہ کسی عدالت کیروبرو پیش ہوجائے تو پھر معافی کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ اس سے پہلے اگر فریقین ازخود کسی نتیجہ پر پہنچ جائیں۔ تو اس کی اجازت ہے۔ قطع ید کا حکم دینے کے بعد فرمایا جزآء بما کسبا یہ جزا ہے۔ اس چیز کی جو انہوں نے کمائی۔ انہوں ( مرد یا عورت) نے سرقہ جیسے قبیح فعل کا ارتکاب کیا جو کہ کبیرہ گناہوں میں شمار ہوتا ہے لہذا ان کے لیے ہاتھ کاٹنے کی سزا ہی مناسب ہے۔ ان کے جرم کا تقاضا ہے کہ انہیں یہ سخت سز ا دی جائے۔ فرمایا نکالا من اللہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عبرتناک سزا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے تنبیہ کی گئی ہے ‘ کہ کوئی شخص سرقہ جیسے کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہ کرے۔ ایک اعتراض اور اس کا جواب بعض ملحد قسم کے لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ ایک انگلی کٹ جانے کی ریٹ پانچ اونٹ ہیں۔ اور یہ مجرم کو ادا کرنی پڑتی ہے اس کے برخلاف صرف دس درہم کی چوری پر وپورا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے ‘ یہ شرعی احکام میں بہت بڑا تفاوت ہے۔ تفسیر روح المعانی والے ‘ امام رازی (رح) اور امام ابن کثیر (رح) اور دو سرے مفسرین عظام فرماتے ہیں کہ اصل بات یہ ہے کہ انسانی ہاتھ لما کانت امینۃ کانت ثمینۃ جب امانت دار تھا تو بڑا قیمتی تھا۔ جب کسی نے اس کی ایک انگلی بھی کاٹ دی تو اسے پانچ اونٹ بطور ویت دینے پڑے۔ مگر یہی ہاتھ ولما خانت جب خائن ہوگیا۔ اس نے چوری کا ارتکاب کرکے امانت میں خیانت کی فھانت تو یہی ہاتھ ذلیل و خوار ہوگیا ‘ اب اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں رہی ‘ لہذا سرقہ کے جرم میں اس کا کٹ جاناہی بہتر ہے۔ سفارش کی ممانعت حدود کے نفاذ بلکہ ہر عدالتی کاروائی میں سفارش کی سخت ممانعت آئی ہے۔ قبیلہ بنی مخذوم کی ایک عورت فاطمہ کا چوری کا معاملہ حضور ﷺ کی خدمت میں پیش ہوا۔ یہ اونچا خاندان تھا ‘ انہوں نے سوچا اگر اس پر حد جاری ہوگئی تو سخت بےعزتی ہوگی ‘ لہذا انہوں نے اس عورت کی سفارش کے لیے حضرت اسامہ بن زید ؓ کو حضور کی خدمت میں بھیجا۔ حضرت اسامہ ؓ حضور کے متنبی زید ؓ کے بیٹے تھے اور آپ کو دونوں سے بڑی محبت تھی۔ جب اسامہ ؓ نے سفارش پیش کی تو غصے سے آپ کا چہرہ سرخ ہوگیا ‘ آپ نے فرمایا اتشفع فی حد من حدود اللہ کیا تم اللہ کی مقرر ہ حدود میں سفارش کرتے ہو۔ فرمایا اس ذات پاک کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے لوان فاطمۃ بنت محمد سی قت لقطمعت یدھا اگر محمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کا ارتکاب کرتی تو اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیا جاتا۔ اس پر وہ بڑے نادم ہوئے۔ حد جاری ہوگئی اس کے بعد فاطمہ نے حضور سے توبہ کی قبولیت کی درخواست کی آپ نے فرمایا تب الی اللہ یعنی اللہ کے سامنے توبہ کرو۔ اس نے پھر توبہ کی تو فرمایا تمہاری توبہ قبو ل ہوگئی۔ ایک اور حدیث میں آتا ہے ‘ جس کسی کو اس قسم کی سزا ملے اس پر لعنت نہ کرو ‘ اسے برا بھلا مت کہو ‘ بلکہ یوں کہو کہ اللہ تعالیٰ تمہاری توبہ قبول کرے۔ بنی اسرائیل کے قانون میں بھی اسلامی قانون کی طرح چوری اور زنا کے ارتکاب پر حد تھی اور قتل میں قصاص بھی تھا ‘ مگر انہوں نے کتاب اللہ میں تحریف کر کے احکام کو بگاڑ دیا تھا۔ اگر چور کوئی معمولی آدمی ہوتا تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے اور اگر کوئی صاحبِ حیثیت ایسا کام کر گزرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا۔ زیادہ سے زیادہ منہ کالا کر کے گدھے پر بٹھاتے اور اس طرح تذلیل و توہین ہی کو کافی سمجھتے ‘ حالانکہ اللہ کے قانون میں بڑے چھوٹے کی کوئی تخصیص نہیں۔ مجرم کو اپنے جرم کی سزا لازماً بھگتنا ہوتی ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے لعن اللہ من اوی محدثاً جو گنہگار مجرم کو پناہ دیتا ہے اس پر خدا کی لعنت ہو۔ بہر حال مجرم کو بچانے کی کوشش کرنا بذات خود ایک قبیح فعل ہے۔ جب تک مجرم کو قرار واقعی سزا نہ دی جائے معاشرے میں امن وامان قائم نہیں ہوسکتا۔ لوگوں کے مال و جان اور عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے گندے عنصر کا قلع قمع ضروری ہے۔ سخت سزا کی حکمت فرمایا حد کا اجراء اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ ہے واللہ عزیز حکیم اللہ تعالیٰ غالب اور صاحب حکمت ہے۔ اس کا کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں۔ اگر چہ اس نے سزائیں سخت مقرر کی ہیں مگر انسانوں کی مصلحت اسی میں ہے اور امن وامان کا قیام اور انسانی جانوں کی حفاظت ایسے ہی قانون سے ممکن ہے۔ فرمایا فمن تاب بعد ظلمہ جس نے ظلم یعنی چوری کرنے کے بعد توبہ کرلی واصلح اور اپنے آپ کی اصلاح کرلی۔ یعنی خدا سے سابقہ گناہ کی معافی مانگی اور آئندہ اس سے باز آگیا تو فرمایا فان اللہ یتوب علیہ تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے کیونکہ ان اللہ غفور رحیم اللہ تعالیٰ بخشش کرنے والا اور مہربان ہے۔ پھر فرمایا اے مخاطب الم تعلم ان اللہ لہ ملک السموت والارض کیا تو نہیں جانتا کہ آسمان اور زمین کی ساری بادشاہت اللہ تعالیٰ کی ہے وہ مالک الملک اور قادر مطلق ہے یعذب من یشآء وہ جسے چاہے سزا دے دے۔ وہاں چون وچرا کی کوئی گنجائش نہیں۔ وہ اپنی حکمت کے ساتھ احکام نازل کرتا ہے۔ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس کی طرف سے مقرر کردہ سخت سزائوں پر اعتراض اٹھاسکے۔ اس کے تمام قوانین مبنی برحکمت ہیں ویغفر لمن یشآء وہ جسے چاہے معاف کردے وہ معاف کرنے پر بھی قادر ہے۔ کسی چھوٹے بڑے ‘ انس ‘ جن یا ملائکہ کو کائنات میں تصرف حاصل نہیں۔ ‘ ہر قسم کا تصرف قانون عاید کرنے والے کو ہی حاصل ہوتا ہے ۔ وہ مالک ہے شہنشاہ مطلق ہے ‘ وہ جس طریقے سے چاہے تصرف کر۔ ‘ بندوں کا کام صرف اطاعت کرنا ہے ان کی بہتری اسی میں ہے واللہ علی کل شیء قدیر اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ اسے معافی اور سزا کا کلی اختیار ہے۔ اس کی مخلوق میں سے کسی کو اعتراض کا حق حاصل نہیں۔
Top