Mualim-ul-Irfan - Al-Maaida : 38
وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْۤا اَیْدِیَهُمَا جَزَآءًۢ بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
وَالسَّارِقُ : اور چور مرد وَالسَّارِقَةُ : اور چور عورت فَاقْطَعُوْٓا : کاٹ دو اَيْدِيَهُمَا : ان دونوں کے ہاتھ جَزَآءً : سزا بِمَا كَسَبَا : اس کی جو انہوں نے کیا نَكَالًا : عبرت مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
اور چوری کرنے والا مرد اور چوری کرنے والی عورت ‘ پس کاٹ ڈالو ان کے ہاتھ یہ سزا ہے اس کی جو انہوں نے کمایا۔ یہ عبرت ناک سزا ہے اللہ تعالیٰ کی جانب سے اور اللہ تعالیٰ غالب ہے اور حکمت والا ہے
ربط آیات گذشتہ سے پیوستہ درس میں اللہ تعالیٰ نے فساد الارض کی ایک اہم شکل ڈکیتی کا ذکر کیا تھا کہ اس میں جان ‘ مال ‘ عزت اور آبرو کا ضیاع ہونا ہے ۔ پھر ڈکیتی کی چار اقسام اور ہر ایک قسم کے لیے مقررہ سزا کا بیان ہوچکا ہے۔ اس کے بعد گذشتہ درس میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو تقوی اور جہاد کی ترغیب دی۔ پھر اللہ نے کافروں کے برے انجام سے آگاہ فرمایا۔ اب آج کے درس میں فساد فی الارض کی ایک دوسری قسم سر قہ کا بیان ہے۔ ڈاکہ اور چوری ایک ہی قبیل سے ہیں۔ تاہم ڈاکے کی صورت میں بیگانے مال پر بزور قوت قبضہ کیا جاتا ہے اور بعض اوقات جان کا اتلاف بھی ہوتا ہے۔ اسے سرقہ کبری بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں چوری سرقہ صغری ہے ‘ اور اس میں محفوظ مقام سے خفیہ طور پر مال حاصل کیا جاتا ہے ۔ چوری کبیرہ گناہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس پر حد مقرر کی ہے۔ کہ چور خواہ مرد ہو یا عورت اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے اس کے ساتھ ساتھ خیانت بھی کبیرہ گناہ تصور ہوتا ہے ‘ مگر اس کے لیے اللہ نے حد مقرر نہیں کی۔ مردوزن میں تقدم و تاخر حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رح) نے اس مقام پر اپنی تفسیر میں ایک نہایت لطیف نکتہ بیان کیا ہے۔ اور پھر اس کا جواب بھی لکھا ہے فرماتے ہیں۔ کہ اس آیت کریمہ میں السارق ( چوری کرنے والا مرد) کا ذکر پہلے کیا ہے اور السارقۃ ( چوری کرنے والی عورت) کا ذکر بعد میں۔ اس کے برخلاف سورة نور میں جہاں جرم زنا کی سزا کا ذکر ہے۔ وہاں زانیہ عورت کا ذکر پہلے ہے اور زانی مراد کا بعد میں ” الزانیۃ والزانی “ فرماتے ہیں کہ اس تقدم و تاخر کی حکمت کے متعلق میں نے اپنے استاد محترم حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی (رح) سے استفسار کیا ‘ آپ حضرت مولامحمد قاسم نانوتوی (رح) کے شاگردوں میں سے ہیں۔ آپ دارالعلوم دیوبند کے پہلے صدر مدرس تھے ۔ مولانا تھانوی (رح) فرماتے ہیں کہ استاد مکرم نے اس کی تشریح اس طرح بیان فرمائی کہ چوری کے معاملے میں عورت کی نسبت مرد طاقتور اور باہمت ہوتا ہے ‘ کام کاج اور محنت مشقت کرنے کے قابل ہوتا ہے لہذا اگر وہ چوری کا ارتکاب کرے تو عورت کی نسبت زیادہ ذمہ دار اور زیادہ گناہ گار ہوتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے چوری کے معاملہ میں اس کا پہلے ذکر کیا ہے السارق۔ اور عورت چونکہ مرد کے مقابلہ میں کمزور واقع ہوئی ہے۔ زیادہ محنت مشقت بھی نہیں کرسکتی ‘ اس لیے اس میں سرقہ کا گناہ کم نوعیت کا ہوتا ہے یہی وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر مرد کے ذکر کے بعد کیا ہے۔ جہاں تک فعل زنا کا تعلق ہے۔ اس میں عورت اس فعل شینع کی زیادہ ذمہ دار ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں شرم وحیا کا زیادہ مادہ رکھا ہے اس لیے اگر عورت اس فعل کا ارتکاب کرتی تو مرد کی نسبت زیادہ ذمہ دار اور زیادہ گنہگار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زنا کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ نے عورت کو مقدم رکھا ہے اور مرد کو موخر کیا ہے۔ سرقہ کا نصاب ارشاد ہوتا ہے والسارق والسارقۃ فاقطعوآ ایدیھما چور مرد اور چور عورت کے ہاتھ کاٹ ڈالو۔ اس آیت کریمہ میں صرف قطع ید کا حکم ہے ‘ مگر اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی کہ چور کا ایک ہاتھ کاٹا جائے گا یادونوں۔ تاہم تمام علماء اس بات پر متفق ہیں کہ چوری کا جرم ثابت ہونے پر صرف ایک ہاتھ کاٹا جائے گا ‘ نہ کہ دونوں البتہ چوری کے نصاب کے متعلق فقہائے کرام میں اختلاف پایاجاتا ہے ‘ حسن بصری (رح) ‘ فرقہ خوارج کے لوگ اور بعض دیگر حضرات فرماتے ہیں کہ یہاں پر مطلق چوری کا ذکر ہے لہذا اس کا کوئی نصاب نہیں ‘ کم سے کم مالیت کی چوری پر بھی ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ تاہم جمہور علماء و فقہا ‘ صحابہ کرام ؓ ‘ تابعین عظام (رح) اور سلف صالحین سرقہ کے نصاب کے قائل ہیں۔ احادیث سے بھی چوری کا نصاب ثابت ہوتا ہے۔ چناچہ امام مالک (رح) فرماتے ہیں کہ چوری کا نصاب ایک چوتھائی دینار یا تین درہم کی مالیت کے برابر ہے۔ اس سے کم مالیت کی چوری پر قطع ید کی سزا نہیں ہے۔ یاد رہے کہ دینار سونے کا سکہ ہوتا تھا اور اس کا وزن چار ماشے ہوتا تھا۔ درہم چاندی کا سکہ تھا اور اس کا وزن تقریباً سوا تین ماشے ہوتا تھا۔ امام شافعی (رح) کے نزدیک بھی چوری کا نصاب تین درہم ہی ہے ‘ بعض علما پانچ درہم کے بھی قائل ہیں۔ البتہ امام ابوحنیفہ (رح) ‘ اور ان کے شاگرد ان رسید امام ابو یوسف (رح) اور امام محمد (رح) اور امام سفیان ثوری (رح) فرماتے ہیں کہ چوری کا نصاب دس درہم ہے اس سے کم ‘ مالیت کے سرقہ پر حد جاری نہیں ہوگی۔ دراصل روایات میں اختلاف پایا جاتا ہے حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ حضور ﷺ کے زمانہ مبارک میں ایک ڈھال کی چوری پر چور کا ہاتھ کاٹا گیا۔ اس وقت تک ڈھال کی قیمت تین درہم یا پانچ درہم تھی۔ بعض روایات میں دس درہم کا ذکر بھی آتا ہے اس لیے مختلف فقہائے کرام کے نزدیک چوری کا نصاب تین پانچ یا دس درہم ہے۔ بہرحال دس درہم پر کسی کا اختلاف نہیں اور احتیاط بھی اسی میں ہے کہ دس درہم سے کم مالیت کی چوری پر ہاتھ نہ کاٹا جائے۔ قابل حد سرقہ حد سرقہ جاری کرنے کے لیے بعض دیگر چیزوں کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے ۔ مثلاً یہ کہ چوری محفوظ جگہ سے کی گئی ہو۔ محفوظ جگہ سے مراد یہ ہے کہ جس مکان سے چوری کا ارتکاب ہوا اس میں قفل پڑا ہو یا جس صندوق سے چیز نکالی گئی ہے ‘ اس میں تالا لگا ہوا ہو ‘ یا مال کی حفاظت کے لیے پہریدا ر مقرر ہے مگر اس کے باوجود چوری کا ارتکاب ہوگیا تو ایسا سرقہ قابل حد ہوگا۔ اور اگر ایسا مال چوری کیا گیا ہے جس کی حفاظت کا کوئی بندوبست نہیں کیا گیا تھا ‘ تو اس پر حد جاری نہیں ہوگی۔ شراکت کے مال میں سے اگر حصے دار کوئی چوری کرلے تو اس پر بھی حد نہیں لگے گی۔ اسی لیے صحابہ کرام ؓ سے منقول ہے۔ کہ بیت المال کی چوری پر حد نہیں کیونکہ بیت المال میں ملکی باشندہ ہونے کی حیثیت سے چور کا بھی حق شامل ہے بعض معمولی چیزوں پر بھی حد جاری نہیں کی جاتی مثلاً جلد خراب ہو جانیوالی اشیاء منجملہ سبزی ‘ تر کاری ‘ پکا ہوا گوشت ‘ ہنڈیا وغیرہ یا روٹی وغیرہ کا سرقہ حد سے مستثنیٰ ہے۔ ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے کہ باغ سے پھل توڑ نے یا کھجور کے درخت کے تنے سے گودانکالنے پر بھی نہیں لگتی۔ اس کے علاوہ بعض رعایتیں بھی حاصل ہیں مثلاً قحطہ سالی کے زمانہ میں اگر کوئی شخص فاقہ کشی سے مجبور ہو کر چوری کرتا ہے تو اس کو ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ قطع ید چونکہ سخت سزا ہے۔ اس لیے شریعت نے اس معاملہ میں بعض رعایات بھی دی ہیں۔ ایک عام قانون یہ ہے کہ اذرء وا الحدود بالشبھات یعنی اگر کسی معاملہ میں شک پڑجائے تو بھی حد کو ساقط کردو۔ حد جاری کرنے کے لیے قطعی ثبوت ہونا لازمی ہے 1 ؎ ۔ اگر کسی پر حد سرقہ جاری ہوگئی تو مسروقہ مال اگر موجود ہے ت واپس کیا جائیگا اور اگر ضائع ہوگیا تو ملزم پر تاوان نہیں ڈالا جائے گا البتہ اگر حد جاری نہیں ہوسکی تو پھر مسروقہ مال یا اس کا بدل واپس کرنا لازمی ہوگا۔ کیفیت قسطع ید ہاتھ کی تعریف میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے کہ ثبوت جرم پر کتنا ہاتھ کا ٹا جائے گا۔ ایک شاذ قول یہ بھی ہے کہ کندھے تک ہاتھ تصور ہوتا ہے۔ لہذا کندھے تک کاٹا جائے گا مگر راجح قول یہ ہے۔ کہ ہاتھ کلائی سے قطع ہوگا پہلی دفعہ چوری ثابت ہونے پر دائیاں ہاتھ کاٹا جائیگا اور دوسری مرتبہ ارتکاب جرم پر بائیاں پائوں ٹخنے سے نیچے کاٹ دیا جائیگا۔ امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ تیسری دفعہ چوری ثابت ہونے پر ہاتھ یا پائوں نہیں کاٹا جائیگا بلکہ ملزم کو قید میں 1 ؎ البتہ ‘ اگر عالم مناسب سے تو اس پر تعزیر لگا سکتا ہے ۔ سواتی ڈال دیا جائیگا تاوقتیکہ یقین ہوجائے کہ وہ اس فعل شنیع سے تائب ہوچکا ہے ‘ البتہ یہ حاکم کی صوابدید پر ہے ‘ اگر وہ مناسب سمجھے تو دوسرا ہاتھ پائوں کا ٹنے کا حکم بھی دے سکتا ہے۔ یہ تعزیر آ ہوگا اور تعزیر میں تو سزائے موت بھی دی جاسکتی ہے ‘ یہ حالات کے مطابق فیصلہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ شرابی کے متعلق بھی آتا ہے۔ کہ تین دفعہ حد جاری کرنے کے باوجود اگر کوئی شخص شراب نوشی سے باز نہیں آتا تو حاکم وقت تعزیرا اس کے قتل کا حکم دے سکتا ہے ۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) اس قسم کے عادی مجرم کے متعلق فرماتے ہیں۔ اعدامہ او فق من وجودہ یعنی اس کے وجود سے اس کا معدو م کردیا جانا بہتر ہے تاکہ سوسائٹی ایسے گندے شخص سے پاک ہوجائے بہر حال ایسی سزا تعزیر ا ہوگی ‘ یہ حد میں شامل نہیں ہے۔ کہ چوری وغیرہ کے معاملات آپس میں رفع دفع کرلیا کرو۔ حضور نے فرمایا جب معاملہ کسی عدالت کیروبرو پیش ہوجائے تو پھر معافی کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ اس سے پہلے اگر فریقین ازخود کسی نتیجہ پر پہنچ جائیں۔ تو اس کی اجازت ہے۔ قطع ید کا حکم دینے کے بعد فرمایا جزآء بما کسبا یہ جزا ہے۔ اس چیز کی جو انہوں نے کمائی۔ انہوں ( مرد یا عورت) نے سرقہ جیسے قبیح فعل کا ارتکاب کیا جو کہ کبیرہ گناہوں میں شمار ہوتا ہے لہذا ان کے لیے ہاتھ کاٹنے کی سزا ہی مناسب ہے۔ ان کے جرم کا تقاضا ہے کہ انہیں یہ سخت سز ا دی جائے۔ فرمایا نکالا من اللہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عبرتناک سزا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے تنبیہ کی گئی ہے ‘ کہ کوئی شخص سرقہ جیسے کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہ کرے۔ ایک اعتراض اور اس کا جواب بعض ملحد قسم کے لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ ایک انگلی کٹ جانے کی ریٹ پانچ اونٹ ہیں۔ اور یہ مجرم کو ادا کرنی پڑتی ہے اس کے برخلاف صرف دس درہم کی چوری پر وپورا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے ‘ یہ شرعی احکام میں بہت بڑا تفاوت ہے۔ تفسیر روح المعانی والے ‘ امام رازی (رح) اور امام ابن کثیر (رح) اور دو سرے مفسرین عظام فرماتے ہیں کہ اصل بات یہ ہے کہ انسانی ہاتھ لما کانت امینۃ کانت ثمینۃ جب امانت دار تھا تو بڑا قیمتی تھا۔ جب کسی نے اس کی ایک انگلی بھی کاٹ دی تو اسے پانچ اونٹ بطور ویت دینے پڑے۔ مگر یہی ہاتھ ولما خانت جب خائن ہوگیا۔ اس نے چوری کا ارتکاب کرکے امانت میں خیانت کی فھانت تو یہی ہاتھ ذلیل و خوار ہوگیا ‘ اب اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں رہی ‘ لہذا سرقہ کے جرم میں اس کا کٹ جاناہی بہتر ہے۔ سفارش کی ممانعت حدود کے نفاذ بلکہ ہر عدالتی کاروائی میں سفارش کی سخت ممانعت آئی ہے۔ قبیلہ بنی مخذوم کی ایک عورت فاطمہ کا چوری کا معاملہ حضور ﷺ کی خدمت میں پیش ہوا۔ یہ اونچا خاندان تھا ‘ انہوں نے سوچا اگر اس پر حد جاری ہوگئی تو سخت بےعزتی ہوگی ‘ لہذا انہوں نے اس عورت کی سفارش کے لیے حضرت اسامہ بن زید ؓ کو حضور کی خدمت میں بھیجا۔ حضرت اسامہ ؓ حضور کے متنبی زید ؓ کے بیٹے تھے اور آپ کو دونوں سے بڑی محبت تھی۔ جب اسامہ ؓ نے سفارش پیش کی تو غصے سے آپ کا چہرہ سرخ ہوگیا ‘ آپ نے فرمایا اتشفع فی حد من حدود اللہ کیا تم اللہ کی مقرر ہ حدود میں سفارش کرتے ہو۔ فرمایا اس ذات پاک کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے لوان فاطمۃ بنت محمد سی قت لقطمعت یدھا اگر محمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کا ارتکاب کرتی تو اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیا جاتا۔ اس پر وہ بڑے نادم ہوئے۔ حد جاری ہوگئی اس کے بعد فاطمہ نے حضور سے توبہ کی قبولیت کی درخواست کی آپ نے فرمایا تب الی اللہ یعنی اللہ کے سامنے توبہ کرو۔ اس نے پھر توبہ کی تو فرمایا تمہاری توبہ قبو ل ہوگئی۔ ایک اور حدیث میں آتا ہے ‘ جس کسی کو اس قسم کی سزا ملے اس پر لعنت نہ کرو ‘ اسے برا بھلا مت کہو ‘ بلکہ یوں کہو کہ اللہ تعالیٰ تمہاری توبہ قبول کرے۔ بنی اسرائیل کے قانون میں بھی اسلامی قانون کی طرح چوری اور زنا کے ارتکاب پر حد تھی اور قتل میں قصاص بھی تھا ‘ مگر انہوں نے کتاب اللہ میں تحریف کر کے احکام کو بگاڑ دیا تھا۔ اگر چور کوئی معمولی آدمی ہوتا تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے اور اگر کوئی صاحبِ حیثیت ایسا کام کر گزرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا۔ زیادہ سے زیادہ منہ کالا کر کے گدھے پر بٹھاتے اور اس طرح تذلیل و توہین ہی کو کافی سمجھتے ‘ حالانکہ اللہ کے قانون میں بڑے چھوٹے کی کوئی تخصیص نہیں۔ مجرم کو اپنے جرم کی سزا لازماً بھگتنا ہوتی ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے لعن اللہ من اوی محدثاً جو گنہگار مجرم کو پناہ دیتا ہے اس پر خدا کی لعنت ہو۔ بہر حال مجرم کو بچانے کی کوشش کرنا بذات خود ایک قبیح فعل ہے۔ جب تک مجرم کو قرار واقعی سزا نہ دی جائے معاشرے میں امن وامان قائم نہیں ہوسکتا۔ لوگوں کے مال و جان اور عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے گندے عنصر کا قلع قمع ضروری ہے۔ سخت سزا کی حکمت فرمایا حد کا اجراء اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ ہے واللہ عزیز حکیم اللہ تعالیٰ غالب اور صاحب حکمت ہے۔ اس کا کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں۔ اگر چہ اس نے سزائیں سخت مقرر کی ہیں مگر انسانوں کی مصلحت اسی میں ہے اور امن وامان کا قیام اور انسانی جانوں کی حفاظت ایسے ہی قانون سے ممکن ہے۔ فرمایا فمن تاب بعد ظلمہ جس نے ظلم یعنی چوری کرنے کے بعد توبہ کرلی واصلح اور اپنے آپ کی اصلاح کرلی۔ یعنی خدا سے سابقہ گناہ کی معافی مانگی اور آئندہ اس سے باز آگیا تو فرمایا فان اللہ یتوب علیہ تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے کیونکہ ان اللہ غفور رحیم اللہ تعالیٰ بخشش کرنے والا اور مہربان ہے۔ پھر فرمایا اے مخاطب الم تعلم ان اللہ لہ ملک السموت والارض کیا تو نہیں جانتا کہ آسمان اور زمین کی ساری بادشاہت اللہ تعالیٰ کی ہے وہ مالک الملک اور قادر مطلق ہے یعذب من یشآء وہ جسے چاہے سزا دے دے۔ وہاں چون وچرا کی کوئی گنجائش نہیں۔ وہ اپنی حکمت کے ساتھ احکام نازل کرتا ہے۔ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس کی طرف سے مقرر کردہ سخت سزائوں پر اعتراض اٹھاسکے۔ اس کے تمام قوانین مبنی برحکمت ہیں ویغفر لمن یشآء وہ جسے چاہے معاف کردے وہ معاف کرنے پر بھی قادر ہے۔ کسی چھوٹے بڑے ‘ انس ‘ جن یا ملائکہ کو کائنات میں تصرف حاصل نہیں۔ ‘ ہر قسم کا تصرف قانون عاید کرنے والے کو ہی حاصل ہوتا ہے ۔ وہ مالک ہے شہنشاہ مطلق ہے ‘ وہ جس طریقے سے چاہے تصرف کر۔ ‘ بندوں کا کام صرف اطاعت کرنا ہے ان کی بہتری اسی میں ہے واللہ علی کل شیء قدیر اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ اسے معافی اور سزا کا کلی اختیار ہے۔ اس کی مخلوق میں سے کسی کو اعتراض کا حق حاصل نہیں۔
Top