Mualim-ul-Irfan - Al-Maaida : 67
یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ١ؕ وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكٰفِرِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الرَّسُوْلُ : رسول بَلِّغْ : پہنچا دو مَآ اُنْزِلَ : جو نازل کیا گیا اِلَيْكَ : تمہاری طرف (تم پر مِنْ : سے رَّبِّكَ : تمہارا رب وَ : اور اِنْ : اگر لَّمْ تَفْعَلْ : یہ نہ کیا فَمَا : تو نہیں بَلَّغْتَ : آپ نے پہنچایا رِسَالَتَهٗ : آپ نے پہنچایا وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعْصِمُكَ : آپ کو بچالے گا مِنَ : سے النَّاسِ : لوگ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يَهْدِي : ہدایت نہیں دیتا الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ : قوم کفار
اے رسول ! پہنچا دیں وہ چیز جو نازل کی گئی ہے آپ کی طرف آپ کے پروردگار کی جانب سے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا ، تو گویا آپ نے اس کی رسالت کا حق ادا نہیں کیا اور اللہ تعالیٰ آپ کو بچائے گا لوگوں سے ، بیشک اللہ تعالیٰ نہیں راہ دکھاتا کفر کرنیوالی قوم کو
ربط آیات گزشتہ آیات میں اہل کتاب کی مذمت بیان ہوئی تھی ان کی سرکشی ، کفر اور فساد فی الارض کا ذکر تھا۔ وہ لڑائی کی آگ بھڑکانا چاہتے تھے ، مگر اللہ نے انہیں ناکام بنا دیا اور بطور نصیحت فرمایا کہ اگر تم تورات و انجیل کو قائم کرتے اور نازل شدہ ہدایت پر عمل کرتے تو آسمان و زمین کی برکات تمہارے شامل حال ہوتیں مگر یہود و نصاریٰ کی اکثریت نافرمان تھی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بیان فرمایا کہ ان میں کچھ باصلاحیت لوگ بھی موجود ہیں جو میانہ روی اختیار کرتے ہیں ، ان کو ہدایت نصیب ہوجاتی ہے اور اہل ایمان کا بھی فرض ہے کہ وہ ہدایت کی بات محنت اور کوشش سے ان تک پہنچائیں۔ اب آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو مخاطب کر کے فرمایا کہ وہ اپنا فریضہ تبلیغ دین انجام دیتے رہیں اور مخالفین کی پروا نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ خود دشمنوں سے آپ کی حفاظت کرے گا۔ فریضہ تبلیغ دیں ارشاد ہوتا ہے یایھا الرسول ۔ اے رسول ! بلغ ما انزل الیک من ربک ۔ آپ پہنچا دیں وہ چیز جو آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کی گئی ہے۔ اور وہ قرآن پاک اور اس کی تشریح ہے تشریح میں احادیث کا پورا ذخیرہ آجاتا ہے جو حضور (علیہ الصلوۃ والسلام) کا قول اور عمل ہے۔ امام بیضاوی فرماتے ہیں کہ اس چیز سے مراد وہ تمام احکام ہیں جو انسانوں کی مصلحت اور بہتری سے تعلق رکھتے ہیں۔ چناچہ حضور ﷺ کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ تمام چیزیں جن کا تعلق انسان کے عقیدے اور عمل کے ساتھ ہے ، وہ لوگ کے سامنے بیان کردیں۔ البتہ بعض بہت باریک نکات جو اسرار الٰہیہ کہلاتے ہیں انہیں ظاہر کرنے کا حکم نہیں ہے۔ کیونکہ ایسی چیزوں کا بندوں کی مصلحت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ایسے رموز و نکات کو خواص تو سمجھ لیتے ہیں مگر ان کا سمجھنا عوام کے بس میں نہیں ہوتا۔ لہٰذا انہیں تمام لوگوں تک پہنچانا مناسب نہیں ہوتا۔ مسلم شریف میں حضرت عبداللہ بن مسعود کا قول موجود ہے۔ ” ما انت بمحدث قوما حدیثاً لاتبلغہ ، عقولھم الا کان لبعضھم فتنۃ ۔ جس بات کو عام لوگوں کی عقلیں سمجھنے سے قاصر ہوتی ہیں ، ان کا بیان کرنا بعض لوگوں کے لئے فتنے اور گمراہی کا ذریعہ بن جائے گا۔ لہٰذا ان کا عام بیان درست نہیں ہے۔ اس کی ممانعت فرمائی گئی ہے۔ البتہ جو باتیں انسانوں کی صلاح کے لئے ضروری ہیں ان میں سے کسی ایک کو بھی ترک کرنے کی اجازت نہیں وہ سب کی سب لوگوں تک پہنچانا ہوں گی۔ اس بات کی وضاحت اس حدیث شریف سے ہوتی ہے جسے امام بیہقی نے نقل کیا ہے۔حضور ﷺ نے فرمایا ما من شی یقربکم الی الجنۃ ویباعدکم من النار الا انبتکم بی جنت سے قریب کرنے والی اور دوزخ سے دور کرنے والی کوئی ایسی چیز نہیں جو میں نے تمہیں نہ بتائی ہو۔ میں نے ہر چیز تمہیں ٹھیک ٹھیک پہنچا دی ہے۔ ما انزل الیک کا یہی مفہوم ہے۔ اس حدیث سے ان لوگوں کا رد ہوتا ہے ، جن کا عقیدہ یہ ہے کہ نبی (علیہ السلام) نے ساری کی ساری باتیں امت کو نہیں بتلائیں ، بعض چیزیں بعض خاص آدمیوں کو بتائیں۔ رافضی کہتے ہیں کہ یہ خاص با میں حضور ﷺ نے صرف حضرت علی کو بتائیں۔ یہ باطل عقیدہ ہے۔ اللہ کا رسول اس بات کا پابند ہے کہ وہ انسانی اصلاح کی تمام باتیں لوگوں کے سامنے بیان کر دے۔ ” وما ھو علی الغیب بضنین “ عالم غیب سے اللہ تعالیٰ کے دین کے جو احکام اور خاص اصول آتے ہیں ، اللہ کا نبی انہیں ظاہر کرنے میں بخل نہیں کرتا ، وہ سب باتیں پہنچا دیتا ہے۔ لوگ تو یہاں تک لیتے ہیں کہ قرآن پاک کی بعض آیات بھی حضور ﷺ نے حضرت علی کو بتائیں اور باقی لوگوں کے سامنے پش نہیں کیں۔ بہرحال یہ غلط عقیدہ ہے۔ نبی کے فرائض منصبی میں داخل ہے کہ وہ تمام احکام و قوانین لوگوں تک بےکم وکاست پہنچا دے۔ حق رسالت اللہ تعالیٰ نے فرمایا وان لم تفعل اگر آپ نے ایسا نہ کیا ، تمام احکام لوگوں تک نہ پہنچائے فما بلغت رسالتی ، تو آپ نے اللہ تعالیٰ کی رسالت کو نہیں پہنچایا ، گویا آپ نے حق رسالت ادا نہیں کیا۔ امام بیضاوی فرماتے ہیں ، احکام الٰہی میں سے اگر کسی ایک چیز کو بھی آگے نہیں پہنچایا تو گویا کہ سب باتوں کو ترک کردیا۔ کسی ایک حکم کو چھپانا ، تمام احکام کو چھپانے کے مترادف ہے۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص نماز میں سے کوئی ایک رکن ترک کر دے تو پوری نماز ترک کرنے کے برابر ہے امام صاحب فرماتے ہیں کہ اللہ کا نبی فریضہ رسالت پورے طریقے سے ادا کرتا ہے اور اس میں بال برابر بھی کوتاہی نہیں کرتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس معاملہ میں لخت و عید فرمائی ہے۔ ہر نبی نے قوم کو یہی کہا ” ابلغکم رسلت ربی “ میں پیغام خداوندی پورے طریقے سے تم تک پہنچاتا ہوں اور اس میں کوئی کمی بیشی نہیں کرتا غرضیکہ اللہ کے احکام امت تک بلاکم وکاست پہنچانا نبی کے فرائض منصبی میں داخل ہے۔ اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ نبی اپنے فرائض ابلاغ میں کوتاہی کرتا ہے۔ تو وہ شخص گمراہ ہوگا۔ مولانا مودودی مرحوم نے اپنی تفسیر میں لکھا تھا کہ حضرت یونس (علیہ السلام) سے فریضہ رسالت میں کچھ کوتاہیاں ہوگئی تھیں ، یہ نظریہ درست نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ نے فرض منصبی میں بال برابر بھی کوتاہی نہیں کی۔ ان کی لغزش فریضہ رسالت کی کوتاہی نہ تھی۔ انہیں توقع تھی کہ اللہ کا حکم آنے والا ہے ، چناچہ انہوں نے قدرے بےصبری کا اظہار کیا اور اللہ کا حکم آنے سے پہلے ہی اپنی بستی سے نکل گئے یہ ان کی لغزش ضرور تھی جہاں تک ابلاغ رسالت کا تعلق ہے۔ آپ عرصہ دراز تک قوم کو سمجھاتے رہے اور عذاب الٰہی سے ڈراتے رہے اور اپنا فرض منصبی ادا کرتے رہے اللہ تعالیٰ تمام انبیاء کو صفائر اور کبائر سے خود بچاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں گارنٹی حاصل ہوتی ہے۔ البتہ چھوٹی موٹی بھلو یا لغزش ہوجاتی ہے جیسے حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت مسویٰ (علیہ السلام) سے بھی ہوئی مگر یہ گناہ نہیں ہوتے۔ چونکہ انبیاء (علیہم السلام) بڑی حیثیت کے مالک ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان کی طرف سے معمولی چیزیں بھی برداشت نہیں ہوتیں اور انہیں ہر لغزش پر متنبہ کردیا جاتا ہے۔ مسلم شریف اور دیگرکتب احادیث میں موجود ہے کہ حجتہ الوداع کے موقع پر کم و بیش ایک لاکھ چالیس ہزار کے جم غفیر کے سامنے آپ نے فرمایا تھا۔ وانتم تسالون عنی تم سے میرے بارے قیامت کو پوچھا جائے گا۔ فما ذا انتم قائلون تو بتائو تم کیا جواب دو گے تو صحابہ نے عرض کیا قالوا نشھدانک قد بلغت وادیت و نصحت حضور آپ نے امامت پور کے طریقے ۔ ادا کردہ ، پیغام خدا وندی کو پورے طریقے پر پہنچا دیا اور امت کی خیر خواہی کا حق ادا کردیا۔ یہ تین الفاظ آپ نے فرمائے۔ اس کے بعد آپ تنی بار آسمان کی طرف انگلی اٹھا کر کہتے تھے اللھم اشھد ، اللھم اشھد اللھم اشھد اے اللہ ! گواہ ہوجا ، اے اللہ ! گواہ ہوجا ، اے اللہ گواہ ہوجا۔ غرضیکہ حضور ﷺ نے فریضہ رسالت پورے طریقہ پر ادا کردیا اور اپنی امت کو اس پر گواہ بنا لیا۔ قرآن پا کو حی جلی ہے جس کے الفاظ منجانب اللہ ہیں۔ اس کی تشریح اللہ تعالیٰ نے وحی خفی یعنی حضور ﷺ کے ارشادات کے ذریعے کردی۔ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کے دل میں وہ باتیں ڈال دیں جن کے ذریعے آپ نے قرآن پاک کی توضیح و تشریک کی۔ اس کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو پابند کردیا تھا۔ لتبینن للناس آپ لوگوں پر واضح کردیں مانزل الیھم (سورۃ نحل) جو کچھ بھی ان کی طرف نازل کیا گیا ہے۔ اور اس طرح حضور ﷺ نے اپنے فرض منصبی کو بطریق احسن انجام دیا۔ جاں تک قرآن کے الفاظ کی حفاظت کا تعلق ہے۔ اللہ نے فرمایا وانا لہ لحفظون ہم ہی اس کے محافظ ہیں اور ان الفاظ کی تشریح کے متعلق بھی فرمایا ثم ان علینا بیانہ ، اس کا بیان بھی ہمارے ذمہ ہے۔ یہ کام آپ نے اپنی نبی کی زبان سے کرایا اور یہی نبی کے فرض منصبی کی ادائیگی ہے۔ حفاظت جان کی ذمہ داری باقی یہ بات کہ حضور ﷺ کے دشمن بہت زیادہ تھے اور وہ ہر وقت آپ کو ایذا پہنچانے کے دیئے ہوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ اپنا کام جاری رکھیں اور کفار ، مشرکین ، یہود و نصاریٰ سے خوفزدہ نہ ہوں واللہ یعصمک من الناس اللہ تعالیٰ آپ کو لوگوں سے بچائے گا۔ وہ آپ کو بلاک نہیں کرسکتے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ابتدائے اسلام کے زمانہ میں آپ پر ایمان لانے والے قلیل تعداد میں تھے جب کہ دشمنوں کی اکثریت تھی۔ ایک روز آپ نے صحابہ کرام سے فرمایا لیت رجلا صالحاً یحرمنی اللیلۃ کاش میرے صحابہ میں سے کوئی ہوتا جو میری حفاظت کے لئے پہرہ دیتا آپ نے ابھی یہ بات زبان سے نکالی تھی کہ ادھر سے حضرت سعد بن ابی وقاص ہتھیار بند ہو کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ حضرت سعد عشرہ مبشرہ میں سے ہیں اور ساتویں نمبر پر ایمان لانے والے ہیں آپ برادری میں حضور ﷺ کے ماموں ہوتے ہیں۔ غرض ! حضور ﷺ نے حضرت سعد سے فرمایا ، کیسے آنا ہوا ؟ عرض کیا۔ میرے دل میں یہ بات آئی کہ دین کے دشمن چاروں طرف موجود ہیں۔ لہٰذا بہتر ہو کہ میں آپ کے گھر پر پہرہ دوں۔ چناچہ آپ نے اس پر بڑی مسرت کا اظہار کیا۔ کبھی حضرت سعد اور کبھی حضرت حذیفہ حضور ﷺ کی پاسبانی کا فریضہ انجام دیتے رہے پھر ایک دن حضور ﷺ گھر میں تشریف رکھتے تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی واللہ یعصمک من الناس تو حضور ﷺ باہر تشریف لائے اور پہریداروں سے کہہ دیا کہ اللہ تعالیٰ نے میری ان کی حفاظت کا ذمہ لے لیا ہے اور اب پہرے نام ضرورت نہیں لہٰذا تم جاسکتے ہو۔ حفاظت جان کی ذمہ داری صرف حضور ﷺ کے لئے تھی ایک عام مبلغ کو یہ گارنٹی حاصل نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی لائید ہر نیکی کرنے والے کے شامل حال ضرور ہوتی ہے۔ مگر اللہ نے حفاظت جان کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ چناچہ اللہ کے دین کے کتنے مبلغ ہوئے جنہیں شہید کردیا گیا۔ حتیٰ کہ بنی اسرائیل کے ہزاروں انبیاء کو بھی شہید کیا گیا۔ یہاں لوگ ایک اعتراض بھی اٹھاتے ہیں کہ اگر پیغمبر آخر الزماں (علیہ السلام) کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اٹھائیتھی تو آپ کو تکالیف کیوں آئیں ، آپ زخمی ہوئے دانت مبارک شہید ہوئے اور بیشمار ذہنی و جسمانی پریشانیاں لاحق ہوئیں اس لئے جواب میں مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی جان کی حفاظت کا ذمہ اٹھایا تھا ، تاہم دیگر تکالیف ، بیماری ، زخم وغیرہ تو معمول کی چیزیں ہیں جو ہر انسان کا لازمی حصہ ہیں۔ نیک بندوں کو تکالیف پہنچنے میں بھی حکمت ہوتی ہے ان کے ذریعے اللہ ان کی لغزشیں معاص فرماتے ہیں اور انہیں اعلیٰ درجے عطا کرتا ہے۔ روایت سے محرومی فرمایا آپ بےخوف ہو کر تبلیغ دین کا کام کرتے رہیں۔ انکار کرنے والوں کی وجہ سے آپ رنجیدہ خاطر نہ ہوں ان اللہ لایھدی لقوم الکفرین اللہ تعالیٰ کافروں کے لئے اپنی ہدایت کے دروازے نہیں کھولتا۔ مسلسل انکار کی وجہ سے ختم اللہ علی قلوبھم اللہ ان کے دلوں پر پھنسے لگا دیتا ہے۔ دوست مقام پر ” بل طبع اللہ علیھا بکفرھم کے الفاظ بھی آتے ہیں۔ ایسے لوگ ہدایت سے قطعی طور پر محروم ہوجاتے ہیں۔ البتہ معتدل لوگ جو حق نے طلبگار ہوتے ہیں اور ان کے دل میں صحیح بات معلوم کرنے کی خواہش موجود ہوتی ہے اللہ تعالیٰ ان کے لئے ہدایت کی کوئی سبیل پیدا فرما دیتا ہے اور وہ راہ راست پر آجاتے ہیں۔ فرمایا یہود و نصاری مصر علی الکفر ہیں۔ آپ ان سے کوئی توقع نہ رکھیں کیونکہ انہیں ہدایت نصیب نہیں ہوگی۔ ظالموں کے متعلق بھی اللہ نے فرمایا کہ انہیں ہدایت نہیں حاصل ہوگی۔ دوسرے مقام پر فاسقوں کے متعلق بھی ہدایت سے محرومی کی خبر دی۔ قومی اور بین الاقوامی نبی بہرحال فرمایا کہ اے نبی کریم ! آپ اپنا حق رسالت ادا کرتے ہیں اور اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے رہیں۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کی نبوت و رسالت دو حیثیت سے آپ نے اپنی تبلیغ کا آغاز اپنے خاندان قریش سے کیا اور پھر اس کا دائرہ باقی عرب قوم تک وسیع کیا۔ اس لحاظ سے آپ قومی نبی میں کہ قریش کی سعادت آپ کے ساتھ وابستہ ہے اور پھر باقی عرب بھی اس میں شامل ہوجاتے ہیں۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ آپ کی نبوت کا دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ آپ تمام عالم کے لئے ہادی اور راہنما بنا کر بھیجے گئے اور اس لحاظ سے آپ بین الاقوامی نبی میں آپ نے اپنی زندگی میں جہاں تک ممکن ہوا اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچایا۔ اب باقی دنیا تک یہ پیغام پہنچانے کی فرمودات آپ کے صحابہ کے واسطہ سے ہر اس فرد اور جماعت پر ہے جو اللہ کی وحدانیت اور حضور ﷺ کی رسالت پر ایمان لایا۔ چناچہ یہ فریضہ محمدیہ کے افراد تاقیام قیامت انجام دیتے میں سے اور پوری دنیا کو اللہ کے اس آخری پروگرام سے روشناس کراتے رہیں گے تبلیغ دین کا کام ہونے والی جماعتیں اور افراد اگر خلوص نیت کے ساتھ اس مشن کو آگے بڑھائیں تو اللہ ان کی بھی اسی طرح مدد فرمائے گا جس طرح حضور نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ اور بعد میں آنے والے لوگوں کی مدد فرمائی۔ ملوکیت اور ڈکٹیٹر شپ اس وقت تبلیغ دین کے سامنے ملوکیت اور ڈکٹیٹر شپ دو بڑی رکاوٹیں ہیں۔ یہ ہمیشہ سے رہی ہیں اور آج بھی موجود ہیں۔ پہلے زمانے میں اسلام کا مقابلہ قیصر اور کسریٰ کی ملوکیت سے تھا اور آج امریکہ اور روس جیسی بڑی طاقتیں ان کی جانشین ہیں آج اہل حق کو ان طاقتوں کے ظلم و استبداد کا مقابلہ کرتا ہے۔ مگر جب تک جماعت حصہ کا کردار مضبوط نہ ہو اور ارادے میں پختگی موجود نہ ہو دشمن کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ اب مسلمانوں میں نہ اپنے مشن سے دلی لگائو ہے۔ نہ یہ علم سے روشناس میں اور نہ کردار بلند ہے ، تو دشمنان دین کا مقابلہ کیسے کیا جاسکتا ہے ؟ فکر بلند ، اعتقاد درست اور عمل صحیح ہو تو ان طاغوتی طاقتوں کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے مگر آ ج ان علاقوں کے مسلمان سانس بھی نہیں لے سکتے ، ان کے دم گھٹ چکے ہیں روس نے کتنے مسلم اکثریت کے علاقوں پر قبضہ کر کے مسلمانوں کو اقلیت میں بدل دیا۔ چین کے ایک صوبہ میں مسلمانوں کی آبادی سات کروڑ تھی مگر اب ایک کروڑ سے بھی کم رہ گئے ہیں کچھ ختم کردیئے گئے باقی تتر بتر ہوگئے۔ مسلمانوں کی آبادی پر کنٹرول کیا جاتا ہے اور انہیں بڑھنے سے روکا جاتا ہے۔ ان حالات میں وہ تبلیغ دین کا فریضہ کیسے انجام دے سکتے ہیں۔ ملوکیت اس سے بھی بڑی لعنت ہے۔ عیسائی اور یہودی کہلانے والے اگرچہ خدا تعالیٰ کا تصور بھی رکھتے ہیں مگر حقیقت میں یہ کچھ بھی نہیں۔ یہ بدترین قسم کے دہریے ہیں ، خود غرضی ، عیاشی اور ظلم انکا وطیرہ ہے۔ اسلام کے ساتھ نفرت جس قدر روس کو ہے اسی قدر امریکہ کو ہے۔ جس طرح روس مسلمانوں کو ترقی کرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا ، اسی طرح امریکہ بھی مسلمان کو پنپتا ہوا نہیں دیکھ سکتا۔ امریکہ کو عربوں ، مصریوں یا لبانیوں کی ترقی سے کوئی دلچسپی نہیں ، وہ جس دوستی کا دم بھرتا ہے محض اپنے مفاد کے لئے۔ یہ لوگ انسانیت کے دشمن اور جہنم کے کندہ تراش ہیں۔ ان کا مقابلہ کرنے کے لئے بڑے وسائل اور بڑی تیاری کی ضرورت ہے بہرحال اللہ نے اپنے نبی کو تسلی دی کہ کفر پر اڑنے وال ہدایت سے فیضیاب نہیں ہو سکتے آپ انکی زیادہ فکر ن ہکریں بلکہ اپنے مشن پر رواں دواں رہیں۔ کتب کا ویہ سے روگردانی آگے اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب سے خصوصی خطاب فرمایا ہے قل اے پیغمبر ! آپ کہہ دیا یا ھل الکتب لستم علی شیء ۔ اے اہل کتاب تم کسی صحیح نظریے پر نہیں ہو۔ نہ تمہارا عقیدہ درست ہے اور نہ کردار حتی تقیموا التورئۃ والانجیل وما انزل الیکم من ربکم۔ جب تک تم تورات و انجیل کو قائم نہیں کرو گے اور اس چیز کو قائم نہیں کرو گے جو تمہاری طرف تمہارے پروردگار کی جانب سے نازل کی گئی ہے تب تک تم راہ راست پر نہیں آسکتے ظاہر ہے کہ اگر تورات و انجیل کو صدق دل سے تسلیم کرلیں تو ان کتب میں تو نبی آخر الزمان (علیہ السلام) اور اللہ کی آخری کتاب اور آخری امت کی پیش گوئیاں موجود ہیں لہٰذا ان سب کو ماننا پڑے گا وہ تو موجود ہے کہ بنی اسرائیل کی طرح بنی اسماعیل کو بھی دنیا میں عروج حاصل ہوگا۔ اگر اس چیز کو تسلیم کرلیں تو انہیں اپنی فوقیت ختم کرنا پڑتی ہے اور یہی ان کے اقتدار کی موت ہے لہٰذا وہ جان بوجھ کر دین حق کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں اسی لئے اللہ نے فرمایا کہ اے اہل کتاب تم کسی چیز پر نہیں ہو جب تک کہ تمام کتب سماویہ پر ایمان نہ لے آئو۔ اہل کتاب کی یہی خامی آج مسلمانوں پر بھی صادق آتی ہے یہ بھی اسلام کے دعوے دار ہیں مگر حقیقت میں یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح لستم علی شئی کی منہ بولتی تصویر ہیں۔ آج مسلمانوں نے قرآن کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا ہے۔ کفر کے شعائر اور بد دعات کو دین کا درجہ دے دیا ہے ، رسم و رواج ، قبر پرستی اور بد عات کو دین بنا لیا ہے۔ ان کا حال بھی یہ ہے کہ جب تک قرآن پاک کے احکام پر من و عن عمل نہیں کریں گے اسے اپنا راہنما تسلیم نہیں کریں گے۔ یہ کسی چیز پر نہیں ہیں ، اہل کتاب اور مسلمانوں میں کوئی فرق نہیں۔ سرکشی اور کفر میں اضافہ اللہ نے فرمایا ولیزیدن کثیراً منھم ما انزل الیک من ربک طغیانا و کفراً ۔ اہل کتاب کا حال یہ ہے ک ہجب قرآن پاک کی آیات نازل ہوتی ہیں تو ان میں سے اکثریت کی سرکشی اور کفر میں اضافہ کا باعث بنتی ہیں۔ وہ اللہ کے کلام سے نصیحت پکڑنے کی بجائے مزید سرکش اور باغی ہوجاتے ہیں۔ یہ ان کی بدبختی کی علامت ہے۔ اگر انسان صاحب صلاحیت ہو تو اسے حق کی پہچان میں کوئی دقت پیش نہیں آنی چاہئے۔ مگر اللہ کی طرف سے نازل ہنے والی ہدایت سے یہ لوگ الٹا اثر قبول کرتے ہیں اور مزید سرکشی اور کفر میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ فرمایا فلا تاس علی القوم الکفرین ۔ اے پیغمبر (علیہ السلام ! ) اہل کتاب کی اس روگردانی پر افسوس نہ کریں۔ آپ اپنا فریضہ ادا کرتے رہیں اور ان کی ہدایت کے لئے پریشان نہ ہوں۔ نبی (علیہ السلام) کو خطاب کر کے عام مبلغین اسلام کو بھی تسلی دی گئی ہے کہ آپ اپنا کام کرتے رہیں اور جو شخص کفر پر مصر ہے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں۔ اللہ تعالیٰ خود اس کی گرفت کرے گا اور پھر وہ اس کی سزا سے بچ نہیں سکے گا۔
Top