Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mualim-ul-Irfan - Al-Hadid : 1
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ جَاعِلِ الْمَلٰٓئِكَةِ رُسُلًا اُولِیْۤ اَجْنِحَةٍ مَّثْنٰى وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ١ؕ یَزِیْدُ فِی الْخَلْقِ مَا یَشَآءُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
اَلْحَمْدُ
: تمام تعریفیں
لِلّٰهِ
: اللہ کے لیے
فَاطِرِ
: پیدا کرنے والا
السَّمٰوٰتِ
: آسمانوں
وَالْاَرْضِ
: اور زمین
جَاعِلِ
: بنانے والا
الْمَلٰٓئِكَةِ
: فرشتے
رُسُلًا
: پیغامبر
اُولِيْٓ اَجْنِحَةٍ
: پروں والے
مَّثْنٰى
: دو دو
وَثُلٰثَ
: اور تین تین
وَرُبٰعَ ۭ
: اور چار چار
يَزِيْدُ
: زیادہ کردیتا ہے
فِي الْخَلْقِ
: پیدائش میں
مَا يَشَآءُ ۭ
: جو وہ چاہے
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
عَلٰي
: پر
كُلِّ شَيْءٍ
: ہر شے
قَدِيْرٌ
: قدرت رکھنے والا ہے
سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو بنانے والا ہے آسمانوں کا اور زمین کا اور جو ٹھہرانے والا ہے فرشتوں کو پیغام لانے والے ، بازئوں والے دو دو تین تین ، چار چار اور زیادہ کرتا ہے تخلیق میں جو چاہے۔ بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے
اس سورة کا نام سورة فاطر ہے۔ یہ نام سورة کی پہلی آیت میں آمدہ لفظ فاطر سے ماخوذ ہے۔ مفسرین (ابو سعود ص 236 در منشور ص 244 وج 5 و مدارک ص 332 ج 3) کرام نے اس سورة کا دوسرا نام سورة ملائکہ بھی ذکر کیا ہے۔ کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو قاصد بنانے کا ذکر کیا ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہ سورة مکی زندگی میں سورة الفرقان کے بعد نازل ہوئی ، اس کی پینتالیس آیات اور پانچ رکوع ہیں۔ یہ سورة مبارکہ 197 الفاظ اور 3120 حروف پر مشتمل ہے۔ سابقہ سورة کی طرح یہ بھی مکی سورة ہے اور اس میں بھی زیادہ تر بنیادی عقائد توحید ، رسالت ، معاد اور قرآن پاک کی صداقت و حقانیت ہی کا ذکر ہے۔ توحید کے ضمن میں عقلی دلائل کے ذریعے مشرکین کے ضمیر کو جھنجھوڑا گیا ہے کہ ذرا اپنے گرد و نواح میں نظر مار کر دیکھو کہ کائنات کی لاکھوں کروڑوں اشیاء کو پیدا کرنے والی کون سی ذات ہے اور تمام ضروریات مہیا کرنے والا کون ہے۔ بیوقوفو غور کرو کہ اللہ تعالیٰ کوئی نعمت عطا کرنا چاہتا ہے تو کون روک سکتا ہے اور اگر وہی روک دے تو تمہیں کون دے سکتا ہے۔ جب ہر چیز کا خالق ومالک ، مدبر اور متصرف صرف اللہ تعالیٰ ہے تو پھر اس کے سوا معبود بھی کوئی نہیں تم کدھر بھٹک رہے ہو اور اللہ کی مخلوق کو ہی اس کا شریک بنا رہے ہو۔ رسالت کے بیان میں اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو تسلی دی ہے کہ اگر یہ لوگ آپ کو جھٹلاتے ہیں تو اس میں گھبرانے کی کون سی بات ہے پہلی قومیں بھی اپنے انبیاء کو اسی طرح جھٹلاتی رہیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے دنیا میں ہی ان کو سزا دی۔ وقوع قیامت اور محاسبہ اعمال کے متعلق اللہ نے توجہ دلائی ہے کہ تم خود ہی سوچو کہ برے اور بھلے میں کوئی تمیز ہونی چاہئے یا نہیں کیا دونوں کو برابر برابرچھوڑ دینا چاہئے یا ہر ایک کو اس کی کارکردگی کا صلہ ملنا چاہئے۔ معمولی عقل و فکر کا آدمی بھی کہے گا کہ نیک کے ساتھ اچھا اور برے کے ساتھ برا سلوک ہونا چاہئے۔ یہی محاسبہ اعمال ہے اور یہی جزا و سزا کا قانون ہے جو اللہ تعالیٰ تمہیں بتلانا چاہتا ہے اور قیامت کا وقوع اس مقصد کے حصول کی طرف ایک قدم ہے۔ اس سورة مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ایمان اور توحید قبول کرنے والوں کے لیے بڑی بشارتیں دی ہیں اور ان کو ملنے والے انعامات کا ذکر کیا ہے تاکہ ان کے دل مضبوط ہوں۔ اسی طرح نافرمان لوگوں کی سزا کا ذکر بھی کیا ہے کہ ان کے عذاب میں کمی نہیں ہوگی۔ وہ جہنم سے نکلنا چاہیں گے مگر ان کی درخواست قبول نہیں کی جائے گی۔ خاطر یا بدیع اس سورة مبارکہ کی ابتدا اللہ تعالیٰ کی صفات سے ہوتی ہے الحمد للہ سب تعریفیں اور خوبیاں اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے ہیں۔ سابقہ سورة سبا کی ابتدا بھی انہی الفاظ کے ساتھ ہوئی تھی اور میں نے عرض کیا تھا کہ قرآن پاک میں دو مزید سورتوں کی ابتداء بھی انہی الفاظ سے ہوئی ہے یعنی سورة فاتحہ اور سورة انعام تو فرمایا سب تعریفیں اور ستائشیں اس ذات کے لیے ہیں فاطر السموت والارض جو آسمانوں اور زمین کا پیدہ کنندہ ہے۔ فاطر اور بدیع کا قریب قریب ایک ہی مفہوم ہے یعنی پیدا کرنے والا۔ قرآن پاک میں بعض جگہ فاطر کا لفظ آیا ہے اور بعض مقامات پر بدیع بھی استعمال ہوا ہے۔ جیسے بدیع السموت والارض (البقرہ 117) فطور کا لغوی (مصباح اللغات ص 638) معنی کسی چیز کو پھاڑنا یا اس میں شگاف ڈالنا ہوتا ہے ۔ رئیس المفسرین حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں (ابن کثیر ص 546 ج 3 و قرطبی ص 319 ج 14) کہ مجھے اس لفظ کے صحیح مفہوم کے متعلق تردد تھا لہٰذا میں اس کی ٹوہ میں تھا کہ کس طرح اس لفظ کا صحیح صحیح مطلب سمجھ میں آجائے۔ اس زمانے میں دیہاتی عربی کو معیاری زبان سمجھا جاتا تھا ، اسی لیے روسائے عرب اپنے بچوں کی ابتدائی پرورش دیہات میں کرنا پسند کرتے تھے۔ کہتے ہیں کہ میں نے دو عرب بدویوں کو آپس میں جھگڑتے ہوئے پایا۔ ان کے درمیان ایک کنویں کی ملکیت کا جھگڑا تھا۔ ایک شخص دوسرے سے کہنے لگا۔ کہ تم اس کنویں کی ملکیت کا کیسے دعویٰ کرتے ہو حالانکہ انا فطرتیک اس کو تو میں نے ہی کھودا تھا یعنی زمین میں شگاف ڈال کر میں نے ہی تو یہ کنواں تیار کیا تھا۔ اب تم میرے مقابلے میں کس طرح دعویدار بنتے ہو ؟ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ بدو وں کی اس گفتگو سے مجھے فاطر کا معنی سمجھ میں آگیا کہ اس سے مراد کسی چیز کی ابتداء کرنا ہے جب کہ اس سے پہلے اس چیز کا وجود نہ ہو۔ چار صفات خداوندی امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں (حجۃ اللہ البالغہ ص 10 ج 1) ہیں کہ کسی چیز کی تخلیق اور نشونما کے لیے اللہ تعالیٰ کی چار صفات یکے بعد دیگرے کام کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی پہلی صفت ابداع یا فطور ہے۔ اللہ تعالیٰ اس صفت خاص کے ذریعے بغیر مادے ، آلے اور نمونے کے مطلوبہ چیز کو پیدا فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بدیع السموت والارض (البقرہ 117) اس نے آسمانوں اور زمین کو بغیر کسی مادے ، آلے اور سابقہ نمونے کے تخلیق کیا۔ ان کی تخلیق تو ہمارے سامنے موجود ہے مگر یہ تخلیق کس طرح وجود میں آئی ، اس کی کیفیت ہمیں معلوم نہیں اس چیز کو فلسفے کی زبان میں کہتے ہیں معلوم الا نیۃ مجہول الکیف اس کا پوری طرح سمجھنا تو ذرا مشکل ہے تاہم اتنی بات جان لینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اپنی خاص تجلیات اور صفات کے ذریعے ہی کس چیز کو براہ راست پیدا کرتا ہے جس کی کیفیت کو مخلوق میں سے کوئی نہیں جان سکتا کہ کس قسم کی تجلیات کا ظہور ہو اور کس قسم کے تغیرات واقع ہوئے جس کے نتیجے میں کائنات کا ظہور ہوا بہرحال یہ اللہ کی پہلی صفت ابداع یا فطور ہے جس کے ذریعے کائنات معرض وجود میں آئی۔ جب ایک چیز اللہ کی صفت ابداع کے نتیجے میں معرض وجود میں آگئی تو اب اللہ تعالیٰ کی دوسری صفت مختصہ خلق کام کرتی ہے ، خلق کا معنی یہ ہے کہ کسی چیز کا مادہ موجود ہو اور اس سے کوئی چیز بنائی جائے۔ ظاہر ہے کہ ہر چیز کا خالق اللہ ہے۔ خود اسی کا فرمان ہے اللہ خالق کل شئی (المومن 62) چناچہ انسان ، ملائکہ ، جنات ، جنت اور دوزخ وغیرہ سب اسی کے پیدا کردہ ہیں۔ اس کی صفت خلق کی واضح مثال یہ ہے کہ اس نے زمین کو صفت ابداع کے ذریعے بغیر مادے ، آلے اور نمونے کے پیدا کیا اور پھر زمین کے مادے مٹی سے انسان کو صفت خلق کے ذریعے پیدا فرمایا۔ اس کا ارشاد ہے خلقہ من ترات (آل عمران 59) یعنی اللہ نے آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے بنایا اور پھر قطرئہ آب سے نسل انسانی کو چلایا۔ اسی طرح انسانوں اور جنات کے متعلق فرمایا خلق الانسان من صلصال کا لفخار۔ وخلق الجال من مارج من نار (الرحمن 15- 14) اللہ نے انسانوں کو کھنکھناتی ہوئی مٹی سے اور جنات کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا۔ اسی طرح ملائکہ کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ ان کو اللہ نے ایک خاص قسم کمے نورانی مادے سے تخلیق فرمایا۔ دیکھیے اللہ تعالیٰ ایک چھوٹے سے بیج سے یا ایک معمولی سی گٹھلی سے بہت بڑا درخت بنا دیتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی صفت خلق کا کرشمہ ہے۔ جب اللہ تعالیٰ صفت خلق کے ذریعے کوئی چیز پیدا فرما دیتا ہے تو تیسرے نمبر پر اس کی صفت تدبیر کام کرتی ہے اللہ کا فرمان ہے یدبر الامر من السماء الی الارض (السجدۃ 5) آسمان کی بلندیوں سے لے کر زمین کی پستیوں تک ہر ہر چیز کی تدبیر اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے۔ پیدائش کے بعد کسی چیز کو بتدریج بڑھانا یا گھٹانا ، کسی چیز کو آگے پیچھے کرنا ، یا ترقی و تنزل کے مراحل سے گزارنا ، زندہ یا قائم رکھنا ، موت دے دینا یا فناہ کردینا یہ صفت تدبیر کا کام ہے۔ جو کہ اللہ تعالیٰ خود انجام دیتا ہے اور اس معاملے میں بھی اس کو کسی دوسرے کی مدد کی ضرورت نہیں ہزوتی اور نہ ہی وہ یہ کام اپنی مخلوق میں سے کسی کے سپرد کرتا ہے۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ اس کے بعد اللہ کی چوتی صفت تدلی کا نمبر آتا ہے تدلی کا لغوی معنی کسی چیز کا نیچے کی طرف لٹک جانا یا اتر جانا ہے اور اس سے مفہوم یہ لیا جاتا ہے کہ جب کوئی انسان پیدا ہوجاتا ہے اس کے تمام اعضاء ٹھیک طریقے سے بن جاتے ہیں اور اس کی ظاہری اور باطنی قوتیں کام کرنے لگتی ہیں تو اللہ تعالیٰ کی تجلی اعظم کا عکس اس انسان کی روح پر پڑنا شروع ہوجاتا ہے۔ روح چونکہ لطیف چیز ہے اور یہ آتی بھی عالا بالا سے ہے لہٰذا اس کی کشش ہمیشہ اوپر کی طرف ہوتی ہے۔ اس تجلی اعظم یا تدلی کا اثر انسان اس دنیا میں محسوس نہیں کرتا کیونکہ اس پر مادیت کا خول چڑھا ہوا ہے جب اس کی موت واقع ہوجاتی ہے تو یہ خول بھی اتر جاتا ہے اور اصل انسانیت ابھر کر سامنے آجاتی ہے۔ اس وقت یہ تدلی اوپر کی طرف کشش کرتی محسوس ہوتی ہے اگر کوئی نیک اور عبادت گزار آدمی ہے تو اسے اس دنیا میں بھی اس کا کچھ نہ کچھ اثر محسوس ہوتا ہے۔ پھر جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے تو یہی کشش اس کو آسانی کے ساتھ عالم بالا کی طرف لے جاتی ہے اور اگر کوئی کافر ، مشرک یا گنہگار آدمی ہے تو اس کی کشش نیچے کی طرف ہوتی ہے جب کہ تدلی کی کشش اوپر کی طرف اور اس طرح ایسے شخص کو سخت تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس جہان سے دوسرے جہان میں منتقلی کی مثال شاہ صاحب (رح) اسی طرح بیان کرتے ہیں جیسا کہ کوئی شخص نیند کے دوران خواب دیکھتا ہے۔ خواب میں مختلف مقامات پر ہوتا ہے ، کئی کام انجام دے رہا ہوتا ہے اس کو کئی اچھے برے اعمال سے واسطہ پڑتا ہے مگر جونہی بیدار ہوتا ہے۔ تو خواب والا سارا جہان ختم ہو کر وہی اس دنیا کا جہاں سامنے ہوتا ہے۔ جب انسان اس جہان کی زندگی ختم کرکے اگلے جہان میں پہنچتا ہے تو اسے اس دنیا کی زندگی ایک خواب محسوس ہوگی۔ الغرض ! چوتھے نمبر پر اللہ کی صفت تدلی کام کرتی ہے ، تو خلق کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ کی چار صفات یکے بعد دیگرے کام کرتی ہیں جن میں چوتھی صفت تدلی ہے۔ آیت کے ابتدائی حصے میں اللہ نے اپنی صفت ابداع یا فطور کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ہے جاعل الملئکۃ رسلا جو کہ فرشتوں کو پیغام رساں بنانے والا ہے۔ ظاہر ہے کہ فرشتوں کا ایک کام یہ بھی ہے کہ وہ اللہ کے نبیوں کے پاس اللہ کا پیغام لاتے ہیں۔ اس فرض کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ فرشتوں سے تدبیر کے مختلف کام لیتا ہے اور وہ تعمیل حکم کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فیضان فرشتوں کے ذریعے ہی کائنات تک پہنچتا ہے۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے (حجتہ اللہ البالغہ ص 23 ج 2) ہیں کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کی پیدائش سے اربوں ، کھربوں سال پہلے انسان کی مصلحت کی خاطر اپنے فضل اور مہربانی سے اللہ نے فرشتوں کو پیدا فرمایا۔ خدا تعالیٰ ازل میں جانتا تھا کہ انسانوں کی مصلحت فرشتوں پر موقوف ہے۔ تاہم فرشتے درجات میں انسان سے کم تر ہیں۔ فرشتوں کے سات مختلف طبقات ہیں اور ہر طبقہ کا مادہ تخلیق الگ الگ ہے۔ ملاد اعلیٰ کی تخلیق لطیف نورانی سے ہوئی ہے جن میں جبرائیل ، میکائیل وغیرہ شامل ہیں اور ملاء مسافل کی تخلیق اس سے کمتر مادہ سے ہوئی ہے۔ شاہ صاحب (رح) فرشتوں کے مادہ تخلیق کے متعلق فرماتے (حجۃ اللہ البالغہ ص 16 ج 1) فرماتے ہیں کہ اس کی مثال اس آگ جیسی ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) پر ظاہر ہوئی تھی۔ حقیقت میں یہ حجاب نوری تھا یا ناری تھا۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) اس آگ کے قریب پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہ ایک درخت سے نکل رہی ہے۔ مگر درخت کو جلاتی نہیں بلکہ مزید روشن کردیتی ہے۔ الغرض اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو لطیف مادے سے پیدا کیا ہے ، ان میں روحیں اور عقل و شعور ہے اور ورہ ہر وقت ہمہ تن اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہتے ہیں اور اس کے احکام کی تعمیل کرتے ہیں۔ فرمایا اللہ تعالیٰ فرشتوں کو پیغام لانے والا بنانے والا ہے اور فرشتوں کی ہیئت یہ ہے اولی اجمۃ تغنی وثلث و ربع کہ وہ دو دو ، تین تین اور چار چار پروں والے ہیں ۔ اللہ نے ان کو مختلف تعداد میں پر عطا کئے ہیں جن کے ذریعے وہ اڑتے ہیں۔ فرمایا ان کے پروں کی تعداد چار تک محدود نہیں بلکہ یزید فی الخلق ما یشاء اللہ تعالیٰ ان کی تخلیق میں اضافہ کردیتا ہے جس قدر چاہے۔ جس طرح اس زمین پر پرندے اپنے پروں کے ذریعے تیز رفتاری سے اڑتے پھرتے ہیں۔ اسی طرح اللہ کے ملائکہ بھی نہیت ہی برق رفتاری کے ساتھ اپنے پروں کی بدولت ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے ہیں۔ فرشتوں کی تیز رفتاری کا عالم یہ ہے کہ جبرائیل (علیہ السلام) ایک سیکنڈ میں خطیرۃ اقدس سے زمین تک پچاس ہزار مرتبہ آجاسکتے ہیں۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ میں نے معراج کے موقع پر سدرۃ المنتہی کے قریب جبرائیل علیہ اسلام کو ان کی اصلی شکل میں دیکھا تھا جن کے چھ سو پر تھے دوسرے درجے کی روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ ہر پر کے درمیان مشرق و مغرب جتنا فاصلہ ہے۔ حضرت عبداللہ بن مبارک کی کتاب الزہد میں ایک روایت (جمل ص 483 ج 3) ہے کہ ایک موقع پر حضور ﷺ نے حضرت جبرائیل سے کہا کہ میں آپ کو اصلی شکل میں دیکھنا چاہتا ہوں انہوں نے کہا کہ آپ کو دشواری ہوگی مگر کرکے دیکھ لیں جونہی جبرائیل (علیہ السلام) نے اپنے آپ کو ظاہر کرنا شروع کیا ، حضور ﷺ پر غشی طاری ہوگئی۔ جب آپ کو ہوش آیا تو جبرائیل (علیہ السلام) نے عرض کیا۔ اے محمد ! آپ تو مجھے ابھی اصلی حالت میں نہیں دیکھ سکے اور اگر آپ بارہ ہزار پروں والے میکائیل کو دیکھ لیں تو آپ کی کیا کیفیت ہوگی۔ چناچہ صحیح حدیث میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے دو دفعہ جبرائیل (علیہ السلام) کو ان کی اصل شکل میں دیکھا ہے۔ ایک دفعہ اس وقت جب وحی کا آغاز ہوا اور دوسری دفعہ معراج کے واقعہ میں سدرۃ المنتہی کے پاس۔ تخلیق میں اضافہ اس آیت کریمہ میں یزید فی الخلق کے الفاظ توجہ طلب ہیں اس کا بظاہر معنی تو یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کے پروں میں حسب منشا اضافہ بھی کرتا ہے۔ تاہم مفسرین کرام اس کے عمومی معنی بھی لیتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ اس سے اللہ کی ہر قسم کی تخلیق میں اضافہ بھی مراد ہوسکتا ہے۔ مثلاً انسان کو اللہ نے تمام اعضاء عطا فرمائے ہیں جو عام طور پر عمومی نوعیت کے ہوتے ہیں مگر بعض لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ اضافہ بھی فرمادیتا ہے ، کسی کو غیر معمولی حسن عطا کردیا ، اس کی آنکھوں ، کانوں اور ناک کو بہترین انداز میں بنا دیا کہ وہ عام لوگوں سے زیادہ حسین نظر آتا ہے۔ کسی کو خوبصورت اور سریلی آواز دے دی ، کسی کو اضافی عقل و ذہانت عطا کردی ، کسی کے قد میں اضافہ اور کسی کی جسمانی قوت کو غیر معمولی بنا دیا ، کسی کو خوش الحانی اور کسی کو تحریر و تقریر میں زیادتی عطا کردی۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کے انعامات ہیں جن کی قدر کرنی چاہئے۔ فرمایا ان اللہ علی کل شئی قدیر اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ اس نے ہر چیز اپنی قدرت کاملہ کے ساتھ بنائی ہے۔ انسانوں پر بیشمار انعامات فرمائے ہیں لہٰذا انسان کا فرض ہے کہ ایمان اور توحید کو درست کرے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے۔
Top