Mualim-ul-Irfan - Al-Anfaal : 74
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ الَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّ نَصَرُوْۤا اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا١ؕ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَهَاجَرُوْا : اور انہوں نے ہجرت کی وَجٰهَدُوْا : اور جہاد کیا انہوں نے فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اٰوَوْا : ٹھکانہ دیا وَّنَصَرُوْٓا : اور مدد کی اُولٰٓئِكَ : وہی لوگ هُمُ : وہ الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) حَقًّا : سچے لَهُمْ : ان کے لیے مَّغْفِرَةٌ : بخشش وَّرِزْقٌ : اور روزی كَرِيْمٌ : عزت
اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی اور جنہوں نے جہاد کیا اللہ کی راہ میں ، اور وہ لوگ جنہوں نے جگہ دی اور مدد کی یہی لوگ ہیں پکے سچے ایمان والے ، ان کے لیے بخشش ہے اور عزت کی روزی
ربط آیات : گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے اہل ِ ایمان مہاجرین اور مجاہدین کی تعریف کی اور احکام بھی نازل فرمائے کہ جو لوگ ایمان سے مدد طلب کریں تو ان کی مدد کرنا ضروری ہے سوائے اس کے کہ اگر کسی کافر قوم کے ساتھ مسلمانوں کا معاہدہ ہوچکا ہو تو اس قوم کے خلاف مسلمانوں کی مدد نہیں کی جائے گی۔ اگر اہل ایمان اپنے مسلمان بھائیوں کی جائز مدد نہیں کریں گے تو زمین میں فتنہ و فساد ہی برپا ہوگا۔ کافر لوگ بھی آپس میں دوستانہ تعلقات رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کے مددگار ہوتے ہیں۔ لہٰذا اہل اسلام کو بھی چاہیے کہ وہ آپس میں دوستانہ قائم رکھیں اور بوقت ضرورت ایک دوسرے کی مدد کریں۔ اب اس سورة کی آخری آیتوں میں اللہ تعالٰٰ نے مسلمانوں کی مرکزی جماعت کی تعریف بیان کی ہے اور وراثت کا عام قانون بھی سمجھایا ہے یہاں اس مرکزی جماعت کا ذکر ہو رہا ہے جو اسلام کے ابتدائی دور میں مہاجرین اور انصار نے تشکیل کی اور جنہوں نے پیغمبر اسلام کی معیت ، قیادت اور اتباع میں دنیا میں تبلیغ اسلام کا اہم کام انجام دیا ، آپ کے بعد والے لوگ بھی اگر مرکزی جماعت کے نقش قدم پر چلیں گے تو انہیں بھی فوز و فلاح نصیب ہوگی۔ ایمان اور ہجرت : ارشاد خداوندی ہے (آیت) ” والذین امنوا ‘ ‘ وہ لوگ جو ایمان لائے اصل حقیقت تو ایمان پر ہی موقوف ہے اگر یمان موجود ہے تو سب کچھ ہے ، ورنہ خسارا ہی خسارہ ہے دین کی ساری عمارت ایمان ہی کے مرکزی نقطہ کے گرد گھومتی ہے ، ایمان ہی انسان کو دنیا وآخرت میں کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے ار پھر ایمان کی حفاظت کے لیے (آیت) ” وھاجروا “ جنہوں نے ہجرت کی اپنے وطن کو چھوڑا ، عزیز و اقارب ، مکان ، زمین کاروبار کو قربان کیا محض ایمان کی سلامتی کی خاطر جب کسی جگہ پر ایمان غیر محفوظ ہوجائے ، کفار ومشرکین کی طرف سے دین کو ترک کردینے کا مطالبہ ہو یا جان کا خطرہ پیدا ہوجائے تو ایسے موقع پہر اہل ایمان کے لیے ہجرت فرض ہوجاتی ہے ۔ سورة نساء میں اللہ کا ارشاد موجود ہے (آیت) ” الم تکن ارض اللہ واسعۃ فتھاجروا فیھا “ کیا اللہ کی زمین وسیع نہیں تھی کہ تم اس میں ہجرت کر کے اپنے ایمان کو بچا لیتے اور دین کے شعائر پر عمل کرسکتے ۔ جب کسی ملک میں اذان پر پابندی ہو ، نماز ادا کرنے میں رکاوٹ کھری کی جائے ، قربانی نہ دی جاسکتی ہو اور شعائر دین کے راستے میں جگہ جگہ کانٹے ہوں تو پھر ہجرت فرض ہوجاتی ہے ابتدائے اسلام کے زمانہ میں مکہ میں یہی حالات پیدا ہوچکے تھے ، لہٰذا ایمان والوں کو وہاں اسے ہجرت کرجانے کا حکم ہوا۔ باطنی ہجرت : یہ تو ظاہری ہجرت ہے کہ انسان دارالکفر کو چھوڑ کر دارالسلام میں چلا جائے ، تا ہم حضور ﷺ نے باطنی ہجرت کا مسئلہ بھی سمجھایا ہے فرمایا ” والمھاجرو من ھجر ما نھی اللہ عنہ “ حقیقی مہاجر وہ ہے جو اس چیز کو ترک کر دے جس سے اللہ نے منع فرمایا ہے اگر وطن کو ترک کرنے کے باوجود منہیات کو ترک نہیں کیا تو ایسا شخص حقیقی مہاجر نہیں کہلا سکتا وہ تو تاریک وطن ، پناہ گزیں Refugee ہی ہو سکتا ہے مگر صحیح معنوں میں مہاجر نہیں ہو سکتا اس کی مثال بعض دوسرے مسائل میں بھی ملتی ہے جیسے حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ حقیقی ایماندار ہو ہے جس کے پڑوسی اس کے شر سے محفوظ ہوں آپ نے یہ بھی فرمایا مسلمان وہ ہے (1۔ بخاری ، ص 6 ، ج 1 ، ) (فیاض) ” من سلمہ المسلمون من لسانہ ویدہ “ جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں محض کلمہ پڑھ لینے سے کوئی شخص حقیقی مسلمان نہیں ہوجاتا جب تک باقی تقاضے بھی پورے نہ کرے۔ اسی طرح فرمایا کہ حقیقی مہاجروہ ہے جو اللہ کی منع کردہ چیزوں کو ترک کردے۔ جہاد کے مختلف شعبے : فرمایا جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی (آیت) ” وجھدوا فی سبیل اللہ “ اور انہوں نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا۔ اسلام میں جہاد ایک بڑی حقیقت اور بلند حکم ہے اس کی بدولت جماعت کو عزت حاصل ہوتی ہے حکومت اور اقتدار نصیب ہوتا ہے۔ حدود اللہ قائم ہوتی ہیں ، دشمن مغلوب ہوتا ہے اور دین اسلام کا قیام اور بقا واقع ہوتا ہے پھر یہ بھی ہے کہ جہاد کے کئی ایک شعبے ہیں۔ اس کا عمومی شعبہ تو قتال بالسیف ہے۔ تا ہم دوسرا شعبہ تبلیغ دین ہے ، دین کی اشاعت میں حصہ لینا جہاد میں داخل ہے۔ تیسرا شعبہ دینی تعلیم ہے۔ جگہ جگہ دینی مدرسے قائم کر کے دین کی تعلیم کو عام کیا جائے تا کہ کوئی شخص اس سے خالی نہ رہے چوتھا شعبہ تصنیف و تالیف ہے ایسی دینی کتابیں شائع کی جائین جن سے اہل ایمان کو فائدہ ہو ، قرآن حدیث اور فقہ کی تفسیر وتشریح میں کتب کی اشاعت بھی جہاد کا ایک حصہ ہے اس سے ایک طرف اہل اسلام کی تعلیم کا بندوبست ہوتا ہے اور دوسری طرف غیر مذاہب کے اعتراضات کا جواب دیا جاتا ہے جس سے ان کے شکوک و شبہات رفع ہوتے ہیں کوئی شخص دین کے کسی بھی شعبے میں کام کر رہا ہو اسے حقیر نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ اسے جہاد کا ایک شعبہ سمجھ کر اس کی تائید کرنا چاہیے۔ پناہ اور نصرت : بہرحال فرمایا وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی اور اللہ کے راستے میں جہاد کیا ان کے علاوہ (آیت) ” والذین او واونصروا “ وہ لوگ جنہوں نے پناہ اور جگہ دی اور مدد کی یہ مدینے کے انصار ہیں جنہوں نے مہاجرین کو خوش آمدید کہا (آیت) ” والذین تبوئو الدار والایمان “ (الحشر) جنہوں نے مہاجرین کو اپنے گھروں میں اور ایمان کو اپنے دلوں میں جگہ دی۔ انہوں نے مہاجرین کو محبت کا تحفہ پیش کیا۔ انہوں نے اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہیں کی اور انہیں اپنی جانوں سے عزیز رکھا۔ جب مہاجرین اور انصار کے درمیان مواخات کا تعلق قائم ہوا تو اس وقت ” یرث المھاجر الانصار “ مہاجر اور انصار ہی ایک دوسرے کے وارث بنتے تھے۔ یہ ابتدائی دور کی بات ہے جب مسلمانوں کی جماعت کمزور تھی انصار صحابہ ؓ کی انہی بیش قیمت خدمات کی وجہ سے حضور ﷺ نے حب الانصار ایۃ الایمان یعنی انصار مدینہ سے محبت رکھنا ایمان کی نشانی ہے اور ان سے بغض رکھنا منافقت کی دلیل ہے مکہ میں اسلام کی مرکزیت پیدا نہ ہوسکی تو دین کی نشونما کے لیے انصار مدینہ نے پلیٹ فارم مہیا کیا یہی جگہ مرکز اسلام بنی اور یہیں سے دین کے پودے کی شاخیں پوری دنیا میں پھیلیں ۔ حتی کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ آخری وقت میں جب دجال کا ظہور ہوگا تو اسلام مدینہ میں ہی سمٹ کر رہ جائیگا۔ اس جگہ کے لوگوں کی تعریف میں اللہ نے فرمایا کہ یہ اتنے عظیم لوگ ہیں (آیت) ” ویوثرئون علی انفسھم ولو کان بھم خصاصۃ “ (الحشر) کہ انصار مدینہ مہاجرین کو اپنی جانوں سے بھی مقدم رکھتے ہیں خواہ ان کو خود احتیاج ہو ، خود بھوک پیاس برداشت کرتے تھے مگر اپنے مہاجر بھائیوں کو کھلاتے پلاتے تھے ، خود کپڑا نہیں پہنتے تھے مگر دوسروں کو پہناتے تھے ، اسی لیے اللہ نے ان کی تعریف بیان کی ہے۔ اہل ایمان کی مرکزی جماعت : انصار مدینہ نے نہ صرف مہاجرین کی خدمت کی بلکہ اللہ کے راستے میں جہاد میں بھی بڑھ کر حصہ لیا۔ جنگ بدر ، احد ، فتح مکہ ، تبوک ، حنین ، خیبر غرضیکہ ہر جنگ میں انصار مدینہ مہاجرین کے شانہ بشانہ لڑے بلکہ اکثر مواقعہ پر انصاری مجاہدین کی تعداد مہاجرین سے زیادہ تھی مہاجرین اور انصار پر مشتمل یہی مرکزی جماعت تھی جنہوں نے اللہ کے دین کے قیام ، اس کی تقویت اور بقا کے لیے سر دھڑ کی بازی لگادی۔ اسی جماعت کے متعلق اللہ نے فرمایا (آیت) ” اولئک ھم المومنون حقا “ یہی پکے سچے مومن ہیں جو ایمان لائے ہجرت کی ، اللہ کے راستے میں جہاد کیا اور جنہوں نے مہاجرین کو جگہ فراہم کی اور ان کی مدد کی۔ یہ دونوں گروہ دین کی تائید کی ہر مورچے پر سینہ سپر نظر آتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو ہر امتحان میں پورے اترے۔ اللہ نے فرمایا (آیت) ” والسٰبقون الاولون من المھٰجرین والانصار والذین اتبعوھم باحسنا “ (التوبہ) یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے ایمان لانے میں پہل کی مہاجرین اور نصار میں سے اور پھر وہ لوگ جنہوں نے نیکی کے ساتھ مہاجرین اور انصار کی پیروی کی ، یہ سب کے سب لوگ مسلمانوں کی مرکزی جماعت central committee کے ممبران ہٰن پھر یہی لوگ آئندہ آنے والوں کے لیے نمونہ بنے ، یہی پکے سچے ایماندارہ ہیں اور جو لوگ ان کے ایمان میں کیڑے نکالتے ہیں وہ خود گمراہ اور منافق ہیں۔ مغفرت اور باعزت روزی : بہر حال اللہ تعالیٰ نے حقیقی مومنوں کے متعلق فرمایا (آیت) ” لھم مغفرۃ “ ان کے لیے مغفرت ہے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ ایسے لوگوں کی خطائوں کو معاف کر کے انہیں جنت کے اعلیٰ مقام میں ضرور پہنچائیگا اس کے علاوہ پکے مومنوں کے لیے (آیت) ” ورزق کریم “ پاکیزہ روزی بھی ہے آخرت میں تو یقینا مومنین کو اعلی اور پاکیزہ رزق ملیگا اور زیادہ اچھے اعمال انجام دینے والوں کو زیادہ باعزت رزق حاصل ہوگا بلکہ عام جنتیوں کو بھی باعزت رزق نصیب ہوگا ۔ سب سے زیادہ انبیاء پھر شہدا اور مہاجرین وانصار مستفید ہو گے جو اللہ کے مقبول بندے ہیں۔ تا ہم اس روزی کا تعلق اس دنیا کے ساتھ بھی ہے ، ظاہر ہے کہ جس قوم یا فرد کو اس دنیا میں اقتدار حاصل ہوجائے تو اس سے بہتر کیا چیز ہو سکتی ہے ؟ بلاشبہ ان کو باعزت روزی نصیب ہوگی ، کوئی ان پر نکتہ چینی نہیں کرسکے گا۔ چناچہ ابتدائے اسلام سے لے کر کئی صدیوں تک دنیا میں اسلامی حکومت کے کارپرداز ان ہی معزز تریں لوگ شمار ہوتے تھے جن کو باعزت روزی ملتی تھی۔ مگر پھر انحطاط کا دور شروع ہوگیا۔ مسلمانوں میں کمزوریاں پیدا ہوگئیں تو یہ لوگ ذلت کا شکا ہوگئے جب اپنے مشن کو ترک کردیا۔ قرآن سے صرف نظر کرلیا ، دین سے منہ موڑ لیا ، غیروں کے ہاتھ چڑھ گئے تو نہ وہ عزت رہی اور نہ عزت کی روزی۔ متاخرین کا درجہ : فرمایا (آیت) ” والذین امنوا من بعد وہ لوگ جو اس کے بعد ایمان لائے یعنی متقدمین کے بعد متاخرین کا دور آیا (آیت) ” وھاجروا وجٰھدوا معکم “ انہوں نے بھی تمہارے ساتھ ہجرت کی اور جہاد کیا (آیت) ” فاولئٰک منکم “ یہ بھی تم میں سے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ فتح مکہ سے پہلے جو لوگ ہجرت کر کے مدینہ طیبہ آگئے ، وہ پہلے دور کے لوگ تھے ، فرمایا جب مکہ فتح ہوگیا تو وہ دور ختم ہوگیا ، پھر حضور ﷺ نے فرمایا ” لا ھجرۃ بعد الیوم “ آج کے بعد کوئی ہجرت نہیں اب مکہ دارالسلام بن گیا تھا۔ مگر آئندہ کے لیے ہجرت کا یہ قانون وجع ہوگیا کہ جہاں بھی مسلمان مغلوب ہوجائیں اور شعائر دین پر آزادی کے ساتھ عمل پیرا نہ ہو سکیں۔ تو ان کے لیے ہجرت لازم ہو جائیگی ، پھر وہ بھی اگر اہل ایمان کے ساتھ مل کر جہاد کریں گے تو وہ متقدمین کے درجات پر فائز ہوں سپین میں کیا ہوا ؟ وہاں پر دو کروڑ مسلمان آباد تھے ، مگر جب کمزوری آئی تو وہاں سے ہجرت کرنا پڑی بہت سے مسلمانوں کو عیسائی بنالیا گیا ، بہت سے مار ڈالے گئے اور صرف گیارہ ہزار باقی بچے جنہیں مجبورا ہجرت کرنا پری تو فرمایا جو لوگ بعد میں ایمان لائے اور پہلے لوگوں کے ساتھ جہاد میں شریک ہوئے وہ بھی انہیں میں سے ہیں ، اللہ کے ہاں ان کی بھی ویسی ہی قدرومنزلت ہے۔ مواخات اور وراثت : پہلییہ بیان ہوچکا ہے کہ حضور ﷺ نے انصار مدینہ اور اولین مہاجرین کے درمیان رشتہ اخوت قائم کردیا تھا۔ ایک ایک انصاری اور ایک ایک مہاجر کو بھائی بھائی بنا دیا تھا ، وہ نہ صرف ایک دوسرے کے مال و دولت ، دکان مکان اور زمین میں شریک ہوگئے تھے بلکہ اگر ایک بھائی مر جاتا تو دوسرا اس کی وراثت کا حقدار بھی ہوجاتا اس وقت مسلمانوں کی تعداد قلیل تھی مگر فتح مکہ کے بعد جب مسلمانوں کی تعداد میں بےشما راضافہ ہوگیا ، مہاجرین اور انصار کے رشتہ دار بھی ایمان لے آئے تو اللہ نے فرمایا کہ مہاجر وانصار کا دوستی کا رشتہ تو ہمیشہ کے لیے قائم رہیگا ، البتہ وراثت متوفی کے قریبی رشتہ داروں کا حق ہو ہوگا مواخات کی بنا پر وراثت کا قانون باقی نہیں رہے گا۔ ارشاد ہوا (آیت) ” واولوا الارحام بعضھم اولیٰ ببعض بی کتٰب اللہ “ اللہ کی کتاب میں تم میں سے بعض کے رشتہ دار بعض سے زیادہ قریب ہیں۔ یعنی وراثت کا قانون یہ ہوگا کہ وہ دینی بھائی کی بجائے حقیقی اقرباء کی طرف منقل ہوجائے گی یعنی جب کوئی مہاجر یا انصار فوت ہوگیا تو اس کی وراثت کا حقدار اس کا باپ ، بھائی ، چچا ، تایا وغیر ہوگا بشرطیکہ وہ مسلمان ہو کیونکہ مسلما اور کافر ایک دوسرے کے وراث نہیں بن سکتے۔ البتہ مواخات کے قانونِ وراثت کی افادیت موقع محل کے مطابق ہمیشہ قائم رہے گی۔ اگر کوئی مسلمان کسی ایسی جگہ ہجرت کر کے جاتا ہے جہاں اس کے مسلمان رشتہ دار نہیں ہیں اور وہ اپنے مسلمان بھائی سے رشتہ مواخات میں منسلک ہوجاتا ہے جو کسی ایک بھائی کی وفات پر دوسرا بھائی اس کا وارث ہوگا اس قسم کے واقعات صحابہ ؓ کے بعد بھی پیش آئے اہل ایمان خراسان اور عراق وغیر ہ کی طرف جاتے تھے جہاں ان کا کوئی عزیز نہیں ہوتا تھا اور وہ دوسرے سے مواخات کرلیتے تھے تو ایک دوسرے کی وراثت کے حقدار ہوتے تھے گویا ولاء کا یہ مسئلہ اب بھی قائم ہے اور حالات کے مطابق اسے قانون حیثیت حاصل ہے اس زمانے میں بھی اگر کوئی امریکن مسلمان ہو کر پاکستان میں مقیم ہوجاتا ہے اس کے سارے عزیز و اقارب امریکہ میں ہیں اور وہ مسلمان بھی نہیں ہیں ، تو ایسی صورت میں اس شخص کا وراث وہی پاکستانی ہوگا جس کے ساتھ اس نے باقاعدہ دوستانہ اختیار کرلیا ہے اگر اس کے کوئی مسلمان رشتہ دار موجود ہیں تو وہ جہاں بھی ہوں گے اس کی وراثت کے جائز حقدار ہوں گے۔ وراثت کا عام قانون : امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ عام قانونِ وراثت کے مطابق ترکہ میں سب سے پہلے ان رشتہ داروں کا حق ہوتا ہے جن کا حسہ للہ نے قرآن میں نام لے کر مقرر کیا ہے ، وہ رشتہ دار ذوی الفروض کہلاتے ہیں دوسرے نمبر پر عصبہ ہیں جو باپ کی طرف سے قریبی رشتہ دار ہوں مثلا باپ بیٹا چچا تایا اور ان کی اولاد وغیرہ ۔ اس کے بعد امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ اگر کسی میت کو ذوی الفروض اور عصبہ دونوں نہ ہوں تو ترکہ مسلمانوں کے بیت المال میں جمع ہوجائے گا۔ البتہ امام ابوحنیفہ (رح) کا مسلک یہ ہے کہ عصبہ کے بعد ذوی الارحام کا نمبر آتا ہے یعنی اگر باپ کی طرف سے کوئی رشتہ دار موجود نہ ہوں تو ماں کی طرف سے رشتہ دار حق دار ہوں گے جیسے ماموں ، ماموں زاد ، بھانجہ وغیرہ ، اگر ان میں سے بھی کوئی زندہ موجود نہ ہو تو پھر چوتھے نمبر پر مرنے والے کا مال بیت المال میں جمع ہو کر تمام مسلمانوں کی مشترکہ وراثت بن جائیگا۔ اللہ کی کتاب سے مراد قرآن مجید ہے کہ قرآن پاک اور لوح محفوظ میں یہی قانون درج ہے فرمایا (آیت) ” ان اللہ بکل شئی علیم اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والا ہے اس نے تمام احکام اپنے علم اور حکمت کے مطابق جاری فرمائے ہیں انسانوں کی بہترین اسی میں ہے کہ ان قوانین پر عمل کریں ہر کام کی مصلحت اللہ تعالیٰ کے بہترین علم میں ہے۔
Top