Mualim-ul-Irfan - At-Tawba : 107
وَ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّ كُفْرًا وَّ تَفْرِیْقًۢا بَیْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ مِنْ قَبْلُ١ؕ وَ لَیَحْلِفُنَّ اِنْ اَرَدْنَاۤ اِلَّا الْحُسْنٰى١ؕ وَ اللّٰهُ یَشْهَدُ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اتَّخَذُوْا : انہوں نے بنائی مَسْجِدًا : مسجد ضِرَارًا : نقصان پہنچانے کو وَّكُفْرًا : اور کفر کے لیے وَّتَفْرِيْقًۢا : اور پھوٹ ڈالنے کو بَيْنَ : درمیان الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) وَاِرْصَادًا : اور گھات کی جگہ بنانے کے لیے لِّمَنْ : اس کے واسطے جو حَارَبَ : اس نے جنگ کی اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول مِنْ : سے قَبْلُ : پہلے وَلَيَحْلِفُنَّ : اور وہ البتہ قسمیں کھائیں گے اِنْ : نہیں اَرَدْنَآ : ہم نے چاہا اِلَّا : مگر (صرف) الْحُسْنٰى : بھلائی وَاللّٰهُ : اور اللہ يَشْهَدُ : گواہی دیتا ہے اِنَّھُمْ : وہ یقیناً لَكٰذِبُوْنَ : جھوٹے ہیں
اور وہ لوگ جنہوں نے بنائی ہے مسجد ضرار ( ضرر پہنچانے کے لیے) اور کفر کرنے کے لیے اور ایمان والوں کے درمیان تفریق ڈالنے کے یے اور گھات لگانے کے لیے اس شخص کے واسطے جس نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ لڑائی کی ہے اس سے پہلے۔ اور البتہ یہ لوگ قسمیں اٹھائیں گے کہ ہم نے نہیں ارادہ کیا مگر نیکی کا۔ اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ یہ لوگ جھوٹے ہیں
ربط آیات : گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان مومنوں کا حال ذکر کیا تھا جو کوتاہی اور سستی کی وجہ سے جہاد میں شریک نہ ہو سکے۔ ان میں سے ایک گروہ کو اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا۔ انہوں نے اعتراف گناہ کرکے اپنے آپ کو مسجد کے ستونوں سے باندھ دیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرما کی ان کی معافی کا اعلان کردیا۔ تین آدمیوں کے دوسرے گروہ پر کڑی آزمائش تھی لہٰذا ان کا معاملہ اللہ نے موخر کردیا ، یہاں پر بھی ان کا بیان بعد میں آئیگا۔ آب آج کی آیات میں بھی پکے مناقفین ہی کا ذکر ہو رہا ہے ، جن کے دل میں ایمان نہیں تھا ، اور وہ طرح طرح کی سازشیں کر کے اہل ایمان کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے۔ ایسے ہی منافقوں نے مدینہ میں ایک خاص سازش تیر کی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے ان آیات کے ذریعے اس کو ظاہر فرما دیا اور مسلمانوں کو اس کے نقصان سے بچا لیا۔ ابو عامر راہب : مدینہ کا ایک آدمی ابو عامر راہب بڑا معزز آدمی تھا ، پہلے اس نے یہودیت اختیار کی پھر عیسائی ہوا۔ بڑا عابد ، زاہد آدمی تھا ، موٹے کپڑے پہنچا تھا جب حضور ﷺ مدینہ تشریف لے آئے تو اس شخص نے اسلام قبول نہ کیا بلکہ عیسائیت پر اڑا رہا۔ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو دریافت کیا حضور ! آپ کیا چیز پیش کرتے ہیں آپ نے فرمایا میں ملت حفنیہ کو پیش کرتا ہوں۔ ابو عامر کہنے لگا کہ میں تو پہلے ہی اس ملت پر ہوں لہٰذا مجھے آپکا اتباع کرنے کی ضرورت نہیں ہے مگر حقیقیت یہ تھی کہ وہ شخص ملت ابراہیمی پر قطعا نہیں تھا بلکہ اس ملت کی بگڑی ہوئی شکل عیسائیت کا پیروکار تھا ، اس نے حضور ﷺ کے متعلق سخت قسم کے الفاظ استعمال کیے اور دعا کی کہ ہم میں سے جو آدمی جھوٹا ہے اللہ اسے غریب الوطنی اور بےکسی کی حالت میں ہلاک کرے۔ حضور ﷺ نے اس دعا پر آمین کہا۔ یہ شخص مشرکوں کے ساتھ مل کر اسلام اور اہل اسلام کی کھلی مخالفت کرتا تھا۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ جنگ احد کے موقع پر اس شخص نے دونوں لشکروں کے درمیان بہت سے گڑھے کھدوائے تھے۔ تا کہ مسلمانوں کو نقصان پہنچایا جاسکے۔ انہی گڑھوں میں سے ایک گڑھے میں خود حضور نبی کریم (علیہ السلام) بھی دوران جنگ گر گئے تھے اور آپ کو سخت چوٹیں آئی تھیں۔ بعد میں جنگ خندق کے موقع پر بھی اس نے مشرکین کی مدد کی اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا حتی کہ جنگ حنین تک یہ شخص مسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیاں کرتا رہا۔ پھر جب یہ اپنے تمام منصوبوں میں ناکام ہوگیا ، مشرکوں کے خلاف مسلمانوں کا پلہ بھاری ہوتا چلا گیا تو یہ شخص بھاگ کر ملک شام چلا گیا۔ جاتے وقت کہ گیا کہ میں رومی بادشاہوں سے مک کر مسلمانوں کے خلاف ایک لشکر لے کر آئوں گا اور انہیں شکست فاش دوں گا۔ مسجد ضرار کی سازش : ابو عامر نے مدینہ کے منافقین سے ساز باز کر کے انہیں اس بات پر آمادہ کرلیا کہ وہ بنی سالم کے محلہ میں مسجد قبا کے علاوہ ایک اور مسجد تعمیر کریں جسے منافقین تخریب کے لیے اڈے کے طور پر استعمال کرسکیں ابو عامر کا خیال تھا کہ وہ خود یا اس کا کوئی آدمی باہر سے آئے گا تو مسجد میں ہی ٹھہر کر پیغام رسانی کا کام کریگا۔ اور کسی کو اس قسم کی سازش کا علم نہیں ہو سکے گا۔ لوگ سمجھیں گے کہ کوئی مسافر ہے اور عبادت وریاجت کے لیے مسجد میں مقیم ہے۔ جب یہ مسجد تیار ہوگئی تو منافقین حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ موجودہ مسجد قبا ہم سے دور ہے۔ بارش ، تاریکی اور طوفان وغیرہ میں ہم وہاں نہیں پہنچ سکتے ، اس لیے ہم نے اپنے محلہ میں ایک اور مسجد تیار کی ہے ، آپ سے درخواست ہے کہ آپ وہاں چل کر نماز ادا کریں تا کہ ہمیں خیر و برکت حاصل ہو۔ چونکہ ان ایام میں حضور ﷺ غزوہ تبوک کی تیاری میں مصروف تھے لہٰذا آپ نے فرمایا کہ اس وقت تو میں فارغ نہیں ہوں تبوک سے واپسی پر انشاء اللہ تمہارے ہاں آئوں گا۔ مگر واپس مدینہ پہنچنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے منافقین کی اس سازش کو بےنقاب کردیا۔ اللہ نے آیات نازل فرما کر ظاہر کردیا کہ یہ نام نہاد مسجد اسلام کے خلاف سازشیں کرنے کے لیے تیار کی گئی ہے۔ اس سے مقصود کفر کا فروغ اور مسلمانوں کے درمیان تفریق ڈالنا ہے۔ جب کچھ مسلمان مسجد قبا میں نہیں جاسکیں گے تو ان کا رابطہ مخلص مسلمانوں سے کٹ جائیگا اور وہ دین کی تعلیمات سے کماحقہ استفادہ نہیں کرسکیں گے اور اس طرح مسلمانوں کے درمیان تفریق پیدا ہونے کا احتمال ہوگا۔ مسجد قبا : یاد رہے کہ مسجد قبااسلام کی اولین مسجد ہے۔ جب حضور ﷺ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ طیبہ آرہے تھے تو بنی سالم کے محلہ میں آپ نے چودہ دن تک قیام فرمایا تھا اور اسی دوران اس مسجد کی بنیاد رکھی تھی۔ احادیث میں اس مسجد کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ جو شخص اخلاص کے ساتھ مسجد قبا میں ایک نماز ادا کرے گا ، اللہ تعالیٰ اسے ایک عمرے کا ثواب عطا کریگا۔ چناچہ حضور ﷺ خود ہفتے میں دو بار کبھی پیدل اور کبھی سوار اس مسجد میں تشریف لاتے اور نماز ادا کرتے۔ مسجد ضرار کی قباحت : ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” والذین اتخذوا مسجدا ضرارا “ وہ لوگ جنہوں نے بنائی ہے مسجد ضرار یعنی ضرر یا تکلیف پہنچانے کے لیے۔ حقیقت میں مسجد تو اللہ تعالیٰ کی عبادت و ریاضت اور اعتکاف کرنے کے لیے بنائی جاتی ہے مگر منافقین نے جو مسجد ایک سازش کے تحت تیار کی تھی اس سے مسلمانوں کو نقصان پہنچانا مقصود تھا۔ وکفرا اس مسجد کی آر میں وہ کفر کی ترویج کرنا چاہتے تھے اور اسلام کو مغلوب کرنا چاہتے تھے۔ اس کے علاوہ ایک مقصد یہ بھی تھا (آیت) ” وتفریا بین المومنین “ کہ مومنوں کے درمیان تفریق ڈال دی جائے۔ یہ مختلف گروہوں میں بٹ جائیں ، کچھ ایک مسجد میں جائیں ، کچھ دوسری میں اور اس طرح ان کا آپس میں رابطہ کٹ جائے اور یہ آسانی سے منافقین کی سازشوں کا شکار ہو سکیں۔ ابو عامر کی سکیم کے مطابق اس مسجد کو سازش کا اڈا بنانا مقصود تھا (آیت) ” وارصاد لمن حارب اللہ ورسولہ من قبل “ یعنی جو شخص اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ پہلے ہی لرتا رہا ہے اس کے لیے یہ مسجد کمین گاہ کا کام دے سکے۔ وہ خود یا اس کے آلہ کار آدمی یہاں ٹھہر کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف منصوبہ بنا سکیں۔ اس سے مراد ہی ابو عامر راہب ہے۔ جو شام کی طرف جاتے وقت یہ ساری سکیم بنا گیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس نظریے کے تحت تیار کی گئی مسجد مسجد کہلانے کی مستحق ہی نہیں بلکہ اس کے لیے تو کفر گڑھ کا نام زیادہ موزوں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کہ ابو عامر جس قدر دشمن اسلام تھا ، اس کا بیٹا حضرت حنظلہ اسی قدر پکا مسلمان تھا۔ یہ وہی حضرت حنظلہ ہیں جنہیں غسیل ملائکہ کا لقب حاصل ہوا ۔ جنگ احد کا موقع تھا۔ جب جنگ کا ہجوم زیادہ وہوا تو یہ صحابی رسول فورا گھر سے ہتھیار پہن کر نکلا ، جہاد میں شامل ہوا اور شہید ہوگیا۔ حضور نے فرمایا کہ میں نے زمین اور آسمان کے درمیان دیکھا ہے کہ فرشتے حضرت حنظلہ ؓ کو غسل دے رہے ہیں۔ بعد میں آپ کی بیوی نے اس بات کی تصدیق کی کہ انہیں غسل کی حاجت تھی مگر جلدی میں بغیر غسل کیے ہی جنگ میں شریک ہوگئے اور شہادت پائی۔ بہرحال اس کے باپ دشمن دین ابو عامر کو اس کی اپنی بددعا لگی اور وہ دیارغیر میں بےکسی کی حالت میں مرا۔ جب غزوہ تبوک برپا تھا تو یہ شخص اس وقت ملک شام میں تھا اور وہیں غیرب الوطنی میں نہایت بےکسی کی حالت میں اسے موت آئی۔ فرمایا کہ منافقین نے مسجد تو غلط مقصد کے لیے بنائی ہے مگر (آیت) ” ولیحلفن ان اردنا الا الحسنی “ یہ قسمیں اٹھائیں گے کہ ہمارا مقصد تو محض بھلائی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ بارش وغیرہ میں لوگوں تکلیف نہ ہو اور وہ آسانی سے یہیں نماز ادا کرلیا کریں۔ اللہ نے فرمایا (آیت) ” واللہ یشھدانھم لکذبون “ اللہ تعالیٰ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ یہ لوگ بالکل جھوٹے ہیں۔ ان کی بات پر یقین نہیں کرنا۔ یہ زبان سے کچھ کہ رہے ہیں اور دل میں کچھ اور ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ، (آیت) ” لا تقم فیہ ابدا “ کہ آپ اس مسجد ضرار میں کبھی کھڑے نہ ہوں۔ یہ منافق لوگ آپ کو وہاں نماز پڑھنے کی دعوت دیتے ہیں۔ مگر وہاں جانا ہرگز آپ کے شایانِ شان نہیں ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے حکم دیا کہ اس مسجد کو جلا دیا جائے اور گرا دیا جائے۔ چناچہ صحابہ ؓ گئے اور اس حکم کی تعمیل کر ڈالی۔ تعمیر مساجد کا مقاصد : اس آیت سے متبادر ہوتا ہے کہ مساجد کی تعمیر اللہ تعالیٰ کی عبادت و ریاضت کے لیے ہو سکتی ہے۔ جو مسجد ریاکاری یا کسی غلط مقصد کے لیے تعمیر کی جائیگی وہ بظاہر تو مسجد ہی ہوگی مگر حقیقت میں کچھ اور ہی ہوگی۔ لاگت بازی ، ریاکاری اور محض چوہدراہٹ کے لیے تیار کی جانے والی مسجد کو مسجد ضرار کا نام ہی دیا جاسکتا ہے اور یہ حقیقت میں نقصان کا باعث ہوگی۔ اگر انصاف سے دیکھا جائے تو موجودہ زمانے میں بہت سی مسجدیں اسی حکم میں آتی ہیں۔ اسی طرح ہر چھوٹی بڑی مسجد میں نماز جمعہ کا اہتمام اسلام کی ترقی کے لیے نہیں بلکہ یہ اسلام کے زوال کی علامت ہے۔ نماز جمعہ کا اجتماع تو مسلمانوں کی اجتماعیت کا ذریعہ تھا مگر آج چپے چپے پر جمعہ کا ادائیگی نے مسلمانوں کی اجتماعیت کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ جمعہ کے اس قسم کے اجتماعات تعصب ، تنگ نظری اور غلط نظریات کے پھیلانے کا باعث بن رہے ہیں۔ اس سے تفریق بین المسلمین ہو رہی ہے۔ اپنے اپنے فرقے کی اشتہار بازی کے لیے مسجدوں کو اڈے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے اور دوسروں کو گالی گلوچ اور فتوے بازی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ دین کی خدمت نہیں بلکہ دین کے خلاف تخریف کاری ہے یہ بالکل ایسا ہے۔ جیسے منافقین نے مسجد ضرار بنا ڈالی تھی۔ مگر اللہ نے حضور ﷺ کو وہاں جانے سے روک دیا۔ اس مسجد کو منہدم کردیا گیا اور وہ جگہ کوڑا کرکٹ ڈالنے کے لیے استعمال ہونے لگی۔ مسجد علی التقوی : مسجد ضرار کے مقابلے میں اللہ نے حقیقی مسجد کی تعریف فرمائی (آیت) ” لمسجد اسس علی التقوی من اول یوم احق ان تقوم فیہ “ جو مسجد روز اول سے تقوی کی بنیاد پر تعمیر ہوئی ہے ، اس میں آپ کے کھڑے ہونے کا زیادہ حق ہے۔ مسجد تقوی سے مراد مسجد نبوی اور مسجد قبا دونوں ہیں اس لیے کہ دونوں کی بنیاد حضور ﷺ نے پہلے دن سے ہی تقوی پر رکھی تھی۔ پھر مسجد نبوی کی خصوصیت تو یہ ہے کہ وہاں پر اخلاص کے ساتھ ایک نماز ادا کرنے کا ثواب پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے۔ فرمایا آپ اس مسجد میں کھڑے ہوں (آیت) ” فیہ رجال یحبون ان یتطھروا “ وہ ان پر ایسے مرد ہیٰں جو پاک ہونے کو پسند کرتے ہیں (آیت) ” واللہ یحب المطھرین “ اور اللہ تعالیٰ طہارت حاصل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے اللہ نے اہل محلہ کی تعریف بیان کی ہے کہ صفائی پسند لوگ ہیں ، لہذا اللہ تعالیٰ ان کو پسند کرتا ہے ، حضور ﷺ نے ان لوگوں سے دریافت کیا کہ تم کونسا عمل کرتے ہو ، جس کی وجہ سے اللہ نے تمہاری تعریف کی ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم طہارت کا بڑا خیال رکھتے ہیں۔ استنجا پاک کرنے کے لیے ہم پہلے ڈھیلے استعمال کرتے ہیں اور پھر پانی ۔ حضور نے فرمایا ، اس عمل کو قائم رکھنا کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ عمل ہے۔ اور پھر یہ بھی ہے کہ طہارت صرف ظاہری مراد نہیں بلکہ کفر ، شرک ، نفاق ، بدعقیدگی ، ترک جہاد وغیرہ سے باطنی طہارت بھی مراد ہے ، بہرحال فرمایا کہ مسجد قبا کی بنیاد روز اول سے تقوی پر رکھی گئی اور وہاں کے لوگ بھی طہارت پسند ہیں۔ آداب مسجد : فرمایا (آیت) ” افمن اسس بنیانہ علی تقوی من اللہ ورضوان خیر “ کیا وہ شخص بہتر ہے جس نے اپنی مسجد کی بنیاد خوفِ خدا اور اس کی خوشنودی پر رکھی (آیت) ” امن اسس بنیانہ علی شفا جرف ھار “ یا وہ شخص اچھا جس نے اپنی عمارت کی بنیاد کھائی کے کنارے پر رکھی جو گرنے والا ہے۔ ظاہر ہے کہ مسجدیں تو اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی رضا کے لیے تعمیر کی جاتی ہیں۔ البتہ آخری دور کے متعلق حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا ” مساجد عامرۃ وھی خراب من الھدی “ ظاہری طور پر تو مسجدیں آباد ہوں گی۔ مگر ہدایت سے خالی ہوں گی۔ مساجد میں کفر وشرک کا چرچا ہوگا ، نعت خوانی اور غزل ہوگی ، فرقہ بندی کے حق میں تقرریں ہوں گی شرک اور بدعات کی باتیں ہوں گی ، قوالی ہوگی اور رسومات ادا ہوں گی۔ بعض اوقات تو ظاہری ادب بھی ملحوظ نہیں رکھا جائے گا۔ حتی کہ مسجدوں میں گپیں لگائی جائیں گی۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دلوں سے خشوع اڑ جائے گا۔ ایک مسجد میں پانچ سو نمازی ہوں گے مگر خشوع سے سب خالی ہوں گے۔ حضور نے فرمایا مسجدیں جنت کے باغ ہیں ، وہاں جا کر لوگوں کو چرچگ لینا چاہیے۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا حضور ! اس سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا مسجدوں میں بیٹھ کر اللہ کا ذکر کیا کرو ، یہ جنت کے پھل کھانے کے مترادف ہے۔ وہاں پر اعتکاف بیٹھو ، تلاوت قرآن کرو ، استغفار کرو ، دین کی تعلیم حاصل کرو۔ اس کے برخلاف فضول حرکات مت کرو۔ بہرحال اللہ نے فرمایا کہ مسجد کی بنیاد اللہ کے تقوے اور اس کی رضا پر ہے۔ نیت کی خرابی : اس آیت کریمہ میں آمدہ لفظ شفا کا معنی کنارہ ہے جرف دریا یا ندی کے اس کنارے کو کہتے ہیں جو پانی کی وجہ سے کاٹا جا رہا ہو۔ یہ کنارہ اتنا کمزور ہوتا ہے کہ معمولی سے دبائو سے بھی گر پڑتا ہے ظاہر ہے کہ جو عمارت اس قدر کمزور جگہ پر بنائی جائیگی وہ یقینا گر جائے گی۔ تو فرمایا مسجد ضرار کی مثال ایسی عمارت کی ہے جو کمزور ترین کنارے پر بنائی گئی ہو جو گرنے والا ہو اور جس کے منہدم ہونے کا ہر وقت خطرہ لاحق ہو۔ فرمایا اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جب ایسی کچھ جگہ پر بنائی گئی عمارت گریگی (آیت) ” فانھار بہ فی نار جھنم “ پھر وہ بنانے والے کو بھی جہنم کی آگ میں لے گریگی تو فرمایا بھلا یہ مسجد اچھی ہے جس کی بنیاد تقوی اور خوشنودی الٰہی پر ہے یا وہ اچھی ہے جو گرنے کے قریب ہے اور وہ تعمیر کرنے والے کو بھی لے ڈوبے گی۔ ظاہر ہے کہ مسجد وہی بہتر ہے جو اللہ کی رضا کی خاطر تعمیر کی جائے اور خالص اللہ کی عبادت کے لیے استعمال ہو ، فرمایا (آیت) ” واللہ لا یھدی القوم الظلمین “ اور اللہ تعالیٰ ظلم کرنے والے لوگوں کی راہنمائی نہیں کرتا ۔ منافق چونکہ بدنیت تھے انہوں نے مسجد کی تعمیر تخریب کاری کے لیے کی تھی ، فرمایا ایسے لوگ راہ راست پر کبھی نہیں آسکتے۔ ایسے بدنیت لوگوں کو اللہ سیدھی راہ نہیں دکھاتا۔ فرمایا (آیت) ” لا یزال بنیانھم الذی بنوریبۃ فی قلوبھم “ ان کی تعمیر کردہ عمارت ہمیشہ ان کے دلوں میں کھٹکی رہیگی۔ انہیں اس بات کا کھٹکا لگا رہے گا کہ ہم نے تو کچھ اور سکیم بنائی تھی مگر ہو کچھ اور گیا۔ وہ ہمیشہ اس تردد میں پڑے رہیں گے (آیت) ” الا ان تقطع قلوبھم “ مگر یہ کہ ان کے دل ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں یعنی وہ مرجائیں۔ گویا مرتے دم تک ان کے دل میں کھٹکا موجود رہیگا اور ان کی یہ مسجد نفاق کی علامت ہی رہے گی وہ اسلام اور اہل اسلام کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے ، اس کے لیے انہوں نے بڑی گہری سازش کی مگر اللہ نے ان کا سارا منصوبہ ناکام بنا دیا۔ فرمایا۔ یاد رکھو ! (آیت) ” واللہ علیم حکیم “ اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے ، مالک الملک اخلاص کو بھی جانتا ہے اور نفاق اور سازش بھی اس کے علم میں ہے۔ وہ ہر غلط منصوبے کو ناکام کرنے پر قادر ہے ، چناچہ اس نے منافقین کا یہ منصوبہ بھی ناکام بنایا اور اپنے نبی کو مسجد ضرار میں جانے سے منع کردیا۔ اللہ تعالیٰ حکیم ہے کہ اس کا ہر کام حکمت پر مبنی ہے۔
Top