Mualim-ul-Irfan - At-Tawba : 124
وَ اِذَا مَاۤ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ فَمِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ اَیُّكُمْ زَادَتْهُ هٰذِهٖۤ اِیْمَانًا١ۚ فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَزَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّ هُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ
وَاِذَا مَآ : اور جب اُنْزِلَتْ : نازل کی جاتی ہے سُوْرَةٌ : کوئی سورة فَمِنْھُمْ : تو ان میں سے مَّنْ : بعض يَّقُوْلُ : کہتے ہیں اَيُّكُمْ : تم میں سے کسی زَادَتْهُ : زیادہ کردیا اس کا هٰذِهٖٓ : اس نے اِيْمَانًا : ایمان فَاَمَّا : سو جو الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : وہ ایمان لائے فَزَادَتْھُمْ : اس نے زیادہ کردیا ان کا اِيْمَانًا : ایمان وَّھُمْ : اور وہ يَسْتَبْشِرُوْنَ : خوشیاں مناتے ہیں
اور جب نازل کی جاتی ہے کوئی سورة تو بعض ان منافقین میں سے وہ ہیں جو ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ کس کا زیادہ کیا ہے اس نے ایمان۔ بہرحال وہ لوگ جو ایمان لائے پس یہ سورة ان کے ایمان کو زیادہ کرتی ہے اور وہ خوش ہوتے ہیں
ربط آیات : سورۃ توبہ میں زیادہ تر جہاد اور قتال کے متعلقات کا ذکر ہے منافقین کا ذکر بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ یہ لوگ جہاد میں عدم شرکت کے لیے حیلے بہانے بناتے تھے ، لہٰذا للہ تعالیٰ نے ان کی مذمت بیان فرمائی ہے۔ اسی سورة میں ضمنا بعض دوسرے مسائل بھی آگے ہیں۔ اب آخر میں بھی منافقین ہی کی قباحتوں کا ذکر ہے اور اس سے مقصود یہ ہے کہ اہل ایمان ان کی سازشوں سے خبردار رہیں کیونکہ یہ خطرناک گروہ ہے اور ان کی سرگرمیاں مسلمانوں کے حق میں سخت مضر ہیں۔ دین کے چار دشمن :ـ شاہ عبدالعزیز دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ دین اسلام کے چار دشمن ہیں جن میں سے دو ظاہری اور دو باطنی ہیں۔ باطنی دشمنوں میں نفس اور شیطان ہیں ، جو انسان کو ہمیشہ برائی پر آمادہ کرتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں سے مقابلے کا طریقہ بھی بتایا ہے۔ اور بیرونی دشمنوں میں کافر اور منافق ہیں۔ کافر لوگ تو کھلے عام دین اسلام کا مقابلہ کرتے ہیں ، لہٰذا مسلمان بھی ان سے بچنے کی تدابیر کرتے ہیں۔ بلکہ جوابی حملہ کے لیے بھی سرگرم رہتے ہیں۔ البتہ منافقوں کا گروہ سخت خطرناک ہے کیونکہ یہ لوگ علی الاعلان اسلام کے مقابلے پر نہیں آتے بلکہ خفیہ سازشیں کر کے نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آخری دور کی سورة توبہ کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے دیگر سورتوں میں بھی منافقین کا حال تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے اور ان کی ریشہ دوانیوں سے خبردار کر کے اپنا دفاع کرنے کی تلقین کی ہے۔ اعتقادی منافقوں کا نفاق تو آسانی سے معلوم نہیں ہوتا کیونکہ ان کی تمام سرگرمیاں درپردہ ہوتی ہیں۔ البتہ جب اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے ان کا پردہ چاک کردیتا تو عام مسلمان بھی ان کی حرکات سے آگاہ ہوجاتے ۔ اب چونکہ سلسلہ وحی ختم نبوت کے ساتھ بھی بند ہوچکا ہے لہٰذا اب ان کے نفاق کا اظہار مشکل ہوگیا ہے۔ اس کے برخلاف عملی منافق ہر دور میں رہے ہیں اور قیامت تک موجود رہیں گے اگرچہ یہ لوگ ایمان کا دعوی کرتے ہیں مگر ان کے خصائل منافقوں جیسے ہوتے ہیں۔ یہ اپنے آپ کو ایماندار کہتے ہیں مگر ایمان سے خالی ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنی جماعت کو منافقوں سے پاک رکھیں۔ ایمان میں اضافہ : آج کے درس میں بھی اللہ تعالیٰ نے منافقوں کی بعض بری خصلتوں کا ذکر فرمایا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” واذا ما انزلت سورة “ جب قرآن پاک کی کوئی سورة نازل ہوتی ہے (آیت) ” فمنھم من یقول “ تو ان میں سے بعض منافقین کہتے ہیں (آیت) ” ایکم زادتہ ھزہ ایمانا “ تم میں سے کون ہے جس کا ایمان اس نازل ہونے والی سورة نے زیادہ کیا ہے ؟ یہ بات وہ تمسخر ، طعن اور طنز کے طور پر کرتے ہیں۔ سورة انفال کی ابتداء میں گزر چکا ہے کہ مومن لوگ وہ ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں (آیت) ” واذا تلیت علیھم ایتہ زادتھم ایمانا “ اور جب ان کے سامنے آیات الٰہی کی تلاوت کی جاتی ہے تو ان کے ایمان بڑھ جاتے ہیں۔ مگر منافقوں کا حال یہ ہے کہ کوئی نئی آیت یا سورة سن کر ایک دوسرے سے کن انکھیوں سے باتیں کرتے ہوئے استہزا کہتے ہیں کہ بھلا اس سورة سے کس کا ایمان بڑھا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے منافقوں کے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا (آیت) ” فاما الذین امنوا فزادتھم ایمانا “ جو لوگ حقیقت میں ایمان رکھتے ہیں ، ان کا ایمان واقعہ بڑھ جاتا ہے (آیت) ” وھم یستبشرون “ اور وہ خوش ہوتے ہیں کہ الہ تعالیٰ نے ان کے فائدے کے لیے کوئی نئی سورة نازل فرمائی ہے۔ نئی سورة میں ایسے احکام ہوں گے جن پر عملدرآمد کرنے سے اہل ایمان کو دنیا وآخرت میں فائدہ حاصل ہوگا ، یا ایسے احکام ہوں گے جن میں بعض قبیح چیزوں سے بچنے کی تلقین ہوگی۔ بہرحال ایمان والے لوگوں کے دلوں میں جذبہ عمل بیدار ہوگا اور وہ نئی سورة پر عمل کر کے مزید فوائد حاصل کرنے کی وجہ سے خوش ہوجائیں گے۔ شاہ عبدالقادر (رح) فرماتے ہیں کہ اگر اہل ایمان کے دلون میں پہلے سے کوئی کھٹکا ہوتا ہے اور وہ نئی سورة کے نازل ہونے سے دور ہوجاتا ہے تو یہ چیز بھی مسلمانوں کے لیے خوشی کا باعث بنتی ہے۔ نجاست میں اضافہ : اللہ نے فرمایا نئی سورة کے نزول پر منافقوں کی حالت یہ ہوتی ہے (آیت) ” واما الذین فی قلوبھم مرض “ بہرحال جن لوگوں کے دلوں میں نفاق کا مرض ہوتا ہے۔ کفر ، شرک ، الحاد اور شک کی طرح نفاق بھی روحانی بیماری ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے زخم میں پیپ پڑجائے۔ جب خون پیپ میں تبدیل ہونا شروع ہوجائے تو انسانی جسم تازہ خون سے محروم ہو کر ہلاک ہوجاتا ہے۔ اسی طرح نفاق ایک مرض ہے جس سے انسان کی روح خراب ہوجاتی ہے۔ لہٰذا جن کے دلوں میں نفاق کی غلاظت ہے تو نئی سورة (آیت) ” فزادتھم رجسا الی رجسھم “ ان کی گندگی میں اضافہ کردیتی ہے ان کی پہلی گندگی کے ساتھ۔ ان کے دلوں میں پہلے ہی غلاظت ہوتی ہے تو نئی سورة اس میں مزید اضافہ کردیتی ہے (آیت) ” وماتوا وھم کفرون “ اور کفر ہی کی حالت میں ان کی موت واقع ہوتی ہے۔ بہرحال ہر سورة ایک طرف اہل ایمان کے لیے علم ، ایمان اور ہدایت میں اضافہ کا باعث بنتی ہے تو دوسری طرف منافقوں کے نفاق کی غلاظت میں اضافہ کرتی ہے سورة حم السجدۃ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے (آیت) ” قل ھو للذین امنوا ھدی وشفائ “ قرآن پاک اہل ایمان کے لیے ہدایت اور شفا ہے (آیت) ” والذین لا یومنون فی اذانھم وقر وھو علیھم عمی “ اور جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں بہرہ پن ہوتا ہے اور قرآن ان کے اندھا پن میں اضافہ کرتا ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ جب تک انسان میں نفاق کی گندگی موجود ہوتی ہے ، وہ قرآن پاک اور پیغمبر کی ذات سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ جب تک گندگی دور نہ ہو قرآنی آیات فائدہ نہیں پہنچاتیں ، اسی لیے بزرگان دین فرماتے ہیں کہ پہلے تخلیہ اور تنقیہ ضروری ہے۔ انسانی ذہن کفر ، شرک ، الحاد ، نفاق اور شک سے پاک ہوگا ، ا س کی گندگی دور ہوگی تو اس میں نیکی ، توحید اور ایمان کی بات سما سکے گی۔ اطبا بھی یہی کہتے ہیں کہ جب تک انسانی جسم میں گندے مواد موجود ہوتے ہیں ، اچھی سے اچھی غذا بھی مفید ثابت نہیں ہوتی۔ جوں جوں غذا استعمال کریگا۔ جسم میں گندگی میں اضافہ ہوتا چلا جائیگا۔ جب گندے مادے خارج ہو کر جسم صاف ہوجائے تو پھر اچھی غذا بھی مفید ہوتا چلا جائیگا۔ جب گندے مادے خارج ہو کر جسم صاف ہوجائے تو پھر اچھی غذا بھی مفید ثابت ہوگی۔ اسی طرح انسانی روح کے لیے قرآن وسنت صالح غذا ہے مگر یہ اسی وقت مفید ثابت ہوگی جب انسان کا دل و دماغ نفاق کے گندے مادے سے پاک ہوجائے گا۔ بہرحال اللہ نے نفاق کو گندگی سے تعبیر کیا ہے۔ اسی سورة میں پیچھے گزر چکا ہے (آیت) ” فاعرضوا عنھم انھم رجس “ یہ منافق گندے لوگ ہیں ، آپ ان سے درگزر کریں۔ کامیابی کا مدار تو اعتقاد اور فکر کی پاکیزگی پر ہے اگر دل پاک نہیں تو پورا انسان ناپاک ہے۔ اسی لیے اللہ نے فرمایا کہ نئی سورة منافقین کی غلاظت میں اضافہ کا باعث بنتی ہے اور وہ کفر کی حالت میں ہی مرجاتے ہیں۔ منافقین کی آزمائش : فرمایا (آیت) ” اولا یرون انھم یفتنون فی کل عام مرۃ او مرتین “ کیا انہوں نے غور نہیں کیا کہ سال میں ایک یا دو دفعہ ا ن منافقوں کو فتنے میں ڈالا جاتا ہے۔ کبھی جہاد میں شرکت پر ان کی آزمائش ہوتی تو کبھی مال خرچ کرنے کے موقع پر کبھی کوئی حادثہ پیش آجاتا ہے ، کوئی افتاد پڑجاتی ہے تو منافقین کی آزمائش ہوجاتی ہے اور ان کا نفاق ظاہر ہوجاتا ہے۔ حقیقت میں یہ چیزیں تازیانہ ہوتی ہیں۔ اللہ نے قرآن پاک میں فرمایا کہ تازیانے پہنچتے رہتے ہیں۔ اگر آدمی کی فطرت صحیح ہو تو برے کام سے باز آجاتا ہے اور توبہ کرلیتا ہے۔ اور اگر باز نہیں آتا تو اپنی صلاحیت کو ضائع کر بیٹھتا ہے اور بالآخر ناکام ہوجاتا ہے۔ آزمائش انسان کے لیے تنبیہ ہوتی ہے کہ اب بھی سنبھل جائو۔ ان منافقوں کو سال میں ایک دو بار ضرور تنبیہ بھی ہوتی ہے مگر یہ ایسے بد وضع لوگ ہیں کہ اپنی قبیح حرکتوں سے باز نہیں آتے۔ (آیت) ” ثم لا یتوبون “ یعنی توبہ کر کے اسلام کے خلاف سازشوں سے باز نہیں آتے۔ (آیت) ” ولا ھم یذکرون “ اور نہ ہی ہو تازیانے سے نصیحت پکڑتے ہیں۔ جب آزمائش آئے تو انسان کو عبرت حاصل کرنی چاہیے مگر ان لوگوں پر کچھ اثر نہیں ہوتا۔ مجلس سے فرار : فرمایا منافقوں کی ایک قباحت یہ بھی ہے (آیت) ” واذا ما انزلت سورة نظر بعضھم الی بعض “ جب کوئی نئی سورة نازل ہوتی ہے تو نبی کی مجلس میں موجو منافقین ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں (آیت) ” ھل یرکم من احد “ کیا تمہیں کوئی دیکھ رہا ہے ؟ ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مجلس میں موجود مخلص مسلمانوں میں سے اگر انہیں کوئی دیکھ رہا ہے تو بادل نخواسہ بیٹھے رہتے ہیں اور اگر سمجھتے ہیں کہ مسلمان ان کی طرف متوجہ نہیں ہیں (آیت) ” ثم انصرفوا “ تو کھسک جاتے ہیں۔ یہ ان کی بدبختی کی علامت ہے کہ اتنی اچھی اور پاکیزہ مجلس سے فرار کی راہ تلاش کرتے ہیں۔ فرمایا حقیقت یہ ہے (آیت) ” صرف اللہ قلوبھم “ اللہ نے ان کے دلوں کو پھیر دیا ہے۔ انہیں اس قابل نہیں سمجھا گیا کہ نبی کی پاک محفل میں بیٹھ کر فیض حاصل کرسکیں۔ اس کا معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ نے ان کے دلوں کو ایمان سے پھیر دیا ہے ، ان کے دلوں میں نفاق کی شدت اس قدر ہے کہ وہ کبھی توحید ، نیکی اور ایمان کی طرف نہیں آسکتے بلکہ وہ برائی کی طرف ہی جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ جب انسان برائی پر اصرار کرتا ہے تو اللہ اس کی نیکی کی صلاحیت ہی ختم کردیتا ہے پچھلی سورة میں گزر چکا ہے (آیت) ” واعلموا ان اللہ یحول بین المرء وقبلہ “ (الانفال) یاد رکھو ! اللہ تعالیٰ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے اور پھر اس کی نیکی کرنے کی توفیق ہی سلب کرلی جاتی ہے۔ لہٰذا انسان کو توبہ کرنے اور پھر نیکی پر عمل درآمد کرنے میں تاخیر نہیں کرنا چاہیے۔ تو فرمایا کہ اللہ نے ان کے دلوں کو پھیر دیا ہے کیونکہ ان کے دلوں میں نفاق بھرا ہوا ہے۔ یہ مخلص مسلمانوں کا تمسخر اڑاتے ہیں اور پھر مجلس میں بیٹھ کر بھی فائدہ نہیں اٹھاتے ، لہٰذا اللہ نے انہیں نیکی ، ایمان اور اپنے نبی کی مجلس سے ہی پھیر دیا ہے۔ بے سمجھ لوگ : فرمایا ان کی یہ بےنصیبی اس وجہ سے ہے (آیت) ” بانھم قوم لا یفقھون “ یہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھتے ہی نہیں۔ جو شخص اپنے فائدے اور انجام کو نہ پہچان سکے۔ اس سے زیادہ بےسمجھ کون ہوگا اسی لے تو اللہ تعالیٰ نے کافرون کو جانوروں سے بھی بدتر قرار دیا ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ منافق آدمی کو دین کی سمجھ نہیں ہوتی ، وہ رسم و رواج میں ہی پھنسا رہتا ہے۔ منافق کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ اس کا اخلاق اچھا نہیں ہوتا اور دین میں سمجھ نہیں ہوتی۔ جس شخص کا اخلاق اچھا ہے ، دین کی باریک باتوں کو سمجھ کر ان پر عمل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ کی مہربانی اس کے ضرور شامل حال ہوگی۔ بہر حال اللہ تعالیٰ نے منافقوں کی قباحتیں بھی بیان کردیں تاکہ اہل ایمان ان کی سازشوں سے خبردار رہیں اور ان پر اعتماد نہ کریں۔ یہ گروہ اسلام کے حق میں سخت مضر ہے ، لہٰذا مسلمانوں کو ہوشیار رہنا چاہیے کہ ان کے فریب میں آکر کہیں دین میں نقصان نہ کر بیٹھیں۔
Top