Tafseer-e-Haqqani - At-Tawba : 198
وَ اِنْ تَدْعُوْهُمْ اِلَى الْهُدٰى لَا یَسْمَعُوْا١ؕ وَ تَرٰىهُمْ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْكَ وَ هُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ
وَاِنْ : اور اگر تَدْعُوْهُمْ : تم پکارو انہیں اِلَى : طرف الْهُدٰى : ہدایت لَا يَسْمَعُوْا : نہ سنیں وہ وَ : اور تَرٰىهُمْ : تو انہیں دیکھتا ہے يَنْظُرُوْنَ : وہ تکتے ہیں اِلَيْكَ : تیری طرف وَهُمْ : حالانکہ لَا يُبْصِرُوْنَ : نہیں دیکھتے ہیں وہ
اور اگر تم ان (مشرکین) کو راہ راست کی طرف بلاؤ تو سنیں گے ہی نہیں اور آپ ان کو اپنی طرف تکتے ہوئے دیکھتے ہوئے دیکھتے ہو حالانکہ ان کو کچھ بھی نہیں سوجھتا۔
ترکیب : وان شرطیہ تدعو شرط لا یسمعوا جواب ینظرون الیک مفعول ثانی وھم لایبصرون جملہ حال ہے فاعل ینظرون سے واما شرط فاستعذباللّٰہ جواب از الخ جملہ محل علت میں ہے فاستعذ سے الذین موصول اتقوا صلہ مجموعہ اسم ان اذا مَسَّہُمْ شرط تذکروا جواب مجموعہ خبران النزغ الوسوسۃ وکذا النغز والنخس والنسغ۔ تفسیر : بت پرستی کرنے سے مشرکینِ کا حسن باطن جاتا رہا ہے اور اسی لئے سچی بات ان کے دل تک نہیں پہنچتی۔ یہاں اس کی تصویر کھینچی جاتی ہے کہ اگر تم ان کو ہدایت کی طرف بلاؤ تو وہ تمہاری بات ہی نہیں سنتے یعنی سماعت باطنی جاتی رہی باوجودیکہ اے نبی ! تجھ کو وہ ظاہر دیکھتے ہیں حالانکہ نہیں دیکھتے بصارت باطنی جاتی رہی (کاش جمال مصطفیٰ ﷺ کو ذرا بھی دیکھ لیتے تو اس شمع عالم افروز کے نور سے بت پرستی کی تاریکی میں نہ پڑتے) للہ درمن قال چشم بازو گوش باز واین ذکا خیرہ ام برچشم بندی خدا اس لئے جس نے آنحضرت (علیہ السلام) کو ایک بار دیکھ لیا اس پر آتش دوزخ حرام ہوگئی مگر افسوس عرب کے منکرین کی کو ری پر چراغ کے نیچے اندھیرا اس کو کہتے ہیں جب ان کی یہ حالت زار ہے تو اے نبی خذا لعفو وامر بالمعروف و اعرض عن الجاھلین معافی اور سہل گزاری اختیار کیجئے۔ ملامت تشدد نہ کیجئے لیکن چونکہ آپ ہادی اور آپ کا کام ہدایت ہے اچھی باتوں کا حکم دیے جائیں۔ نصیحت کرتے رہئے اور جو اس پر جاہل آپ سے ناخوش ہو کر ایذا کے درپے ہوں اور زبان طعن وتشنیع کھولیں تو ان سے اعراض کیجئے۔ مقابلہ اور پرخاش نہ کیجئے (عرف اور عارفہ اور معروف اس کام کو کہتے ہیں کہ جس کا کرنا نہ کرنے سے معروف ہو) جب یہ آیت نازل ہوئی تو جبرئیل سے آپ نے پوچھا جبرئیل نے فرمایا اس سے مرادیہ ہے کہ جو تجھ سے قطع تعلق کرے تو اس سے مل اور جو تجھ پر ظلم کرے تو معاف کر اور جو تجھے نہ دے تو اس کو دے۔ حضرت امام جعفر صادق (رح) فرماتے ہیں کہ تعلیم مکارم اخلاق کے بارے میں اس سے بڑھ کر اور کوئی جملہ ہو نہیں سکتا۔ آنحضرت ﷺ اور آپ کے پیروئوں نے جو کچھ بدی کے بدلہ میں لوگوں سے ان کے ظلم و ایذا پر برداشت کرکے نیک سلوک کئے ہیں بیان سے باہر ہیں۔ اور جو کبھی بشریت سے دل میں ان کے برا کہنے اور ایذا دینے سے کچھ خیال آجاوے تو فاستعذ باللّٰہ اللہ سے پناہ مانگ کیونکہ وہ سمیع وعلیم ہے۔ تیرے دل سے اس خیال کو دور کرے گا اور چونکہ عام مسلمانوں کی حالت نبی کے مانند نہیں ان کو شیطانی وسوسہ کا مس کر جانا کچھ مشکل نہیں۔ ان الذین اتقوا اذا مَسَّھُمْ طائف من الشیطن تو ان کو اللہ کو یاد کرنا لازم ہے جبکہ انسان کو کسی پر غصہ آتا ہے تو اس کو مغلوب اپنے آپ کو غالب سمجھ کر آتا ہے تب اس پر عالم اجسام کے ظلمات طاری ہوجاتے ہیں مگر جب وہ اپنے آپ کو عاجز خدا کو قادر سمجھتا ہے تو اندھیرے سے نکل جاتا ہے۔ 1 ؎ حقیقت میں ہادی برحق کو مخالفوں نے چشم زن سے نہیں دکھایا تراھم وہ لا یبصرون میں اب تعارض نہیں آہا یا معنی کہ اے بنی کفار تجھے تو دیکھتے ہیں حیرت و تعجب ہے کہ یہ شخص ہم کو ایک نئے رستہ کی طرف بلاتا ہے مگر لا یبصرون اندھے ہیں اس رستہ کی خوبی اور اس کے برکات و انوار نہیں دیکھتے اول معنی کی مناسب ایک نقل ہے کہ سلطان محمود غزنوی حضرت ابو الحسن خرقانی رحمتہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا ابو الحسن نے اثناء تذکرہ میں فرمایا کہ جس نے شیخ بایزید و بسطامی کو دیکھا اس پر آتش دوزخ حرام ہے محمود نے عرض کیا کیا شیخ قدس سرہ۔ رسول کری ﷺ سے بھی بڑھ گئی آپ کو کفار نے دیکھا مگر ان پر آتش جہنم حرام نہیں ہوئی ابو الحسن نے فرمایا کہ کفار نے آنحضرت ﷺ کو دیکھا ہی نہیں اگر دیکھتے تو کفر پر نہیں رہتے اور یہ آیت پڑھ دی محمود سن کر حیران رہ گیا۔ آپ کی مراد یہ ہے کہ حقیقت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کو کفار نے اپنی تیرہ باطنی سے نہیں دیکھا اس کو ابوبکر ؓ وغیرہ نے دیکھا۔ 12 منہ 2 ؎ ابن کثیر و ابو عمر و وکسائی طیف اور بانی طائف بالائف پڑھتے ہیں۔ واحدی کہتے ہیں طیف کو بعض مصدر کہتے ہیں ابو یزید کہتے ہیں اس کی گردان ہے طاف یطوف طوفا وطوافا اور بعض اس کو مشدد بھی پڑھتے ہیں جیسا کہ ہیں اور ہیں میت اور میت اس کے معنی ہر نے پھرنے کے ہیں اور اسی لیے خواب مشوش کو طیف کہتے ہیں وہ خیال کو بھی ازہری کہتے ہیں کلام عرب میں طیف جنوں کو کہتے ہیں اور غضب کو بھی کسی لیے کہ غصہ میں انسان جنوں کے مشابہ ہوجاتا ہے اور وسوسہ کو بھی۔ اور طائف بمعنی طیف ہے جیسا کہ عافیۃ اور عاقبۃ اس قسم کے جن کے مصدر بروزن فاعل و فاعلۃ آئے ہیں قال الفراء فی ہذہ الایۃ الطائف والطیف سوار وھو ما کان کا نحیال الذی یلم بالانسان 12 منہ۔
Top