Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - At-Tawba : 29
قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ لَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ لَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰى یُعْطُوا الْجِزْیَةَ عَنْ یَّدٍ وَّ هُمْ صٰغِرُوْنَ۠ ۧ
قَاتِلُوا
: تم لڑو
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
لَا يُؤْمِنُوْنَ
: ایمان نہیں لائے
بِاللّٰهِ
: اللہ پر
وَلَا
: اور نہ
بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ
: یومِ آخرت پر
وَلَا يُحَرِّمُوْنَ
: اور نہ حرام جانتے ہیں
مَا حَرَّمَ
: جو حرام ٹھہرایا
اللّٰهُ
: اللہ
وَرَسُوْلُهٗ
: اور اس کا رسول
وَلَا يَدِيْنُوْنَ
: اور نہ قبول کرتے ہیں
دِيْنَ الْحَقِّ
: دینِ حق
مِنَ
: سے
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
اُوْتُوا الْكِتٰبَ
: کتاب دئیے گئے (اہل کتاب)
حَتّٰي
: یہانتک
يُعْطُوا
: وہ دیں
الْجِزْيَةَ
: جزیہ
عَنْ
: سے
يَّدٍ
: ہاتھ
وَّهُمْ
: اور وہ
صٰغِرُوْنَ
: ذلیل ہو کر
لڑو ان لوگوں سے جو نہیں ایمان لائے اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور نہیں حرام ٹھہراتے اس چیز کو جسے اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اور نہیں قبول کرتے سچے دین کو ان لوگوں میں سے جن کو کتاب دی گئی ہے ( لڑو ان سے) یہاں تک کہ وہ جزیہ دیں اپنے ہاتھ سے اور وہ دبنے والے ہوں
ربطِ آیات : کذشتہ دروس میں مشرکوں کے ساتھ جہاد کا ذکر تھا ، ان کا کام تو تمام ہوگیا۔ عرب کا خطہ تو حضور ﷺ کے زمانہ مبارک میں ہی شرک اور کفر سے پاک ہوگیا تھا۔ مشرکین کی اکثریت نے اسلام قبول کرلیا اور جو باقی رہ گئے ان میں مقابلے کی سکت نہ تھی فتح مکہ کے بعد قبیلہ ثقیف ، ہوازن اور بنی بکر والے جو حنین کے مقام پر مسلمانوں کے بالمقابل آئے تھے ، وہ سب آخر میں مسلمان ہوگئے۔ البتہ جعلی نبوت کا مسئلہ ابھی باقی تھا۔ یمامہ میں مسیلمہ کذاب کا فتنہ سر اٹھا رہا تھا اور دوسری اسود عنسی کی جماعت اسلام کے متوازی پروگرام جاری کرنا چاہتی تھی ان کا قلع قمع بھی ہوگیا۔ اب یہود ونصاریٰ باقی رہ گئے جو عرب کے مختلف خطوں میں آباد تھے ، خاص طور پر مدینے کے اطراف اور خیبر یہودیوں کے گڑھ تھے۔ یہ لوگ ہمیشہ اسلام کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف رہتے تھے ، اور دین کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے اب آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے ان اہل کتاب کے متعلق احکام نازل فرمائے ہیں۔ اہل کتاب کے خلاف جہاد : اہل کتاب بھی مشرکین کی طرح اسلام کی اشاعت کے راستے میں رکاوٹ بن رہے تھے ، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ان کے خلاف بھی جہاد کا حکم دیا۔ البتہ اگر یہ لوگ اسلام دشمنی ترک کر کے مسلمانوں کے ماتحت رہنا قبول کرلیں ، اسلامی قانون کی بالادستی تسلیم کرلیں اور شریف شہری بن کر گزر اوقات کرنے پر رضا مند ہوں تو پھر وہ سالانہ جزیہ ادا کر کے مسلمانوں کے زیر تسلط رہ سکتے ہیں۔ اس صورت میں انہیں مذہبی آزادی بھی حاصل ہوگی اور ان کی جان ، مال اور عزت بھی محفوظ ہوگی۔ اور اگر وہ یہ شرط قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہوں تو پھر ان کے لیے واحد راستہ یہی ہے کہ ملک بدر ہوجائیں یا پھر جنگ کے لیے تیار ہوجائیں۔ ایمان باللہ : ارشاد خدا وندی ہے (آیت) ” قاتلوا الذین لا یومنون باللہ “ ان لوگوں سے لڑائی کرو جو اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں لاتے۔ اہل کتاب کا دعویٰ تو یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں مگر ان کا یہ ادھور ایمان معتبر نہیں ہے مسلم شریف کی روایت میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے حضرت معاذ بن جنل ؓ کو یمن کا گورنر بنا کر روانہ کیا تو فرمایا کہ تم ایسے لوگوں کے پاس جا رہے ہو جو اہل کتاب ہیں سب سے پہلے انہیں توحید و رسالت کے اقرار کی دعوت دینا۔ اگر اس دعوت کو مان لیں۔ وہاں پر الفاظ آتے ہیں ” فاذا عرفوا اللہ “ جب وہ اللہ تعالیٰ کو پہچان لیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہل کتاب کی معرفت الہٰی درست نہیں ہے حضرت امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) کی اصلاح میں یہ لوگ حجاب سوئِ معرفت کا شکا ر ہیں۔ مشرک لوگ بھی کسی نہ کسی طور خدا کو مانتے ہیں مگر ان کی پہچان بھی صحیح نہیں۔ جب تک خدا تعالیٰ کی صحیح پہچان اور معرفت نہیں ہوگی۔ اس کی ذات اور صفات کا صحیح تصور نہیں ہوگا ، ان کا ایمان مکمل نہیں ہو سکتا۔ ایمان کی تکمیل اس وقت ہوگی جب انبیاء علیھم السلام کی تعلیم کے مطابق اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کا تصور قائم ہوجائیگا۔ خدا تعالیٰ کی صفات بندوں میں ثابت کرنا اور بندوں کی صفات خدا تعالیٰ میں ماننا دونوں باتیں غلط ہیں اور یہی حجاب سوء معرفت ہے۔ بیٹا ہونا بندوں کی صفت ہے اور اگر یہی صفت خدا تعالیٰ میں مانے گا تو مشرک ہوجائے گا۔ اس کا ایمان باللہ کہاں درست رہا ؟ اسی لیے فرمایا اگر اللہ کی ذات وصفات کا صحیح تصور نہیں ہے تو ایمان بھی نہیں ہے اپنی زبان سے تو اہل کتاب سمیت تمام مذاہب کے پیروکار ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں مگر قرآن ان کی ایمان کی نفی کرتا ہے کیونکہ ان کی پہچان صحیح نہیں ہے۔ اور انہی لوگوں سے جنگ کا حکم ہو رہا ہے۔ قیامت پر ایمان : فرمایا ان سے لڑو جو نہ تو اللہ پر صحیح ایمان رکھتے ہیٰں (آیت) ” ولا بالیوم الاخر “ اور نہ قیامت کے دن پر قیامت کے دن کا تصور تو جبھی درست ہوگا جب ایمان باللہ درست ہوگا۔ جب توحید کے ضمن میں ہی معلوم ہوگیا کہ ان کی پہچان صحیح نہیں ہے۔ یہ لوگ انبیت کے عقیدے کے قائل ہیں اور بعض دیگر باتیں بھی خدا کی طرف غلط طور پر منسوب کرتے ہیں تو ان کا قیامت کا تصور بھی درست نہیں ہے ۔ یہودی ہوں یا نصرانی رسول آخرالزماں کو تو وہ مانتے ہی نہیں آپ کی رسالت کو تسلیم نہیں کرتے لہٰذا وہ اس لحاظ سے کافر ہیں۔ غرضیکہ جو نہ تو اللہ کی وحدانیت کا صحیح تصور رکھتے ہیں اور نہ حضور ﷺ کی رسالت کے قائل ہیں ، ان کا قیامت پر ایمان کیسے درست ہو سکتا ہے ؟ اسی لیے فرمایا کہ وہ قیامت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے۔ حلت و حرمت میں امتیاز : (آیت) ” ولا یحرمون ما حرم اللہ ورسولہ “ اور نہ وہ اس چیز کو حرام ٹھہراتے ہیں جس کو اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے حرام و حلال میں امتیاز بھی ایمان کی شرط ہے۔ صحیح حدیث شریف میں آتا ہے کہ صحیح مسلمان اس وقت ہوگا جب اللہ کی حرام کردہ چیز کو حرام سمجھے اور حلال کردہ چیز کو حلال سمجھے۔ ایک صحابی ؓ نے عرض کیا حضور ! احللت ما احل اللہ و حرمت ما حرم اللہ کہ اگر میں اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ اشیا کو حلال اور حرام کردہ چیزوں کو حرام سمجھوں ، نماز ادا کروں اور باقی فرائض انجام دوں تو کیا مجھے نجات ملے گی ، تو حضور ﷺ نے فرمایا ، ہاں تجھے نجات ملے گی مطلب یہ ہے کہ حلال اور حرام میں فرق کرنا بھی ایمان کا جزو ہے۔ اس کے برخلاف عیسائی ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کی حرام کردہ شراب کو حلال جانتے ہیں۔ خنزیر کو حلال سمجھ کر کھاجاتے ہیں تو ان کا ایمان کیسے قائم رہ سکتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے بعض اشیاء کی حرمت کا حکم قرآن پاک میں صریحا ہے (آیت) ” انما حرم علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر وما اھل بی لغیر اللہ “ مردار ، خون خنزیر کا گوشت اور نذر لغیر اللہ قطعی حرام ہیں۔ اللہ کے رسول نے بھی اس کی وضاحت فرما دی ہے اس کے باوجود جو شخص ان میں سے کسی چیز کو حلال سمجھتا ہے وہ مومن کیسے ہو سکتا ہے ؟ اسی طرح اگر کوئی زنا کو حلال سمجھے ، قتل ناحق کو حلال خیال کرے تو وہ ایماندار نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول کے حلت و حرمت میں دخل اندازی کی ہے۔ حقیقت میں حلت و حرمت کا قطعی حکم اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتا ہے ، البتہ اللہ کا نبی اس حکم کو ظاہر کرنے والا ہوتا ہے ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ اگر اللہ کا نبی کہ دے کہ فلاں چیز حرام ہے تو یہ اس بات کی قطعی دلیل ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے واقعی اس چیز کو حرام قرار دیا ہے۔ نبی وحی الہٰی کا متبع ہونا ہے۔ وہ اپنی طرف سے کسی چیز کو حلال یا حرام نہیں ٹھہراتا بلکہ اللہ کا حکم پہنچاتا ہے۔ دراصل تحلیل وتحریم اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور نبی اس کا بیان کرنے والا ہوتا ہے جس کے متعلق نبی کہ دی کہ یہ حرام ہے ، وہ واقعی حرام ہوتی ہے اس میں کوئی شبہ نہیں ہوتا۔ دین حق کی اطاعت : فرمایا اہل کتاب کا نہ تو ایمان باللہ درست ہے ، نہ ان کا قیامت پر صحیح یقین ہے ، نہ حلال و حرام میں تمیز ہے (آیت) ” ولا یدینون دین الحق “ اور نہ وہ دین حق کی اطاعت کرتے ہیں جو دین حق کو تسلیم نہیں کرتا اس کے خلاف بھی جہاد کیا جائے گا۔ پہلے بھی گزر چکا ہے کہ ائمہ کفر سچے دین کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ اس کی مخالفت کرتے ہیں تو ان کے خلاف جہاد لازم ہوجائے گا۔ یہود ونصاریٰ بھی اسی بیماری میں مبتلا تھے لہٰذا ان کے خلاف بھی جنگ کرنے کا حکم دے دیا گیا۔ دنیا کے دیگر بہت سے مذاہب کا بھی یہی حال ہے ، روسی بھی اللہ کے دین کو پسند نہیں کرتے بلکہ اسے رجعت پسندانہ دین کہتے ہیں ، چینی ہوں یا جاپانی ، امریکی ہوں یا جرمن کوئی بھی حق کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں لہٰذا ان کے ساتھ مسلمانوں کا دوستانہ نہیں ہو سکتا ، اگر مسلمان ان کی طرف ہاتھ بڑھائیں گے تو نقصان اٹھائیں گے۔ لہٰذا ان کے ساتھ جب بھی ہوگی جنگ ہی ہوگی۔ غیر مسلم بحیثیت زمی : آگے اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے ، اللہ اور اس کے رسول کی حرام کردہ اشیاء کو حرام نہیں سمجھتے اور دین حق کو قبول نہیں کرتے فرمایا (آیت) ” من الذین اوتوا الکتٰب “ یہ ان لوگوں میں سے ہیں جنہیں کتاب عطا کی گئی۔ اور ظاہر ہے کہ کتاب کے حاملین یہی دو فرقے یہود و نصاریٰ ہیں یہودی اپنے آپ کو تورات کی طرف منسوب کرتے ہیں اور نصاری انجیل کی طرف ، مگر دونوں نے اپنی اپنی کتابوں کو اس حد تک تبدیل کردیا ہے کہ وہ برائے نام ہو کر رہ گئی ہیں۔ ان لوگوں کو نہ خدا تعالیٰ کی صحیح پہچان ہے اور نہ انبیاء پر صحیح ایمان ہے۔ ان کے ساتھ جنگ ناگزیر ہے تا کہ یہ لوگ دین حق کی اشاعت میں رکاوٹ نہ بن سکیں۔ البتہ ان کے واسطے امان کی ایک ہی صورت ہے (آیت) ” حتی یعطوا الجزیۃ عن ید “ کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دینے لگیں۔ یعنی اسلامی قانون کی بالادستی تسلیم کر کے مسلمانوں کی ماتحتی میں رہنا قبول کرلیں۔ اور مقررہ رقم بطور ٹیکس ہر سال ادا کریں۔ اس طرح وہ ذمی کہلائیں گے اور انہیں اسلامی حکومت کی طرسے اخلاقی ، مادی اور مذہبی تحفظ حاصل ہوجائے گا۔ کافر دو قسم کے ہوتے ہیں۔ حربی کافر وہ ہیں جو مسلمانوں کے ساتھ جنگ کی حالت میں ہوں اور دوسرے ذمی ہیں جو مسلمانوں کی حفاظت میں ہوتے ہیں اگرچہ وہ اپنے دین پر قائم رہتے ہیں ان دونوں قسم کے کافروں کے متعلق سورة ممتحنہ اور بعض دوسری سورتوں میں الگ الگ حکم آیا ہے۔ ذمیوں کو مکمل حقوق حاصل ہوتے ہیں اور ان کی جان ، مال اور عزت دیگر مسلمانوں کی طرح محفوط ہوتی ہے۔ اسی لیے حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ جب کوئی کافر بحیثیت ذمی مسلمانوں کی پنا ہ میں آجائے تو وہ شخص مامون ہوگیا جو کوئی ذمی کو قتل کریگا اسے جنت کی خوشبو تک بھی نہیں آئے گی ، یہ اتنا بڑا جرم ہے۔ ذمی کے جرم میں آئمہ کرام کا اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ ذمی کے قاتل سے قصاص لیا جائے گا یعنی اسے قتل کے بدلے میں قتل کیا جائے گا۔ حدیث شریف میں آتا ہے (آیت) ” لا یقتل مومنا بکافر “ یعنی کسی کافر کے قصاص میں مومن کو قتل نہیں کیا جائگا۔ آپ اس سے حربی کافر مراد لیتے ہیں۔ یعنی اگر حربی کافر کو قتل کردیا جائے تو اس کے بدلے میں مومن سے قصاص نہیں لیا جائے گا۔ البتہ اگر ذمی کافر کو مارا جائے گا تو اس کا اسی طرح قصاص لیا جائے گا۔ جس طرح کسی مومن کے قتل کا لیا جاتا ہے۔ کیونکہ جس طرح ایمان لانے کے بعد کسی مومن کا مال ، جان اور آبروا محفوظ ہوجاتی ہے اسی طرح ماتحتی میں آنے والے ذمی کو بھی امان حاصل ہوتی ہے۔ بہرحال فرمایا کہ اہل کتاب میں سے اگر جزیہ دینا قبول کرلیں تو پھر ان کے خلاف جنگ نہ کی جائے۔ جزیہ کے خلاف پراپیگنڈا : اسلام کے قانون جزیہ پر غیر مسلم اقوام نے بڑے اعتراضات کیے ہیں انگریز ، یہودیوں اور ہندوئوں نے اس مسئلہ کو بہت اچھالا ہے جس طرح مسئلہ تعدد ازواج غیر مسلم اقوام کا تختہ مشق بنا تھا ، اسی طرح یہ مسئلہ بھی بنا ہے ۔ مگر یہ اعتراض برائے اعتراض ہے۔ تعدد ازواج کے متعلق تو یہود ، ہنود اور نصاریٰ نے بڑی گندی باتیں لکھی ہیں۔ یہاں راجپال ہندو نے ” رنگیلا رسول “ نامی کتاب لکھ کر مسلمانوں کی غیرت کو چیلنج کیا تھا۔ اس میں تعدد ازواج کے مسئلہ پر سخت ہرزہ سرائی کی گئی تھی۔ حتی کہ حضور ﷺ کی ذات پر بھی حملے کیے گئے ، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ غازی علم الدین شہید (رح) نے راجپا ل کو جن ہم واصل کردیا۔ عیسائی اور یہودی معترضین کا حال یہ ہے کہ یہ لوگ سو عورتوں سے زنا کرنے والے شخص پر تو اعتراض نہیں کرتے مگر دو بیویوں سے نکاح کرنے والا گردن زدنی بن جاتا ہے۔ یہ متعصب اور خبیث لوگ ہیں جو مسلمانوں کے اٹل قوانین پر بلا وجہ اعتراض کرتے ہیں۔ جزیہ بطور ٹیکس : آج کل تمام حکومتوں کا نظام ٹیکسوں پر چلتا ہے۔ بعض ممالک میں توکل آمدنی کا دوتہائی ٹیکسوں میں چلا جات ہے۔ اس کے برخلاف جزیہ ایک معمولی سا ٹیکس ہے جو ذمی لوگوں کی جان ومال کی حفاظت کے بدلے میں وصول کیا جاتا ہے۔ جزیہ کہ شرح خلفائے راشدین کے زمانہ میں ہی مقرر ہوگئی تھی۔ یہ ٹیکس ہر خود روزی کمانے والے آسودہ حال شخص سے اڑتالیس درہم سالانہ متوسط آدمی سے چوبیس درہم اور غریب آدمی سے بارہ درہم سالانہ ہے۔ اور پھر اس میں استثناء بھی ہے۔ اگر کوئی ذمی آدمی فوجی خدمات انجام دے رہا ہے تو اس سے جزیہ ساقط ہوجاتا ہے۔ اس طرح معذور آدمی ، بچے ، عورتیں ، پادری ، گوشہ نشین آدمی بھی جزیہ سے مستثنا ہیں۔ یہ تو عام شرح ہے۔ البتہ اگر صلح کے کسی خصوصی معاہدہ کے تحت کوئی دوسری شرح مقرر کرلی جائے تو وہ بھی درست ہے جیسے حضور ﷺ نے نجران کے عیسائیوں کے ساتھ معاہدہ کیا تھا وہ لوگ حضور کے ساتھ مناظرہ کرنے کے لیے آئے تھے مگر جب مجبور ہر گئے تو صلح کرلی اور کچھ کپڑے اور کچھ نقدی بطور جزیہ دینا قبول کر کے اپنے علاقے میں واپس چلے گئے۔ بہرحال یہ ایک معمولی ٹیکس ہے جو غیر مسلم ذمیوں پر عائد کیا جاتا ہے۔ حالانکہ خود مسلمان اس سے زیادہ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ بنو تغلب کے عیسائیوں نے جزیہ کی بجائے زکوٰۃ کی دگنی شرح کے برابر رقم ادا کرنے کی پیش کش کردی۔ حضور ﷺ نے اسے منظور فرما لیا۔ کہا تم جزیہ کی بجائے جو چاہو نام دے دو ۔ ہمیں کوئی اعتراض نہیں حضرت عمر ؓ نے بھی ایسا ہی کیا۔ زکوٰۃ تو چالیسوں حصہ تھا ، اب انہیں بیسواں حصہ دینا پڑا۔ چونکہ وہ لوگ جزیہ کے نام سے بدکتے تھے اس لیے انہوں نے زیادہ ٹیکس دینا منظور کرلیا۔ اہل کتاب کو اس میں بھی سہولت تھی ان کے دین کے مطابق ان کی زکوٰۃ چوتھا حصہ ہوتی تھی مگر انہوں نے بیسواں حصہ ٹیکس ادا کیا اور مامون ہوگئے۔ جزیہ کا دائرہ کار : یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جزیہ صرف اہل کتاب ہیں سے واجب الادا ہوتا ہے یا دیگر کفار سے بھی لیا جاتا ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ جزیہ صرف کتابیوں سے لیا جاتا ہے عرب کے مشرکوں کے متعلق حکم یہ ہے کہ وہ دین اسلام قبول کرلیں ، ملک بدر ہوجائیں یا ان کے خلاف جہاد کیا جائے گا۔ ان سے جزیہ قبول کر کے خطہ عرب میں کوئی دوسرا دین باقی نہیں رکھا جاسکتا۔ یہود ونصاری سے جزیہ لینے کی جو اجازت دی گئی تھی ، وہ ایک خاص وقت تک تھی کیونکہ مسلمان ان کی کسی بھی وقت ملک بدر کرسکتے تھے چناچہ حضرت عمر ؓ کے دور خلافت میں پورے عرب کو یہود ونصاری سے پاک کردیا گیا۔ البتہ عربوں کے علاوہ عجمیوں سے جزیہ وصول کر کے انہیں اسلامی حکومت میں پناہ دی جاسکتی ہے۔ مجوسیوں کے متعلق بھی یہی حکم ہے۔ حضرت عمر ؓ کو اس معاملہ میں تردد تھا تو حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے حضور ﷺ کی حدیث پیش کی کہ مجوسیوں کے ساتھ بھی ویسا ہی معاملہ کرو جیسا اہل کتاب کے ساتھ۔ البتہ نہ تم مجوسیوں کی عورتوں سے نکاح کرسکتے ہو اور نہ ان کا ذبیحہ کھا سکتے ہو۔ ان معاملات میں ان کا حکم مشرکوں جیسا ہے ۔ بہرحال عجم کے ہنود ، یہود ، سکھ ، مجوسی ، کوئی بھی ہوں انہیں جزیہ کے بدلے امان دی جاسکتی ہے۔ اہل کتاب کی تذلیل : فرمایا ان سے جنگ جاری رکھوجب تک وہ جزیہ دینا قبول نہ کرلیں ” وھم صٰغرون “ اور جب تک وہ ذلیل اور محکوم نہ ہوجائیں فقہائے کرام فرماتے ہیں عن ید سے مراد یہی ہے کہ ذمی لوگ خود حاضر ہو کر جزیہ جمع کرائیں کسی دوسرے آدمی کے ہاتھ بھیجنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ ان کی ذلت کی نشانی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ ہر ذمی کے لیے کوئی ظاہر نشانی مقرر کر دینی چاہیے جس کے ذریعے وہ دور سے ہی پہنچانا جائے کہ یہ ذمی آدمی ہے تا ہم اس آیت کے مطابق ان کا خود اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کرنا ہی ان کے لیے کافی تذلیل کا باعث ہے آگے اہل کتبا کے عقائد باطلہ اور ان کی خرابیوں کا ذکر آرہا ہے۔ اگرچہ عقیدے کے لحاظ سے یہ بھی مشرکوں جیسے ہی ہیں مگر انہیں کچھ رعایات حاصل ہیں۔
Top