Mualim-ul-Irfan - At-Tawba : 61
وَ مِنْهُمُ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ النَّبِیَّ وَ یَقُوْلُوْنَ هُوَ اُذُنٌ١ؕ قُلْ اُذُنُ خَیْرٍ لَّكُمْ یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ یُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ رَحْمَةٌ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ١ؕ وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ رَسُوْلَ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
وَمِنْهُمُ : اور ان میں سے الَّذِيْنَ : جو لوگ يُؤْذُوْنَ : ایذا دیتے (ستاتے) ہیں النَّبِيَّ : نبی وَيَقُوْلُوْنَ : اور کہتے ہیں هُوَ : وہ (یہ) اُذُنٌ : کان قُلْ : آپ کہ دیں اُذُنُ : کان خَيْرٍ : بھلائی لَّكُمْ : تمہارے لیے يُؤْمِنُ : وہ ایمان لاتے ہیں بِاللّٰهِ : اللہ پر وَيُؤْمِنُ : اور یقین رکھتے ہیں لِلْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں پر وَرَحْمَةٌ : اور رحمت لِّلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے مِنْكُمْ : تم میں وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ يُؤْذُوْنَ : ستاتے ہیں رَسُوْلَ اللّٰهِ : اللہ کا رسول لَهُمْ : ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
اور بعض ان (منافقین) میں سے وہ ہیں جو تکلیف پہنچاتے ہیں اللہ کے نبی کو اور کہتے ہیں کہ وہ کان (کے کچے) ہیں۔ آپ کہہ دیجئے وہ کان ہیں تمہاری بہترین کے لیے۔ وہ یقین رکھتے ہیں اللہ پر اور تصدیق کرتے ہیں ایمان والوں کی اور مہربان ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے تم میں سے اور وہ لوگ جو تکلیف پہنچاتے ہیں اللہ کے رسول کو ، ان کے لیے دردناک عذاب ہے
ربطِ آیات : پہلے جہاد کی فرضیت اور اس کی ترغیب کا بیان تھا۔ پھر مانعاتِ جہاد کا ذکر اور جہاد و قتال سے متعلق بہت ضروری احکام صادر ہوئے پھر منافقین کی بدکرداری کا ذکر ہوا۔ ان کا پیچھے رہ جانا ، حیلے بہانے بنانا ، طعن وتشنیع کرنا ، خود غرضی اور مفاد پرستی میں مبتلا ہونا ، یہ سب اللہ نے بیان فرمایا مفاد پرستی ہی کے ضمن میں ایک یہ بات بھی تھی کہ منافقین صدقات کے بارے میں اعتراض کرتے تھے ، اگر انہیں کچھ مل جاتا تو خوش ہوجاتے ورنہ اللہ کے رسول کی تقسیم پر اعتراض کرتے۔ اللہ نے ان کے ایسے اعتراجات کو جواب بھی دیا اور پھر زکوٰۃ وصدقات کے مصارف بھی بیان کیے کہ یہ مال فلاں فلاں مدات پر خرچ ہو سکتا ہے اور فلاں فلان لوگ اس کے حقدار ہیں۔ اس سے واضح ہوگیا کہ اعتراض کرنے والے منافق جو خود صاحب مال تھے ، وہ زکوٰۃ وصدقات کے حقدار نہیں ہو سکتے تھے۔ آگے بھی اللہ تعالیٰ نے منافقین کی بہت سی بری خصلتوں کا ذکر کر کے ان کی مذمت بیان کی ہے۔ منافقین کی ایذارسانی : ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ومنھم الذین یوذون النبی “ ان منافقوں میں سے بعض ایسے ہیں جو اللہ کے نبی کو ایذاء پہنچاتے ہیں (آیت) ” ویقولون ھو اذن “ اور کہتے ہیں کہ وہ کان ہیں یعنی کان کے کچھے ہیں۔ وہ ہر ایک کی بات سن لیتے ہیں لہٰذا ہم جو بات کریں وہ مان لیں گے۔ گویا اس طرح وہ بدگوئی کرکے اللہ کے رسول کو تکلیف پہنچاتے ہیں۔ مطلب یہ کہ جہاد میں عدم شرکت کے متعلق ہم جو بھی حیلہ سازی کریں گے ، اور اللہ کے رسول کو یقین دلانے کی کوشش کریں گے ، وہ ہماری بات پر یقین کرلیں گے۔ چناچہ غزوہ تبوک کے موقع پر منافقین نے بہت سی باتیں کیں اور بڑی حیلہ سازی کی مگر اللہ کے رسول نے ان سے درگزر کیا ، ان کے حیلے بہانے کو قبول کرتے ہوئے ان کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی۔ جب مسلمان تبوک کی طرف روانہ ہو رہے تھے تو منافقین اس قسم کی طعنہ زنی کرتے تھے کہ دیکھو جی ! یہ رومی سلطنت کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے جا رہے ہیں انہوں نے رومیوں کو بھی عرب ہی سمجھ لیا ہے۔ اس قسم کی باتیں آگے آرہی ہیں اور بعض لوگ پیغمبر خدا ﷺ کے خلاف غلط قسم کا پراپیگنڈا کرتے تھے۔ تو اللہ نے فرمایا کہ ان میں سے بعض وہ ہیں جو اللہ کے نبی کو اذیت پہنچاتے ہیں ، یعنی یہ کہ آپ انصاف نہیں کرتے اور ہمیں ہمارا حق نہیں دیتے۔ اللہ کے نبی کو اذیت پہنچانا تو کفر کی بات ہے۔ نبی کو ناراض کرنا اللہ کو ناراض کرنا ہے۔ اس قسم کی باتیں کافر اور منافق لوگ ہی کرسکتے ہیں اس چیز کو اللہ نے سورة احزاب میں بھی بیان فرمایا ہے اللہ اور رسول کے خلاف اذیت ناک بیہودہ باتیں کرنے والا شدید لعنت کا مستحق بنتا ہے۔ اور اگر کوئی شخص بےگناہ مسلمانوں کے خلاف بھی ایسی بات کریگا تو مجرم بنے گا اور خدا تعالیٰ کے ہاں ملعون ٹھہرے گا۔ بہرحال فرمایا کہ منافقین میں سے بعض ایسے ہیں جو اللہ کے نبی کو تکلیف پہنچاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم جو کچھ اول فول کہ دیں گے وہ ہماری بات مان جائیں گے کیونکہ وہ کان کے کچے ہیں۔ حضور ﷺ کا خلق عظیم : اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، اے پیغمبر ! قل آپ کہہ دیجئے (آیت) ” اذن خیر لکم “ بیشک آپ کہہ دیجئے کہ وہ کان ہیں مگر تمہاری بہتر کے لیے ، آپ کے اخلاق کا تقاضا ہے کہ وہ تم میں سے ہر ایک کی بات سن لیتے ہیں اس میں تمہاری بہتری ہے حضور ﷺ تو اخلاق کی بلند ترین منزل پر تھے اللہ تعالیٰ نے اس بات کی گواہی دی ہے (آیت) ” وانک لعلیٰ خلق عظیم “ ( القلم) یعنی آپ خلق عظیم کے مالک ہیں۔ پھر آپ (علیہ السلام) کا اپناارشاد مبارک بھی ہے ” بعثت لاتمم مکارم الاخلاق “ یعنی اللہ نے مجھے مکارمِ اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث فرمایا ہے حضور ﷺ تو اس اخلاق حسنہ کے تقاضا کے تحت منافقین کی الٹی سیدھی باتیں اور فضول حیلے بہانے سن لیتے تھے مگر یہ لوگ سمجھتے تھے کہ آپ کو کسی چیز کا لم ہیں نہیں بلکہ بالکل سادہ طبع ہیں ، جو کوئی حیلہ بہانہ پیش کرتا ہے اسے قبول کرلیتے ہیں۔ فرمایا یہ کان ہیں مگر تمہاری بہتری کے لیے اور وہ اللہ کا نبی (آیت) ” یومن باللہ “ اللہ پر یقین رکھتا ہے (آیت) ” ویومن للمومنین “ اور وہ ایمان والوں کی تصدیق کرتا ہے۔ یہاں پر ایمان لغوی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ ایمان کا لغوی معنی تصدیق کرنا ہی ہوتا ہے ۔ شریعت کی خاص خاص باتوں کی تصدیق کو ایمان کہا جاتا ہے مومن جو بات کرتے ہیں اللہ کا نبی اس کی تصدیق کرتا ہے یعنی اس کو سچ سمجھتا ہے۔ فرمایا اللہ کا نبی خود اللہ پر ایمان رکھتا ہے ، اور دوسرے مومنوں کی تصدیق کرتا ہے (آیت) ” ورحمۃ للذین امنوا منکم “ اور اللہ کا نبی مہربان ہے ان لوگوں کے لیے جو تم میں سے ایمان لائے کیونکہ اللہ کا فرمان ہے (آیت) ” واخفض جناحک للمومنین “ اپنے شفقت کے بازو ایمان والوں کے لیے پست کرلیں یعنی ان سے شفقت اور مہربانی کے ساتھ پیش آئیں۔ اسی سورة کے آخر میں آپ کو (آیت) ” بالمومنین رء وف رحیم “ یہ بھی کہا گیا ہے ، یعنی آپ اہل ایمان کے لیے نہایت شفقت والے اور مہربان ہیں ۔ گویا حضور ﷺ انہی صفات جمیلہ کی بنا پر ہر ایک کی بات سن لیتے تھے مگر بدباطن منافقین سمجھتے تھے کہ وہ آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ فرمایا یاد رکھو ! (آیت) ” والذین یوذون رسول اللہ “ جو اللہ کے رسول کو ایذا پہنچاتے ہیں (آیت) ” لھم عذاب الیم “ وہ دردناک عذاب کے مستحق ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ نہیں سکیں گے انہوں نے اللہ کے رسول کو ذہنی طور پر اذیت پہنچائی ہے اور آپ کو پریشان کیا ہے ، اس لیے وہ سخت سزا کے حقدار ہیں حضور ﷺ کا مہربان اور سلیم الطبع ہونا تو یقینی بات ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مجرم لوگ سزا سے بچ جائیں گے۔ نہیں ، بلکہ انہیں دردناک عذاب کا مزا چکھنا ہوگا۔ خوشنودی کی تلاش : فرمایا (آیت) ” یحلفون باللہ لکم “ یہ منافق لوگ اللہ کی قسمیں اٹھاتے ہیں تمہارے سامنے بات بات پر قسم اٹھانا ان کی عادت ہے۔ سورة منافقین میں ہے کہ منافق لوگ قسمیں اٹھا کر اللہ کے رسول کو اپنی وفاداری کا یقین دلاتے ہیں ۔ مگر اللہ نے فرمایا (آیت) ” ان المنفقین لکذبون “ یہ جھوٹے ہیں ، ان کی قسموں کا کچھ اعتبار نہیں ، جب کوئی مومن اللہ کے نام کی قسم اٹھائے گا۔ تو وہ قابل تسلیم ہوگی کیونکہ مومن اللہ تعالیٰ کی حد درجہ تعظیم کرتا ہے مگر منافق کو نہ اللہ تعالیٰ سے کوئی تعلق ہے اور نہ ایمان والوں سے ، لہٰذا وہ جھوٹی قسمیں کھائے جائے ہیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ایک شخص کو اپنی آنکھوں سے چوری کرتے ہوئے دیکھا اور فرمایا ، اللہ کے بندے تم نے چوری کیوں کی ہے ؟ تو وہ شخص اللہ کے نام کی قسم اٹھا کر کہنے لگا۔ کہ میں نے تو چوری نہیں کی۔ اس پر عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں اللہ کے نام کی تعظیم کرتے ہوئے تماری قسم پر اعتبار کرتا ہوں اور اپنی آنکھوں کو جھٹلاتا ہوں جنہوں نے تجھے چوری کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ قسم کا مسئلہ بھی اللہ تعالیٰ نے سورة بقرہ میں ب یان فرمایا ہے (آیت) ” ولا تجعلوا اللہ عرضۃ لایمانکم “ اللہ کے پاک نام کو اپنی قسموں کا نشانہ نہ بنائو۔ ہر نیک بات کے انکار کرنے میں قسمیں اٹھاتے ہو۔ اگر مجبورا کہیں قسم اٹھانی بھی پڑے تو صرف اللہ کے نام کی یا اس کی صفت کی قسم اٹھائو ، کسی دوسری چیز کی قسم مت اٹھائو۔ قسم کا مسئلہ بڑا سخت ہے اس کی وجہ سے بھی انسان شرک میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ فرمایا یہ قسمیں اٹھاتے ہیں اللہ کے نام کی (آیت) ” لیرضوکم “ تا کہ تمہیں خوش کردیں۔ مومن سمجھنے لگیں کہ یہ ہمارے ہی آدمی ہیں۔ فرمایا ان کا نظریہ بالکل باطل ہے ، تمہاری رضا مطلوب نہیں بلکہ (آیت) ” واللہ ورسولہ احق ان یرضوہ “ اللہ اور اس کا رسول زیادہ حقدار ہیں کہ ان کو راضی کرتے (آیت) ” ان کانوا مومنین “ اگر ان میں سے ایمان ہے تو انہیں اللہ اور اس کے رسول کو راضی کرنا چاہیے خواہ دوسرا کوئی راضی ہو یا نہ ہو۔ سب سے پہلے اللہ کی رضا مطلوب ہے اور ا س کے بعد اس کے رسول کی خوشنودی چاہیے جو اللہ کا نائب اور اس کی مرضیات کو دنیا میں پورا کرنے والا ہے مگر ان منافقوں کی حالت یہ ہے کہ خدا کو تو ناراض کر رہے ہیں اور تمہیں راضی کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کو ناراض کرے گا اور مخلوق کو راضی کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اسی مخلوق کے ہاتھوں اسے ذلیل ورسوا کرے گا۔ مخالف رسول کے لیے وعید : فرمایا (آیت) ” الم یعلموا “ کیا ان کو علم نہیں کیا یہ اس حقیقت سے ناواقف ہیں (آیت) ” انہ من یحاد د اللہ ورسولہ “ کہ جو کوئی مخالفت یا مقابلہ کرے گا اللہ اور اس کے رسول کا (آیت) ” فان لہ نار جھنم “ اس شخص کے لیے دوزخ کی آگ تیار ہے (آیت) ” خالدا فیھا “ وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ کا غضب بھی ہوگا اور اس کی لعنت بھی برسیگی فرمایا ، کیا یہ بات ان پر واضح نہیں ہوئی ؟ جماعت کے لوگوں کو تو راضی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کو ناراض کر رہے ہی۔ یہ تو جہنم کے مستحق ہیں (آیت) ” ذلک الخزی العظیم “ اور یہ بہت بڑی رسوائی ہے۔ اس سے بڑھ کر کیا ذلت ہو سکتی ہے کہ انسان راحت کی ہر چیز سے محروم ہو کر ہمیشہ کے لیے سزا میں مبتلا ہوجائے۔ اور سزا بھی ایسی سخت کہ جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ پردہ فاشی کا خوف : آگے اللہ تعالیٰ نے منافقین کی ذہنی کیفیت کو بھی بیان فرمایا ہے منافق جانتے ہیں کہ ان کی بےایمانی کی باتوں کو وقتا فوقتا ظاہر کردیا جاتا ہے ، وحی کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنے بنی کو آگاہ کردیتا ہے اور پھر اللہ کا نبی ان کا حال عام لوگوں میں بیان کردیتا ہے۔ منافقین ہمیشہ اس خوف میں مبتلا رہتے تھے کہ کہیں ہمارا راز وحی الٰہی کے ذریعے فاش نہ ہوجائے اسی بنا پر سال میں ایک دو مرتبہ یہ لوگ رسوا بھی ہوتے تھے مگر یہ باز نہیں آتے تھے حالانکہ ایک عام انسان جب رسوا ہوجاتا ہے تو اسے بدکرداری سے باز آجانا چاہیے مگر یہ لوگ باربار ذلیل ہونے کے باوجود اپنی قبیح حرکات سے باز نہیں آتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اسی کیفیت کو بیان فرمایا ہے (آیت) ” یحذرالمنفقون ان تنزل علیھم سورة “ منافق لوگ اس بات سے ڈرتے ہیں کہ ان پر کوئی سورة اتاری جائے (آیت) ” تنبئھم بمافی قلوبھم “ جو بتلا دے ان کو جو کچھ ان کے دلوں میں ہے۔ یعنی خدا تعالیٰ ان کے رازوں کو افشا کردے۔ منافقین ہمیشہ اس بات سے خائف رہتے ہیں مگر سازشوں سے پھر بھی باز نہیں آتے۔ فرمایا (آیت) ” قل استھزء وا “ اے پیغمبر ! آپ کہہ دیں کے ٹھٹا کرلو۔ (آیت) ” ان اللہ مخرج ما تحذرون “ بیشک اللہ تعالیٰ نکالنے والا ہے اس چیز کو جس سے تم ڈرتے ہو۔ مشرک اور منافق کمزور مسلمانوں کو ٹھٹا کیا کرتے تھے کہ دیکھو ! نہ ان کے پاس لباس ہے ، نہ مکان اور نہ سواری اور یہ بہشت کے مالک بنے پھر رہے ہیں۔ مکی سورتوں میں ایسا ہی حال مشرکوں کا بیان ہوچکا ہے اور اب منافقین کا بھی ہو رہا ہے۔ منافق کہتے تھے کہ ملک روم فتح کرنے جا رہے ہیں حالانکہ کھانے کو کچھ ملتا نہیں۔ نہ فوجی تنظیم ہے اور نہ اسلحہ سواری مفقود ہے۔ ایک ہز اور میل کا سفر درپیش ہے ار یہ روم کے محلات کے خواب دیکھ رہے ہیں اس قسم کا مذاق کرتے تھے جس کے جواب میں اللہ نے فرمایا کہ اب تو ٹھٹھا کرلو مگر اللہ تعالیٰ تمہارے رازوں کا پردہ ضرور فاش کرکے چھوڑے گا ، چنانہ یہ باتیں بھی اللہ نے ظاہر فرمادیں۔ اس کے علاوہ غزوہ تبوک کے راستہ میں انہوں نے جو سازش کی ، اللہ نے اسے بھی بذریعہ وحی ظاہر فرما دیا۔ اور وہ تمام سازشی ذلیل و خوار ہوئے۔ منافقین کا عذر لنگ : فرمایا (آیت) ” ولئن سالتھم “ اگر آپ ان سے پوچھیں کہ تم نے ایسی بات کیوں کی جس کی وجہ سے لوگوں میں بدگمانی پیدا ہوتی ہے (آیت) ” لیقولن انما کنا نخوض ونلعب “ تو کہتے ہیں کہ ہم تو صرف بات چیت اور دل لگی کرتے تھے۔ ہمارا مقصود تو صرف دوران سفر تفریح وطبع تھا ، کسی کی برائی مقصود نہ تھی۔ ایسی بات چیت کرتے کراتے سفر آسانی سے طے ہوجاتا ہے۔ انہوں نے بدگوئی کا یہ بہانہ تلاش کیا مگر اللہ نے فرمایا قل اے پیغمبر ! آپ کہہ دیں (آیت) ” ابا للہ وایتہ ورسولہ کنتم تستھزون “ کیا تم اللہ ، اس کے (احکام) اور اس کے رسول کے ساتھ ہنسی مذاق کرتے تھے۔ تمہیں ٹھٹھا کرنے کے لیے کوئی دوسری چیز میسر نہ آئی۔ تم نے جہاد فی سبیل اللہ کو ہی موضوع سخن بنا لیا اور اس مالک الملک کے حکم کے ساتھ استہزاء کیا جس نے قرآن پاک نازل فرمایا۔ پھر تم نے اللہ کے رسول کے ساتھ ٹھٹھا کہا جو یہ سب کچھ اس کے حکم کے مطابق انجام دے رہا ہے۔ فرمایا (آیت) ” لا تعتذروا “ حیلے بہانے مت بنائو۔ (آیت) ” قد کفرتم بعد ایمانکم “ تم نے اظہار ایمان کے بعد کفر کا ارتکاب کیا ہے مفسرین محدثین اور فقہاء فرماتے ہیں کہ جو کوئی اللہ کے کسی حکم یا اس کے رسول کے ساتھ تمسخر کریگا وہ کافر ہوجائیگا خواہ اس نے ایسی بات سنجیدگی سے کی ہو یا محض دل لگی سے۔ زبان سے کلمہ پڑھا ہے مگر ٹھٹھا کر کے کفر کر بیٹھے ہو ، توبہ استغفارکرو اور اللہ سے معافی مانگو۔ اللہ نے منافقین کو یہ وعید بھی سنائی ہے (آیت) ” ان نعف عن طائفۃ منکم “ اگر ہم ان میں سے ایک گروہ کو معاف کردیں گے (آیت) ” نعذب طائفۃ “ تو یقینا ایک گروہ کو سزا بھی دینگے۔ معافی کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں مثلا یہ کہ اللہ تعالیٰ توبہ کی توفیق عطا کر دے۔ چناچہ بعض منافقین حضور ﷺ کے زمانے کے بعد سچے دل سے تائب ہو کر اسلام میں مکمل طور پر داخل ہوگئے ، اللہ نے ان سے درگزر فرمایا۔ اور جس گروہ نے معافی نہیں مانگی ، ان کے دل کفر پر اڑے رہے۔ منافقت ان کے جسم وجان میں رچی بسی رہی وہ لازما سزا کے مستحق ہیں ، فرمایا ایسے لوگ ہماری سز اسے بچ نہیں سکیں گے وجہ ظاہر ہے (آیت) ” بانھم کانوا مجرمین “ وہ مجرم ہی رہے ، وہ سچے دل سے ایمان نہ لائے لہٰذا وہ سزا کے مستحق ٹھہرے۔ یہاں اللہ نے منافقین کے وہ حالات بیان فرمائے ہیں جو غزوہ تبوک کے ضمن میں ظاہر ہوئے۔ آگے منافقین کے بعض دیگر قبیح اوصاف بھی بیان کیے گئے ہیں۔
Top