الَّذِيْ جَمَعَ مَالًا وَّعَدَّدَہٗ 2 ۙ
جمع
الجَمْع : ضمّ الشیء بتقریب بعضه من بعض، يقال : جَمَعْتُهُ فَاجْتَمَعَ ، وقال عزّ وجل : وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة/ 9] ، وَجَمَعَ فَأَوْعى [ المعارج/ 18] ، جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة/ 2] ،
( ج م ع ) الجمع
کے معنی ہیں متفرق چیزوں کو ایک دوسرے کے قریب لاکر ملا دینا ۔ محاورہ ہے : ۔ چناچہ وہ اکٹھا ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة/ 9] اور سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں گے ۔ ( مال ) جمع کیا اور بند رکھا ۔ جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة/ 2] مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے
ميل
المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین،
والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا،
( م ی ل ) المیل
اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں
اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔
عد
العَدَدُ : آحاد مركّبة، وقیل : تركيب الآحاد، وهما واحد . قال تعالی: عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس/ 5] ، وقوله تعالی: فَضَرَبْنا عَلَى آذانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَداً [ الكهف/ 11] ، فَذِكْرُهُ للعَدَدِ تنبيه علی کثرتها .
والعَدُّ ضمُّ الأَعْدَادِ بعضها إلى بعض . قال تعالی: لَقَدْ أَحْصاهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا[ مریم/ 94] ، فَسْئَلِ الْعادِّينَ [ المؤمنون/ 113] ، أي : أصحاب العَدَدِ والحساب . وقال تعالی: كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِينَ [ المؤمنون/ 112] ، وَإِنَّ يَوْماً عِنْدَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ [ الحج/ 47] ،
( ع د د ) العدد
( گنتی ) آحا د مرکبہ کو کہتے ہیں اور بعض نے اس کے معنی ترکیب آحاد یعنی آجا د کو ترکیب دینا بھی کئے ہیں مگر ان دونوں معنی کا مرجع ایک ہی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس/ 5] بر سوں کا شمار اور ( کاموں ) کا حساب بر سوں کا شمار اور ( کاموں ) کا حساب ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَضَرَبْنا عَلَى آذانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَداً [ الكهف/ 11] ہم نے غار میں کئی سال تک ان کانوں پر ( نیند کا ) بردہ ڈالے ( یعنی ان کو سلائے ) رکھا ۔ کے لفظ سے کثرت تعداد کی طرف اشارہ ہے ۔ العد کے معنی گنتی اور شمار کرنے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَقَدْ أَحْصاهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا[ مریم/ 94] اس نے ان سب کا اپنے علم سے احاطہ اور ایک ایک کو شمار کر رکھا ہے ۔ اور آیت ۔ فَسْئَلِ الْعادِّينَ [ المؤمنون/ 113] کے معنی یہ ہیں کہ حساب دانوں سے پوچھ دیکھو ۔ كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِينَ [ المؤمنون/ 112] زمین میں کتنے برس رہے ۔ وَإِنَّ يَوْماً عِنْدَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ [ الحج/ 47] بیشک تمہارے پروردگار کے نزدیک ایک روز تمہارے حساب کی رو سے ہزار برس کے برابر ہے۔