Mufradat-ul-Quran - Al-Baqara : 84
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُوْنَ دِمَآءَكُمْ وَ لَا تُخْرِجُوْنَ اَنْفُسَكُمْ مِّنْ دِیَارِكُمْ ثُمَّ اَقْرَرْتُمْ وَ اَنْتُمْ تَشْهَدُوْنَ
وَاِذْ : اور جب اَخَذْنَا : ہم نے لیا مِیْثَاقَكُمْ : تم سے پختہ عہد لَا تَسْفِكُوْنَ : نہ تم بہاؤگے دِمَآءَكُمْ : اپنوں کے خون وَلَا تُخْرِجُوْنَ : اور نہ تم نکالوگے اَنفُسَكُم : اپنوں مِّن دِيَارِكُمْ : اپنی بستیوں سے ثُمَّ : پھر اَقْرَرْتُمْ : تم نے اقرار کیا وَاَنتُمْ : اور تم تَشْهَدُوْنَ : گواہ ہو
اور جب ہم نے تم سے عہد لیا کہ آپس میں کشت و خون نہ کرنا اور اپنے کو ان کے وطن سے نہ نکالنا تو تم نے اقرار کرلیا اور تم (اس بات کے) گواہ ہو
وَاِذْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُوْنَ دِمَاۗءَكُمْ وَلَا تُخْرِجُوْنَ اَنْفُسَكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ ثُمَّ اَقْــرَرْتُمْ وَاَنْتُمْ تَشْہَدُوْنَ۝ 84 أخذ الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف/ 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة/ 255] ( اخ ذ) الاخذ ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ { مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ } ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ { لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ } ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔ وثق وَثِقْتُ به أَثِقُ ثِقَةً : سکنت إليه واعتمدت عليه، وأَوْثَقْتُهُ : شددته، والوَثَاقُ والوِثَاقُ : اسمان لما يُوثَقُ به الشیء، والوُثْقَى: تأنيث الأَوْثَق . قال تعالی: وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر/ 26] ، حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد/ 4] والمِيثاقُ : عقد مؤكّد بيمين وعهد، قال : وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران/ 81] ، وَإِذْ أَخَذْنا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثاقَهُمْ [ الأحزاب/ 7] ، وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء/ 154] والمَوْثِقُ الاسم منه . قال : حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف/ 66] ( و ث ق ) وثقت بہ اثق ثقتہ ۔ کسی پر اعتماد کرنا اور مطمئن ہونا ۔ اوثقتہ ) افعال ) زنجیر میں جکڑنا رسی سے کس کر باندھنا ۔ اولوثاق والوثاق اس زنجیر یارسی کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کو کس کو باندھ دیا جائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر/ 26] اور نہ کوئی ایسا جکڑنا چکڑے گا ۔ حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد/ 4] یہ ان تک کہ جب ان کو خوب قتل کرچکو تو ( جو زندہ پکڑے جائیں ان کو قید کرلو ۔ المیثاق کے منیإ پختہ عہدو پیمان کے ہیں جو قسموں کے ساتھ موکد کیا گیا ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران/ 81] اور جب ہم نے پیغمبروں سے عہد لیا ۔ وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء/ 154] اور عہد بھی ان سے پکالیا ۔ الموثق ( اسم ) پختہ عہد و پیمان کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف/ 66] کہ جب تک تم خدا کا عہد نہ دو ۔ سفك السَّفْكُ في الدّم : صَبُّهُ ، قال تعالی: وَيَسْفِكُ الدِّماءَ [ البقرة/ 30] ، وکذا في الجوهر المذاب، وفي الدّمع . ( سک ) السفک ( ض ) کے معنی خون ریزی کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيَسْفِكُ الدِّماءَ [ البقرة/ 30] اور کشت وخون کرتا پھرے ۔ ویسے یہ لفظ ہر سیاں چیز اور آنسو بہانے کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے ۔ دم أصل الدّم دمي، وهو معروف، قال اللہ تعالی: حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ [ المائدة/ 3] ، وجمعه دِمَاء، وقال : لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] ، وقد دَمِيَتِ الجراحةُ ، وفرس مَدْمِيٌّ: شدید الشّقرة، کالدّم في اللّون، والدُّمْيَة صورة حسنة، وشجّة دامية . ( د م ی ) الدم ۔ خون ۔ یہ اصل میں دمامی تھا ( یاء کو برائے تخفیف حذف کردیا ہے ) قرآن میں ہے :۔ :۔ ح ُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ [ المائدة/ 3] تم مردا جانور اور ( بہتا ) لہو یہ سب حرام ہیں ۔ دم کی جمع دمآء ہے ۔ قرآن میں ہے لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] کہ آپس میں کشت و خون نہ کرنا ۔ دمیت ( د) الجراحۃ ۔ زخم سے خون بہنا ۔ فرس مدعی ۔ خون کی طرح نہایت سرخ رنگ کا گھوڑا ۔ الدمیۃ ۔ گڑیا ( جو خون کی مانند سرخ اور منقوش ہو ) شکجۃ دامیہ ۔ سر کا زخم جس سے خون بہہ رہا ہو ۔ خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ نفس الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، ( نس ) النفس کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے دار الدَّار : المنزل اعتبارا بدورانها الذي لها بالحائط، وقیل : دارة، وجمعها ديار، ثم تسمّى البلدة دارا، والصّقع دارا، والدّنيا كما هي دارا، والدّار الدّنيا، والدّار الآخرة، إشارة إلى المقرّين في النّشأة الأولی، والنّشأة الأخری. وقیل : دار الدّنيا، ودار الآخرة، قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ، أي : الجنة، ( د و ر ) الدار ۔ منزل مکان کو کہتے ہیں کیونکہ وہ چار دیواری سے گھرا ہوتا ہے بعض نے دراۃ بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع دیار ہے ۔ پھر دار کا لفظ شہر علاقہ بلکہ سارے جہان پر بولا جاتا ہے اور سے نشاۃ اولٰی اور نشاہ ثانیہ میں دو قرار گاہوں کی طرف اشارہ ہے بعض نے ( باضافت ) بھی کہا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ : لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ان کے لئے ان کے اعمال کے صلے میں پروردگار کے ہاں سلامتی کا گھر ہے ۔ قرر قَرَّ في مکانه يَقِرُّ قَرَاراً ، إذا ثبت ثبوتا جامدا، وأصله من القُرِّ ، وهو البرد، وهو يقتضي السّكون، والحرّ يقتضي الحرکة، وقرئ : وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ [ الأحزاب/ 33] «1» قيل «2» : أصله اقْرِرْنَ فحذف إحدی الرّاء ین تخفیفا نحو : فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ [ الواقعة/ 65] ، أي : ظللتم . قال تعالی: جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ قَراراً [ غافر/ 64] ، أَمَّنْ جَعَلَ الْأَرْضَ قَراراً [ النمل/ 61] ، أي : مستقرّا، وقال في صفة الجنّة : ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ«3» ، وفي صفة النّار قال : فَبِئْسَ الْقَرارُ [ ص/ 60] ، وقوله : اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْأَرْضِ ما لَها مِنْ قَرارٍ [إبراهيم/ 26] ، أي : ثبات، وقال الشاعر : 365- ولا قرار علی زأر من الأسد «4» أي : أمن واسْتِقْرَارٍ ، ويوم الْقَرِّ : بعد يوم النّحر لاستقرار الناس فيه بمنی، وو ، وقیل : قَرَّتْ ليلتنا تَقِرُّ ، ويوم قَرٌّ ، ولیلة قِرَّةٌ ، وقُرَّ فلان فهو مَقْرُورٌ: أصابه الْقُرُّ ، وقیل : حرّة تحت قِرَّةٍ «2» ، وقَرَرْتُ القدر أَقُرُّهَا : ( ق ر ر ) قرنی مکانہ یقر قرار ا ( ض ) کے معنی کسی جگہ جم کر ٹھہر جانے کے ہیں اصل میں یہ فر سے ہے جس کے معنی سردی کے ہیں جو کہ سکون کو چاہتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ [ الأحزاب/ 33 اور اپن گھروں میں ٹھہری رہو ۔ میں ایک قرات وقرن فی بیوتکن ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں اقررن ہے ایک راء کو تخفیف کے لئے خلاف کردیا گیا ہے جیسا کہ آیت ؛ فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ [ الواقعة/ 65] ، ہے اور ایک ) لام کو تخفیفا حذف کردیا گیا ہے ۔ القرار ( اسم ) ( ٹھہرنے کی جگہ ) قرآن میں ہے : جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ قَراراً [ غافر/ 64]( جس نے ) زمین کو قرار لگا دبنا یا ۔ اور جنت کے متعلق فرمایا : ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ«3»جو رہنے کے لائق اور جہاں نتھرا ہوا پانی تھا ( پناہ دی ) اور جن ہم کے متعلق فرمایا : فَبِئْسَ الْقَرارُ [ ص/ 60] اور وہ بڑا ٹھکانا ہے ۔ اور آیت کریمہ : اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْأَرْضِ ما لَها مِنْ قَرارٍ [إبراهيم/ 26] زمین کے اوپر ہی سے اکھیڑ کر پھینک دیاجائے ۔ اس کو ذرا بھی قرار نہیں ہے ۔۔۔ قرار کے معنی ثبات کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے (352) ولا قرار عل ی زاز من الاسد یعنی شیر کے دھاڑنے پر امن ( چین) حاصل نہیں ہوسکتا ۔ اور یوم النحر سے بعد کے دن کو یوم القر کہاجاتا ہے کیونکہ لوگ اس روز منیٰ میں ٹھہری رہتے ہیں ۔ شهد وشَهِدْتُ يقال علی ضربین : أحدهما جار مجری العلم، وبلفظه تقام الشّهادة، ويقال : أَشْهَدُ بکذا، ولا يرضی من الشّاهد أن يقول : أعلم، بل يحتاج أن يقول : أشهد . والثاني يجري مجری القسم، فيقول : أشهد بالله أنّ زيدا منطلق، فيكون قسما، ومنهم من يقول : إن قال : أشهد، ولم يقل : بالله يكون قسما، ( ش ھ د ) المشھود والشھادۃ شھدت کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1) علم کی جگہ آتا ہے اور اسی سے شہادت ادا ہوتی ہے مگر اشھد بکذا کی بجائے اگر اعلم کہا جائے تو شہادت قبول ہوگی بلکہ اشھد ہی کہنا ضروری ہے ۔ ( 2) قسم کی جگہ پر آتا ہے چناچہ اشھد باللہ ان زید ا منطلق میں اشھد بمعنی اقسم ہے
Top