Mufradat-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 72
وَ وَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَ١ؕ وَ یَعْقُوْبَ نَافِلَةً١ؕ وَ كُلًّا جَعَلْنَا صٰلِحِیْنَ
وَوَهَبْنَا : اور ہم نے عطا کیا لَهٗٓ : اس کو اِسْحٰقَ : اسحق وَيَعْقُوْبَ : اور یعقوب نَافِلَةً : پوتا وَكُلًّا : اور سب جَعَلْنَا : ہم نے بنایا صٰلِحِيْنَ : صالح (نیکو کار)
اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق عطا کئے اور مستزاد براں یعقوب اور سب کو نیک بخت کیا
وَوَہَبْنَا لَہٗٓ اِسْحٰقَ۝ 0ۭ وَيَعْقُوْبَ نَافِلَۃً۝ 0ۭ وَكُلًّا جَعَلْنَا صٰلِحِيْنَ۝ 72 وهب الهِبَةُ : أن تجعل ملكك لغیرک بغیر عوض . يقال : وَهَبْتُهُ هِبَةً ومَوْهِبَةً ومَوْهِباً. قال تعالی: وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ [ الأنعام/ 84] ، الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْماعِيلَ وَإِسْحاقَ [إبراهيم/ 39] ، إِنَّما أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم/ 19] ( و ہ ب ) وھبتہ ھبۃ وموھبۃ ومو ھبا بلا عوض کوئی چیز دے دینا یا کچھ دینا قرآن میں ہے : ۔ وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ [ الأنعام/ 84] اور ہم نے ان کو اسحاق اور یعقوب ) بخشے ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْماعِيلَ وَإِسْحاقَ [إبراهيم/ 39] خدا کا شکر ہے جس نے مجھے بڑی عمر اسماعیل اور اسحاق بخشے ۔ إِنَّما أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم/ 19] انہوں نے کہا کہ میں تو تمہارے پروردگار کا بھیجا ہوا یعنی فر شتہ ہوں اور اسلئے آیا ہوں کہ تمہیں پاکیزہ لڑکا بخشوں ۔ نفل النَّفَلُ قيل : هو الغَنِيمَةُ بعَيْنِهَا لکن اختلفتِ العبارةُ عنه لاختلافِ الاعْتِبَارِ ، فإنه إذا اعتُبِر بکونه مظفوراً به يقال له : غَنِيمَةٌ ، وإذا اعْتُبِرَ بکونه مِنْحَةً من اللہ ابتداءً من غير وجوبٍ يقال له : نَفَلٌ ، ومنهم من فَرَقَ بينهما من حيثُ العمومُ والخصوصُ ، فقال : الغَنِيمَةُ ما حَصَلَ مسْتَغْنَماً بِتَعَبٍ کان أو غَيْرِ تَعَبٍ ، وباستحقاقٍ کان أو غيرِ استحقاقٍ ، وقبل الظَّفَرِ کان أو بَعْدَهُ. والنَّفَلُ : ما يَحْصُلُ للإنسانِ قبْلَ القِسْمَةِ من جُمْلَةِ الغَنِيمَةِ ، وقیل : هو ما يَحْصُلُ للمسلمین بغیر قتالٍ ، وهو الفَيْءُ «2» ، وقیل هو ما يُفْصَلُ من المَتَاعِ ونحوه بَعْدَ ما تُقْسَمُ الغنائمُ ، وعلی ذلک حُمِلَ قولُه تعالی: يَسْئَلُونَكَ عَنِ الْأَنْفالِ الآية [ الأنفال/ 1] ، وأصل ذلک من النَّفْلِ. أي : الزیادةِ علی الواجبِ ، ويقال له : النَّافِلَةُ. قال تعالی: وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نافِلَةً لَكَ [ الإسراء/ 79] ، وعلی هذا قوله : وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ وَيَعْقُوبَ نافِلَةً [ الأنبیاء/ 72] وهو وَلَدُ الوَلَدِ ، ويقال : نَفَلْتُهُ كذا . أي : أعطيْتُهُ نَفْلًا، ونَفَلَهُ السّلطانُ : أعطاه سَلَبَ قَتِيلِهِ نَفْلًا . أي : تَفَضُّلًا وتبرُّعاً ، والنَّوْفَلُ : الكثيرُ العَطَاءِ ، وانْتَفَلْتُ من کذا : انْتَقَيْتُ منه . ( نل ) النفل بعض کے نزدیک نفل اور غنیمت ایک ہی چیز کے دونام ہیں ان میں صرف اعتباری فرق ہے اس لحاظ سے کہ وہ فتح کے بعد چھینا ہوا مال ہوتا ہے اسے غنیمت کہا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا غیر لازم ہونے کے لحاظ نفل کہلاتا ہے ۔ بعض کے نزدیک ان میں نسبت عموم وخصؤص مطلق ہے یعنی غنیمت عام ہے اور ہر اس مال کو کہتے ہیں جو لوٹ سے حاصل ہو خواہ مشقت سے ہو یا بلا مشقت کے فتح سے قبل حاصل ہو یا بعد میں استحقاق سے حاصل ہو یا بغیر استحقاق کے اور نفل خاض کر اس مال کو کہتے ہیں ۔ جو غنیمت سے قبل از تقسیم حاصل ہوا ہو ۔ بعض کے نزدیک نفل وہ مال ہے جو بغیر جنگ کے مسلمانوں کے ہاتھ لگ جائے اور اسے فے بھی کہتے ہیں اور بعض نے کہا ہے جو سامان وغیرہ تقسیم غنائم کے بعد بانٹا جاتا ہے ۔ اسے نفل کہا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ الْأَنْفالِالآية [ الأنفال/ 1]( اے محمد ﷺ مجاہد لوگ ) آپ سے غنیمت کے مال کے بارے میں در یافت کرتے ہیں کہ کیا حکم ہے ) اصل میں انفال نفل سے ہے جس کے معنی واجب پر زیادتی کے ہیں اور اسے نافلۃ بھی کہا جاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نافِلَةً لَكَ [ الإسراء/ 79] اور بعض حصہ شب میں بیدار ہوا کرو اور تہجد کی نماز پڑھا کرو یہ شب خیزی تمہارے لئے سبب زیادہ ثواب اور نماز تہجد تم کو نفل ہی اور آیت کریمہ : ۔ وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ وَيَعْقُوبَ نافِلَةً [ الأنبیاء/ 72] اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق عطا کئے اور مستنراد وبر آن یعقوب ۔ میں نافلۃ بھی اسی معنی پر محمول ہے اور یہاں اس سے مراد اولاد کی اولاد ہے محاورہ ہے ۔ نقلتہ کذا میں نے اسے بطور نفل کے دیا ۔ نفلۃ السلطان بادشاہ نے اسے تبرع کے طور پر قتیل کا سامان سے دیا النوافل عطائے کثیر ۔ انتفلت من کذا میں نے اس سے چن لیا ۔ صالح الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ( ص ل ح ) الصالح ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔
Top