Mufradat-ul-Quran - Al-Qasas : 81
فَخَسَفْنَا بِهٖ وَ بِدَارِهِ الْاَرْضَ١۫ فَمَا كَانَ لَهٗ مِنْ فِئَةٍ یَّنْصُرُوْنَهٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ۗ وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُنْتَصِرِیْنَ
فَخَسَفْنَا : پھر ہم نے دھنسا دیا بِهٖ : اس کو وَبِدَارِهِ : اور اس کے گھر کو الْاَرْضَ : زمین فَمَا كَانَ : سو نہ ہوئی لَهٗ : اس کے لیے مِنْ فِئَةٍ : کوئی جماعت يَّنْصُرُوْنَهٗ : مدد کرتی اس کو مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوائے وَمَا كَانَ : اور نہ ہوا وہ مِنَ : سے الْمُنْتَصِرِيْنَ : بدلہ لینے والے
پس ہم نے قارون کو اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا تو خدا کے سوا کوئی جماعت اس کی مددگار نہ ہوسکی اور نہ وہ بدلا لے سکا
فَخَسَفْنَا بِہٖ وَبِدَارِہِ الْاَرْضَ۝ 0ۣ فَمَا كَانَ لَہٗ مِنْ فِئَۃٍ يَّنْصُرُوْنَہٗ مِنْ دُوْنِ اللہِ۝ 0ۤ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُنْتَصِرِيْنَ۝ 81 خسف الخُسُوف للقمر، والکسوف للشمس «1» ، وقال بعضهم : الکسوف فيهما إذا زال بعض ضوئهما، والخسوف : إذا ذهب كلّه . ويقال خَسَفَهُ اللہ وخسف هو، قال تعالی: فَخَسَفْنا بِهِ وَبِدارِهِ الْأَرْضَ [ القصص/ 81] ، وقال : لَوْلا أَنْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا لَخَسَفَ بِنا [ القصص/ 82] ، وفي الحدیث : «إنّ الشّمس والقمر آيتان من آيات اللہ لا يُخْسَفَانِ لموت أحد ولا لحیاته» «2» ، وعین خَاسِفَة : إذا غابت حدقتها، فمنقول من خسف القمر، وبئر مَخْسُوفَة : إذا غاب ماؤها ونزف، منقول من خسف اللہ القمر . وتصوّر من خسف القمر مهانة تلحقه، فاستعیر الخسف للذّلّ ، فقیل : تحمّل فلان خسفا . ( خ س) الخسوف کا لفظ چاند کے بےنور ہونے اور کسوف کا لفظ سورج کے بےنور ہونے پر بولا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ خسوف قدر ہے بےنور ہونے کو کہاجاتا ہے اور کسوف پوری طرح بےنور ہوجانے کو کہتے ہیں ، عام اس سے کہ وہ سورج ہو یا چاند کہاجاتا ہے خسفہ اللہ اللہ نے اسے زمین میں دھنسادیا ( متعدی ) خسف ھو ( لازمی ) زمین میں دھنس جانا ۔ قرآن میں ہے :۔ فَخَسَفْنا بِهِ وَبِدارِهِ الْأَرْضَ [ القصص/ 81] پس ہم نے قارون کو اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا ۔ لَوْلا أَنْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا لَخَسَفَ بِنا [ القصص/ 82] اگر خدا ہم پر احسان نہ کرتا تو ہمیں بھی دھنسا دیتا ۔ حدیث میں ہے ( ا اا) ان الشمس والقمر ایتان من ایات اللہ لایخسفان لموت احد ولا لحیاتہ کہ سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں جو کسی کی موت پاپیدائش کی وجہ سے بےنور نہیں ہوتے ۔ اور عین خاسفہ ( اندر دھنسی ہوئی آنکھ ) کا محاورہ خسف القمر سے منقول ہے بئر مخسوفۃ وہ کنواں جس کا پانی غائب ہوگیا ہو اور چاند گہن لگنے سے چونکہ ماند پڑجاتا ہے اس لیے بطور استعارہ خسیف بمعنی ذلت ورسوائی بھی آجاتا ہے چناچہ کہا جاتا ہے ۔ تحمل فلان خسفا ۔ فلاں شخص ذلیل ہوگیا ۔ دار الدَّار : المنزل اعتبارا بدورانها الذي لها بالحائط، وقیل : دارة، وجمعها ديار، ثم تسمّى البلدة دارا، والصّقع دارا، والدّنيا كما هي دارا، والدّار الدّنيا، والدّار الآخرة، إشارة إلى المقرّين في النّشأة الأولی، والنّشأة الأخری. وقیل : دار الدّنيا، ودار الآخرة، قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ، أي : الجنة، ( د و ر ) الدار ۔ منزل مکان کو کہتے ہیں کیونکہ وہ چار دیواری سے گھرا ہوتا ہے بعض نے دراۃ بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع دیار ہے ۔ پھر دار کا لفظ شہر علاقہ بلکہ سارے جہان پر بولا جاتا ہے اور سے نشاۃ اولٰی اور نشاہ ثانیہ میں دو قرار گاہوں کی طرف اشارہ ہے بعض نے ( باضافت ) بھی کہا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ : لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ان کے لئے ان کے اعمال کے صلے میں پروردگار کے ہاں سلامتی کا گھر ہے ۔ فِئَةُ والفِئَةُ : الجماعة المتظاهرة التي يرجع بعضهم إلى بعض في التّعاضد . قال تعالی: إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال/ 45] ، كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً [ البقرة/ 249] ، فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتا[ آل عمران/ 13] ، فِي الْمُنافِقِينَ فِئَتَيْنِ [ النساء/ 88] ، مِنْ فِئَةٍ يَنْصُرُونَهُ [ القصص/ 81] ، فَلَمَّا تَراءَتِ الْفِئَتانِ نَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال/ 48] الفئۃ اس جماعت کو کہتے ہیں جس کے افراد تعاون اور تعاضد کے لئے ایک دوسرے کیطرف لوٹ آئیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال/ 45] جب ( کفار کی ) کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو ۔ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً [ البقرة/ 249] بسا اوقات تھوڑی سی جماعت نے ۔۔۔۔۔ بڑی جماعت پر فتح حاصل کی ۔ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتا[ آل عمران/ 13] دو گر ہوں میں جو ( جنگ بدد میں ) آپس میں بھڑ گئے ۔ فِي الْمُنافِقِينَ فِئَتَيْنِ [ النساء/ 88] کہ تم منافقوں کے بارے میں دو گر وہ ۔ مِنْ فِئَةٍ يَنْصُرُونَهُ [ القصص/ 81] کوئی جماعت اس کی مددگار نہ ہوسکی فَلَمَّا تَراءَتِ الْفِئَتانِ نَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال/ 48] جب یہ دونوں فوجیں ایک دوسرے کے مقابلے میں صف آر ہوئیں ۔ نصر النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] ( ن ص ر ) النصر والنصر کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر/ 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔ انْتِصَارُ والاسْتِنْصَارُ وَالانْتِصَارُ والاسْتِنْصَارُ : طلب النُّصْرَة وَالَّذِينَ إِذا أَصابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُونَ [ الشوری/ 39] ، وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ [ الأنفال/ 72] ، وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ [ الشوری/ 41] ، فَدَعا رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ [ القمر/ 10] وإنما قال :«فَانْتَصِرْ» ولم يقل : انْصُرْ تنبيهاً أنّ ما يلحقني يلحقک من حيث إنّي جئتهم بأمرك، فإذا نَصَرْتَنِي فقد انْتَصَرْتَ لنفسک، وَالتَّنَاصُرُ : التَّعاوُن . قال تعالی: ما لَكُمْ لا تَناصَرُونَ [ الصافات/ 25] لا نتصار والانتنصار کے منعی طلب نصرت کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَالَّذِينَ إِذا أَصابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُونَ [ الشوری/ 39] اور جو ایسے ہیں کہ جب ان پر ظلم وتعدی ہو تو مناسب طریقے سے بدلہ لیتے ہیں ۔ وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ [ الأنفال/ 72] اور اگر وہ تم سے دین کے معاملات میں مدد طلب کریں تو تم کو مدد کرتی لا زم ہے ۔ وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ [ الشوری/ 41] اور جس پر ظلم ہوا ہو وہ اگر اس کے بعد انتقام لے ۔ فَدَعا رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ [ القمر/ 10] تو انہوں نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ ( بار الہ میں ان کے مقابلے میں کمزور ہوں ان سے ) بدلہ لے ۔ میں انصر کی بجائے انتصر کہنے سے بات پر متنبہ کیا ہے کہ جو تکلیف مجھے پہنچ رہی ہے وہ گویا تجھے ذات باری تعالیٰ پہنچ رہی ہے وہ گویا تجھے ( ذات باری تعا لی پہنچ رہی ہے کیو ن کہ میں تیرے حکم سے ان کے پاس گیا تھا لہذا میری مدد فر مانا گو یا یا تیرا اپنی ذات کے لئے انتقام لینا ہے ۔ لتنا صر کے معنی باہم تعاون کرنے کے ہیں ۔ چنا نچہ قرآن میں ہے : ما لَكُمْ لا تَناصَرُونَ [ الصافات/ 25] تم کو کیا ہوا کہ ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے ۔
Top