Mufradat-ul-Quran - Ar-Rahmaan : 24
وَ لَهُ الْجَوَارِ الْمُنْشَئٰتُ فِی الْبَحْرِ كَالْاَعْلَامِۚ
وَلَهُ الْجَوَارِ : اور اسی کے لیے ہیں جہاز الْمُنْشَئٰتُ : اونچے اٹھے ہوئے فِي الْبَحْرِ : سمندر میں كَالْاَعْلَامِ : اونچے پہاڑوں کی طرح
اور جہاز بھی اسی کے ہیں جو دریا میں پہاڑوں کی طرح اونچے کھڑے ہوتے ہیں
وَلَہُ الْجَوَارِ الْمُنْشَــٰٔتُ فِي الْبَحْرِ كَالْاَعْلَامِ۝ 24 ۚ جری الجَرْي : المرّ السریع، وأصله كمرّ الماء، ولما يجري بجريه . يقال : جَرَى يَجْرِي جِرْيَة وجَرَيَاناً. قال عزّ وجل : وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] وقال تعالی: جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف/ 31] ، وقال : وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم/ 46] ، وقال تعالی: فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية/ 12] ، وقال : إِنَّا لَمَّا طَغَى الْماءُ حَمَلْناكُمْ فِي الْجارِيَةِ [ الحاقة/ 11] ، أي : السفینة التي تجري في البحر، وجمعها : جَوَارٍ ، قال عزّ وجلّ : وَلَهُ الْجَوارِ الْمُنْشَآتُ [ الرحمن/ 24] ، وقال تعالی: وَمِنْ آياتِهِ الْجَوارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلامِ [ الشوری/ 32] ، ويقال للحوصلة : جِرِّيَّة «2» ، إمّا لانتهاء الطعام إليها في جريه، أو لأنها مجری الطعام . والإِجْرِيَّا : العادة التي يجري عليها الإنسان، والجَرِيُّ : الوکيل والرسول الجاري في الأمر، وهو أخصّ من لفظ الرسول والوکيل، وقد جَرَيْتُ جَرْياً. وقوله عليه السلام : «لا يستجرینّكم الشّيطان» يصح أن يدّعى فيه معنی الأصل . أي : لا يحملنّكم أن تجروا في ائتماره وطاعته، ويصح أن تجعله من الجري، أي : الرسول والوکيل ومعناه : لا تتولوا وکالة الشیطان ورسالته، وذلک إشارة إلى نحو قوله عزّ وجل : فَقاتِلُوا أَوْلِياءَ الشَّيْطانِ [ النساء/ 76] ، وقال عزّ وجل : إِنَّما ذلِكُمُ الشَّيْطانُ يُخَوِّفُ أَوْلِياءَهُ [ آل عمران/ 175] . ( ج ر ی ) جریٰ ( ض) جریۃ وجریا وجریا نا کے معنی تیزی سے چلنے کے ہیں ۔ اصل میں یہ لفظ پانی اور پانی کی طرح چلنے والی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] اور یہ نہریں جو میرے ( محلوں کے ) نیچے بہ رہی ہیں ۔ میری نہیں ہیں ۔ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف/ 31] باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم/ 46] اور تاکہ کشتیاں چلیں فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية/ 12] اس میں چشمے بہ رہے ہوں گے اور آیت کریمہ ؛ إِنَّا لَمَّا طَغَى الْماءُ حَمَلْناكُمْ فِي الْجارِيَةِ [ الحاقة/ 11] جب پانی طغیانی پر آیا تو ہم نے تم لو گوں کو کشتی میں سوار کرلیا ۔ میں جاریۃ سے مراد کشتی ہے اس کی جمع جوار آتی ہے جیسے فرمایا ؛۔ وَلَهُ الْجَوارِ الْمُنْشَآتُ [ الرحمن/ 24] اور جہاز جو اونچے کھڑے ہوتے ہیں ۔ وَمِنْ آياتِهِ الْجَوارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلامِ [ الشوری/ 32] اور اسی کی نشانیوں میں سے سمندر کے جہاز ہیں ( جو ) گویا یا پہاڑ ہیں ۔ اور پرند کے سنکدانہ کو جریۃ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ کھانا چل کر وہاں پہنچتا ہے اور یا اس لئے کہ وہ طعام کا مجریٰ بنتا ہے ۔ الاجریات عاوت جس پر انسان چلتا ہے ۔ الجری وکیل ۔ یہ لفظ رسول اور وکیل سے اخص ہی ۔ اور جرمت جریا کے معنی وکیل بنا کر بھینے کے ہیں اور حدیث میں ہے :۔ یہاں یہ لفظ اپنے اصل معنی پر بھی محمول ہوسکتا ہے یعنی شیطان اپنے حکم کی بجا آوری اور اطاعت میں بہ جانے پر تمہیں بر انگیختہ نہ کرے اور یہ بھی ہوسکتا ہے ۔ کہ جری بمعنی رسول یا وکیل سے مشتق ہو اور معنی یہ ہونگے کہ شیطان کی وکالت اور رسالت کے سرپر ست مت بنو گویا یہ آیت کریمہ ؛ فَقاتِلُوا أَوْلِياءَ الشَّيْطانِ [ النساء/ 76] شیطان کے مددگاروں سے لڑو ۔ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے اور فرمایا :إِنَّما ذلِكُمُ الشَّيْطانُ يُخَوِّفُ أَوْلِياءَهُ [ آل عمران/ 175] یہ ( خوف دلانے والا ) تو شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے ڈرتا ہے ۔ المنشئت : اسم مفعول جمع مؤنث۔ المنشأۃ واحد۔ انشاء ( افعال) مصدر سطح سمندر سے اونچی کی ہوئی کشتیاں، یا وہ کشتیاں جن کے بادباں اونچے ہوتے ہیں۔ نشا ونشاۃ ( باب فتح، کرم) سے بمعنی پیدا ہونا ہے۔ انشاء ( افعال) پیدا کرنا پرورش کرنا۔ اوپر ابھارنا ہے جیسے کہ قرآن مجید میں ہے وینسی السحاب الثقال (13: 12) اور بھاری بھاری بادل اٹھاتا ہے یا پیدا کرتا ہے۔ عَلَمُ : الأثر الذي يُعْلَمُ به الشیء کعلم الطّريق وعلم الجیش، وسمّي الجبل علما لذلک، وجمعه أَعْلَامٌ ، وقرئ : ( وإنّه لَعَلَمٌ للسّاعة) «1» وقال : وَمِنْ آياتِهِ الْجَوارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلامِ [ الشوری/ 32] ، وفي أخری: وَلَهُ الْجَوارِ الْمُنْشَآتُ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلامِ [ الرحمن/ 24] . والشّقّ في الشّفة العلیا عَلَمٌ ، وعلم الثّوب، ويقال : فلان عَلَمٌ ، أي : مشهور يشبّه بعلم الجیش . وأَعْلَمْتُ كذا : جعلت له علما، ومَعَالِمُ الطّريق والدّين، الواحد مَعْلَمٌ ، وفلان معلم للخیر، والعُلَّامُ : الحنّاء وهو منه، العلم ۔ ایسا نشان جس سے کوئی نشے پہچانی جاسکے جیسے علم الطریق اس نشان کو کہتے ہیں جو راستہ کی پہچان کے لئے اس میں کھڑا کردیا جاتا ہے اور فوج کی پہچان ہوجاتی ہے ۔ چناچہ ایک قرءات ( میں عیسٰی (علیہ السلام) کو ) وإنّه لَعَلَمٌ للسّاعة) کہا گیا ہے یعنی وہ قیامت کی نشانی ہیں ۔ اور اسی معنی کے اعتبار سے پہاڑ کو بھی علم کہا جاتا ہے اس کی جمع اعلام ہے قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ آياتِهِ الْجَوارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلامِ [ الشوری/ 32] اور اس کی نشانیوں میں سے سمندر کے جہاز ہیں جو گویا پہاڑ ہیں ۔ اور دوسرے مقام پر فرمایا : ۔ وَلَهُ الْجَوارِ الْمُنْشَآتُ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلامِ [ الرحمن/ 24] اور جہاز بھی اسی کے ہیں جو دریا میں پہاڑوں کی طرح اونچے کھڑے ہوتے ہیں نیز اوپر کے ہونٹ کے شگاف اور کپڑے کے نقش ونگار کو بھی علم کہا جاتا ہے اور محاورہ ہے : فلان علم فلان مشہور ومصروف ہے جھنڈے کے ساتھ تشبیہ کے اعتبار سے یہ معنی مراد ہوتا ہے ۔ اعلمت کذا کے معنی کسی چیز پر نشان لگا نا کے ہیں اور معالم الطریق اولدین میں معالم کا وحد معلم ہے اور معلم اس نشان کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کی پہچان ہو ہو سکے محاورہ ۔ فلان معلم للخیر فلان خیروبرکت کا نشان ہے ۔ العلام مہندی
Top