Dure-Mansoor - At-Tawba : 118
وَّ عَلَى الثَّلٰثَةِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْا١ؕ حَتّٰۤى اِذَا ضَاقَتْ عَلَیْهِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَ ضَاقَتْ عَلَیْهِمْ اَنْفُسُهُمْ وَ ظَنُّوْۤا اَنْ لَّا مَلْجَاَ مِنَ اللّٰهِ اِلَّاۤ اِلَیْهِ١ؕ ثُمَّ تَابَ عَلَیْهِمْ لِیَتُوْبُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۠   ۧ
وَّعَلَي : اور پر الثَّلٰثَةِ : وہ تین الَّذِيْنَ : وہ جو خُلِّفُوْا : پیچھے رکھا گیا حَتّٰى : یہانتک کہ اِذَا : جب ضَاقَتْ : تنگ ہوگئی عَلَيْهِمُ : ان پر الْاَرْضُ : زمین بِمَا رَحُبَتْ : باوجود کشادگی وَضَاقَتْ : اور وہ تنگ ہوگئی عَلَيْهِمْ : ان پر اَنْفُسُھُمْ : ان کی جانیں وَظَنُّوْٓا : اور انہوں نے جان لیا اَنْ : کہ لَّا مَلْجَاَ : نہیں پناہ مِنَ : سے اللّٰهِ : اللہ اِلَّآ : مگر اِلَيْهِ : اس کی طرف ثُمَّ : پھر تَابَ عَلَيْهِمْ : وہ متوجہ ہوا ان پر لِيَتُوْبُوْا : تاکہ وہ توبہ کریں اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ ھُوَ : وہ التَّوَّابُ : توبہ قبول کرنیوالا الرَّحِيْمُ : نہایت مہربان
اور اللہ نے ان تین شخصوں کے حال پر بھی توجہ فرمائی جن کا معاملہ ملتوی چھوڑ دیا گیا تھا یہاں تک کہ جب زمین اپنی فراخی کے باوجود ان پر تنگ ہوگئی اور وہ خود اپنی جانوں سے تنگ آگئے اور انہوں نے یقین کرلیا کہ اللہ سے بچ کر کہیں پناہ نہیں مل سکتی سوائے اس کے کہ اس کی طرف رجوع کیا جائے۔ پھر اللہ نے ان کے حال پر توجہ فرمائی تاکہ وہ رجوع کریں بیشک اللہ خوب توبہ قبول فرمانے والا ہے اور رحم کرنے والا ہے
کاتبین صحابہ سے بائیکاٹ کا واقعہ : 1:۔ ابن جریر وابن منذر وابو الشیخ وابن منذر وابن مردویہ وابن عساکر رحمہما اللہ نے جابر بن عبداللہ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وعلی الثلثۃ الذین خلفوا “ سے مراد کعب بن مالک ہلال بن امیہ مرارہ بن ربیع اور یہ سب انصار میں سے تھے۔ 2:۔ ابن مردویہ رحمہم اللہ نے مجمع بن جاریہ سے روایت کیا کہ وہ تین آدمی جو پیچھے رہ گئے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی (ان کے نام یہ تھے) کعب بن مالک ہلال بن امیہ مرارہ بن ربیع۔ 3:۔ ابن مردویہ (رح) نے ابن شہاب (رح) سے روایت کیا کہ وہ تین آدمی تھے جو پیچھے رہ گئے تھے وہ کعب بن مالک جو بنو سلمہ میں سے ہلال بن امیہ تھے بنو واقف میں سے اور وہ مرارہ بن ربیع تھے بنوعمرو بن عوف میں سے۔ 4:۔ ابن مردویہ (رح) نے انس بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ ذی اوان میں پہنچے تو عام منافقین جو آپ سے پیچھے رہ گئے تھے آپ ان سے ملاقات کرتے تھے رسول اللہ ﷺ اپنے اصحاب سے فرمایا کسی آدمی سے ہرگز بات نہ کرنا جو ہم سے پیچھے رہ گیا اور نہ اس کے ساتھ بیٹھنا۔ یہاں تک کہ میں تم کو اجازت نہ دوں تو تم ان سے بات نہ کرنا جب رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ تشریف لے آئے تو وہ لوگ آئے جو پیچھے رہ گئے تھے انہوں نے سلام کیا تو آپ نے ان سے منہ پھیرلیا اور ایمان والوں نے بھی منہ پھیرلیا یہاں تک کہ ایک آدمی سے اس کجے بھائی نے اس کے باپ نے اس کے چچا نے منہ پھیرلیا وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آنا شروع ہوئے اور غدر کرتے تھے مشقتوں کا اور بیمار یوں کا رسول اللہ ﷺ نے ان پر رحم فرمایا ان سے بیعت لی اور ان کے لئے استغفار بھی فرمایا اور ان لوگوں میں سے جو پیچھے رہ گئے تھے بغیر شک بغیر نفاق کے یہ تین آدمی تھے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورة توبہ میں فرمایا (ان کے نام یہ تھے) کعب بن مالک السلمہ، ھلال بن امیہ واقفی اور مرارہ بن ربیع عامری۔ 5:۔ ابن منذر وابن عساکر (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وعلی الثلثۃ الذین خلفوا “ سے مراد کعب بن مالک، مرارہ بن ربیع اور ھلال بن ربیع عامری ، 6:۔ عبدالرزاق وابن ابی شیبہ واحمد والخاری ومسلم وابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم ابن حبان وابن مردویہ والبیہقی رحمہم اللہ زہری (رح) کے راستے سے زہری (رح) سے روایت کیا کہ مجھ کو عبدالرحمن بن عبد اللہ بن کعب بن مالک نے خبر دی کہ عبداللہ بن کعب ابن مالک نے بیان کیا اور وہ کعب کا ہاتھ پکڑ کر ان کو چلاتے تھے اس کے بیٹوں میں سے جب وہ نابینا ہوگئے کہ میں نے کعب بن مالک کو اپنی بات بیان کرتے ہوئے سنا کہ جس غزوہ پر بھی رسول اللہ ﷺ تشریف لے گئے میں کسی غزوہ میں حضور کے ساتھ سے سوائے غزوہ تبوک کے پیچھے نہیں رہا اور وہاں غزوہ بدر میں ساتھ نہیں گیا تھا اور بدر میں میرا شریک نہ ہونا قابل مواخذہ بھی نہ تھا کیونکہ جو لوگ بدر کو نا جاسکے ان میں سے کسی پر اللہ نے عتاب نہیں کیا وجہ یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ قریش کے قافلہ کے ارادہ سے نکلے تھے (لڑائی کا ارادہ ہی نہ تھا) لیکن بغیر کسی مقررہ وعدہ کے دشمن سے بحکم خدا مڈبھیڑ ہوگئی میں عقبہ والی رات میں بھی حاضر تھا تیسرے عقبہ کے موقع پر جب انصار نے بیعت کیا تھی میں بھی موجود تھا وہاں ہم سب نے اسلام پر مضبوط عہدوپیمان کیا تھا اگرچہ لوگوں میں بدر کی شہرت زیادہ ہے لیکن شب عقبہ کی حاضری کے مقابلہ میں بدر کی شرکت میرے خیال میں افضل نہیں ہے۔ میرا واقعہ یہ ہوا کہ غزوہ تبوک کے زمانہ میں بڑا طاقت ور اور فراخ حال تھا اس سے پہلے کبھی بھی اتنا مرفہ الحال اور طاقت ور نہیں ہوا اس حال میں پہلی ہی مرتبہ میرے پاس سواری کی دو اونٹنیاں ہوئیں اس سے پہلے میرے پاس کبھی دو سواریاں نہیں ہوئیں رسول اللہ ﷺ کا قائدہ تھا کہ جب کسی جہاد کا ارادہ کرتے تھے تو بطور توریہ کسی دوسرے جہاد کا نام لے دیتے تھے اور فرماتے تھے لڑائی خفیہ تدبیر (کانام) ہے جب تبوک کے جہاد کا موقع آیا تو گرمی سخت تھی سفر طویل تھا راستے میں بیابان تھے دشمنوں کی تعداد بہت تھی اس لئے رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں سے کھول کر بیان فرما دیا تھا اور اپنے رخ کی اطلاع دیدی تھی تاکہ اپنے جہاد کی تیاری کرلیں مسلمانوں کی تعداد رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بہت تھی بقول مسلم دس ہزار مسلمان ساتھ تھے حاکم نے کلیل میں حضرت معاذ کی روایت سے لکھا ہے کہ غزوہ تبوک کو جانے کے وقت ہماری تعداد تیس ہزار سے بھی زائد تھی ابوزرعہ نے کہا کس کتاب میں ان کے نام محفوظ نہ تھے زہری نے کہا کتاب سے مراد رجسٹر ہے جو آدمی بھی غیر حاضر ہونا چاہتا تھا وہ یہی سمجھتا تھا کہ جب تک میرے بارے میں اللہ کی وحی نہ آئے میرا معاملہ پوشیدہ رہے گا کسی کو پتہ بھی نے ملے گا حضور ﷺ نے غزوہ تبوک کا ارادہ ایسے وقت کیا جب پھل اور درختوں کے ہمسائے خوشگوار ہوگئے تھے حضور ﷺ اور آپ کے ساتھ مسلمانوں نے تیاری کرلی میں بھی روزانہ صبح کو تیاری کرنے کے ارادہ سے گھر سے نکلتا تھا کہ بغیر کئے واپس آجاتا تھا اور دل میں کہتا تھا مجھ میں استطاعت ہے جب چاہوں گا کرلوں گا یونہی وقت ٹلتا رہا یہاں تک کہ گرمی سخت ہوگئی اور رسول اللہ ﷺ مسلمانوں کو ساتھ لے کر روانہ ہوگئے اور میں کچھ بھی تیاری نہ کرسکا اور دل میں خیال کرلیا کہ حضور ﷺ کے بعد ایک دو روز میں تیاری مکمل کرکے پیچھے سے جاپہنچوں گا مسلمانوں کی روانگی کے بعد میں تیاری کرنے کے لئے صبح کو نکلا مگر بغیر کچھ کئے لوٹ آیا ہم دوسرے روز صبح کو نکلا تب بھی کچھ نہ کیا اسی طرح مدت بڑھتی گئی یہاں تک کہ لوگ دور چلے گئے اور تیزی کے ساتھ جہاد کی طرف بڑھ گئے اور میں ارادہ ہی کرتا رہا کہ جلد کوچ کرگئے ان کو پیچھے سے جاملوں گا کاش میں نے ایسا کرلیا ہوتا مگر میرے مقدر میں ہی نہیں تھا رسول اللہ کی روانگی کے بعد جب میں باہر نکل کر لوگوں کو دیکھتا تھا تو گھومنے کے بعد مجھے یا تو صرف وہ لوگ نظر آتے تھے جو منافق کہے جاتے تھے یا وہ کمزور دکھائی دیتے تھے جس کو اللہ نے معذور بنادیا تھا اور کوئی نظر نہیں آتا تھا تبوک پہنچنے تک رسول اللہ ﷺ نے میرا تذکرہ نہیں کیا تبوک پہنچ کر ایک روز آپ صحابہ کرام ؓ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ دریافت فرمایا کعب بن مالک کو کیا ہوگیا بنی سلمہ کے یا میری قوم کے ایک آدمی نے جس کا نام حسب روایت محمد بن عمر عبداللہ بن انیس سلمی تھا کہا یا رسول اللہ اس کو اس کی دو چادروں نے اور غرور وفخر کے اپنے دونوں پہلووں پر دیکھنے میں نہیں آنے دیا یعنی آج کل وہ مرفہ حال ہے ایک چادر باندھتا ہے ایک اوڑھتا ہے اور دونوں طرف گردن موڑ موڑ کر اپنے مونڈھوں کو دیکھتا ہے اسی وجہ سے نہآسکا معاذ بن جبل یا ابوقتادہ نے کہا تم نے بری بات کہی ایسا نہیں ہے یا رسول اللہ ﷺ خدا کی قسم میں نے اس کے اندر سوائے اچھائی کے کچھ نہیں پایا رسول اللہ ﷺ خاموش ہوگئے۔ کعب بن مالک ؓ کا بیان ہے جب مجھے اطلاع ملی رسول اللہ ﷺ واپس آنے کے لئے چل پڑے ہیں تو مجھے بڑی فکر ہوئی اور رسول اللہ ﷺ کے سامنے پیش کرنے کے لئے حل بنانے لگا اور اسی بات کی تیاری کرنے لگا کہ کل کو رسول اللہ ﷺ کی ناراضگی سے میں کس طرح بچ سکوں گا مختلف اہل الرائے اور گھر والوں سے میں نے اس معاملہ میں مدد بھی لی پھر جب مجھ سے کہا گیا کہ رسول اللہ ﷺ قریب ہی آپہنچے میں تو میرے دل میں تمام غلط خیالات جاتے رہے اور میں سمجھ گیا کہ جس بات میں جھوٹ کی آمیزش ہوگی اس کے ذریعہ سے میں ناراضگی سے کبھی محفوظ نہیں رہ سکتا چناچہ میں نے سچ بولنے کا پختہ ارادہ کرلیا اور یقین کرلیا کہ سچائی ہی مجھے نجات دے سکتی ہے صبح کو حضور ﷺ تشریف لے آئے۔ کعب ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ جب (سفر سے واپس) آتے تھے سب سے پہلے مسجد میں پہنچ کر دو رکعت نماز پڑھتے تھے پھر وہیں بیٹھ جاتے تھے حسب دستور آپ نے سب سے پہلے مسجد میں پہنچ کر دو رکعت نماز پڑھی پھر وہیں لوگوں کے معاملات سننے کے لئے بیٹھ گئے اب تبوک کی شرکت سے رہنے والے لوگ آنے لگے اور اپنے اپنے عذر پیش کرنے اور قسمیں کھانے لگے یہ سب لوگ اسی (80) کے اوپر تھے رسول اللہ ﷺ نے ان کے ظاہری عذر کو قبول کرلیا ان سے بیعت لے لی اور ان کے لئے دعائے مغفرت کی اور ان کے باطن کو اللہ کے سپرد کردیا جب میں خدمت گرامی میں حاضر ہوا اور سلام کیا تو آپ مسکر دیئے مگر مسکراہٹ غصہ آلود تھی اور فرمایا آؤ میں چلتا چلتا سامنے پہنچ کر بیٹھ گیا تم (ساتھ جانے سے) کیوں رہ گئے کیا تم نے سواری نہیں خریدی تھی میں نے عرض کیا بیشک ( میں نے سواری بھی خریدی تھی) یارسول اللہ ﷺ اگر میں کسی اور دنیا دار کے پاس اس وقت بیٹھا ہوتا تو خدا کی قسم کوئی عذر معذرت کرکے اس کی ناراضگی سے بچ جاتا کیونکہ مجھ سے قوت کی امید اور دلیل کی طاقت موجود ہے لیکن مجھے معلوم ہے کہ اگر میں آپ کے سامنے جھوٹ بنا بھی دوں گا تو آپ بھی راضی ہوجائیں گے تب بھی عنقریب اللہ آپکو مجھ سے ناراض کردے گا اور اگر سچ سچ کہہ دوں گا تو گو آپ ناراض ہوجائیں گے مگر امید ہے کہ اللہ مجھے معاف فرما دے گا بخدا مجھے کوئی عذر نہ تھا اس سے پہلے میں اتنا طاقت ور اور فراخ حال (کبھی ہوا) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس لئے سچی بات کہہ دی اب تم اٹھ جاؤ اور اللہ جو کچھ چاہے گا تمہارے متعلق فیصلہ کردے گا۔ صحابی رسول کا جھوٹ سے اجتناب : میرے سچ بولنے کی وجہ سے بنی سلمہ کے کچھ لوگ برانگیختہ ہوگئے اور کہنے لگتے تو نے اس سے پہلے تو کوئی جرم کیا نہ تھا نہ اتنا کمزور تھا کہ جس طرح دوسرے شرکت نہ کرنے والوں نے اپنی عدم شرکت کے عذر کئے (اور عتاب سے بچ گئے) تو کوئی عذر نہ پیش کرسکتا ( آئندہ) رسول اللہ کی دعائے مغفرت تیرے اس گناہ کے معاف ہونے کے لئے کافی تھی غرض وہ برابر مجھے ڈانٹنے اور سرزنش کرتے رہے اور اتنی سرزش کی کہ میرا ارادہ ہوگیا کہ دوبارہ خدمت گرامی میں حاضر ہو کر اپنے پہلے قول کی تکذیب کردوں پھر میں نے لوگوں سے دریافت کیا کہ میرے ساتھ ایسا کوئی اور بھی ہے جو تبوک کو نہیں گیا ہو ( اور اس نے کوئی عذر تراشی بھی نہ کی ہو) لوگوں نے کہا ہاں دو آدمی اور بھی ہیں جنہوں نے اسی طرح کی بات کہی تھی جیسی تو نے کی تھی اور ان کو بھی وہی ہدایت کی گئی جو تجھے کی گئی میں نے پوچھا وہ دونوں کون ہیں لوگوں نے کہا مرارہ بن ربیع عمری اور ہلال بن امیہ واقضی۔ کعب ؓ کا بیان ہے لوگوں نے میرے سامنے دو نیک آدمیوں کا نام لیا جو بدر میں شریک ہوچکے تھے اور جن کی یروی کی جاسکتی تھی ان کا نام سن کر میں اپنی سابق رائے پر قائم رہا جو لوگ تبوک کو نہیں گئے تھے ان میں سے صرف ہم تینوں سے ہی رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو کلام کرنے کی ممانعت فرما دی لوگ اس فرمان کے بعد ہمارے لئے بالکل بدل گئے۔ وہ سرزمین ہی میرے لئے اجنبی ہوگئی وہ بستی وہ نہ رہی جو میری شناسائی تھی یہ حالت پچاس رات قائم رہی میرے دونوں ساتھی تو کمزور تھے وہ گھروں میں بیٹھ رہے مگر میں طاقت ور اور جوان تھا گھر سے نکل کر مسلمانوں کے ساتھ نماز میں شریک ہوتا تھا اور بازاروں میں گھومتا تھا مگر کوئی مجھ سے کلام سلام نہیں کرتا تھا نماز کے بعد جب رسول اللہ ﷺ صحابہ کے جلسہ میں بیٹھے ہوتے تو میں حاضر ہو کر سلام کرتا اور دل میں کہتا کیا حضور ﷺ نے سلام کا جواب دینے کے لئے لب مبارک ہلائے یا نہیں پھر حضور ﷺ کے پاس پہنچ کر دانستہ نماز پڑھتا اور کن انکھیوں سے دیکھتا رہتا کہ حضور ﷺ کی توجہ میری طرف ہوئی یا نہیں جب نماز کی طرف متوجہ ہوتا تو حضور ﷺ میری طرف منہ کرلیتے لیکن جب میں التفات نظر کرتا تو آپ منہ پھیر لیتے جب مدت تک لوگ مجھ سے یونہی دور دور رہے تو ایک روز دیوار پھلانگ کر میں ابوقتادہ ؓ کے پاس ان کے باغ میں پہنچ گیا ابو قتادہ ؓ میرے چچا زاد تھے ان سے بڑی محبت تھی میں نے ان کو سلام کیا مگر خدا کی قسم انہوں نے سلام کا جواب نہیں دیا میں کہا ابوقتادہ یہ تو تم کو معلوم ہی ہے کہ میں اللہ اور کے رسول سے محبت کرتا ہوں ابو قتادہ ؓ خاموش رہے میں پھر اپنی بات دہرائی وہ خاموش رہے کوئی بات نہیں کی تیسری یا چوتھی بارکہنے کے بعد کہا اللہ اور اس کے رسول ہی کو خوب معلوم ہے یہ سن کر میری آنکھوں آنسو بہہ نکلے اور لوٹ کر دیوار پھلانگ کر میں آگیا ایک روز بازار میں جارہا تھا کہ علاقہ شام کا رہنے والا ایک دیہاتی پر نظر پڑی وہ شخص غلہ لے کر مدینہ میں بیچنے آیا تھا کسی سے اس نے پوچھا مجھے کعب بن مالک کا پتہ بتادے لوگوں نے میری طرف اشارہ کردیاوہ میرے پاس آیا اور ایک خط مجھے دیا جو شاہ غسان کی طرف سے تھا (یعنی بادشاہ شام کی طرف سے) اور اس میں لکھا تھا مجھے اطلاع ملی ہے کہ تمہارے ساتھی نے تم کو دور کردیا اور اللہ نے تم کو ایسا نہیں بنایا کہ ذلت کے مقام میں رہو اور تمہارا حق ضائع کیا جاتا رہے اس لئے اگر تم سکونت منتقل کرنا چاہتے ہو تو ہم سے آملو ہم تمہاری ہمدردی کریں گے خط پڑھ کر میں نے کہا یہ بھی (اللہ کی طرف سے) آزمائش ہے (کہ کافر بھی میرا لالچ کرنے لگے میری ذات کافروں کے لالچ کی جو لان گاہ بن گئی پھر میں نے تحریر کو تنور میں جھونک دیا۔ قبولیت توبہ کی بشارت : جب پچاس راتوں میں سے چالیس راتیں گذرگئی تو اچانک رسول اللہ ﷺ کا ایک قاصد میرے پاس پہنچا قاصد نے کہا رسول اللہ ﷺ نے تم کو حکم دیا ہے کہ اپنی بیوی سے الگ ہوجاؤ میں نے کہا کہ کیا طلاق دے دوں یا یا کچھ اور اس نے کہا طلاق کا حکم نہیں ہے اس سے الگ رہو قربت نہ کرو میرے دونوں ساتھیوں کے پاس بھی یہی حکم پہنچا حسب الحکم میں نے اپنی بیوی سے کہا اپنے گھر چلی جا اور فیصلہ قطعی ہونے تک وہیں رہ ہلال بن امیہ کی بیوی یعنی خولہ بن عصم نے خدمت گرامی میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہلال بن امیہ بوڑھا آدمی ہے اپنا خرچ نہیں کرسکتا اور اس کا کوئی خادم بھی نہیں ہے کیا اگر میں اس کا کام کردیا کروں تو حضور کی ناگواری کا باعث تو نہ ہوگا حضور ﷺ نے فرمایا نہیں کام کردینے کی ممانعت نہیں ہے) مگر وہ تجھ سے قربت نہ کرے، عورت نے کہا خدا کی قسم اس کو تو کسی بات کی حس ہی نہیں ہے جب سے اس کا یہ واقعہ ہوا ہے برابر آج تک رونے میں مشغول ہے کعب کا بیان ہے مجھ سے بھی میری کسی گھروالے نے کہا اگر ہلال بن امیہ کی بیوی کی طرح تم بھی اپنی بیوی کے لئے رسول سے اجازت لے لو کہ ہو تمہاری خدمت کردیا کرے تو مناسب ہے میں نے کہا خدا کی قسم میں رسول اللہ ﷺ سے اجازت نہیں مانگوں گا کیا معلوم حضور کیا فرمائیں اور میں تو جوان آدمی ہوں مجھے دوسرے سے کام لینے کی ضرورت نہیں ہے اسی حالت میں دس راتیں اور گزر گئیں اور پچاس راتیں اور ہوگئیں۔ کعب ؓ کا بیان ہے کہ پچاسویں رات کی صبح کو میں فجر کی نماز پڑھنے کے بعد اپنے گھر کی چھت پر بیٹھا تھا میری حالت وہ تھی جو اللہ نے بیان فرمایا ہے وضاحت (آیت) ” علیہم الارض بما رحبت “ زمین باجود فراخ ہونے کے میرے لئے تنگ ہوگئی تھی یکدم ایک چیخنے والے کی آواز سنائی دی جو کہ سلع پر چڑھ کر انتہائی اونچی آواز سے چیخا تھا اے کعب بن مالک تجھے خوشخبری ہو۔ کعب کا بیان ہے آواز سنتے ہی میں سجدہ میں گرپڑا اور خوشی سے رونے لگا اور سمجھ گیا کہ کشائش کا وقت آگیا رسول اللہ ﷺ نے نماز فجر ادا کرنے کے بعد ہماری توبہ قبول ہونے کا اعلان فرمایا لوگ ہم کو بشارت دینے کے لئے آگئے اور لوگ میرے دونوں ساتھیوں کو خوشخبری دینے کے لئے پہنچے ایک شخص گھوڑا دوڑاتا میرے پاس آیا محمد بن عمر ؓ نے کہا یہ زبیر بن عوام ؓ تھے قبیلہ اسلم کا ایک اور شخص بھی دوڑ پڑا مگر گھوڑے کے پہنچنے سے پہلے مجھے آواز پہنچ گئی تھی اس لئے جب وہ شخص آیا جس کی آواز میں نے سنی تھی یعنی حمزۃ اسلمہ تو میں نے اپنے دونوں کپڑے اتار کر اس کو پہنا دیئے خدا کی قسم میرے پاس ان دو کپڑوں کے سوا اور کپڑے ہی نہ تھے اور کپڑے ” عاریۃ “ لے کر میں نے پہنے۔ کعب بن مالک کا بیان ہے میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے روانہ ہواراستہ میں لوگوں کے گروہ در گروہ مبارک باد دینے کے لئے مجھ سے ملتے رہے آخر میں مسجد میں داخل ہوا رسول اللہ ﷺ بیٹھے ہوئے تھے گردا گرد لوگ بھی موجود تھے مجھے دیکھ کر طلحہ بن عبیداللہ اٹھے اور لپک کر میری طرف بڑھے مجھے مصافحہ کیا اور مبارک باد دی مہاجرین میں سے سوائے طلحہ کے اور کوئی نہیں اٹھا میں طلحہ کی یہ بات نہیں بھولوں گا رسول اللہ ﷺ کا چہرہ مبارک خوشی سے چمک رہا تھا میں نے سلام کیا حضور ﷺ نے فرمایا جب سے تو ماں کے بیٹ سے پیدا ہوا ہے اس وقت سے آج تک ہر دن سے بہتر دن کی تجھے بشارت ہو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا یہ آپ کی طرف سے ہے یا اللہ کی طرف سے فرمایا نہیں اللہ کی طرف سے ہے پھر رسول اللہ ﷺ کی عادت تھی کہ خوشی کے وقت آپ کا چہرہ چمکنے لگتا تھا معلوم ہوتا تھا چاند کا ٹکڑا ہے ہم دیکھ کر پہچان لیتے تھے (کہ حضور اس وقت خوش ہیں) جب میں سامنے بیٹھا تو عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میری توبہ کا تتمہ یہ ہے کہ اپنے کل مال سے دست بردار ہوجاوں اور بطور صدقہ اللہ اور اس کی رسول کی خدمت میں پیش کردوں فرمایا کچھ مال اپنے لئے بھی روک رکھو تمہارے لئے یہی بہتر ہے میں نے عرض کیا تو خیبر میں جو میرا حصہ ہے میں اس کو روکے رکھتا ہوں پھر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اللہ نے سچ بولنے کی وجہ سے مجھے نجات دی لہذا میری توبہ کا تتمہ بھی ہے کہ جب تک زندہ رہوں گا چناچہ اس عہد کے بعد آج تک میں نے کبھی جھوٹ نہیں اور امید ہے کہ جب تک زندہ رہوں گا اللہ جھوٹ سے مجھے محفوظ رکھے گا (اللہ تعالیٰ نے توبہ قبول فرمانے کے سلسلہ میں (یہ آیت) لقد تاب اللہ علی النبی والمھجرین والانصار “ سے لے کر ” وکونوا مع الصدقین (119) تک نازل فرمائی۔ اللہ تعالیٰ کی قسم جب سے اللہ تعالیٰ نے مجھے اسلام کی توفیق دی اس کے بعد سے کوئی اس نعت سے بڑی نہیں عنایت فرمائی رسول اللہ ﷺ کے سامنے سچ کہنے سے مجھے ملی مگر میں جھوٹ بول دیتا تو میں بھی ان لوگوں کی طرح ہلاک ہوجاتا جنہوں نے جھوٹ بولا تھا اور اللہ تعالیٰ نے بدترین الفاظ میں ان کا ذکر فرمایا کہ (آیت) ” تعملون (94) سیحلفون باللہ لکم اذا انقلبتم الیہم لتعرضوا عنہم، فاعرضوا عنہم، انہم رجس “ سے لے کر ” الفسقین “ تک کعب نے فرمایا جن لوگوں نے قسمیں کھائی تھیں اور رسول اللہ ﷺ نے ان کے عذر کو قبول فرما لیا تھا اور ان سے بیعت لے لی تھی اور انکے لئے دعائے مغفرت بھی کردی تھی ہم تینوں کا معاملہ ان کے معاملے سے پیچھے رکھا گیا تھا ہمارے معاملے کو اللہ تعالیٰ کے فیصلہ تک رسول اللہ ﷺ نے ملتوی رکھا تھا اسی لئے فرمایا (آیت) ” وعلی الثلثۃ الذین خلفوا “ آپ ﷺ کا ہمارے فیصلہ کو ملتوی کرنے اور ہمارے معاملہ کو موخر کرنا اس لئے نہیں تھا کہ ہم غزوہ سے پیچھے رہ گئے تھے بلکہ یہی آپ کے لئے قسم اور آپ کے ہاں معذرت تھی جس کو قبول کرلیا گیا۔ 7:۔ ابو الشیخ وابن مردویہ رحمہما اللہ نے کعب بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ جب میری توبہ نازل ہوئی تو میں نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور میں نے آپ کے ہاتھوں کو اور آپ کے گھٹنوں کو چوم لیا اور خوشخبری دینے والے کو میں نے دو کپڑے پہنائے۔ 8:۔ ابن جریر (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” وعلی الثلثۃ الذین خلفوا “ کے بارے میں فرمایا (یہ وہ لوگ تھے) جن کا معاملہ (خدا کے حکم آنے تک ملتوی کرلیا گیا ( جس کے بارے میں) سورة برات کے درمیان میں فرمایا اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت ) ” واخرون مرجون لامر اللہ “ (اور یہ تین آدمی تھے) ہلال بن امیہ مرارہ بن ربیعہ اور کعب بن مالک۔ 9:۔ ابن جریر (رح) نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وعلی الثلثۃ الذین خلفوا “ یعنی وہ لوگ جو غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے۔ 10:ـ۔ ابن منذر وابن ابی حاتم وابو الشیخ (رح) نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ نے تبوک کی جنگ کی تو کعب بن مالک ھلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع پیچھے رہ گئے ان میں سے ایک کا باغ تھا جب وہ بڑھا اور اس میں سرخی اور زردی پھیل گئی (یعنی باغ خوب ہر ابھرا ہوگیا) تو اس نے کہا میں آپ کی بیعت میں جہاد کروں گا۔ جہاد کروں گا جہاد کروں گا۔ اگر میں ایک سال اس باغ میں ٹھہرا رہا تو میں اس کے سبب آزمائش میں مبتلا ہوجاوں گا جب رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحاب نکلے تو باغ میں داخل ہوا اور کہا کسی نے مجھے رسول اللہ ﷺ سے پیچھے نہیں رکھا اور ایمان والے لوگ جہاد فی سبیل اللہ میں آگے بڑھ گئے مگر تیرے ساتھ میرے بخل کرنے کے سبب کئی افراد اس سے بکھرے ہوئے تھے اور وہ لوگ اس کے پاس جمع ہوئی (پھر) اس نے کہا میں نے رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحاب چلے گئے تو کہا مجھ کو رسول اللہ ﷺ سے کسی نے پیچھے نہیں رکھا اور ان کی طرف مجاہدین فی سبیل اللہ کو مجھ سے سبقت نہیں لے گئے مگر تمہارے حرص اور بخل کے سبب اے گھروالوں اے اللہ بیشک میرا تیرا ساتھ یہ وعدہ ہے کہ میں نہیں لوٹوں گا اپنے اہل اور اپنے مال کی طرف۔ یہاں تک کہ میں جان لوں جو میرے بارے میں کیا جائے گا اور تیسرے نے کہا اے اللہ تیرا مجھ پر یہ حق تھا کہ میں قوم کی جانب پیچھے سے جاتا یہاں تک کہ ان کو پالیتا ان سے کٹ جاتا پس تنگ دستی اور پریشانیاں اس پر لگا تار آئے گا یہاں تک کہ میں قوم کے ساتھ مل گیا تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا (آیت) ” لقد تاب اللہ علی النبی “ سے لے کر (آیت) ” وعلی الثلثۃ الذین خلفوا “ حتی اذا ضاقت علیہم الارض بما رحبت “ حسن (رح) نے فرمایا سبحان اللہ اللہ کی قسم نہ انہوں نے حرام مال کو کھایا نہ وہ حرام خون کو پہنچے اور نہ انہوں نے زمین میں فساد کیا سوائے اس کے کہ وہ نیک عمل خیر یعنی اللہ کے راستے جس میں جہاد کرنے سے پیچھے رہے اور سستی کی۔ حالانکہ اللہ کی قسم انہوں نے جہاد کیا انہوں نے جہاد کیا انہوں نے جہاد کیا۔ لیکن ان کو جو کچھ پہنچا جو تم نے سنا اس طرح مومن کو گناہ مشقت میں مبتلا کردیتا تھا۔ 11:۔ ابن ابی حاتم وابو الشیخ (رح) نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وعلی الثلثۃ الذین خلفوا “ یعنی ان کی توبہ کو ملتوی کردیا ان کی توبہ قبول نہیں کی گئی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ابو لبابہ اور اس کے ساتھیوں کی توبہ قبول فرمائی۔ 12:۔ عبدالرزاق وابن جریر وابن منذر وابو الشیخ وابن عساکر رحمہم اللہ نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وعلی الثلثۃ الذین خلفوا “ یعنی ان تینوں کو توبہ سے موخر کردیا گیا۔ 13:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے عکرمہ بن خالد المخزوی (رح) سے روایت کیا کہ وہ اس کو یوں پڑھتے تھے (آیت) ” وعلی الثلثۃ الذین خلفوا “ نصب کے ساتھ ان تینوں پر جو محمد ﷺ اور آپ اصحاب کے پیچھے رہ گئے۔ 14:۔ ابن منذر وابن ابی حاتم رحمہما اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو اپنی توبہ کی طرف بلایا جو کہتا تھا (آیت) انا ربکم الاعلی (24) “ اور فرمایا (آیت) ماعلمت لکم من الہ غیری “ (القصص آیت 38) اور جو بندہ توبہ سے ناامید ہوا ان کے بعد تو گویا اس نے اللہ کی کتاب کا انکار کیا لیکن بندہ توبہ کرنے پر قادر نہیں ہوتا ہے یہاں تک اللہ تعالیٰ اس پر نظر رحمت فرمائے (اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا) (آیت) ” ثم تاب علیہم لیتوبوا “ تو توبہ کی ابتدا اللہ عزوجل کی طرف سے ہوئی۔
Top