Mutaliya-e-Quran - Al-Kahf : 24
سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِؕ
سَلٰمٌ : سلامتی عَلَيْكُمْ : تم پر بِمَا : اس لیے کہ صَبَرْتُمْ : تم نے صبر کیا فَنِعْمَ : پس خوب عُقْبَى الدَّارِ : آخرت کا گھر
اور اُن سے کہیں گے کہ "تم پر سلامتی ہے، تم نے دنیا میں جس طرح صبر سے کام لیا اُس کی بدولت آج تم اِس کے مستحق ہوئے ہو" پس کیا ہی خوب ہے یہ آخرت کا گھر!
[سَلٰمٌ: (وہ کہیں گے) سلامتی ہو ] [عَلَيْكُمْ : تم لوگوں پر ] [بِمَا : بسبب اس کے جو ] [صَبَرْتم : تم لوگ ثابت قدم رہے ] [ فَنِعْمَ : تو کتنا اچھا ہے ] [عُقْبَى الدَّارِ : اس (آخری) گھر کا انجام ] نوٹ۔ 1: ان آیات میں اللہ کا حکم ماننے والوں کی کچھ صفات کا ذکر ہے۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہ لوگ برائی کے جواب میں برائی نہیں کرتے بلکہ ان کے ساتھ بھی بھلائی کرتے ہیں جو ان کے ساتھ برائی کرے۔ اس مفہوم کی وضاحت میں ہمیں متعدد احادیث ملتی ہیں۔ مثلاً رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ تم اپنے طرز عمل کو لوگوں کے طرز عمل کا تابع بنا کر مت رکھو۔ یہ کہنا غلط ہے کہ اگر لوگ بھلائی کریں گے تو ہم بھلائی کریں گے اور لوگ ظلم کریں گے تو ہم بھی ظلم کریں گے۔ تم اپنے نفس کو ایک قاعدے کا پابند بنائو۔ اگر لوگ نیکی کریں تو تم نیکی کرو۔ اور اگر لوگ تم سے بدسلوکی کریں تو تم ظلم نہ کرو۔ اسی معنی میں وہ حدیث ہے جس میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرے رب نے مجھے نو باتوں کا حکم دیا ہے اور ان میں سے چار باتیں آپ ﷺ نے یہ فرمائیں کہ میں خواہ کسی سے خوش ہوں یا ناراض ہر حالت میں انصاف کی بات کہوں، جو میرا حق مارے میں اس کا حق ادا کروں، جو مجھے محروم کرے میں اس کو عطا کروں اور جو مجھ پر ظلم کرے میں ان کو معاف کر دوں۔ اور اس معنی میں وہ حدیث ہے جس میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو تجھ سے خیانت کرے تو اس سے خیانت نہ کر۔ (تفہیم القرآن) ۔
Top