Al-Qurtubi - Ibrahim : 2
اللّٰهِ الَّذِیْ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ؕ وَ وَیْلٌ لِّلْكٰفِرِیْنَ مِنْ عَذَابٍ شَدِیْدِۙ
اللّٰهِ : اللہ الَّذِيْ : وہ جو کہ لَهٗ : اسی کے لیے مَا : جو کچھ فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَا : اور جو کچھ فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَ : اور وَيْلٌ : خرابی لِّلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے مِنْ : سے عَذَابٍ : عذاب شَدِيْدِ : شخت
وہ خدا کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اسی کا ہے۔ اور کافروں کے لیے عذاب سخت (کی وجہ) سے خرابی ہے۔
آیت نمبر 2 تا 3 قولہ تعالیٰ : اللہ الذی لہ ما فی السموت وما فی الارض یعنی ملکیت، بندگی، ایجاد اور تخلیق کے اعتبار سے آسمان و زمین کی سب چیزیں اللہ کی ہیں۔ نافع، ابن عامر اور دیگر قراء نے لفظ اللہ کو مبتدا ہونے کی وجہ سے مرفوع پڑھا ہے۔ الذی اس کی خبر ہوگی۔ جب کہ یہ بھی کہا گیا ہے الذی اس کی صفت ہے اور خبر مضمر ہوگی، یعنی اللہ الذی لہ ما فی السموت والارض قادر علی کل شی اور باقیوں نے العزیز الحمید کی صفت کی بنیاد پر مجرور پڑھا ہے تو اس صورت میں صفت موصوف سے مقدم ہوگی، جیسے آپ مررت بالظریف زید کہتے ہیں (یعنی زید موصوف اور ظریف صفت ہے) یہ بھی قول ہے کہ صفت نہیں بلکہ الحمید سے بدل ہے، کیونکہ اللہ کا اسم علم بن چکا ہے لہٰذا اس کی صفت کی ضرورت نہیں ہوگی البتہ معنوی اعتبار سے اس کی صفت بیان ہوسکتی ہے، کیونکہ اس کا معنی یہ ہے کہ وہ ذات جو قدرت ایجاد کے ذریعے منفرد ہے۔ ابو عمر و نے کہا : تقدیم و تاخیر کے اعتبار سے یہ مجرور ہوگا یعنی الی صراط اللہ العزیز الحمید الذی لہ ما فی السموات وما فی الأرض۔ اور یعقوب الحمید پر وقف کی صورت میں اور وصل کی صورت میں جر دیتے ہیں۔ ابن انباری نے کہا : جس نے خبر دی ہے اس نے وما فی الارض پر وقف کیا ہے۔ قولہ تعالیٰ : وویل للکفرین من عذاب شدید ویل کا معنی سورة بقرہ میں گزر چکا ہے۔ زجاج نے کہا : یہ ایسا کلمہ ہے جو عذاب اور ہلاکت کے لیے بولا جاتا ہے۔ من عذاب شدید یعنی جہنم میں۔ الذین یستحبون الحیوۃ الدنیا یعنی وہ دنیوی زندگی کو آخرت کے مقابلے میں اختیار کرتے ہیں اور یہ کافروں کا طریقہ ہے۔ الذین کافروں کی صفت ہونے کی وجہ سے محل جر میں ہے۔ ایک قول کے مطابق مضمر مبتدا کی خبر ہونے کی وجہ سے محل رفع میں ہے یعنی ھم الذین۔ ایک قول یہ بھی ہے : الذین یستحبون مبتدا ہے اور اس کی خبر اولئک ہے۔ ہر وہ آدمی جس نے دنیا اور اس کی لذات کو آخرت پر ترجیح دی، دنیا کی نعمتوں میں باقی رہنے کو آخرت میں ملنے والی نعمتوں کے مقابلے میں پسند کیا اور لوگوں کو اللہ اور اس کے دین سے جو اللہ کے رسول لے کر آئے پھیرا وہ حضرت ابن عباس ؓ کے نزدیک اس آیت میں داخل ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” مجھے اپنی امت کے حوالے سے جو خوف ہے اس میں سب سے زیادہ خوف گمراہ ائمہ کا ہے “۔ یہ حدیث صحیح ہے۔ ان ادوار کی نسبت اب یہ بہت زیادہ ہے۔ واللہ المستعان۔ ایک قول یہ ہے : یستحبون سے مراد یہ ہے کہ وہ اللہ کی مرضی کے بغیر دنیا کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ اللہ کی نعمت اس کی اطاعت کے ذریعے ہی حاصل کی جاتی ہے مصیبت اور نافرمانی کے ذریعے نہیں۔ ویبغونھا عوجا یعنی وہ چاہتے ہیں کہ اپنی خواہشات اور حاجات و اغراض کو پورا کرنے کے لیے اللہ کے راستے کو ٹیڑھا کردیں۔ السبیل مذکر اور مؤنث دونوں طرح مستعمل ہے، دین، امر، ارض اور ہر وہ چیز جو قائم اور کھڑی نہ ہو تو اس میں العوج عین کے کسرہ کے ساتھ آتا ہے، جب وہ چیزیں جو سیدھی کھڑی ہوتی ہے جیسے دیوار اور نیزہ وغیرہ ان کے لیے عین کے فتح کے ساتھ آتا ہے، سورة آل عمران اور دیگر مقامات پر یہ گزر چکا ہے۔ اولئک فی ضلل بعید یعنی وہ حق سے دور ہیں۔
Top