Mutaliya-e-Quran - Ash-Shu'araa : 196
وَ اِنَّهٗ لَفِیْ زُبُرِ الْاَوَّلِیْنَ
وَاِنَّهٗ : اور بیشک یہ لَفِيْ : میں زُبُرِ : صحیفے الْاَوَّلِيْنَ : پہلے (پیغمبر)
اور اگلے لوگوں کی کتابوں میں بھی یہ موجود ہے
وَاِنَّهٗ [ اور بیشک یہ ] لَفِيْ زُبُرِ الْاَوَّلِيْنَ [ یقینا پہلوں کے صحیفوں میں ہے ] نوٹ۔ 1: وانہ لفی زبر الاولین۔ یہ قرآن کے حق میں میں سابق صحیفوں کی شہادت کا حوالہ ہے کہ اس کا ذکر اور اس کی پشین گوئی انبیاء سابقین کے صحیفوں میں موجود ہے۔ آیت کا یہ مفہوم نہایت واضح ہے۔ لیکن معلوم نہیں کس طرح بعض فقہاء کی طرف یہ بات منسوب کی گئی ہے کہ انھوں نے اس آیت سے یہ استباط کیا ہے کہ قرآن کسی عجمی زبان میں بھی پڑھا جاسکتا ہے۔ یہ بات کسی طرح ہماری سمجھ میں نہیں آئی۔ کسی دوسری زبان میں اگر قرآن کو منتقل کیا جائے تو وہ قرآن نہیں ہوگا بلکہ اس کا ترجمہ ہوگا اور ترجمہ اور اصل میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ پورے قرآن کو تو درکنار قرآن کی کسی ایک سورة بلکہ ایک آیت کے ترجمہ کو قرآن کی سورة یا اس کی آیت کا قائم مقام قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ہمارے نزدیک اس آیت سے یہ استنباط بالکل بےجوڑا اور بجائے خود بالکل غلط بلکہ دین کے لئے ایک شدید فتنہ ہے۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ جن فقہاء کی طرف یہ بات منسوب کی گئی ہے ، کسی غلط فہمی کی بنا پر منسوب کی گئی ہے۔ (تدبر القرآن) نوٹ۔ 2: یہ آیت منجملہ ان دلائل کے ہے جو اس رائے کے حق میں پیش کئے جاتے ہیں کہ اگر کوئی شخص نماز میں قرآن کا ترجمہ پڑھ لے تو نماز ہوجاتی ہے۔ بنائے استدلال علامہ ابوبکر جصاص کے الفاظ میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہاں ارشاد فرما رہا ہے کہ یہ قرآن پچھلی کتابوں میں بھی تھا اور ظاہر ہے کہ ان کتابوں میں وہ عربی الفاظ کے ساتھ نہ تھا۔ لہٰذا کسی دوسری زبان میں اس کے مضامین کو نقل کردینا اسے قرآن ہونے سے خارج نہیں کردیتا۔ لیکن اس استدلال کی کمزروی بالکل ظاہر ہے۔ قرآن مجید ہو یا کوئی دوسری آسمانی کتاب ، ہر کتاب جس زبان میں بھی آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے معنی اور لفظ دونوں کے ساتھ آئی ہے۔ اس لئے قرآن کی تعلیم جن پچھلی کتابوں میں تھی، انسانی لفظ میں نہیں ، خدائی الفاظ ہی میں تھی اور ان میں سے کسی کے ترجمہ کو بھی کتاب اللہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اصل کا قائم مقام ٹھہرایا جاسکے۔ رہا قرآن تو اس کے متعلق بار بار صراحت کے ساتھ فرمایا گیا ہے کہ وہ لفظاً لفظاً عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے۔ مثلاً یوسف۔ 2، الرعد۔ 37، الزمر۔ 28 ۔ اور خود اسی آیت زیر بحث سے پہلے فرمایا جاچکا ہے کہ روح الامین اسے عربی زبان میں لے کر اترے۔ اب اس کے متعلق یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ اس کا کوئی ترجمہ جو کسی انسان نے دوسری زبان میں کیا ہو وہ بھی قرآن ہی ہوگا اور اس کے الفاظ اللہ تعالیٰ کے الفاظ کے قائم مقام ہوں گے۔ (تفہیم القرآن)
Top