Mutaliya-e-Quran - Al-Maaida : 32
مِنْ اَجْلِ ذٰلِكَ١ؔۛۚ كَتَبْنَا عَلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اَنَّهٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا١ؕ وَ مَنْ اَحْیَاهَا فَكَاَنَّمَاۤ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا١ؕ وَ لَقَدْ جَآءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَیِّنٰتِ١٘ ثُمَّ اِنَّ كَثِیْرًا مِّنْهُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ فِی الْاَرْضِ لَمُسْرِفُوْنَ
مِنْ : سے اَجْلِ : وجہ ذٰلِكَ : اس كَتَبْنَا : ہم نے لکھدیا عَلٰي : پر بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل اَنَّهٗ : کہ جو۔ جس مَنْ قَتَلَ : کوئی قتل کرے نَفْسًۢا : کوئی جان بِغَيْرِ نَفْسٍ : کسی جان کے بغیر اَوْ فَسَادٍ : یا فساد کرنا فِي الْاَرْضِ : زمین (ملک) میں فَكَاَنَّمَا : تو گویا قَتَلَ : اس نے قتل کیا النَّاسَ : لوگ جَمِيْعًا : تمام وَمَنْ : اور جو۔ جس اَحْيَاهَا : اس کو زندہ رکھا فَكَاَنَّمَآ : تو گویا اَحْيَا : اس نے زندہ رکھا النَّاسَ : لوگ جَمِيْعًا : تمام وَ : اور لَقَدْ جَآءَتْهُمْ : ان کے پاس آچکے رُسُلُنَا : ہمارے رسول بِالْبَيِّنٰتِ : روشن دلائل کے ساتھ ثُمَّ : پھر اِنَّ : بیشک كَثِيْرًا : اکثر مِّنْهُمْ : ان میں سے بَعْدَ ذٰلِكَ : اس کے بعد فِي الْاَرْضِ : زمین (ملک) میں لَمُسْرِفُوْنَ : حد سے بڑھنے والے
اسی وجہ سے بنی اسرائیل پر ہم نے یہ فرمان لکھ دیا تھا کہ "جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کی جان بچائی اُس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی" مگر اُن کا حال یہ ہے کہ ہمارے رسول پے در پے ان کے پاس کھلی کھلی ہدایات لے کر آئے پھر بھی ان میں بکثرت لوگ زمین میں زیادتیاں کرنے والے ہیں
[ مِنْ اَجْلِ ذٰلِكَ : اس وجہ سے ] [ كَتَبْنَا : ہم نے لکھا ] [ عَلٰي بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ : بنی اسرائیل پر ] [ اَنَّهٗ : کہ حقیقت یہ ہے کہ ] [ مَنْ : جس نے ] [ قَتَلَ : قتل کیا ] [ نَفْسًۢا : کسی جان کو ] [ بِغَيْرِ نَفْسٍ : کسی جان کے (بدلے کے ] [ اَوْ : یا ] [ فَسَادٍ : کسی فساد کے بغیر ] [ فِي الْاَرْضِ : زمین میں ] [ فَكَاَنَّمَا : تو گویا کہ ] [ قَتَلَ : اس نے قتل کیا ] [ النَّاسَ : انسانوں کو ] [ جَمِيْعًا : تمام کے تمام ] [ ۭوَمَنْ : اور جس نے ] [ اَحْيَاهَا : زندہ رکھا اس کو ] [ فَكَاَنَّمَآ : تو گویا کہ ] [ اَحْيَا : اس نے زندہ رکھا ] [ النَّاسَ : انسانوں کو ] [ جَمِيْعًا : تمام کے تمام ] [ ۭوَلَقَدْ جَاۗءَتْهُمْ : اور آچکے ہیں ان کے پاس ] [ رُسُلُنَا : ہمارے رسول ] [ بِالْبَيِّنٰتِ ۡ: واضح (نشانیوں) کے ساتھ ] [ ثُمَّ : پھر ] [ اِنَّ : بیشک ] [ كَثِيْرًا مِّنْهُمْ : ان میں سے اکثر ] [ بَعْدَ ذٰلِكَ : اس کے بعد ] [ فِي الْاَرْضِ : زمین میں ] [ لَمُسْرِفُوْنَ : یقینا حد سے تجاوز کرنے والے ہیں ] نو : (ن) نفوا۔ کسی کو کسی جگہ سے ہٹانا ۔ نکالنا ۔ (1) ملک بدر کرنا ۔ (2) قید کرنا ۔ آیت زیر مطالعہ ۔ ترکیب : انہ میں ضمیر الشان ہے ۔ فساد کی جز بتارہی ہے کہ یہ بغیر کا دوسرا مضاف الیہ ہے ۔ قتل کا مفعول الناس ہے اور جمیعا تمیز ہے ۔ احیاھا کی ضمیر نفسا کے لیے ہے ۔ ان کا اسم کثیرا منہم ہے اور لمسرفون اس کی خبر ہے ۔ نوٹ : 1 ۔ اللہ اور اس کے رسول سے لڑنے کا مطلب ہے اسلام کے عدل اجتماعی اور اس کے قوانین کے خلاف تگ ودو کرنا ۔ چھوٹے پیمانے پر راہزنی وڈکیتی ہو یا بڑے پیمانے پر اسلامی نظام کی جگہ کوئی دوسرا نظام قائم کرنے کی جدو جہد ہو ، وہ دراصل اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ ہے ۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے تعزیرات ہند میں ہر اس شخص کو جو ہندوستان میں برطانوی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کرے ۔ بادشاہ کے خلاف لڑائی (WAGING WAR AGAINST THE DING) کا مجرم قرار دیا گیا تھا ۔ (تفہیم القرآن ) نوٹ :2 ۔ مختلف سزائیں بیان کردی گئی ہیں ۔ اب یہ عدالت کا کام ہے کہ ہر مجرم کو اس کے جرم کی نوعیت کے مطابق سزا دے ( تفہیم القرآن ) ۔ اَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ کے متعلق حضرت عمر ؓ نے فیصلہ فرمایا تھا کہ اگر مجرم کو یہاں سے نکال کر دوسرے شہروں میں آزاد چھوڑ دیا جائے تو وہاں کے لوگوں کو ستائے گا۔ اس لیے ایسے مجرم کو قید کردیا جائے ۔ یہی اس کو زمین سے نکالنا ہے کہ زمین میں کہیں چل پھر نہیں سکتا ۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے بھی یہی اختیار فرمایا ہے ۔ (معارف القرآن ) نوٹ : 3 ۔ شریعت اسلام میں سزاؤں کی تین قسمیں ہیں ۔ (1) تعزیرات ۔ (2) قصاص اور ۔ (3) حدود ۔ جن جرائم کی سزا قرآن وسنت نے متعین نہیں کی بلکہ حکام کی صوابدید پر چھوڑا ہے ان کو تعزیرات کہتے ہیں ۔ حالات کے تحت یہ سزائیں ہلکی یا سخت بھی کی جاسکتی ہیں اور معاف بھی کی جاسکتی ہیں ۔ ان میں حکام کے اختیارات وسیع ہیں ۔ جن جرائم کی سزائیں قرآن وسنت نے متعین کردی ہیں ان میں سے ایک قسم کی سزا کو قصا ص کہتے ہیں ۔ ان میں حقوق العباد کا پہلو غالب ہے ۔ اس لیے جرم ثابت ہوجانے کے بعد عدالت یا حکومت کو مجرم کی سزا میں کمی کرنے یا معاف کرنے کا اختیار نہیں ہے ۔ البتہ یہ اختیار متاثر بندے یا مقتول کے ولی کو حاصل ہوجاتا ہے ۔ وہ چاہے تو سزا دلوائے یا قصاص لے لے یا فی سبیل اللہ معاف کردے ۔ قرآن وسنت کی معین کردہ سزاؤں کی دوسری قسم کو حدود کہتے ہیں ۔ ان میں حقوق اللہ کا پہلو غالب ہے ۔ اس لیے جرم ثابت ہوجانے کے بعد سزا میں معمولی سا بھی تغیر وتبدل یا کمی بیشی کرنے کی حکومت یا عدالت یا متاثر بندے کو اجازت نہیں ہے ۔ اسی طرح توبہ کرلینے سے بھی دنیوی سزا معاف نہیں ہوگی ۔ البتہ مخلصانہ توبہ سے آخرت کا گناہ معاف ہوجاتا ہے ۔ حدود اللہ میں سفارش کرنے اور سننے سے رسول اللہ ﷺ نے سختی سے منع فرمایا ہے ۔ حدود کی سزائیں سخت ہیں اور ان کے نفاذ کا قانون بھی سخت ہے لیکن معاملہ کو معتدل کرنے کے لیے ثبوت جرم کی شرطیں بھی سخت رکھی گئی ہیں ۔ اور ثبوت میں ادنی ساشبہ بھی پایا جائے تو حد ساقط ہوجاتی ہے البتہ تعزیری سزا دی جاسکتی ہے ۔ مثلا زنا کے ثبوت میں تین گواہ ہیں جو ثقہ ہیں جن پر جھوٹ کا شبہ نہیں ہوسکتا مگر ازروئے شریعت چوتھا گواہ نہ ہونے کی وجہ سے حد شرعی جاری نہیں ہوگی لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ اس کو کھلی چھٹی دے دی جائے گی ۔ بلکہ عدالت اس کو مناسب تعزیری سزا دے گی ۔ (معارف القرآن سے ماخوذ)
Top