Mutaliya-e-Quran - An-Naml : 82
قَالُوْا كَذٰلِكِ١ۙ قَالَ رَبُّكِ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ الْحَكِیْمُ الْعَلِیْمُ
قَالُوْا : انہوں نے کہا كَذٰلِكِ ۙ : یونہی قَالَ : فرمایا رَبُّكِ ۭ : تیرا رب اِنَّهٗ : بیشک هُوَ : وہ الْحَكِيْمُ : حکمت والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
انہوں نے کہا "یہی کچھ فرمایا ہے تیرے رب نے، وہ حکیم ہے اور سب کچھ جانتا ہے"
قَالُوْا كَذٰلِكِ ۙ [ ان لوگوں نے کہا اسی طرح ] قَالَ رَبُّكِ ۭ [ کہا آپ کے رب نے ] اِنَّهٗ هُوَ الْحَكِيْمُ الْعَلِيْمُ [ بیشک وہ ہی حکمت والا علم والا ہے ] نوٹ۔ 1: اس سورة میں اب تک جو دعوے مذکور ہیں، اب (آیات 24 تا 46) ان کے حق میں تاریخی شہادت پیش کی جارہی ہے۔ قرآن کا یہ عام اصول ہے کہ وہ عقلی وانفسی دلائل کے پہلو بہ پہلو تاریخی شواہد بھی پیش کرتا ہے تاکہ مخاطب کے سامنے بات اچھی طرح مبرہن بھی ہوجائے اور اگر دلوں کے اندر اثر پذیری کی کچھ رمق ہو تو ان سے لوگ عبرت بھی حاصل کریں ۔ ان شہادتوں میں تین پہلو ملحوظ ہیں ایک یہ کہ جن قوموں کی ہلاکت بیان ہوئی ہے ان کی تباہی میں بادل اور ہوا کے تصرفات کو خاص دخل رہا ہے ۔ اس پہلو سے یہ واقعات گویا ان قسموں کی تصدیق ہیں جو اس سورة کے شروع میں کھائی گئی ہیں، دوسرا یہ کہ ان میں جزا اور سزا دونوں پہلو نمایاں ہوئے ہیں ، جو فرشتے حضرت لوط (علیہ السلام) قوم کے لیے عذاب لے کر آئے تھے وہی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے اولاد کی بشارت لے کر آئے تھے، تیسرا یہ کہ اللہ کی گرفت بالکل بےپناہ ہے، کوئی قوم کتنی ہی زور آور ہو لیکن اللہ تعالیٰ جب اس کو فنا کرنا چاہتا ہے تو چشم زدن میں فنا کردیتا ہے ۔ (تدبر قرآن)
Top