Mutaliya-e-Quran - Al-Anfaal : 47
وَ السَّمَآءَ بَنَیْنٰهَا بِاَیْىدٍ وَّ اِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ
وَالسَّمَآءَ : اور آسمان بَنَيْنٰهَا : بنایا ہم نے اس کو بِاَيْىدٍ : اپنی قوت۔ ہاتھ سے وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ : اور بیشک ہم البتہ وسعت دینے والے ہیں
آسمان کو ہم نے اپنے زور سے بنایا ہے اور ہم اِس کی قدرت رکھتے ہیں
وَالسَّمَاۗءَ [ اور (بغور دیکھ) آسمان کو ] بَنَيْنٰهَا [ ہم نے بنایا اس کو ] بِاَيْىدٍ [ قوت سے ] وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ [اور بیشک ہم یقینا کشادہ کرنے والے ہیں ] ترکیب : (آیت ۔ 47) ۔ والسماء حالت نصب میں ہے ۔ اس کو مفعول مقدم ماننے کی گنجائش نہیں ہے ، کیونکہ فعل بنینا کے ساتھ ضمیر مفعولی ھا لگی ہوئی ہے ۔ اس لیے اس سے پہلے کسی فعل کو محذوف ماننا بہتر ہے۔ ہماری ترجیح یہ ہے کہ تنظر (بتکلف غور سے دیکھ ) کو محذوف مانا جائے ید (ہاتھ) کی جمع بھی اید آتی ہے۔ (دیکھیں آیت ۔ 2:66، مادہ ” ی دی “ ) جبکہ اید (مضبوطی ، قوت ) بھی حالت جر میں اید ہوجاتا ہے ۔ (دیکھیں آیت ۔ 2 : 87، مادہ ” ء دی “ ) اس فرق کو ظاہر کرنے ظاہر کرنے کے لیے یہاں اس کو دودندانوں سے لکھا جاتا ہے یعنی اید کے بجائے اید لکھتے ہیں تاکہ معلوم ہوجائے کہ یہ ید کی جمع نہیں ہے بلکہ اید حالت جز میں ہے (آیت ۔ 59) یہاں ذنوب نہیں بلکہ ذنوب آیا ہے جو مبالغہ کے وزن فعول پر ہے ۔ (دیکھیں آیت 3:11، مادہ ” ذن ب “ ) فلایستعجلون میں نون کی کسرہ بتارہی ہے کہ یہ نون وقایہ ہے اور لا یستعجلوا فعل نہی ہے۔ نوٹ۔ 1: آیت ۔ 47 ۔ کا مطلب یہ ہے کہ اس عظیم کائنات کو ہم بس ایک بار بنا کر نہیں رہ گئے ہیں بلکہ ہم اس میں مسلسل توسیع کر رہے ہیں ۔ اور ہر آن میں ہماری تخلیق کے نئے نئے کرشمے رونما ہورہے ہیں ۔ ایسی زبر دست خلاق ہستی کو آخرتم اعادہ خلق سے عاجز کیوں سمجھے ہو ۔ (تفہیم القرآن ) آج کل کے سائنس دان (expandind universe) کی بات کررہے ہیں اس آیت میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے ۔ (حافظ احمد یار صاحب )
Top