Mutaliya-e-Quran - Ash-Shu'araa : 16
یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ اِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ یَقُصُّوْنَ عَلَیْكُمْ اٰیٰتِیْ١ۙ فَمَنِ اتَّقٰى وَ اَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ : اے اولاد آدم اِمَّا : اگر يَاْتِيَنَّكُمْ : تمہارے پاس آئیں رُسُلٌ : رسول مِّنْكُمْ : تم میں سے يَقُصُّوْنَ : بیان کریں (سنائیں) عَلَيْكُمْ : تم پر (تمہیں) اٰيٰتِيْ : میری آیات فَمَنِ : تو جو اتَّقٰى : ڈرا وَاَصْلَحَ : اور اصلاح کرلی فَلَا خَوْفٌ : کوئی خوف نہیں عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا هُمْ : اور نہ وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
(اور یہ بات اللہ نے آغاز تخلیق ہی میں صاف فرما دی تھی کہ) اے بنی آدم، یاد رکھو، اگر تمہارے پاس خود تم ہی میں سے ایسے رسول آئیں جو تمہیں میری آیات سنا رہے ہوں، تو جو کوئی نافرمانی سے بچے گا اور اپنے رویہ کی اصلاح کر لے گا اس کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ [ اے آدم (علیہ السلام) کے بیٹو ] اِمَّا [ اگر کبھی ] يَاْتِيَنَّكُمْ [ تمہارے پاس آئیں ] رُسُلٌ [ کچھ رسول ] مِّنْكُمْ [ تم میں سے ] يَـقُصُّوْنَ [ بیان کرتے ہوئے ] عَلَيْكُمْ [ تم پر ] اٰيٰتِيْ ۙ [ میری آیات کو ] فَمَنِ [ تو جو ] اتَّقٰى [ تقوی کرے گا ] وَاَصْلَحَ [ اور اصلاح کرے گا (اپنی )] فَلَا خَوْفٌ [ تو کوئی خوف نہیں ہوگا ] عَلَيْهِمْ [ ان پر ] وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ [ اور نہ وہ لوگ غمگین ہوں گے ] ترکیب : (آیت ۔ 35) اما دراصل ان ما ہے ۔ اس میں ان شرطیہ ہے اور ما تاکید کا ہے (آیت 2:37 ترکیب ) ، یقصون حال ہے رسل کا ۔ اما کا جواب شرط فمن اتقی ہے اور یہ خود بھی شرط ہے ، اس کا جواب شرط فلا خوف ہے ۔ (آیت ۔ 37) رسلنا میں رسل عاقل کی جمع مکسر ہے ۔ اس لیے اس کے لیے مؤنث کا صیغہ جاءت اور مذکر کا صیغہ یتوفون ، دونوں جائز ہیں ۔ امم نکرہ مخصوصہ ہے۔ ان آیات میں شرط اور جواب شرط کی وجہ سے افعال ماضی کا ترجمہ حال یا مستقبل میں کیا جائے گا ۔ نوٹ ۔ 1: آیت نمبر ۔ 37 میں آیا ہے کہ نافرمان لوگوں کو الکتب میں سے ان کا حصہ پہنچے گا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیوی زندگی کے لیے ان کی تقدیر میں جو مہلت عمر اور رزق وغیرہ لکھا ہوا ہے وہ ان کو ملے گا اور ان کی نافرمانی کی وجہ سے اسمیں کوئی کمی نہیں کی جائے گی ، کیونکہ دنیا دار الامتحان ہے دارالجزاء نہیں ہے۔ نوٹ ۔ 2: دوزخی لوگ اپنے پیش رو لوگوں کی طرف اشارہ کرکے اللہ تعالیٰ سے فریاد کریں گے کہ ان لوگوں نے ہم کو گمراہ کیا تھا ، اس لیے ان کو دوگنا عذاب دے۔ ایک ان کی اپنی گمراہی کا اور دوسرا ہمیں گمراہ کرنے کا ۔ جواب میں اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ سب کے لیے دوگنا عذاب ہے ۔ اس کی وجہ سمجھ لیں جس کی وضاحت مولانا امین احسن اصلاحی صاحب نے کی ہے۔ نیکی ہو یا بدی دونوں اپنی فطرت کے اعتبار سے متعدی چیزیں ہیں ۔ یہ اپنے کرنے والے کی ذات تک محدود نہیں رہتی ہیں ۔ بلکہ ان کے اثرات دوسروں تک بھی منتقل ہوتے ہیں ۔ یہاں تک کہ نیکی کا ایک ذرہ احد پہاڑ کے برابر ہوسکتا ہے اور بدی کا ایک تخم لق ودق جنگل کی شکل اختیار کرسکتا ہے ۔ اس آیت میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے ( جو سورة النساء ، آیت نمبر ۔ 85 میں اور احادیث میں بیان ہوا ہے) کہ تم میں سے اگلے اور پچھلے دونوں ہی کے لیے اپنے گناہوں کے ساتھ ساتھ ان کے گناہوں سے بھی حصہ ملنے والا ہے جن کے لیے تم نے ان گناہوں کی مثال قائم کی ۔ تم فریاد کررہے ہو کہ تمہارے اگلوں نے تمہارے لیے بری مثال قائم کی ۔ اس وجہ سے ان کو زیادہ عذاب ہو۔ ان کو بیشک زیادہ عذاب ملے گا ۔ لیکن تم نے جو بری مثال اپنے بعد والوں کے لیے چھوڑی ، اس کے نتائج سے تم کس طرح بچ جاؤ گے۔ جو پیمانہ ان کے لیے ہے وہی پیمانہ تمہارے لیے ہے ۔ اگر ان کی روش بد کے ساتھ ساتھ تم اپنی روش بد کے اثرات کا بھی علم رکھتے تو تم مانتے کہ تم اور وہ ، دونوں یکساں مجرم ہو۔ لیکن تمہیں اپنے بوئے ہوئے تخم بد کی ہولناکیوں کا علم نہیں ہے ۔ اب وہ تمہارے سامنے آئے گا۔ (تدبر قرآن ) ۔ یہاں پر کچھ ذہنوں میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ قیامت کے وقت زمین پر جو آخری نسل انسانی بدی میں ملوث ہوگی ، ان کی بدی کے اثرات تو کسی اگلی نسل کو منتقل نہیں ہوں تو کیا ان کو اکہرا عذاب ہوگا ۔ اس کا جواب نفی میں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے لکل (سب کے لیے ہر ایک کے لیے ) فرمایا ہے ۔ اس کی وجہ وہ لوگ آسانی سے سمجھ لیں گے ۔ جنہوں نے ۔ STATISTICS (اعداد و شمار کا علم ) میں EXTRAPOLATION کا فارمولا پڑھا ہے۔ دوسرے طلبا اس کو اس طرح سمجھ لیں کہ کسی چیز کے گذشتہ کافی سالوں کے اعداد و شمار موجود ہوں تو ماضی میں ہونے والی کمی یا اضافہ کے رجحان کی بنیاد پر مذکورہ فارمولے کے ذریعہ تخمینہ لگا لیتے ہیں کہ چند سالوں کے بعد اعداد و شمار کیا ہوں گے ۔ عام طور پر یہ تخمینے تقریبا صحیح ثابت ہوتے ہیں ۔ اگر کبھی تھوڑا بہت یا کبھی کبھار زیادہ فرق ہوتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی علم پر فیکٹ نہیں بلکہ ناقص ہے ۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر نقص سے پاک ہے۔ اس لیے اس کا علم بھی پر فیکٹ ہے اور وہ علی کل شیء قدیر ۔ ہے اس کے لیے یہ بہت آسان ہے کہ وہ آخری نسلوں کی بدی کے منتقل ہونے والے اثرات کا بالکل ٹھیک ٹھیک (Exact) حساب کرکے ان لوگوں کو اس کی بھی سزا دے ۔ اس لیے فرمایا لکل ضعف ۔
Top