ہاں ہاں اگر تم (اس انجام کو) یقینی طور سے جانتے (تو ایسا ہرگز نہ کرتے)
کلا کے لفظ کو مکرر ذکر کیا یہ زجر اور تنبیہ ہے کیونکہ ہر ایک کے بعد ایک اور چیز کا ذکر کیا گویا فرمایا : تم ایسا نہ کرو بیشک تم شرمندہ ہوگے، تم ایسا نہ کرو بیشک تم عقاب کے مستحق ہوگے۔ علم کی یقین کی طرف جو نسبت ہے وہ اس طرح ہے جس طرح فرمایا : ان ھذا لھو حق الیقین۔ (الواقعہ) ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہاں یقین کا معنی موت ہے ؛ یہ قتادہ کا قول ہے۔ ان سے یہ بھی مروی ہے کہ ؛ اس سے مراد دوبارہ اٹھانا ہے کیونکہ جب وہ متحقق ہوجائے گا تو شک زائل ہوجائے گا۔ یعنی اگر دوبارہ اٹھائے جانے کو جان لیتے۔ لو کا جواب محذوف ہے یعنی اگر تم آج بعث کو جان لیتے جسے تم اس وقت جانو گے جب صور پھونکا جائے گا اور تمہارے جثوں سے لحدیں شق ہوجائیں گی تو تمہارا حشر کیا ہوگا ؟ تو یہ چیز دنیا میں کثرت پر فخر کرنے سے تمہیں غافل کردے گی۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے کہ اس کا معنی ہے صحائف اڑیں گے تو تم یقینی طور پر جان لوگے کہ کون شقی ہے اور کون سعید ہے ؟
ایک قول یہ کیا گیا ہے کہ ان تینوں مواقع پر کلا، الا کے معنی میں ہے، یہ ابن ابی حاتم کا قول ہے۔ فراء نے کہا : یہ حقا کے معنی میں ہے۔ اس بارے میں گفتگو مفصل گزر چکی ہے۔