Anwar-ul-Bayan - Az-Zukhruf : 8
فَاَهْلَكْنَاۤ اَشَدَّ مِنْهُمْ بَطْشًا وَّ مَضٰى مَثَلُ الْاَوَّلِیْنَ
فَاَهْلَكْنَآ : تو ہلاک کردیا ہم نے اَشَدَّ مِنْهُمْ : سب سے طاقتور کو ان میں سے بَطْشًا : پکڑ میں وَّمَضٰى : اور گزر چکی مَثَلُ الْاَوَّلِيْنَ : مثال پہلوں کی
تو جو ان میں سخت زور والے تھے ان کو ہم نے ہلاک کردیا اور اگلے لوگوں کی حالت گزر گئی
(43:8) فاہلکنا اشد منھم بطشاسببیہ ہے اہلکنا ماضی جمع متکلم۔ اہلاک (افعال) مصدر اشد افعل التفضیل کا صیغہ ہے۔ قوی تر۔ نہایت قوی منھم میں ضمیر ہم جمع مذکر غائب المسرفین المخاطبین کی طرف راجع ہے جس سے مراد مکہ کے مسرفین ہیں بطشا بوجہ تمیز منصوب ہے۔ بطش بمعنی قوت، سختی۔ پکڑ، گرفت، مصدر بدیں سبب ہم نے ان لوگوں کو جو ان (موجودہ مخاطبین) سے بھی زیادہ زور آور تھے غارت کر ڈالا۔ فاہلکنا قوما اشد بطشا من کفار مکۃ الذین کذبوا نبینا بسبب تکذیبھم رسلہم فلیحذر الذین کذبوک ان نھلکہم بسبب ذلک کما اہلکنا الذین کانوا اشد منھم بطشا ای اکثر منھم عددا وعددا وجلدا (اضواء البیان) پس ہم نے ان لوگوں کو جو ہمارے نبی کی تکذیب کر رہے ہیں ان سے بھی زیادہ طاقتور اور شہ زور تھے ہلاک کر ڈالا۔ کیونکہ انہوں نے اپنے رسولوں کی تکذیب کی تھی سو (اے نبی علیہ السلام) ان کفارکو جو آپ کی تکذیب کر رہے ہیں ان کو بچنا چاہیے کہ ہم اس تکذیب کے سبب ان کو بھی ہلاک نہ کریں۔ جیسا کہ ہم نے ان سے زیادہ طاقت ور لوگوں کو (ایسے ہی قصور پر) ہلاک کردیا تھا۔ جو تعدادی لحاظ دے۔ سامان حرب کے لحاظ سے۔ اور ہمت و استقلال کے لحاظ سے ان سے کہیں بڑے تھے۔ ومضی مثل الاولین۔ واؤ عاطفہ ہے مضی ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب مضی (باب ضرب) مصدر وہ گذر گیا۔ مضو (باب نصر) مصدر سے بھی اسی معنی میں آتا ہے مثل اسم مفرد امثال جمع حالت اور اگلے لوگوں کی (یہ) حالت (انسے پہلے) گزر چکی ہے۔ فائدہ : مثل قرآن مجید میں مندرجہ ذیل معانی میں آیا ہے۔ (1) جس جگہ مثل مرفوع آیا ہے اور اس کے بعد کمثل بھی آیا ہے۔ یعنی ممثل اور ممثل بہ دونوں مذکور ہیں تو مثل سے مراد صفت اور حالت ہے۔ (2) اگر لفظ مثل مرفوع مذکور ہے اور اس کے بعد کمثل نہیں ہے تو اس کا معنی بھی صفت ہے۔ ماسوائے آیت ام حسبتم ان تدخلوا الجنۃ ولما یاتکم مثل الذین خلوا من قبلکم (2:214) کے جہاں اس سے شبہ یعنی تشبیہی قصہ مراد ہے۔ ترجمہ :۔ کیا تم یہ گمان رکھتے ہو کہ جنت میں داخل ہوجاؤ گے درآں حالیکہ ابھی تم پر ان لوگوں کے حالاے جیسے حالات پیش نہیں آئے۔ (3) اگر مثل منصوب ہے خواہ اس کے بعد کمثل ہے یا نہیں بہرحال مثل سے مراد ہے صفت اور حالت۔ (4) اگر مثل مجرور بمعنی تنوین کے ہے وہ نادر معنی مراد ہے جو ندرت میں کہا وت کی طرح ہوگیا ہے صرف آیت ولایاتونک بمثل الا جئنک بالحق واحسن تفسیرا (25:33) اور یہ لوگ جیسا بھی عجیب سوال آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں ہم اس کا جواب ٹھیک اور وضاحت میں بڑھا ہوا آپ کو بتاتے ہیں۔ میں مثل کا معنی ہے اعتراض اور سوال عجیب۔ (5) اگر مثل مجرور بغیر تنوین کے ہو تو تشبیہی قصہ مراد ہے۔ (6) اور اگر المثل معرف باللام ہے اور ایسا حرف دو جگہ آیا ہے تو اس سے مراد ہے عظیم الشان صفت۔ (ماخوذ از لغات القرآن)
Top