Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Hud : 110
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ فَاخْتُلِفَ فِیْهِ١ؕ وَ لَوْ لَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَقُضِیَ بَیْنَهُمْ١ؕ وَ اِنَّهُمْ لَفِیْ شَكٍّ مِّنْهُ مُرِیْبٍ
وَ
: اور
لَقَدْ اٰتَيْنَا
: البتہ ہم نے دی
مُوْسَى
: موسیٰ
الْكِتٰبَ
: کتاب
فَاخْتُلِفَ
: سو اختلاف کیا گیا
فِيْهِ
: اس میں
وَلَوْ
: اور اگر
لَا
: نہ
كَلِمَةٌ
: ایک بات
سَبَقَتْ
: پہلے ہوچکی
مِنْ
: سے
رَّبِّكَ
: تیرا رب
لَقُضِيَ
: البتہ فیصلہ کردیا جاتا
بَيْنَهُمْ
: ان کے درمیان
وَاِنَّهُمْ
: اور بیشک وہ
لَفِيْ شَكٍّ
: البتہ شک میں
مِّنْهُ
: اس سے
مُرِيْبٍ
: دھوکہ میں ڈالنے والا
اور البتہ تحقیق دی ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب ، پھر اختلاف کیا گیا اس میں ۔ اور اگر نہ ہوتی ایک بات جو پہلے ہوچکی ہے تیرے پروردگار کی طرف سے تو البتہ فیصلہ کردیا جاتا ان کے درمیان ، اور بیشک وہ لوگ اس کی طرف سے تردد انگیز شک میں ہیں
ربط آیات پہلے اللہ نے مختلف نافرمان قوموں کا ذکر کیا کہ اللہ کے نبیوں نے انہیں کس طرح تبلیغ کی ، پھر اس نافرمانی کی بدولت ان اقوام پر ہونے والے مئواخذہ کا ذکر کیا۔ اس دنیا میں دی گئی سزا کے علاوہ جو سزا ان کو آخرت میں ملنے والی ہے ، اس کا بھی تذکرہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے کفر اور شرک کی تردید کی اور واضح کیا کہ کافر اور مشرک اللہ کی گرفت سے بچ نہیں سکیں گے۔ ہر ایک کو اپنے اپنے عقیدے اور عمل کا صلہ ملے گا ار اس ضمن میں کسی کو شک و شبہ نہیں ہونا چاہئے۔ نزول تورات اسی یقین کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ولقد اتینا موسیٰ الکتب اور البتہ تحقیق ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب عطا کی۔ یہ عظیم الشان کتاب تورات ہے جس کا ذکر قرآن پاک میں متعدد مقامات پر موجود ہے تمامکتب سماویہ اور صحائف میں سے قرآن پاک کے بعد سب سے جامع کتاب تورات تھی۔ اس کتاب میں اللہ تعالیٰ نیتاریخ انبیاء کے علاوہ نظام خلافت اور دیگر اجتماعی معاملات سے متعلق قوانین نازل فرمائے تھے جس کے بعد میں یہودیوں نے باگڑ دیا۔ آج کل جو کتاب بائیبل کے نام سے موجود ہے اس میں کل انتالیس 39 صحیفے ہیں جن میں سے پہلے پانچ باب یا صحیفے تورات کا حصہ ہیں اور آخر میں عہد عتیق کے نام سے چار انجیلوں کو کتاب کا حصہ بنا دیا گیا ہے ، انجیل بھی اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ایک ہی کتاب تھی مگر عیسائیوں نے اس میں بھی گڑ بڑ کر کے اسے چار حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔ بہرحال تورات کا معنی ہی قانون ہے۔ یہ عبرانی یا ، سریانی زبان میں نازل ہوئیتھی۔ اب یہ اصل زبان میں تو کہیں بھی موجود نہیں۔ البتہ اس کے تراجم دنیا کی مختلف زبانوں میں میسر ہیں۔ جب فرعون اور اس کا لائو لشکر بحر قلزم میں غرق ہوگیا تو بنی اسرائیل ان کے شکنجے سے آزاد ہوگئے ، تاہم وہ مصر واپس جانے کے بجائے صحرائے سینا میں ہی سرگرداں پھرتے رہے اس دوران انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے عرض کیا کہ پہلے تو ہم فرعون کی غلامی میں تھے اور اس کے خود ساختہ قانون کے پابند تھے ، مگر اب جب کہ ہم آزاد ہوچکے ہیں تو زندگی گزارنے کے لئے ہمارے پاس کوئی قانون ہونا چاہئے بنی اسرائیل کی اس فرمائش پر موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں درخواست پیش کی تو حکم ہوا کہ کوہ طور پر چلے جائو ، وہاں پر اعتکاف بیٹھو اور روزے رکھو تو تمہیں مطلوبہ کتاب دی جائیگی تو یہ تورات وہی کتاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو عطا کی۔ اختلاف کی الکتاب فرمایا بنی اسرائیل کو کتاب تو مل گئی فاختلف فیہ مگر اس میں اختلاف کیا گیا۔ حق تو یہ تھا کہ جس کتاب کو بنی اسرائیل نے خود طلب کیا تھا ، اس پر عمل کرتے تاکہ ان کو فلاح نصیب ہوتی ، مگر انہوں نے اس کے احکام میں اختلافات پیدا کردیے۔ کسی نے کسی حکم کو مان لیا مگر دوسرے نے انکار کردیا۔ کسی نے غلط تاویلیں شروع کردیں اور بعض نے بعض احکام کو بالکل ٹھکرا دیا۔ بعض لوگوں نے احکام الٰہی کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی اور بعض نے انہیں بالکل ہی بگاڑ دیا اور اس طرح یہ مقدس کتاب اختلافات کا شکار ہوگئی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بنی اسرائیل دھڑے بندی شروع ہوگئی اور اس کے بہت سیفرقے وجود میں آگئے۔ افسوس کا مقام ہے کہ آج قرآن پاک جیسی مقدس و مطہر اللہ کی آخر کتاب کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جا رہا ہے ، جس کے نتیجے میں یہودیوں کی طرح مسلمانوں میں بہت سے فرقے معرض وجود میں آ چکے ہیں۔ حضور ﷺ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا افترقت بنی اسرآئیل علی ثنتین وسبعین یعنی بنی اسرائیل میں بہتر 72 فرقوں میں بٹ گئے ، ہر فرقہ کا علیحدہ علیحدہ اعتقاد اور علیحدہ علیحدہ مسلک ہے۔ ان کی فکر اور طریق کار بھی جدا جدا ہے حالانکہ کتاب تو ایک ہی تھی مگر اختلافات کی وجہ سے وہ چھوٹے چھوٹے گروہوں میں تقسیم ہوگئے۔ تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ یہودیوں کے بہتر فرقے بنے مگر میری امت کے تہتر ہوں گے جن میں سے صرف ایک ناجی ہوگا۔ جب کہ باقی سارے جہنمی ہوں گے صحابہ نے عرض کیا۔ حضور ! وہ ناجی فرقہ کون سا ہوگا ۔ تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا 1۔ ما انا علیہ و اصحابی ناجی فرقہ وہ ہوگا جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقہ پر ہوگا۔ بہرحال فرمایا کہ جو کتاب موسیٰ (علیہ السلام) کو دی گئی اس میں اختلاف کیا گیا اور پھوٹ ڈالی گئی حالانکہ اگر یہ لوگ اللہ کی مرضی کے مطابق چلتے تو ان کا فائدہ تھا۔ اللہ نے یہ کتاب ہدایت کے لئے نازل فرمائی تھی۔ اللہ نے قرآن پاک اور تورات دونوں کے متعلق فرمایا ہے کہ کوئی ایسی کتاب لائو جو ان دونوں سے بڑھ کر ہدایت کا راستہ بتلانے والی ہو فاتوا بکتب من عند اللہ ھو اھدی منھما (القصص) تو فرمایا اللہ کی کتاب تورات تو راہنمائی کرنے والی ہے مگر ان لوگوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا اور فرقوں میں تقسیم ہوگئے۔ قانون اعمال و تدریج اس اختلاف کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو فوراً سزا نہیں دی بلکہ فرمایا ولولا کلمۃ سبقت اگر نہ ہوتی ایک بات جو پہلے واقع ہوچکی ہے من ربک تیرے پروردگار کی طرف سے نقضی بینھم تو ان کے درمیان فیصلہ کردیا جاتا ، مگر یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کے خلاف یہ۔ اس کا قانون یہ ہے کہ 1 ؎ ترمذی ص 379 دنیا میں لوگوں کو موقع دیا جاتا ہے۔ ان کو مہلت دی جاتی ہے کہ اس عرصہ میں حق کو قبول کرلیں ۔ اگر وہ تسلیم کرلیتے ہیں تو بچ جاتے ہیں ، ورنہ خدا تعالیٰ کی گرفت میں آجاتے ہیں۔ تاہم عام قانون یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ مہلت دیتا ہے ، پھر اگر اس دنیا میں ان کا فصلہ کسی مصلحت کی بناء پر نہ ہو تو آگے چل کر ضرور ہوجاتا ہے۔ آگے اسی رکوع میں آ رہا ہے۔ ” لا یزالون مختلفین “ لوگ اختلاف کرتے رہیں گے ” ان ربک ھو یفصل بینھم یوم القیمۃ فیما کالوا فیہ یختلفون “ (السجدۃ) پھر تیرا پروردگار ان کے درمیان فیصلہ کر دیگا جس بات میں وہ اختلاف کرتے تھے۔ سورة بقرہ میں موجود ہے۔ قدتبین الرشد من الغنی دنیا میں ہدایت اور گمراہی کی راہیں واضح ہوچکی ہیں ، اس کے باوجود لوگوں نے اختلاف ، جھگڑے اور فرقہ بندی کو ہوا دی۔ عقیدے خراب کئے ، اللہ کی توحید کو کما حقہ تلیم نہ کیا ، مگر ان سب اختلافات کا حتمی فیصلہ اللہ تعالیٰ آگے چل کر ہی کرے گا کیونکہ وہ اپنے قانون امہال و تدریج کے مطابق مہلت دیتا رہتا ہے اور فوری گرفت نہیں کرتا۔۔ کلام الٰہی میں تردد فرمایا ، بات تو بالکل واضح کردی گئی ہے وانھم لفی شک منہ مریب مگر یہ لوگ اس کی طرسے تردد و انگیز شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ مریب شک کی صفت ہے اور مطلب یہ ہے کہ ان کا دل کسی طرف نہیں جمتا حالانکہ یہ خدا تعالیٰ کا کلام برحق ہے۔ جو انسانوں کی ہدایت اور راہنمائی کے لئے نازل کیا گیا ہے۔ اس پر یقین رکھنا چاہئے اور اپنی فکر و عمل اسی کے مطابق بنانی چاہئے شک کرنا منافق یا نافرمان لوگوں کا کام ہے۔ شک ان کو چین سے نہیں بیٹھنے دیتا۔ فرمایا ، یاد رکھو ! وان کلاً لما اور بیشک سب کے سب لیوفینھم ربک اعمالھم البتہ پورا پورا دیگا تیرا پروردگار ان کے اعمال کا صلہ ، صاحب کشاف کہتے ہیں کہ یہاں پر کلا کی تنوین مضاف الیہ کے عوض میں آئی ہے اور مطلب ہے و ان کلھم یعنی بیشک وہ سب کے سب بعض فرماتے ہیں کہ پوری قرأت یوں ہے وان کلا لما بعثوا یہ سب کے سب جب دوبارہ اٹھائے جائیں گے ، تو ضروری بات ہے کہ ان کا پروردگار ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیگا۔ کیونکہ انہ بما یعملون خبیر بیشک وہ ان کے ہر عمل کی پوری پوری خبر رکھتا ہے۔ اس سے کوئی چیز غائب نہیں ہے ، ذرہ ذرہ اس کے علم میں ہے و ہ ہر ایک کے ارادے اور نیت کو جانتا ہے ، لہٰذا ان کے اعمال کا بدلہ ضرور دیگا۔ جزائے عمل اس دنیا میں نہیں بلکہ اگلے جہان میں ہے ، لہٰذا یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ مجرموں کو فوری طور پر سزا کیوں نہیں دی جاتی اس کا قانون یہ ہے کہ جب جزائے عمل کا وقت آئے گا تو پھر وہ پورا پورا انصاف کریگا اس ضمن میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی مثال بھی بیان فرما دی ہے اور حضور ﷺ اور آپ کے متبعین کو تسلی بھی دی ہے کہ وہ گھبرائیں نہیں ، بلکہ اپنا مشن جاری رکھیں آگے جزائے عمل کا وقت آن والا ہے جب سب کو پورا پورا صلہ ملے گا۔ استقامت کا حکم آگے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لئے ایک بڑا سخت حکم نازاں فرمایا ہے۔ ارشاد ہے فاستقم کما امرت اے پیغمبر ! آپ سیدھے رہیں جیسا کہ آپ کے حکم دیا گیا ہے۔ ومن تاب ممک اور جن لوگوں نے توبہ کی ہے آپ کے ساتھ ، یعنی کفر ، شرک اور گندے عقیدے سے تائب ہوگئے ہیں اور ایمان اور توحید میں آپ کے ہمسفر ہیں ، ان کو بھی یہی حکم ہے کہ وہ استقامت پر رہیں استقامت بہت بڑی بات ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان شک اور تردد میں نہ پڑے بلکہ اپنے ایمان پر پختہ رہے ، مگر حالت یہ ہے کہ اکثر لوگ استقامت سے محروم ہوتے ہیں۔ بزرگان دین کا قول ہے اطلبوا الاستقامۃ ولاتطلبوا الکرمۃ یعنی استقامت تلاش کرو ، کرامت کے پیچھے نہ پڑو۔ بعض لوگ کرامات کی تلاش میں رہتے ہیں کہ کہیں نظر آئے تو صاحب کرامت کو ولی اللہ تسلیم کرلیں۔ فرمایا کرامت سے بلند تر چیز استقامت ہے ، اسے اختیار کرو۔ شیخ عبدالقادر جیلانی فرماتے ہیں کہ استقامت کا معنی درست راستے پر ٹھیک ٹھیک قائم رہنا ہے۔ صحابی رسول حضرت سفیان ابن عبداللہ ثقفی نے ایک دفعہ حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا قل لی فی السلام قولاً لا اسئل احداً بعدک حضور ! مجھے اسلام کے بارے میں کوئی ایسی بات بتلا دیں کہ آپ کے بعد مجھے کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہ پڑے حضور ﷺ نے فرمایا قل امنت باللہ ثم استقم علیھا کہو میں اللہ پر ایمان لایا ، اس کی وحدانیت کو تسلیم کیا اور پھر اس پر مستقیم رہو یعنی جم جائو۔ محمد ثین کرام فرماتے ہیں کہ ایمان لانے کے بعد تمام مقتضیات ایمان پر قائم رہو اور ان میں کسی قسم کا خلل نہیں آنا چاہئے۔ عقیدے کی پختگی امام بیضاوی اور بعض دوسرے مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ س سے پہلے استقامت عقیدے میں ہونی چاہئے اور عقیدے میں توحید کو اولیت حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر پختہ عقیدہ ہو ، اور اس کے خلاف تمام عقائد خواہ وہ شرکیہ ہوں یا تشبیہ والے یا جبر والے ، سب باطل ہیں بعض یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ انسان خود مختار ہے اور اس پر کسی طاقت کا کنٹرول نہیں ہے۔ یہ بھی گمراہی والا عقیدہ ہے۔ بعض لوگ صفات الٰہی کا انکار کردیتے ہیں اور بعض اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گڑ بڑ کر جاتے ہیں۔ یہ سب باتیں استقامت سے دوری کی علامت ہیں۔ استقامت یہ ہے کہ عقیدہ بالکل پاک اور صاف ہو ، اس میں کسی باطل چیز کو دخل نہیں ہونا چاہئے عبادات میں بھی استقامت پیدا کرنی چاہئے ، ایسا نہیں ہے کہ کبھی کوئی عبادت کرلی اور کبھی چھوڑ دی بلکہ عبادت خواہ فرض ہو یا واجب ، سنت ہو یا مستحب ، اس پر مداومت ہونی چاہئے اور یہ بات استقامت میں داخل ہے۔ اعمال میں استقامت تمام اعمال اور معاملات میں بھی استقامت ضروری ہے۔ انسان حلال و حرام میں استقامت اختیار کرے اور حقوق میں بھی ثابت قدم رہے۔ خواہ انسان کا اپنا ہو ، خدا تعالیٰ کا ہو یا نبی نوع انسان کا ، اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں ہونی چاہئے حتی کہ شریعت میں جانوروں کے حقوق بھی متعین ہیں جن کا ادا کرنا ضروری ہے۔ معاشرے کے کمزوروں ، بیماروں ، محتاجوں ، مسافروں ، یتیموں اور اقرباء کے حقوق کو ادا کرنا استقامت میں داخل ہے۔ جو شخص دوسرے کے حقوق ادا نہیں کرتا وہ استقامت سے دور ہے۔ زندگی کے باقی معاملات مثلاً سیاست میں بھی استقامت سے دور ہے۔ زندگی کے باقی معاملات مثلاً سیاست میں بھی استقامت یعنی اعتدال کی ضرورت ہے ، یہودیوں ، دہریوں اور کمیونسٹوں جیسی سیاست اختیار نہ کرو ، ہمیشہ ایمان اور اسلام کی سیاست اختیار کرو جو کہ اللہ کے نبیوں یا خلفائے راشدین کا طریقہ ہے۔ ملکی آئین اور قانون میں استقامت کی ضرورت ہے اور یہ اس وقت حاصل ہوگ ی جب دین کے بتائے ہوئے قوانین اختیار کرو گے۔ اگر مانگے تانگے کے غیر اسلامی قوانین اختیار کرو گے تو استقامت حاصل نہیں ہو سکے گی۔ ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے کہ ایک موقع پر حضرت ابوبکر صدیق اور بعض دیگر صحابہ نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ حضور ! کیا بات ہے آپ کے بال سفید ہو رہے ہیں اور بڑھاپے کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں آپ (علیہ السلام) نے فرمایا 1 ؎ شیبتنی سورة الھود یعنی سورة ہود نے مجھے بوڑھا کردیا ہے۔ بعض روایات میں سورة واقعہ ، سورة تکویر ، سورة نبا اور سورة مرسلت کا ذکر بھی آتا ہے کہ ان سورتوں نے مجھے بوڑھا کردیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان سورتوں میں حضرت نوع (علیہ السلام) کی قوم سے لیکر بہت سی نافرمان قوموں کا ذکر ہے اور ان پر اسی دنیا میں آنے والی سزا کا بیان ہے۔ ایسے لوگوں کا آخرت میں جو انجام ہونے والا ہے ، اس کا بھی اشارۃ ذکر کردیا گیا ہے حضور نے فرمایا کہ مجھے خوف ہے کہ کہیں میری امت کا حشر بھی سابقہ امم جیسا ہی نہ ہو اور اسی خوف ہے کہ کہیں میری امت کا حشر بھی سابقہ امم جیسا ہی نہ ہو اور اس یخوف کی وجہ سے مجھ پر بڑھاپا طاری ہو رہا ہے۔ استقامت بطور سخت حکم حضرت عبداللہ بن مسعود کے حوالے سے بعض بزرگان دین سے یہ بات بھی منقول ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ مجھ پر بڑھایا سورة ہود میں آمدہ سخت حکم فاستقم کی وجہ سے آیا ہے۔ مجھے ہر وقت ڈر رہتا ہے کہ کہیں استقامت میں فرق نہ آجائے نبی کی ذات تو اعلیٰ وارفع ہے ، اس کی استقامت میں تو کوئی شبہ نہیں ہو سکتا ، البتہ امت کے لئے یہ بڑا سخت حکم ہے ، اگر استقامت سے ادھر ادھر ہوگئے تو گرفت میں آجانے کا ڈر ہے حضور ﷺ اسی فکر میں مبتلا رہتے تھے۔ آج کے دور میں استقامت مفقود ہوچکی ہے۔ نہ عقیدے میں پختگی ہے ، نہ اعمال میں اور نہ اخلاق میں ، زندگی کے کسی شعبہ میں خواہ وہ سیاست کا ہو یا معیشت کا یا دیگر معاملات کا ، استقامت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی ، بہرحال اللہ نے حکم دیا کہ جس طرح آپ کو حکم دیا 1 ؎ ترمذی ص 473 ، مستدرک حاکم ص 323/ج 2 گیا ہے اس کے مطابق آپ استقامت پر وہیں ولا تطغوا اور حد سے آگے نہ بڑھیں معاملہ عقیدے کا ہو یا عمل کا ، اخلاقیات ہوں یا حقوق کسی بھی معاملہ میں حد سے تجاوز نہ کریں بلکہ استقامت یعنی اعتدال کو قائم رکھیں اور نہ گرفت میں آجائیں گے۔ کیونکہ انہ بما تعملون بصیر تم جو بھی کام کرتے ہو ، وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ہیں۔ اس کے بعد جزائے عمل یقینی بات ہے ، لہٰذا استقامت کو تلاش کرو تاکہ تمہارا ایمان ، توحید ، اعمال اور اخلاق صحیح سمت میں رہیں۔
Top