Al-Qurtubi - Ar-Ra'd : 10
سَوَآءٌ مِّنْكُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَ مَنْ جَهَرَ بِهٖ وَ مَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍۭ بِالَّیْلِ وَ سَارِبٌۢ بِالنَّهَارِ
سَوَآءٌ : برابر مِّنْكُمْ : تم میں مَّنْ : جو اَسَرَّ : آہستہ کہے الْقَوْلَ : بات وَمَنْ : اور جو جَهَرَ بِهٖ : پکار کر۔ اسکو وَمَنْ : اور جو هُوَ : وہ مُسْتَخْفٍ : چھپ رہا ہے بِالَّيْلِ : رات میں وَسَارِبٌ : اور چلنے والا بِالنَّهَارِ : دن میں
کوئی تم میں سے چپکے سے بات کہے یا پکار کر یا رات کو کہیں۔ چھپ جائے یا دن (کی روشنی) میں کھلم کھلا چل پھرے (اس کے نزدیک) برابر ہے۔
آیت نمبر 10 قولہ تعالیٰ : سواء منکم من اسر القول ومن جھربہ۔ اسر القول سے مراد وہ بات ہے جو بندہ اپنی ذات کے ساتھ کرے اور جھر سے مراد وہ بات ہے جو بندہ کسی اور کے ساتھ کرے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ خیر و شر میں جو بندہ پوشیدہ طور پر کرے اسے اللہ تعالیٰ جانتا ہے جس طرح کہ وہ اسے جانتا ہے جو ظاہری طور پر ہو۔ منکم کے بارے میں یہ احتمال بھی ہے کہ یہ سوآء کی صفت ہو اور تقدیر کلام یوں ہو : سر من أسر وجھر من جھر سواء منکم اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ سواء کے متعلق ہو کلام یوں ہو : یستوی منکم جس طرح کہ آپ کا قول : مررت بذید اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تقدیر عبارت یہ ہو : سر من أسر منکم وجھر من جھر منکم تقدیر عبارت یہ بھی ہوسکتی ہے : ذوسواء منکم من أسر القول ومن جھریہ جس طرح کہا جاتا ہے : عدل زیدو عمرو یعنی ذوا عدل۔ ایک قول یہ ہے کہ سوآء بمعنی مستو ہے اس صورت میں مضاف کے حذف کی تقدیر کی کوئی ضرورت نہیں۔ ومن ھو مستخف بالیل وسارب بالنھار یعنی پوشیدہ و ظاہر، راستوں میں ظاہر اور تاریکیوں میں چھپا ہوا اللہ کے علم میں برابر ہیں۔ أخفش اور قطرب نے کہا : رات میں چھپا ہوا ظاہر ہے۔ اسی سے خفیت الشئ وأخفیتہ ہے یعنی أظھرتہ اور أخفیت الشئی یعنی استخرجتہ۔ اسی سے کفن چور کو مختفی کہا جاتا ہے۔ امرؤ القیس نے کہا : خفاھن من أنفاقھن کأنما خفا ھن ودق من عشی مجلب السارب کا معنی المتواری یعنی سرنگوں میں چھپنے والا ہے۔ السارب المتواری سے مراد داخل سربا ہے اسی سے عربوں کا قول انسرب الوحشی ہے یہ اس وقت بولتے ہیں جب وہ اپنی کچھار میں داخل ہوجائے۔ حضرت ابن عباد ؓ نے فرمایا : مستخف بمعنی پوشیدہ اور سارب بمعنی ظاہر ہے۔ مجاہد نے کہا : مستخف یعنی وہ گناہوں کے ساتھ چھپتا ہے اور سارب بمعنی ظاہر ہے۔ ایک قول کے مطابق سارب کا معنی ذاھب ہے۔ کسائی نے کہا : سرب یسرب سربا وسروبا کہا جاتا ہے جب کوئی چلا جائے۔ شاعر نے کہا : وکل أن اس قاربوا قید فحلہم ونحن خلغنا قیدہ فھو سارب سارب سے مراد ذاھب ہے۔ ابو رجاء نے کہا : السارب سے مراد زمین میں اپنے اعتبار پر چلنے پھرنے والا آدمی ہے۔ شاعر نے کہا : أنی سربت وکنت غیر سروب قتبی نے کہا : سارب بالنھار یعنی اپنی ضروریات کے سلسلہ میں تیزی سے گھومنے پھرنے والا۔ یہ عربوں کے قول انسرب الماء سے مشتق ہے۔ اصمعی نے کہا : خل سربہ یعنی اس کا راستہ خالی کر دو ۔
Top