Al-Qurtubi - An-Nahl : 78
وَ اللّٰهُ اَخْرَجَكُمْ مِّنْۢ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَیْئًا١ۙ وَّ جَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ الْاَفْئِدَةَ١ۙ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
وَاللّٰهُ : اور اللہ اَخْرَجَكُمْ : تمہیں نکالا مِّنْ : سے بُطُوْنِ : پیٹ (جمع) اُمَّهٰتِكُمْ : تمہاری مائیں لَا تَعْلَمُوْنَ : تم نہ جانتے تھے شَيْئًا : کچھ بھی وَّجَعَلَ : اور اس نے بنایا لَكُمُ : تمہارے لیے السَّمْعَ : کان وَالْاَبْصَارَ : اور آنکھیں وَالْاَفْئِدَةَ : اور دل (جمع) لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : تم شکر ادا کرو
اور خدا ہی نے تم کو تمہاری ماؤں کے شکم سے پیدا کیا کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے۔ اور اس نے تم کو کان اور انکھیں اور دل (اور انکے علاوہ اور) اعضا بخشے تاکہ تم شکر کرو۔
آیت نمبر 78 قولہ تعالیٰ : واللہ اخرجکم من بطون امھتکم لاتعلمون شیئا بیان فرمایا کہ اس کی نعمتوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہیں تمہاری ماؤں کے شکموں سے نکالا اس حال میں کہ تم بچے تھے اور تمہیں کسی شے کا بھی علم نہ تھا۔ اور اس میں تین اقوال ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے تم اس میں سے کچھ نہیں جانتے تھے جو اس نے تم سے وعدہ لیا درآنحالیکہ تم ابھی اپنے باپوں کی صلبوں میں تھے۔ دوسرا قول یہ ہے : تم اس میں سے کچھ نہ جانتے تھے جو اس نے تمہارے بارے میں سعادت و شقاوت کا فیصلہ کیا ہے۔ اور تیسرا قول یہ ہے : تم اپنے منافع میں سے کچھ نہ جانتے تھے ؛ کلام مکمل ہوگئی، پھر نئے سرے سے آغاز کیا اور فرمایا : وجعل لکم السمع والابصار والافدۃ یعنی یہ وہ ہیں جن کے ساتھ علم حاصل کرتے ہو اور ادراک کرتے ہو۔ (کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے بندوں کیلئے انہیں پیٹوں سے نکالنے سے پہلے بنا دیا اور بلاشبہ انہیں علم و ادراک شکموں سے نکالنے کے بعد عطا فرمایا) یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے کام بنائے تاکہ تم ان کے ساتھ امر و نہی کو سنو، اور آنکھیں بنائیں تاکہ تم ان کے ساتھ اس کی صنعت و کاریگری کے آثار دیکھو، اور دل بنائے تاکہ تم ان کے ساتھ اس کی معرفت اور پہچان حاصل کرسکو۔ والافدۃ یہ الفؤاد کی جمع ہے جیسے غراب کی جمع أغربۃ ہے، اور قول باری تعالیٰ : وجعل لکم السمع کے ضمن میں قوت گویائی کے اثبات کا قول بھی کیا گیا ہے کیونکہ جو سن نہیں سکتا وہ کلام بھی نہیں کرسکتا، اور جب سننے کا حاسہ پایا گیا تو نطق اور کلام بھی پائی گئی۔ اور اعمش، ابن وثاب، اور حمزہ نے یہاں سورة النور، الزمر اور النجم میں ہمزہ اور میم کے کسرہ کے ساتھ امھتکم پڑھا ہے۔ اور رہے کسائی ! تو انہوں نے ہمزہ کو کسرہ اور میم کو فتحہ دیا ہے اور بلاشبہ یہ (ہمزہ کا کسرہ ماقبل کی) اتباع کی وجہ سے ہے۔ اور باقیوں نے اصل پر رکھتے ہوئے ہمزہ کو ضمہ اور میم کو فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور أمھات کی اصل أمات ہے، پھر ھا بطور تاکید زیادہ کردی گئی جیسا کہ انہوں نےأھرقت الماء میں ھا کو زیادہ کیا ہے حالانکہ یہ اصل میں أرقت ہے۔ اور یہ بحث سورة الفاتحہ میں گزر چکی ہے۔ لعلکم تشکرون اس میں دو تاویلیں ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے۔ تاکہ تم اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرو۔ اور دوسری یہ ہے : مراد یہ ہے کہ تم اس کی صنعت و کاریگری کے آثار دیکھو کیونکہ انہیں دیکھنا شکر تک پہنچا دیتا ہے۔
Top