Al-Qurtubi - Al-An'aam : 158
قُلِ ادْعُوا اللّٰهَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ١ؕ اَیًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَهُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى١ۚ وَ لَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَ لَا تُخَافِتْ بِهَا وَ ابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِكَ سَبِیْلًا
قُلِ : آپ کہ دیں ادْعُوا : تم پکارو اللّٰهَ : اللہ اَوِ : یا ادْعُوا : تم پکارو الرَّحْمٰنَ : رحمن اَيًّا مَّا : جو کچھ بھی تَدْعُوْا : تم پکارو گے فَلَهُ : تو اسی کے لیے لْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى : سب سے اچھے نام وَلَا تَجْهَرْ : اور نہ بلند کرو تم بِصَلَاتِكَ : اپنی نماز میں وَ : اور لَا تُخَافِتْ : نہ بالکل پست کرو تم بِهَا : اس میں وَابْتَغِ : اور ڈھونڈو بَيْنَ ذٰلِكَ : اس کے درمیان سَبِيْلًا : راستہ
کہہ دو کہ تم خدا کو اللہ (کے نام سے) پکارو یا رحمان (کے نام سے) جس نام سے پکارو اس کے سب نام اچھے ہیں۔ اور نماز نہ بلند آواز سے پڑھو اور نہ آہستہ بلکہ اس کے بیچ کا طریقہ اختیار کرو۔
آیت نمبر 110 قولہ تعالیٰ : قل ادعوا اللہ۔۔۔۔۔ الاسمآء الحسنی اس آیت کا سبب نزول یہ ہے کہ مشرکوں نے رسول اللہ ﷺ کو یا اللہ یا رحمن پکارتے ہوئے سنا تو کہنے لگے : محمد ﷺ ہمیں تو ایک الٰہ کو پکارنے کا حکم دیتے ہیں اور خود دو کو پکارتے ہیں ؛ یہ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا ہے۔ اور مکحول نے کہا ہے : رسول اللہ ﷺ نے ایک رات تہجد کی نماز پڑھی اور اپنی دعا میں یہ کہا : یا رحمن یا رحیم اور مشرکین میں سے ایک آدمی نے اسے سن لیا۔ اور یمامہ کا ایک آدمی تھا جس کا نام رحمن تھا، تو اسے سننے والے نے کہا : محمد ﷺ کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ یمامہ کے رحمن کو پکار رہے ہیں ؟ پس یہ آیت یہ بیان کرنے کے لئے نازل ہوئی کہ یہ دونوں اسم ایک مسمی کے ہیں، پس اگر تم نے اسے یا اللہ کے ساتھ پکارا تو وہ بھی ذات ہے اور اگر تم نے اسے یا رحمن کے ساتھ پکارا تو بھی وہی ذات مراد ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : وہ تحریر کے شروع میں لکھتے تھے : باسمک اللھم ؛ پھر یہ آیت نازل ہوئی : انہ من سلیمن وانہ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ (النمل) تب رسول اللہ ﷺ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھا تو مشرکوں نے کہا : اس رحیم کو تو ہم پہچانتے ہیں تو یہ رحمن کون ہے، پس یہ آیت نازل ہوئی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : بیشک یہودیوں نے کہا : کیا ہے ہمیں کہ ہم قرآن کریم میں ایک اسم نہیں سنتے حالانکہ وہ تورات میں کثیر ہے۔ اور ان کی مراد رحمن ہے، تب یہ آیت نازل ہوئی۔ اور طلحہ بن مصرف نے ایا من تدعو فلہ الاسماٰء الحسنی قرات کی ہے، یعنی اسماء جو افضل اوصاف اور اشرف معانی کا تقاضا کرتے ہیں۔ اور اسماء کا حسین ہونا شروع کی تحسین کی طرف متوجہ کرتا ہے، کیونکہ یہ آیت مطلق ہے اور اس پر نص ہے۔ اور اس کی طرف منسوب ہونا شریف اور خوبصورت معانی کا تقاضا کرتا ہے، اور یہ توقیف کے ساتھ ہے قرآن کریم یا حدیث یا اجماع کی توقیف کے بغیر محض نظر وفکر سے اللہ تعالیٰ کا کوئی اسم وضع کرنا صحیح نہیں ہے، جیسا کہ ہم نے اسے ” الکتاب الاسنی فی شرح اسماء اللہ الحسنی “ میں بیان کیا ہے۔ قولہ تعالیٰ : ولا تجھر بصلاتک ولا تخافت بھا اس میں دو مسلئے ہیں : مسئلہ نمبر 1: اس کے سبب نزول میں پانچ مختلف اقوال ہیں : (1) ایک وہ قول ہے جو حضرت ابن عباس ؓ نے قول باری تعالیٰ : ولا تجھر بصلاتک ولا تخافت بھا کے بارے بیان کیا ہے، انہوں نے فرمایا : یہ آیت نازل ہوئی اور رسول اللہ ﷺ مکہ مکرمہ میں روپوش تھے، اور جب اپنے اصحاب کو نماز پڑھاتے تو بلند آواز سے قرآن کریم پڑھتے، اور جب مشرکین نے اسے سنا تو انہوں نے قرآن کریم، جس نے اسے نازل کیا اور جو اسے لے کر آیا تمام کے لئے غلیظ الفاظ استعمال کئے، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ولا تجھر بصلاتک (اور بلند آواز سے نماز نہ پڑھو) کہ مشرک آپ کی قرأت سنیں۔ ولا تخافت بھا اور نہ اپنے اصحاب سے اسے چھپاؤ، یعنی آپ انہیں قرآن سنائیں اور بہت زیادہ آواز بلند نہ کریں۔ وابتغ بین ذلک سبیلا فرمایا : آپ بلند آواز اور بالکل آہستہ آواز کے درمیان پڑھئے، اسے امام بخاری، امام مسلم، امام ترمذی وغیرہم نے بیان کیا ہے۔ اور یہ الفاظ صحیح مسلم کے ہیں۔ اور المخافتہ کا معنی آواز کو پست کرنا اور ساکن ہونا ہے) میت جب ٹھنڈی ہوجائے تو کہا جاتا ہے : خفت (وہ ساکن ہوگیا) ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے : لم یبق إلا نفس خافت ومقلۃ إنسانھا باھت رثی لھا الشامت مابھا یا عیح من یرثی لہ الشامت (2) دوسرا وہ قول ہے جو امام مسلم نے ہی حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے قول باری تعالیٰ : ولا تجھر بصلاتک ولا تخافت بھا کے بارے میں نقل کیا ہے ام المومنین ؓ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے یہ آیت دعا کے بارے میں نازل فرمائی ہے۔ (3) ابن سیرین نے کہا ہے : اعرابی لوگ اپنے تشہد بلند آواز سے پڑھتے تھے تو اس بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : اس بنا پر یہ آیت تشہد کو مخفی پڑھنے کو متضمن ہوگی، حالانکہ حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا : تشہد کو مخفی پڑھنا سنت سے ثابت ہے ؛ اسے ابن منذر نے ذکر کیا ہے۔ (4) یہ بھی حضرت ابن سیرین (رح) سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ آہستہ آواز سے قرآن پڑھتے تھے اور حضرت عمر ؓ بلند آواز سے پڑھتے تھے، تو اس بارے میں دونوں سے پوچھا گیا، تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کہا : بلاشبہ میں اپنے رب کی مناجات کرتا ہوں، اور وہ میری حاجت کو خوب جانتا ہے۔ اور حضرت عمر ؓ نے کہا : میں شیطان کو بھگاتا ہوں اور سونے والوں کو بیدار کرتا ہوں پس جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت ابوبکر ؓ کو کہا گیا : تھوڑا سا آواز کو بلند کرلو، اور حضرت عمر ؓ کو کہا گیا : تم تھوڑا سا اپنی آواز کو پست کرلو ؛ اسے طبری وغیرہ نے ذکر کیا ہے۔ (5) یہ بھی حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ اس کا معنی ہے آپ دن کی نماز میں بلند آواز سے قرأت نہ کریں، اور رات کی نماز میں آہستہ آواز سے قرأت نہ کریں ؛ اسے یحییٰ بن سلام اور زہراوی نے ذکر کیا ہے۔ پس یہ آیت نوافل اور فرائض میں قرأت بالجہر اور قرأت بالسر کے احکام کو متضمن ہے، پس رہے نوافل تو نمازی کو رات اور دن کے وقت آہستہ اور بلند آواز سے قرأت کرنے میں اختیار دیا گیا ہے، اور اسی طرح حضور نبی مکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ دونوں امر اکٹھے کرلیتے تھے۔ اور جہاں تک فرائض کا تعلق ہے تو رات اور دن کے وقت قرأت کے بارے میں ان کا حکم معلوم ہے۔ (6) حسن نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے تو اپنی نماز میں دکھاوا نہ کر کہ اعلانیہ میں تو انہیں خوب اچھا کرے اور سری نمازوں میں بھی تو انہیں نہ کرے (یعنی سری اور جہری دونوں قسم کی نمازوں میں بغیر کسی ریا کاری کے خشوع و خضوع قائم رہے اور قرأت خوب اچھی رہے) ۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : لوگوں کو دکھانے کے لئے نماز نہ پڑھ اور نہ لوگوں کے خوف سے اسے چھوڑ۔ مسئلہ نمبر 2: اللہ تعالیٰ نے یہاں قرأت کو صلوٰۃ کے ساتھ تعبیر کیا ہے جیسا کہ اپنے اس ارشاد میں نماز (صلوٰۃ) کو قرأت کے ساتھ تعبیر کیا ہے : قران الفجر ان قران الفجر کان مشھودا۔ (الاسراء) کیونکہ ان دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہے، کیونکہ نماز قرأت، رکوع اور سجود پر مشتمل ہوتی ہے پس یہ قرأت من جملہ اس کے اجزاء میں سے ہے، اور جملہ کو جز سے تعبیر کرنا مجازاً یہ عربوں کی عادت ہے اور یہ کثیر ہے، اور اسی معنی میں صحیح حدیث بھی ہے : قسمت الصلواۃ بینی وبین عبدی یعنی قرأت فاتحہ کو میں نے اپنے درمیان اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کردیا ہے، جیسا کہ یہ پہلے گزر چکا ہے۔
Top