Al-Qurtubi - Al-Israa : 19
وَ مَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَ سَعٰى لَهَا سَعْیَهَا وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓئِكَ كَانَ سَعْیُهُمْ مَّشْكُوْرًا
وَمَنْ : اور جو اَرَادَ : چاہے الْاٰخِرَةَ : آخرت وَسَعٰى : اور کوشش کی اس نے لَهَا : اس کے لیے سَعْيَهَا : اس کی سی کوشش وَهُوَ : اور (بشرطیکہ) وہ مُؤْمِنٌ : مومن فَاُولٰٓئِكَ : پس یہی لوگ كَانَ : ہے۔ ہوئی سَعْيُهُمْ : ان کی کوشش مَّشْكُوْرًا : قدر کی ہوئی (مقبول)
اور جو شخص آخرت کا خواستگار ہو اور اس میں اتنی کوشش کرے جتنی اسے لائق ہے اور وہ مومن بھی ہو تو ایسے ہی لوگوں کی کوشش ٹھکانے لگتی ہے
آیت نمبر 18 تا 19 قولہ تعالیٰ : من کان یرید العاجلۃ مراد دنیا ہے، اور مراد الدار العاجلۃ (یعنی جو لوگ طلبگار ہیں صرف دار دنیا کے) تو اس میں منعوت کو نعت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ عجلنا لہ فیھا مانشآء لمن نرید یعنی ہم اس میں سے اسے عطا نہیں کرتے مگر جو ہم چاہتے ہیں پھر ہم اس کے عمل کے مطابق اس کا مواخذہ کریں گے، اور اس کا انجام جہنم میں داخل ہوتا ہے۔ مذموماً مدحورًا اس حال میں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بھگایا ہوا اور دور کیا ہوا ہوگا اور یہ فاسق منافقون کی صفت ہے، اور ان ریا کاری اور دکھاوا کرنے والوں کی جو اندر کینہ چھپا کر ظاہر داری کرتے ہیں، وہ اسلام اور اطاعت کا لبادہ اوڑھتے ہیں تاکہ وہ جلدی ملنے والی دنیا کے منافع اور فوائد وغیرہ کو حاصل کریں، پس آخرت میں ان سے وہ عمل قبول نہیں کیا جائے گا اور دنیا میں انہیں صرف وہ دیا جائے گا جو ان کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ اور سورة ہود میں یہ گزر چکا ہے کہ یہ ایات ان آیات مطلقہ کو مقصد کررہی ہے پس تو اس میں غور کرلے۔ ومن ارادالاخرۃ یعنی اور جو راد آخرت کے طلبگار ہیں۔ وسعٰی لھا سعیھا یعنی اس نے طاعات و عبادات میں سے جو عمل کئے وہ آخرت کے لئے کئے۔ وھومؤمن کیونکہ طاعات و عبادات قبول نہیں کی جاتی مگر مومن سے۔ فاولٰٓئک کان سعیھم مشکورًا پس ان کی سعی و کوشش مقبول ہوگی مردود نہیں ہوگی۔ اور کہا گیا ہے : جیسا کہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے تحقیق انہیں کہا گیا : کیا تم نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ” بیشک اللہ تعالیٰ ایک نیکی پر ہزار نیکی کا بدلہ اور جزا دیتا ہے ؟ “ تو انہوں نے جواب دیا میں نے آپ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے :” بیشک اللہ تعالیٰ ایک نیکی پر دو لاکھ گنا تک نیکیوں کا ثواب اور جزا عطا فرماتا ہے، “
Top