Al-Qurtubi - Maryam : 42
اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ یٰۤاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَ لَا یُبْصِرُ وَ لَا یُغْنِیْ عَنْكَ شَیْئًا
اِذْ قَالَ : جب اس نے کہا لِاَبِيْهِ : اپنے باپ کو يٰٓاَبَتِ : اے میرے ابا لِمَ تَعْبُدُ : تم کیوں پرستش کرتے ہو مَا لَا يَسْمَعُ : جو نہ سنے وَلَا يُبْصِرُ : اور نہ دیکھے وَلَا يُغْنِيْ : اور نہ کام آئے عَنْكَ : تمہارے شَيْئًا : کچھ
جب انہوں نے اپنے باپ سے کہا کہ ابا آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہیں جو نہ سنیں اور نہ دیکھیں اور نہ آپ کے کچھ کام آسکیں ؟
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اذ قال لابیہ، ابیہ سے مراد آزر ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ یابت، سورة یوسف میں اس پر گفتگو ہوچکی ہے۔ لم تعبد کس وجہ سے آپ عبادت کرتے ہیں۔ مالا یسمع ولا یبصر ولا یغنی عنک شیا۔ جو نہ سنتے ہیں اور نہ دیکھتے ہیں اور نہ تجھے کچھ فائدہ دیتے ہیں۔ اس سے مراد بتہیں۔ یابت انی قد جآءنی من العلم مالم یا تک یعنی اللہ کی معرفت اور یقین اور جو موت کے بعد ہونا ہے اور جسنے غیر اللہ اللہ کی عبادت کی اسے عذاب دیا جائے گا۔ فاتبعنی اس کی اتباع کرو جس کی طرف میں دعوت دیتا ہوں۔ اھدک صراطاً سویا۔ میں تمہاری دین مستقیم کی طرف راہنمائی کروں گا جس میں نجات ہے۔ یابت لا تعبد الشیطن وہ جو تمہیں کفر کا حکم دیتا ہے اس کی طاعت نہ کرو جس نے کسی معصیت میں شیطان کی اطاعت کی اس نے اس کی عبادت کی۔ ان الشیطن کان للرحمن عصیا۔ کان صلۃ (زائدہ) ہے۔ اور بعض علماء نے فرمایا : کان بمعنی صار ہے۔ بعض نے فرمایا : حال کے معنی ہے یعنی ھو للرحمن، عصیا اور عاص دونوں کا ایک معنی ہے ؛ یہ کسائی کا قول ہے۔ یابت انی اخاف ان یمسک عذاب من الرحمن اگر تو اس عقیدہ پر مرگیا جس پر تو اب ہے تو میں جانتا ہوں کہ رحمن کی طرف سے تجھے عذاب ملے گا۔ اور اخاف بمعنی اعلم ہے۔ اور یہ بھی جائز ہے کہ اپنے معنی میں ہو معنی یہ ہو کہ مجھے ڈر ہے کہ تو کفر پر مرے گا پھر تجھے عذاب ہوگا۔ فتکون للشیطن ولیا۔ آگ میں ساتھی ہوگا۔ قال اراغب انت عن الھتی یابرھیم کیا تو ان یتوں کو چھوڑ کر دوسرے کسی خدا کی طرف رغبت رکھتا ہے۔ لئن لم تنتہ لا رجمنک، حسین نے کہا : اس کا معنی ہے میں تجھے پتھروں سے ماروں گا۔ ضحاک نے کہا : اس سے مراد ہے میں تجھے گالی دوں گا۔ حضرت ابن عباس نے کہا : اس کا مطلب ہے میں تجھے سزا دوں گا۔ بعض نے کہا : اس کا معنی ہے میں تیرا معاملہ ظاہر کر دوں گا۔ واھجرنی ملیا۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : اس کا مطلب ہے عزت بچا کر مجھ سے الگ ہوجا کہیں ایسا نہ ہو کہ میری طرف سے تجھے کوئی فساد پہنچے، طبری نے اس کو اختیار کیا ہے۔ اس مفہوم پر ملیا، ابراہیم سے حال ہو گس۔ حسن اور مجاہد نے کہا : ملیا کا معنی ہے لمبا زمانہ (1) ؛ اسی سے المہلہل کا قول ہے : فتصدعت صم الجبال لموتہ وبکت علیہ لرملات ملیا اس شعر میں ملیا سے مراد لمبا زمانہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : قال سلم علیک، حضرت ابراہیم نے جواب تندی اور ترشی میں نہیں دیا کیونکہ انہیں اس کے کفر پر اسے قتل کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔ جمہور علماء نے کہا ہے کہ یہاں سلام سے مراد مسالمہ ہے یعنی متارکہ (چھوڑنا) ہے سلام نہیں ہے۔ طبری نے کہا : اس کا معنی ہے مجھ سے آپ کو امن ہے۔ اس بنا پر کافر کو پہلے سلام نہیں کیا جائے گا۔ نقاش نے کہا : یہ حلیم کا سفیہ سے خطاب ہے جیسے فرمایا : واذا خاطبہم الجھلون قالوا سلما۔ (الفرقان) بعض علماء نے اسے سلام کے معنی میں فرمایا، یہ جدائی کا سلام ہے اور کافر کو سلام کرنے اور اس کو پہلے سلام کرنے کو جائز قرار دیا ہے۔ ابن عینیہ سے پوچھا گیا : کیا کافر کو سلام کرنا جائز ہے ؟ انہوں نے کہا : ہاں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : لا ینھکم اللہ عن الذین یم یقاتلوکم فی الدین ولم یخرجوکم من دیارکم ان تبروھم وتقسطوا الیہمط ان اللہ یحب المقسطین۔ (الممتحنہ) اور فرمایا : قد کا نت لکم اسوۃ حسنۃ فی ابرھیم (الممتحنہ) اور حضرت ابراہیم نے اپنھے باپ سے کہا : سلم علیک۔ میں کہتا ہوں : اس آیت سے وہی ظاہر ہوتا ہے جو سفیان بن عینیہ نے کہا ہے اور اس باب میں دو صحیح احادیث ہیں۔ حضرت ابوہریرہ نے نبی پاک ﷺ سے روایت کیا ہے فرمایا : ” یہود اور نصاریٰ کو پہلے سلام نہ کرو اور جب تم ان میں سے کسی کو راستہ میں ملو تو اسے تنگی کی صرف مجبور کرو “ (1) ۔ اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔ صحیحین میں حضرت اسامہ بن زید سے مروی ہے کہ نبی پاک ﷺ گدھے پر سوار ہوئے جس پر پالان تھا جس کے نیچے فدک کا بنا ہوا کپڑا تھا اور آپ نے پیچھے حضرت اسامہ بن زید کو سوار کیا ہوا تھا۔ آپ ﷺ حضرت سعد ببن عبادہ کی بنی الحرث بن الخزرج میں عیادت کے لیے جا رہے تھے، یہ جنگ بدر سے پہلے کا واقعہ ہے حتیٰ کہ آپ ایک ایسی مجلس سے گزرے جس میں مسلمان، مشرکین، ببت پرست اور یہودی بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں (رئیس المنافقین) عبداللہ بن ابی بن سلول بھی تھا اور اجلس میں حضرت عبداللہ بن رواحہ بھی موجود تھے جب مجلس پر گدھے کا غببار پڑا تو عبداللہ بن ابی نے اپنی ناک اپنی چادر سے ڈھانپ لی اور کہا : ہم پر غبار نہ اُڑائو۔ نبی کریم ﷺ نے ان پر سلام کیا (الحدیث) پہلی حدیث ابتداً غیر مسلموں کو سلام نہ کرنے کو ظاہر کر رہی ہے کیونکہ سلام کرنا عزت دینا ہے اور کافر اس کا اہل نہیں اور دوسری حدیث ابتداً غیر مسلموں کو سلام کرنے کو جائز ظاہر کر رہی ہے۔ طبری نے کہا : حضرت اسامہ کی مروی، حضرت ابوہریرہ کی حدیث کے معارض نہیں ہے کیونکہ ہر ایک دوسری کے خلاف نہیں ہے۔ یہ اس طرح ہے کہ حضرت ابوہریرہ کی حدیث کا مخرج عموم ہے اور حضرت اسامہ کی حدیث بیان کرتی ہے کہ اس کا معنی خصوص ہے۔ نخعی نے کہا : جب تجھے یہودی یا نصرانی سے حاجت ہو تو اسے پہلے سلام کر، اس سے ظاہر ہوا کہ حضرت ابوہریرہ کی حدیث (کہ انہیں پہلے سلام نہ کرو (2) اس صورت میں ہو تو اسے پہلے سلام کر، اس سے ظاہر ہوا کہ حضرت ابوہریرہ کی حدیث (کہ انہیں پہلے سلام نہ کرو (2) اس صورت میں ہے جبب کوئی ایسا سبب نہ ہو جو سلام کرنے کا موجب ہو مثلاا کوئی فیصلہ کرانا ہو، کوئی اور حاجت ہو جو تمہیں ان کی طرف سے لاحق ہو یا سنگت کا حق ہو یا پڑوس کا حق ہو یا سفر کا حق ہو۔ طبری نے کہا : سلف سے مروی ہے کہ وہ اہل کتاب کو سلام کرتے تھے۔ حضرت ابن مسعود نے ایک کسان کو سلام کیا جو راستے میں آپ کے ساتھ تھا۔ حضرت علقمہ نے کہا : میں نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے کہا : اے ابا عبدالرحمن ! کیا اہل کتاب کو پہلے سلام کرنا مکروہ نہیں ہے ؟ حضرت عبداللہ نے فرمایا : ہاں، لیکن حق صحبت و سنگت کی وجہ سے مکروہ نہیں ہے۔ حضرت ابو امامہ جب اپنے گھر کی طرف لوٹتے تو مسلمان، نصرانی چھوٹے بڑے جس کے پاس سے گزرتے اسے سلام کرتے۔ اس کی وجہ ان سے پوچھی گئی تو فرمایا : ہمیں سلام افشاء کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ امام اوزاعی سے اس مسلمان کے بارے پوچھا گیا جو کسی کافر کے پاس سے گزرتا ہے اور پھر اسے سلام کرتا ہے تو انہوں نے فرمایا : اگر تو سلام کرے تو تجھ سے پہلے نیک للوگوں نے سلام کیا ہے اگر تو سلام نہ کرے تو تجھ سے پہلے نیک لوگوں نے سلام کو ترک کیا ہے۔ حسن بصری سے مروی ہے انہوں نے فرمایا : جب تو کسی ایس مجلس سے گزرے جس میں مسلمان اور کفار ہوں تو انہیں سلام کر۔ میں کہتا ہوں : پہلے مقالہ والوں نے اس سے حجت پکڑی ہے کہ سلام جس کا معنی تحیۃ ہے یہ اس امت کے ساتھ خاص ہے کیونکہ حضرت انس بن مالک کی حدیث ہے فرمایا : نبی پاک ﷺ نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے میری امت کو ایسی تین چیزیں عطا فرمائی ہیں جو ان سے پہلے کسی کو عطا نہیں کی گئیں۔ (1) السلام یہ اہل جنت کا سلام ہے “ الحدیث۔ اس حدیث کو حکیم ترمذی نے ذکر کیا ہے ان کی سند کے ساتھ سورة فاتحہ میں گزر چکی ہے۔ سا ستغفرلک ربی کے معنی پر کلام گزر چکی ہے اور سلام پر رفع ابتدا کی وجہ سے ہے۔ اس کے نکرہ ہونے کے باوجود اسے مبتداء بنانا جائز ہے کیونکہ نکرہ مخصوصہ، حکم میں معرفہ کے ساتھ متصل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : انہ کان بی حفیا۔ الحفی جو نیکی کرنے اور مہربانی کرنے میں انتہا کو پہنچا ہوا ہو۔ کہا جاتا ہے : حفی بہ وتحفی، اس کا معنی ہے اس نے اس سے نیکی اور مہربانی کی۔ کسائی نے کہا : کہا جاتا ہے : حفی بی حفاوۃ وحفوۃ، فراء نے کہا : انہ کان بی حفیا، یعنی وہ عالم اور باریک بین ہے وہ میری دعا قبول فرماتا ہے جب میں اس سے دعا مانگتا ہوں۔
Top