Al-Qurtubi - Al-Anbiyaa : 110
لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ؕ وَ اِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ اَوْ تُخْفُوْهُ یُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللّٰهُ١ؕ فَیَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
لِلّٰهِ : اللہ کے لیے مَا : جو فِي : میں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَمَا : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَاِنْ : اور اگر تُبْدُوْا : تم ظاہر کرو مَا : جو فِيْٓ : میں اَنْفُسِكُمْ : تمہارے دل اَوْ : یا تُخْفُوْهُ : تم اسے چھپاؤ يُحَاسِبْكُمْ : تمہارے حساب لے گا بِهِ : اس کا اللّٰهُ : اللہ فَيَغْفِرُ : پھر بخشدے گا لِمَنْ : جس کو يَّشَآءُ : وہ چاہے وَيُعَذِّبُ : وہ عذاب دے گا مَنْ : جس کو يَّشَآءُ : وہ چاہے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز قَدِيْرٌ : قدرت رکھنے والا
جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے سب خدا ہی کا ہے اور تم اپنے دلوں کی بات کو ظاہر کرو گے تو یا چھپاؤ گے تو خدا تم سے اس کا حساب لے گا پھر وہ جسے چاہے مغفرت کرے اور جسے چاہے عذاب دے اور خدا ہر چیز پر قادر ہے
(آیت 282 کی بقیہ تفسیر ) مسئلہ نمبر : (44) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ولا تسئموا ان تکتبوہ صغیرا او کبیرا الی اجلہ “۔ تسئموا کا معنی ہے تملوا اور تم اکتاؤ نہیں۔ اخفش نے کہا ہے : کہا جاتا ہے، سئمت اسام ساما وسامۃ وسام (وسامۃ) وساما (اکتا جانا) جیسا کہ شاعر نے کہا ہے : سئمت تکالیف الحیاۃ ومن یعش ثمانین حولا لا ابالک یسام “۔ میں زندگی کی تکالیف سے اکتا گیا اور جو اسی برس تک زندہ رہا۔ تیرا باپ نہ ہو وہ اکتا ہی جاتا ہے۔ (آیت) ” ان تکتبوہ “۔ یہ فعل کے سبب محل نصب میں ہے (آیت) ” صغیرا او کبیرا “ یہ دونوں تکتبوہ کی ضمیر سے حال ہیں، اور صغیر کو اس کے خاص اہمتام کے سبب مقدم ذکر کیا گیا ہے اور یہ نہیں اکتانے سے ہے، بلاشبہ یہ اس لئے وارد ہوئی ہے کیونکہ ان کے درمیان قرضوں کا لین دین کثرت سے تھا لہذا ان کے بارے یہ خوف ہونے لگا کہ وہ لکھنے سے اکتا جائیں (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 383 دارالکتب العلمیہ) اور کوئی یہ کہنے لگے : قرضے کی یہ مقدار تو بالکل قلیل اور تھوڑی ہے مجھے اسے لکھنے کی ضرورت نہیں، پس اللہ تعالیٰ نے قلیل وکثیر میں لکھنے کی انگیخت دلا کر تاکید فرمائی، ہمارے علماء نے کہا ہے مگر وہ شے جو اپنی کمی اور اقرار و انکار میں نفس کے اس کے طرف جھکاؤ نہ ہونے میں وہ قیراط اور اسی کی طرح کی ہو (تو اس میں لکھنے کی ضرورت نہیں) مسئلہ نمبر : (45) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ذلکم اقسط عنداللہ ، “۔ اقسط، بمعنی اھدل (یہ تحریر زیادہ عدل کرنے والی ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک) یعنی یہ کہ قلیل وکثیر مقدار کو لکھ لیا جائے اور اس پر گواہ بنا لئے جائیں۔ (2) (احکام القرآن جلد 1، صفحہ 257، دارالفکر لبنان) (آیت) ” واقوم للشھادۃ “ ، یعنی یہ شہادت کو صحیح کرنے والی اور اسے محفوظ بنانے والی ہے، وادنی اس کا معنی ہے اقرب، زیادہ قریب ہے۔ اور ترتابوا تم شک کرو، (یعنی یہ تحریر تمہیں شک سے بچانے کا بہت آسان اور قریب ترین طریقہ ہے۔ مسئلہ نمبر : (46) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” واقوم للشھادۃ “۔ اس پر دلیل ہے کہ شاہد جب کتاب دیکھے اور اسے شہادت یاد نہ ہو تو وہ اسے ادا نہیں کرے گا کیونکہ اس پر اس میں شک داخل ہوچکا ہے اور وہ شہادت نہیں دے سکتا مگر اسی شے کی جسے وہ جانتا ہو، لیکن وہ یہ کہہ سکتا ہے : یہ میری تحریر ہے اور اب مجھے وہ یاد نہیں جو میں نے اس میں لکھا۔ (1) (احکام القرآن جلد 1، صفحہ 258، دارالفکر لبنان) ابن منذر نے کہا : اہل علم میں سے اکثر وہ جن سے روایات محفوظ کی جاتی ہیں وہ اس سے منع کرتے ہیں کہ کوئی شاہد اپنے خط پر شہادت دے جب اسے شہادت یاد نہ ہو۔ اور امام مالک (رح) نے اس کے جواز پر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے استدلال کیا ہے، (آیت) ” وما شھدنا الا بما علمنا “۔ اور بعض علماء نے کہا ہے : جب اللہ تعالیٰ نے کتابت کی نسبت عدالت کی طرف کی ہے تو اس میں اس کے لئے وسعت اور گنجائش ہے کہ وہ اپنے خط پر شہادت دے اگرچہ اسے یاد نہ بھی ہو۔ ابن مبارک نے معمر عن ابن طاؤس عن ابیہ کی سند سے ایک آدمی کے بارے میں ذکر کیا ہے کہ وہ شہادت پر شہادت دیتا ہے اور پھر اسے بھول جاتا ہے، فرمایا : کوئی حرج نہیں کہ وہ شہادت دے، بشرطیکہ وہ تحریری معاہدہ میں اپنی علامت یا اپنے ہاتھ کی تحیریر کو پالے، ابن مبارک (رح) نے کہا : میں نے یہ بہت اچھا سمجھا ہے اور اس بارے میں رسول اللہ ﷺ سے کئی اخبار وروایات مروی ہیں کہ آپ نے کئی ایک اشیاء میں دلائل و شواہد کے ساتھ فیصلہ کیا ہے اور آپ ﷺ سے پہلے آنے والے رسل عظام (علیہم السلام) سے بھی ایسی روایات ہیں جو اس مذہب کے صحیح ہونے پر دلالت کرتی ہیں، واللہ اعلم، اس کے بارے مزید بیان سورة الاحقاف میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مسئلہ نمبر : (47) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” الا ان تکون تجارۃ حاضرۃ تدیرونھا بینکم “ اس میں ان استثناء ہونے کی بنا پر محل نصب میں ہے یہ اول کلام سے نہیں ہے۔ (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 383 دارالکتب العلمیہ بیروت) اخفش (ابو سعید) نے کہا ہے : ای الا ان تقع تجارہ (مگر یہ کہ تجارت واقع ہو) پس کان بمعنی وقع اور حدث کے ہے اور ان کے سوا کسی اور نے کہا ہے : (آیت) ” وتدیرونھا “ یہ خبر ہے اور اکیلے عاصم نے کان کی خبر ہونے کی بنا پر تجارۃ پڑھا ہے (3) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 383 دارالکتب العلمیہ بیروت) اور اس کا اسم اس میں مخفی ضمیر ہے۔ اور ” حاضرۃ یہ تجارۃ کی صفت ہے، اور تقدیر عبارت یہ ہے ” الا ان تکون التجارۃ تجارۃ حاضرۃ۔ یا ” الا ان تکون المبایعۃ تجارۃ حاضرۃ (مگر یہ کہ سودا دست بدستی ہو) مکی اور ابو علی فارسی نے اسے اسی طرح مقدر کیا ہے اس کی نظائر اور اس پر استشہاد پہلے گزر چکا ہے۔ اور جب اللہ تعالیٰ نے ان پر لکھنے کی مشقت کو ملاحظہ فرمایا تو اس کے ترک پر نص بیان فرمائی اور ہر اس بیع میں حرج کو اٹھا دیا جو نقد ونقد ہو اور اغلبا یہی بیع ہوتی ہے جبکہ وہ قلیل شے میں مثلا کھانے پینے کی اشیاء وغیرہ نہ کہ کثیر میں جیسا کہ املکا وغیرہ (یعنی املاک کی خرید وفروخت میں چونکہ عوض کثیر ہوتا ہے اس لئے اسے لکھنا لازم ہے۔ ) سدی اور ضحاک نے کہا ہے : یہ (رخصت) اس سودے میں ہے جو دست بدستی ہو۔ (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 383 دارالکتب العلمیہ بیروت) مسئلہ نمبر : (48) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” تدیرونھا بینکم “ یہ ارشاد باہم قبضہ کرنے اور مقبوض کے ساتھ مجلس عقد سے جدا ہونے کا تقاضا کرتا ہے، جب گھر، زمین اور حیوانوں میں سے کثیر جدائی اور علیحدگی کو قبول نہیں کرتے اور نہ انہیں چھوڑا جاسکتا ہے تو ان کے سودے میں لینا اچھا ہے اور اس میں قرضے کا لین دین ملحق ہوجائے گا۔ (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 383 دارالکتب العلمیہ بیروت) تو گویا تحریر اس کے لئے اعتماد اور مضبوطی کا باعث ہوگی جبکہ یہ قریب ہے کہ احوال بدلنے اور دلوں کی کیفیت میں تغیر آنے سے نزاع وہاں طاری ہوجائے، پس جب وہ معاملہ میں ایک دو سے سے جدا ہوں گے اور دونوں اپنے اپنے عوض پر قابض ہوں گے اور دونوں میں سے ہر ایک اس شے کے ساتھ مجلس عقد سے جدا ہوگا جو اس نے اپنے ساتھی سے خریدی ہے تو عرفا وعادۃ تنازع کا خوف کم ہوگا مگر مخفی اور پوشیدہ اسباب کے ساتھ شریعت نے نقد اور ادھار دونوں حالتوں میں ان مصالح پر آگاہ کیا ہے (3) (احکام القرآن لابن العربی، جلد 1، صفحہ : 258، دارالفکر بیروت) اور جس پر غائب ہوا جاسکتا ہے اور جس پر غائب نہیں ہوا جاسکتا، تحریر، شہادت اور رہن کے ساتھ۔ امام شافعی (رح) نے کہا ہے : بیوع تین ہیں : ایک وہ بیع جو کتابت اور گواہوں کے ساتھ ہو اور دوسری وہ بیع جو رہن کے عوض ہو اور تیسری وہ بیع جو امانت کے ساتھ ہو اور پھر آپ نے یہ آیت پڑھی۔ اور حضرت ابن عمر ؓ جب نقد کے عوض بیع کرتے تھے تو گواہ بنا لیتے تھے اور جب ادھار کوئی شے بیچتے تھے تو اسے لکھ لیتے تھے۔ (4) (احکام القرآن لابن العربی، جلد 1، صفحہ : 258، دارالفکر بیروت) مسئلہ نمبر : (49) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” واشھدوا علامہ طبری نے کہا ہے : اس کا معنی ہے وہ تم گواہ بنالیا کرو چھوٹے سودے پر بھی اور بڑے سودے پر بھی (5) (جامع البیان، صفحہ 158، جلد 3، 4، داراحیاء التراث العربیہ) اور لوگوں نے اس کے واجب ہونے یا مستحب ہونے کے بارے میں اختلاف کیا ہے۔ (6) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 364 دارالکتب العلمیہ بیروت) ، پس حضرات ابو موسیٰ اشعری، ابن عمر، ضحاک، سعید بن مسیب، جابر بن زید، مجاہد، داؤد بن علی اور ان کے بیٹے ابوبکر رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین و رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے : بیع کے وقت گواہ بنانا واجب ہے (7) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 364 دارالکتب العلمیہ بیروت) اور اس بارے میں ان میں سے زیادہ شدت حضرت عطا نے کی ہے انہوں نے کہا ہے : تو گواہ بنا لے جب تو کوئی شے فروخت کرے اور جب تو کوئی شے خریدے درہم کے عوض یا نصف درہم کے عوض یا چوتھائی درہم کے عوض یا اس سے بھی کم کے عوض، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (آیت) ” واشھدوا اذا تبایعتم “۔ (اور گواہ ضرور بنا لیا کرو جب خریدوفروخت کرو) ۔ اور ابراہیم نے کہا ہے : گواہ بنا لے جب کوئی شے فروخت کرے اور جب کوئی شے خریدے اگرچہ وہ سبزی کی گانٹھ ہی ہو۔ اور جنہوں نے یہ موقف اختیار کیا ہے اور اسے ترجیح دی ہے ان میں سے علامہ طبری بھی ہیں اور انہوں نے کہا ہے : کسی مسلمان کے لئے حلال نہیں ہے جب وہ کوئی شے فروخت کرے اور جب کوئی شے خریدے مگر یہ کہ اس پر گواہ بنا لیا جائے، ورنہ وہ کتاب اللہ کی مخالفت کرنے والا ہوگا اور اسی طرح اگر وہ مقررہ مدت تک ادھار ہو تو اس پر لازم ہے کہ وہ لکھوالے اور گواہ بنا لے اگر وہ کوئی کاتب پالے۔ اور علامہ شعبی اور حسن نے یہ موقف اپنایا ہے کہ اس امر کا اطلاق معنی ندب (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 384 دارالکتب العلمیہ لبنان) اور ارشاد پر ہے وجوب پر نہیں ہے اور بیان کیا جاتا ہے، کہ یہی قول امام مالک (رح)، امام شافعی اور اصحاب الرائے رحمۃ اللہ علہیم کا ہے، اور ابن عربی نے یہ گمان کیا ہے کہ یہ تمام کا قول ہے، فرمایا : اور یہی صحیح ہے، اور ضحاک کے سو کسی سے بھی یہ بیان نہیں ہوا کہ یہ وجوب کے لئے ہے، فرمایا تحقیق حضور نبی مکرم ﷺ نے بیع کی اور اسے تحریر کیا، فرمایا : اور آپ ﷺ کی تحریر کا نسخہ یہ ہے : ” بسم اللہ الرحمن الرحیم ھذا ما اشتری العداء بن خالد بن ھوذۃ من محمد رسول اللہ ﷺ اشتری منہ عبدا اوامۃ، لاداء ولا غائلۃ ولا خبثۃ بیع المسلم المسلم (بسم اللہ الرحمن الرحیم “۔ یہ وہ ہے جسے عداء بن خالد بن ہوذہ نے محمد رسول اللہ ﷺ سے خریدا ہے، اس نے آپ ﷺ سے غلام یا کنیز خریدی، اس میں کوئی بیماری نہیں، کوئی شر اور فساد نہیں، اور کوئی پلیدی اور نجاست نہیں اور یہ مسلمان کی بیع مسلمان کے ساتھ ہے۔ ) تحقیق آپ ﷺ نے بیع کی اور کسی کو گواہ نہیں بنایا اور آپ ﷺ نے کچھ خریدا اور اپنی زرہ یہودی کے پاس رہن رکھی، اور آپ نے کوئی گواہ نہیں بنایا، اگر گواہ بنانا امر واجب ہوتا تو جھگڑے کے خوف کی وجہ سے رہن کے ساتھ بھی واجب ہوتا۔ (2) (احکام القرآن، صفحہ 259، جلد 1، دارالفکر بیروت، ابن ماجہ کتاب التجارات حدیث 2241، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) میں (مفسر) کہتا ہوں : تحقیق ہم نے ضحاک (رح) کے سوا دوسروں سے وجوب ذکر کیا ہے، اور عداء کی اس حدیث کو دار قطنی اور ابو داؤد رحمۃ اللہ علہیم نے نقل کیا ہے، اور انہوں نے فتح مکہ اور غزوہ حنین کے بعد اسلام قبول کیا اور وہ کہتے ہیں ہم نے حنین کے دن رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جنگ لڑی، لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں غلبہ نہیں دیا اور نہ ہماری مدد کی، پھر وہ اسلام لائے اور اپنے اسلام کو خوب اچھا کیا، اسے ابو عمر نے ذکر کیا ہے اور انہوں نے راوی کی اس حدیث کو ذکر کیا ہے اور اس کے آخر میں کہا ہے : ” اصمعی نے کہا ہے : میں نے سعید بن ابی عروبہ سے غائلہ کے بارے پوچھا تو انہوں نے فرمایا : اس سے مراد بھاگ جانا، چوری کرنا اور زنا کرنا ہے اور میں نے ان سے الخبثہ کے بارے پوچھا تو انہوں نے فرمایا : مسلمانوں کے عہد میں رہنے والوں کی خریدوفروخت کرنا (یعنی جو مسلمانوں کے ساتھ کسی معاہدہ کے تحت رہ رہا ہو) اور امام ابو محمد بن عطیہ (رح) نے کہا ہے : اس میں وجوب تو باعث قلق و اضطراب ہے اور رہا دقائق میں تو وہ بہت مشکل اور شاق ہے اور جو کچھ اکثر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ بسا اوقات ایک تاجر گواہ بنانے کو ترک کرکے دوستی کا ارادہ اور قصد کرتا ہے اور کبھی بعض شہروں میں اس کی عادت اور رواج ہوتا ہے۔ (کہ گواہ نہیں بنایا جاتا) اور کبھی وہ عالم اور باعزت بڑے آدمی سے حیا محسوس کرتا ہے لہذا اس پر گواہ نہیں بنایا جاتا پس یہ سب ائتمام (امین بنانا) میں داخل ہیں اور امر ابالاشہاد مستحب باقی رہ جاتا ہے، کیونکہ اس میں اغلبا مصلحت ہوتی ہے جب اس سے مانع کوئی عذر موجود نہ ہو جیسا کہ ہم نے ذکر کردیا ہے۔ مہدوی، نحاس اور مکی نے ایک قوم سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے کہا ہے : (آیت) ” واشھدوا اذا تبایعتم “۔ اس ارشاد کے ساتھ منسوخ ہے فان امن بعضکم بعضا “۔ (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 384 دارالکتب العلمیہ بیروت) اور نحاس نے اسے حضرت ابو سعید خدری ؓ سے بیان کیا ہے اور یہ کہ انہوں نے یہ آیت تلاوت فرمائی : (آیت) ” یایھا الذین امنوا اذا تداینتم بدین الی اجل مسمی فاکتبوہ، ولیکتب بینکم کاتب بالعدل، ولا یاب کاتب ان یکتب کما علمہ اللہ فلیکتب، والملل الذی علیہ الحق ولیتق اللہ ربہ ولا یبخس منہ شیئا، فان کان الذی علیہ الحق سفیھا او ضعیفا اولا یستطیع ان یمل ھو فلیملل ولیہ بالعدل، واستشھدوا شھیدین من رجالکم فان لم یکونا رجلین فرجل وامراتن ممن ترضون من الشھدآء ان تضل احدھما فتذکر احدھما الاخری، ولا یاب الشھداء اذا ما دعوا ولا تسئموا ان تکتبوہ صغیرا او کبیرا الی اجلہ ذلکم اقسط عنداللہ ، ‘ واقوم للشھادۃ وادنی الا ترتابوا الا ان تکون تجارۃ حاضرۃ تدیرونھا بینکم فلیس علیکم جناح الا تکتبوھا، واشھدوا اذا تبایعتم، ولا یضآر کاتب ولا شھید، وان تفعلوا فانہ فسوق بکم واتقوا اللہ ویعلمکم اللہ واللہ بکل شیء علیم، وان کنتم علی سفر ولم تجدوا کاتبا فرھن مقبوضۃ فان امن بعضکم بعضا فلیؤدالذی اؤتمن امانتہ “۔ اور کہا اس آیت نے اپنے ماقبل کو منسوخ کردیا ہے۔ (2) جامع البیان، صفحہ 141، جلد 3، 4، دارا احیاء التراث العربیہ، ایضا، ابن ماجہ، کتاب الاحکام، حدیث نمبر 2355، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) نحاس نے کہا ہے : یہ حسن، حکم اور عبدالرحمن بن زید کا قول ہے۔ علامہ طبری نے کہا ہے اس کا کوئی معنی نہیں کیونکہ یہ حکم پہلے کا مغائر اور اس کے سوا ہے، اور بلاشبہ یہ حکم اس کے بارے ہے جو لکھنے والا کاتب نہ پائے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) ” وان کنتم علی سفر ولم تجدوا کاتبا فرھن مقبوضۃ فان امن بعضکم بعضا “۔ یعنی پھر وہ اس سے رہن کا مطالبہ نہ کرے۔ (آیت) ” فلیؤدالذی اؤتمن امانتہ “۔ (البقرہ : 283) ترجمہ : اور اگر تم سفر ہو اور نہ پاؤ کوئی لکھنے والا تو کوئی چیز گروی رکھ لیا کرو اور اس کا قبضہ دے دیاکرو، پھر اگر اعتبار کرلے کوئی تم میں سے دوسرے پر پس چاہے کہ ادا کر دے وہ جس پر اعتبار کیا گیا اپنی امانت کو۔ ) فرمایا : اگر اس کا پہلے کے لئے ناسخ ہونا جائز ہے تو پھر یہ بھی جائز ہے کہ یہ ارشاد گرامی : (آیت) ” وان کنتم مرضی او علی سفر او جآء احد منکم من الغآئط “۔ الآیۃ (النسا : 43) ترجمہ : اور اگر ہو تم بیمار یا سفر میں یا آئے کوئی تم میں سے قضائے حاجت سے۔ یہ اس ارشاد کے لئے ناسخ ہو۔ آیت) ” یایھا الذین امنوا اذا قمتم الی الصلوۃ “۔ الآیہ (المائدہ : 6) ترجمہ : اے ایمان والو ! جب تم نماز کا ارادہ کرو۔ اور پھر یہ بھی جائز ہے کہ یہ ارشاد گرامی : فمن لم یجد فصیام شھرین متتابعین “۔ (پس جو (غلام کو) نہ پائے تو وہ دو ماہ لگا تار روزے رکھے۔ ) اس ارشاد کے لئے ناسخ ہو : (آیت) ” فتحریر رقبۃ مومنۃ “ (پس ایک مومن غلام کو آزاد کرنا ہے۔ ) اور بعض علماء نے کہا ہے کہ قول باری تعالیٰ : (آیت) ” فان امن بعضکم بعضا “۔ کا ابتدائے آیت سے جو کہ امر بالاشہاد پر مشتمل ہے۔ نزول میں متاخرہ ہونا واضح اور ظاہر نہیں ہے، بلکہ یہ دونوں ایک ساتھ نازل ہوئے، اور ایک حالت میں اکٹھے نازل ہونے والے دو حکموں کو ناسخ ومنسوخ قرار دینا جائز نہیں ہوتا، فرمایا : حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ جب ان سے کہا گیا آیۃ الدین منسوخ ہے تو آپ نے فرمایا : نہیں قسم بخدا آیۃ الدین محکم ہے اس میں کوئی نسخ وغیرہ نہیں۔ فرمایا : اشھاد یعنی گواہ بنا لینے کا حکم طمانینت کے لئے فرمایا گیا ہے اور وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے دین کی توثیق اور پختگی کے لئے کئی طرق اور ذرائع بیان فرمائے ہیں ان میں سے ایک لکھوانا ہے، ایک رہن رکھنا ہے اور ایک گواہ بنا لینا ہے، اور علمائے امصار کے مابین کوئی اختلاف نہیں کہ رہن بطریق ندب مشروع ہے نہ کہ بطریق وجوب، پس گواہ بنانے میں بھی حکم اسی کی مثل سمجھا جائے گا اور لوگ ہمیشہ سفر وحضر، بروبحر اور صحرا، وپہاڑ میں بغیر گواہ بنائے خرید وفروخت کرتے رہتے ہیں باوجود اس کے کہ لوگ اسے جانتے ہیں لیکن کوئی انکار نہیں کرتا تو اگر گواہ بنانا واجب ہوتا تو وہ اس واجب کو ترک کرنے والے پر اعتراض کرنا قطعا ترک نہ کرتے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : یہ تمام خوبصورت استدلال ہے اور اس سے حسین تر وہ ہے جو ترک اشہاد کے بارے میں صریح سنت میں وارد ہے اور وہ وہ رورایت ہے جسے دارقطنی نے طارق بن عبداللہ محاربی سے روایت کیا ہے، انہوں نے فرمایا : ” ہم ربذہ اور جنوب ربذہ سے ایک قافلہ کی صورت میں آئے اور مدینہ طیبہ کے قریب آکر ہم نے پڑاؤ ڈالا اور ہمارے ساتھ ہماری ایک عورت پالکی میں بیٹھی ہوئی تھی، پس اس اثناء میں کہ ہم وہاں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ہمارے پاس ایک آدمی آیا اس پر دو سفید کپڑے تھے اور اس نے سلام کیا اور ہم نے بھی اس پر سلام کا جواب لوٹایا، تو اس نے پوچھا : یہ قافلہ کہاں سے آیا ہے ؟ تو ہم نے کہا : ربذہ سے اور ربذہ کے جنوب سے، روای کہتے ہیں : اور ہمارے ساتھ ایک سرخ اونٹ تھا، تو اس نے پوچھا کیا تم مجھے اپنا یہ اونٹ بیچتے ہو ؟ تو ہم نے کہا : ہاں۔ انہوں نے پوچھا : کتنے کے عوض ؟ ہم نے کہا : کھجور کے اتنے اتنے صاع کے عوض، اس نے کہا : ہم اس میں سے کوئی شے کم نہیں کرائیں گے (یعنی پورا پورا ادا کریں گے) اور کہا : میں اسے پکڑ لوں، پھر اس نے اونٹ کو سر سے پکڑا یہاں تک کہ وہ مدینہ طبیہ میں داخل ہوگیا اور ہم سے اوجھل ہوگیا اور ہم آپس میں ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے اور ہم نے کہا : تم نے اپنا اونٹ ایسے آدمی کو دے دیا ہے جسے تم پہچانتے ہی نہیں، تو اس پالکی میں بیٹھی ہوئی عورت نے کہا : تم ایک دوسرے کو ملامت نہ کرو میں نے اس آدمی کا چہرہ دیکھ لیا ہے وہ نہیں ہے کہ وہ تمہارے ساتھ بےوفائی کرے، میں نے کسی آدمی کا چہرہ اس کے چہرہ سے بڑھ کر چودھویں رات کے چاند سے زیادہ مشابہ نہیں دیکھا، تو جب شام ہوئی تو ہمارے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا : السلام علیکم میں رسول اللہ ﷺ کے قاصد کی حیثیت سے تمہارے پاس آیا ہوں اور آپ ﷺ نے تمہیں حکم فرمایا ہے کہ تم اس سے کھاؤ یہاں تک کہ تم خوب سیر ہوجاؤ اور تم اپنا کیل کرلو یہاں تک کہ تم اپنا حق پورا کرلو، اس نے بیان کیا : پس ہم نے کھایا یہاں تک کہ ہم سیر ہوگئے، اور ہم نے خیال کیا یہاں تک کہ ہم نے اپنا حق پورا کرلیا۔ (1) (سنن الدارقطنی، کتاب بیوع، صفحہ 45، حدیث نمبر 186، جلد 3، دارالمحاسن قاہرہ۔ اور زہری نے عمارہ بن خزیمہ ؓ سے حدیث بیان کی ہے کہ ان کے چچا نے انہیں بتایا اور وہ حضور نبی کریم ﷺ کے اصحاب میں سے تھے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ایک اعرابی سے گھوڑا خریدا، الحدیث اور اس میں ہے : پس اعرابی نے کہنا شروع کردیا : گواہ لاؤ جو یہ شہادت دے کہ میں نے تمہیں (گھوڑا) فروخت کیا ہے۔ تو حضرے خزیمہ بن ثابت ؓ نے کہا : میں شہادت دیتا ہوں کہ تو نے (گھوڑا) آپ ﷺ کو بیچا ہے، پھر حضور نبی مکرم ﷺ حضرت خزیمہ ؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : ” تو کیونکر شہادت دیتا ہے ؟ تو انہوں نے عرض کی : آپ کی تصدیق کرنے کے ساتھ یا رسول اللہ ﷺ راوی کہتے ہیں : تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت خزیمہ کی شہادت کو دو آدمیوں کی شہادت کے برابر قرار دیا، فجعل رسول اللہ ﷺ شھادۃ خزیمۃ بشھادۃ رجلین اسے نسائی وغیرہ نے روایت کیا ہے۔ (1) (سنن ابی داؤد، کتاب الاقضیہ حدیث نمبر 3130، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، ایضا سنن نسائی کتاب بیوع، صفحہ 228، جلد 2، وزارت تعلیم، اسلام آباد) مسئلہ نمبر : (50) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ولا یضآر کاتب ولا شھید اس میں تین اقوال ہیں۔ (1) کاتب نہ لکھے جب تک اسے لکھوایا نہ جائے اور شاہد اپنی شہادت میں کوئی کمی وبیشی نہ کرے، حسن قتادہ، طاؤس اور ابن زید وغیرہم نے یہی کہا ہے۔ اور حضرت ابن عباس، مجاہد اور عطاء رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے مروی ہے کہ معنی یہ ہے کہ کاتب لکھنے سے اور شاہد شہادت دینے سے انکار نہ کرے (2) (احکام القرآن لابن العربی، جلد 1، صفحہ : 259، دارالفکر بیروت) ان دونوں قولوں کی بنا پر ” ولا یضآر اصل میں یضار را کسرہ کے ساتھ ہے، پھر ادغام ہوا اور حالت جزمی میں فتحہ کے خفیف ہونے کی وجہ سے را کو فتحہ دے دیا گیا (3) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 383 دارالکتب العلمیہ بیروت) نحاس نے کہا ہے : میں نے ابو اسحاق کو اس قول کی طرف مائل ہوتے ہوئے دیکھا ہے فرمایا : کیونکہ اس کے بعد (آیت) ” وان تفعلوا فانہ فسوق بکم “۔ ہے پس اس طرح ہونا اولی ہے کہ جس نے بغیر حق کے شہادت دی یا لکھنے میں کوئی تغیر وتبدل کیا اسے فاسق کہا جائے اور یہ اس کے بارے میں اس سے بھی زیادہ اولی ہے، کہ آدمی شاہد کو شہادت دینے کے لئے کہے اور وہ مشغول ہو، (یعنی شہادت کے لئے فارغ نہ ہو تو اسے فاسق کہا جائے) حضرت عمر بن خطاب، ابن عباس، اور ابن ابی اسحاق رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے یضار ر پہلی را کو کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ حضرت مجاہد، ضحاک، طاؤس اور سدی رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے اور حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا گیا ہے کہ آیت ” ولا یضآر کاتب ولا شھید “۔ کا معنی یہ ہے کہ شاہد کو شہادت کی طرف اور کاتب کو کتابت کی طرف بلایا جائے اور وہ دونوں مشغول ہوں (4) (سنن دارقطنی، کتاب البیوع، صفحہ 145، حدیث نمبر 186، جلد 3، مطبوعہ دارالمحاسن قاہرہ) اور جب وہ دونوں اپنے عذر پیش کردیں تو وہ ان دونوں کو نکالے اور انہیں اذیت پہنچائے اور ستائے اور کہے : تم دونوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزری کی ہے اور اسی طرح کی باتیں ان سے کرے اور انہیں ضرر پہنچائے اس قول کی بنا پر یضار کی اصل یضارر ہے اور اسی طرح حضرت ابن مسعود ؓ نے یضارر پہلی را کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ (5) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 385 دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان) سو اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا ہے کیونکہ اگر وہ اسے مطلق قرار دیتا تو پھر اس میں ان دونوں کے لئے اپنے دین اور اپنی معاش کے امر سے شغل اور مصروفیت ہے اور لفظ المضارۃ چونکہ دو سے متعلق ہے یہ ان معانی کا تقاضا کرتا ہے اور کاتب اور شہید پہلے دونوں قولوں کی بنا پر اپنے فعل کے سبب مرفوع ہیں اور تیسرے قول کی بنا پر نائب الفاعل ہونے کی وجہ سے مرفوع ہیں۔ مسئلہ نمبر : (51) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” وان تفعلوا “۔ یعنی اگر تم ستانے کا عمل کرو گے، (آیت) ” فانہ فسوق بکم “۔ تو یہ تمہاری طرف سے نافرمانی ہوگی، یہ سفیان ثوری سے مروی ہے پس کاتب اور شاہد زیادتی یا کمی کے ساتھ نافرمانی کرتے ہیں اور یہ وہ جھوٹ ہے جو اموال وابدان میں اذیت پہنچانے والا ہے اور اس میں حق کو باطل کرنا لازم آتا ہے اور اسی طرح ان دونوں کا ستانا اور اذیت دینا یہ بھی ہے کہ جب وہ دونوں نافرمانی میں مشغول ہوں اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت کرنے کے اعتبار سے راہ صواب سے نکل جائیں اور قولہ بکم میں تقدیر عبارت یہ ہے : فسوق حال بکم۔ مسئلہ نمبر : (52) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” واتقوا اللہ ویعلمکم اللہ واللہ بکل شیء علیم، یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے وعدہ ہے کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ سے ڈرا وہ اسے سکھا دے گا، یعنی اللہ تعالیٰ اس کے دل میں بتداء فرقان رکھ دے گا یعنی ایسی قوت عطا فرما دے گا جس کے ساتھ وہ حق اور باطل کے درمیان فرق کرسکے گا، اور اسی سے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے۔ (آیت) ” یایھالذین امنوا ان تتقوا اللہ یجعل لکم فرقانا “۔ (الانفال : 29) ترجمہ : اے ایمان والو ! اگر تم ڈرتے رہو گے اللہ سے تو وہ پیدا کر دے گا تم میں حق و باطل میں تمیز کی قوت۔ واللہ اعلم۔ آیت نمبر 284، قولہ تعالیٰ : (آیت) ” للہ ما فی السموت وما فی الارض “۔ اس کا معنی پہلے گزر چکا ہے۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” وان تبدوا ما فی انفسکم او تخفوہ یحاسبکم بہ اللہ “۔ اس میں دو مسئلے ہیں۔ مسئلہ نمبر : (1) لوگوں کا اس ارشاد باری تعالیٰ کے معنی میں اختلاف ہے اور اس بارے میں چار اقوال ہیں۔ (1) کہ یہ ارشاد منسوخ ہے، حضرت ابن عباس ؓ حضرت ابن مسعود ؓ ، حضرت عائشہ صدیقہ ؓ، حضرت ابوہریرہ رحمۃ اللہ علہیم حضرت شعبی، حضرت عطا، حضرت محمد بن سیرین، حضرت محمد بن کعب، حضرت موسیٰ بن عبیدہ رحمۃ اللہ علہیم اور صحابہ کرام اور تابعین میں سے ایک جماعت نے یہی کہا ہے، اور یہ کہ یہ تکلیف اور پابندہ ایک سال تک باقی رہی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس قول کے ساتھ کشادگی اور وسعت نازل فرمائی (آیت) ” لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا “۔ (اور یہ حضرت ابن مسعود، ؓ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ حضرت عطا، ؓ حضرت محمد بن سیرین، اور حضرت محمد بن کعب رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین وغیرہم کا قول ہے) اور صحیح مسلم میں حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا جب یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ” وان تبدوا ما فی انفسکم او تخفوہ یحاسبکم بہ اللہ “۔ فرمایا : ان میں سے کوئی شیے ان کے دلوں میں داخل ہو (یا) شے میں سے کوئی ان کے دلوں میں داخل نہ ہو تو حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” تم کہو ہم نے سنا، ہم نے اطاعت کی اور ہم نے تسلیم کرلیا، فرمایا : پس اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں ایمان ڈال دیا، پس اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد نازل فرمایا : (آیت) ” لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا، لھا ما کسبت وعلیھا ما اکتسب، ربنا لا تؤاخذنا ان نسینااو اخطانا “۔ (فرمایا : ’ میں نے کردیا “ ) (آیت) ” ربنا ولا تحمل علینا اصرا کما حملتہ علی الذین من قبلنا “۔ (فرمایا :” میں نے کردیا “ ) ربنا ولا تحملنا ما لا طاقۃ لنا بہ وعف عنا وغفرلنا وارحمنا انت موالنا فانصر نا علی القوم الکفرین “۔ (286) (فرمایا : ” میں نے کردیا) (1) (صحیح مسلم، کتاب الایمان جلد 1 صفحہ 78) اور ایک روایت میں ہے۔ پس جب انہوں نے ایسا کہا تو اللہ تعالیٰ نے اسے منسوخ کردیا پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا “۔ عنقریب اس کا ذکر آئے گا۔ (2) حضرت ابن عباس، حضرت عکرمہ، حضرت شعبی، اور حضرت مجاہد رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے فرمایا : یہ آیت محکم مخصوص ہے اور یہ اس شہادت کے معنی میں ہے جسے چھپانے سے منع کیا گیا ہے، پھر اس آیت میں بتایا کہ شہادت کو چھپانے والا اسے چھپانے والا ہے جو اس کے دل میں ہے اس کا محاسبہ کیا جائے گا۔ (3) یہ آیت اس شک ویقین کے بارے ہے جو نفوس پر طاری ہوتے ہیں، حضرت مجاہد (رح) نے بھی یہی کہا ہے (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 389 دارالکتب العلمیہ بیروت) (4) یہ آیت محکم ہے اور عام ہے منسوخ نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کا ان اعمال پر بھی حساب لے گا جو انہوں نے کئے اور ان پر بھی جو انہوں نے کئے تو نہیں مگر ان کے دلوں میں ثابت اور پختہ ہوگئے اور انہوں نے انہیں مخفی رکھا اور ان کی نیت اور ارادہ کرلیا، پس اللہ تعالیٰ مومنوں کی مغفرت فرما دے گا اور اس کے ساتھ اہل کفرونفاق کر پکڑ لے گا (3) (جامع البیان للطبری، جلد 3، صفحہ 173) ، علامہ طبری نے ایک قوم سے اسے ذکر کیا ہے اور حضرت ابن عباس ؓ سے (اس میں) وہ داخل کیا ہے جو اس سے مشابہ ہے۔ علی بن ابی طلحہ سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : یہ آیت منسوخ نہیں ہوئی لیکن جب اللہ تعالیٰ کو جمع فرمائے گا تو ارشاد فرمائے گا : ” میں تمہیں اس کے بارے بتاتا ہوں جو تم اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے ہو۔ “ پس مومن کو اللہ تعالیٰ اس کے بارے بتائے گا اور پھر ان کی مغفرت فرما دے گا اور رہے شک کرنے والے تو اللہ تعالیٰ اس کے بارے انہیں بتائے گا جس تکذیب وغیرہ کو انہوں نے چھپائے رکھا تھا، پس اسی لئے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : (آیت) ” یحاسبکم بہ اللہ فیغفرلمن یشآء ویعذب من یشآء “۔ اور اسی طرح یہ ارشاد ہے : (آیت) ” ولکن یؤاخذکم بما کسبت قلوبکم “۔ (البقرہ : 225) یعنی شک اور نفاق میں سے جو تمہارے دلوں نے کمایا اس پر تمہارا مواخذہ کیا جائے گا (4) (ایضا، جلد 3، صفحہ 174) اور حضرت ضحاک نے کہا : اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن اس کے بارے آگاہ فرمائے گا جسے وہ چھپاتا تھا تاکہ وہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ پر کوئی شے مخفی نہیں، اور حدیث میں ہے : ” اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا یہ وہ دن ہے جس میں مخفی رازوں کو ظاہر کردیا جائے گا اور چھپی ہوئی باتیں باہر نکل آئیں گی، میرے لکھنے والے فرشتوں نے نہیں لکھے مگر تمہارے وہی اعمال جو ظاہر ہوئے اور میں ان پر بھی مطلع ہوں جن پر وہ مطلع نہیں ہوئے، نہ انہوں نے انکی خبر دی اور نہ ہی انہیں لکھا، پس میں انکے بارے تمہیں خبردوں گا اور ان پر تمہارا محاسبہ بھی کروں گا اور پھر جسے میں چاہوں گا اسے بخش دوں گا اور جسے چاہوں گا اسے عذاب دوں گا (1) (جامع البیان للطبری، جلد 3، صفحہ 174) پس وہ مومنوں کو بخش دے گا اور کافروں کو عذاب دے گا “ اس باب میں یہ اصح روایت ہے۔ اور اسی پر حدیث نجوی بھی دلالت کرتی ہے جس کا بیان آگے آرہا ہے۔ (نہیں کیا جائے گا) تحقیق حضور نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے ” بیشک اللہ تعالیٰ نے میری امت کی ان چیزوں کو معاف فرما دیا ہے جو ان کے دلوں میں پیدا ہوں گی جب تک کہ وہ ان کے ساتھ کلام نہ کریں یا انکے مطابق عمل نہ کریں (2) (صحیح مسلم، کتاب الایمان، جلد 1، صفحہ 78) چناچہ ہم کہتے ہیں : یہ ارشاد احکام دنیا پر محمول ہے، مثلا طلاق، عتاق اور وہ بیع جس کا حکم ثابت نہیں ہوتا جب تک اس کے ساتھ کلام نہ ہو اور جو آیت میں ذکر کیا گیا ہے کہ بندے کا اس پر مواخذہ ہوگا وہ بندے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان آخرت میں ہوگا۔ حسن نے کہا ہے : یہ آیت محکم ہے منسوخ نہیں ہے (3) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 389 دارالکتب العلمیہ) ۔ علامہ طبری (رح) نے کہا اور دوسروں نے اس معنی کی طرح بیان کیا ہے جو حضرت ابن عباس ؓ سے مذکور ہے، مگر انہوں نے یہ کہا ہے : بیشک وہ عذاب جو اس کی جزا ہوتا ہے جو دلوں میں کھٹکے اور اس کے بارے فقط غور وفکر ہو وہ دنیوی مصائب وآلام اور دنیا کی تمام تکالیف کے ساتھ ہے پھر اسی معنی کی طرح حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے بیان کیا گیا ہے، اور یہی (پانچواں قول ہے) اور علامہ طبری نے اس کو ترجیح دی ہے کہ آیت محکم ہے منسوخ نہیں ہے۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : یہی درست ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد : (آیت) ” وان تبدوا مافی انفسکم او تخفوہ “۔ اس کا معنی ہے ان چیزوں میں سے جو تمہاری وسعت اور تمہارے کسب کے تحت ہیں۔ اور یہ ان چیزوں کے ساتھ ہیں جن کا اعتقاد رکھا جاتا ہے اور جن کے بارے فکر کی جاتی ہے، پس جب لفظ ایسے ہیں جن میں دلوں میں کھٹکنے والی چیزیں داخل ہوسکتے ہیں تو صحابہ کرام اور حضور نبی مکرم ﷺ خوفزدہ ہوگئے، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے دوسری آیت کے ساتھ اس کی وضاحت فرمائی جس کا اس نے ارادہ کیا اور اسے خاص کردیا اور اس کے حکم پر نص بیان فرما دی کہ وہ کسی نفس کو مکلف نہیں بنائے گا مگر (اس کا) جو اس کی وسعت میں ہوگا اور دلوں میں پیدا ہونے والے خیالات ایسے نہیں ہیں اور نہ ہی ان کا دفاع وسعت میں ہے، بلکہ وہ امر غالب ہے اور وہ ان امور میں سے نہیں ہے جو کمائے جاتے ہیں، پس اس بیان اور وضاحت سے مقصود ان کے لئے کشادگی پیدا کرنا اور ان کی پریشانی کا ازالہ کرنا ہے۔ اور باقی آیت محکم ہے اس میں کوئی نسخ نہیں ہے اور جس سے نسخ کا حکم دور کیا جاسکتا ہے اس میں سے یہ بھی ہے کہ یہ آیت خبر کے انداز میں ہے اور اخبار میں نسخ داخل نہیں ہو سکتا اور اگر کوئی نسخ کا قول کرے تو وہ اس حکم پر مترتب ہوتا ہے جو صحابہ کرام کو اس وقت لاحق ہوا جب وہ اس آیت سے گھبرائے اور اس کی دلیل ان کے لئے حضور نبی مکرم ﷺ کا یہ ارشاد ہے : قولوا سمعنا واطعنا “ اس سے یہ حکم ثابت ہو رہا ہے کہ وہ اس ارشاد پر ثابت قدم ہوجائیں اور اسے لازم پکڑ لیں اور بخشش وغفران کے بارے اللہ تعالیٰ کے لطف وکرم کا انتظار کریں، پس جب یہ حکم پختہ کردیا گیا تو پھر اس میں نسخ کا واقعہ ہونا صحیح ہے، اور اس وقت آیت اس قول باری تعالیٰ کے مشابہ ہوگی : (آیت) ’ ان یکن منکم عشرون صبرون یغلبوا مائتین “۔ (الانفال : 65) پس یہ الفاظ بھی الفاظ خبر ہی ہیں لیکن اس کا معنی ہے : التزموا ھذا واثبتوا علیہ واصبروا بحسبہ “۔ تم اسے لازم پکڑ لو اور اس پر ثابت قدم ہوجاؤ اور اس کے مطابق صبر کرو، پھر اس کے بعد اسے منسوخ کردیا گیا۔ اور اس بارے میں جو میں جانتا ہوں اس پر لوگوں کا اجماع ہے کہ یہ آیت جہاد کے بارے میں ہے اور یہ منسوخ ہے دو سو کے مقابلے میں ایک سو کے صبر کرنے (والے حکم) کے ساتھ۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : سورة البقرہ میں یہ آیت اس کے ساتھ زیادہ مشابہت رکھتی ہے۔ (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 389 دارالکتب العلمیہ) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ کلام میں اضمار اور تقیید ہے، تقدیر کلام یہ ہے یحاسبکم بہ اللہ انشاء اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ تمہارا حساب لے گا اگر اس نے چاہا، اور اس بنا پر کوئی نسخ نہیں ہے۔ اور نحاس نے کہا ہے : اس آیت میں جو احسن قول کیا گیا ہے اور وہ ظاہر سے زیادہ مشابہت رکھتا ہے وہ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ یہ آیت عام ہے، پھر نجوی کے بارے میں حضرت ابن عمر ؓ کی حدیث (اس میں) داخل کردی گئی ہے جسے بخاری، مسلم وغیرہما نے روایت کیا ہے اور الفاظ مسلم کے ہیں، انہوں نے بیان فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ” مومن کو قیامت کے دن اپنے رب سے قریب کیا جائے گا یہاں تک کہ رب کریم اپنا دست قدرت اس پر رکھ دے گا اور وہ اسے اس کے گناہوں کے بارے اقرار کرائے گا اور فرمائے گا کیا تو (اپنے ان گناہوں کو) پہچانتا ہے ؟ تو وہ مومن عرض کرے گا اے میرے رب ! میں پہچانتا ہوں۔ رب کریم فرمائے گا : کیونکہ میں نے دنیا میں تجھ پر پردہ ڈالے رکھا ہے اور بلاشبہ آج کے دن بھی میں تیرے لئے انہیں بخش دوں گا اور پھر نیکیوں کا نامہ عمل اسے عطا فرمادے گا اور رہے کفار اور منافقین، تو انہیں ساری مخلوق کے سامنے بلایا جائے گا یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کو جھٹلایا (2) (صحیح مسلم، کتاب التوبۃ، جلد 2، صفحہ 360، صحیح بخاری، باب ستر المومن علی نفسہ، حدیث نمبر 5609، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ آیت مومنین میں سے ان کے بارے نازل ہوئی ہے جو کافروں کو ولی مقرر کرتے تھے، یعنی اے مومنین ! کفار کی ولایت کے بارے میں جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے تم اس کا اعلان کرو یا تم اسے چھپاؤ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ تمہارا حساب لے گا، واقدی اور مقاتل نے یہ کہا ہے۔ اور انہوں نے اس ارشاد سے جو کہ آل عمران میں ہے استدلال کیا ہے۔ (آیت) ” قل ان تخفوا مافی صدورکم او تبدوہ یعلمہ اللہ “ یعنی کفار کی ولایت میں سے جو تمہارے سینوں میں ہے اگر تم اسے چھپاؤ یا تم اسے ظاہر کرو اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے اور اس اس کا ماقبل قول دلالت کرتا ہے۔ (آیت) ” لا یتخذ المؤمنون الکفرین اولیآء من دون المؤمنین “۔ (آل عمران : 28) ترجمہ : نہ بنائیں مومن کافروں کو اپنا دوست مومنوں کو چھوڑ کر۔ میں (مفسر) کہتا ہوں اس میں (حقیقت سے) بعد اور دوری ہے، کیونکہ آیت کا سیاق اس کا تقاضا نہیں کرتا اور جو سورة آل عمران میں ہے وہ بین اور واضح ہے۔ واللہ اعلم۔ اور حضرت سفیان بن عیینہ (رح) نے کہا ہے : مجھ تک یہ خبر پہنچی ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) اس آیت کے ساتھ اپنی قوم کے پاس تشریف لاتے تھے۔ (آیت) ” للہ ما فی السموت وما فی الارض ‘ وان تبدوا ما فی انفسکم او تخفوہ یحاسبکم بہ اللہ “۔ مسئلہ نمبر : (2) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فیغفر لمن یشآء ویعذب من یشآء “۔ ابن کثیر، نافع، ابو عمرو، حمزہ اور کسائی، نے فیغفر اور ویعذب کو جزم کے ساتھ پڑھا ہے اس کا عطف جواب شرط پر کیا گیا ہے اور ابن عامر اور عاصم نے دونوں میں رفع کے ساتھ قطعی طور پر پڑھا ہے۔ یعنی فھو یغفر ویعذب “۔ اور حضرت ابن عباس ؓ اعرج، ابو العالیہ اور عاصم جحدری سے دونوں میں نصب کے ساتھ مروی ہے اس بنا پر کہ ان سے پہلے ان مضمر ہے اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ اس کا عطف معنی پر ہے جیسا کہ اس ارشاد میں ہے : فیضاعفہ لہ (1) اور یہ پہلے گزر چکا ہے اور باہم مشاکلہ کی وجہ سے لفظ پر عطف عمدہ ہے، جیسا کہ شاعر نے کہا ہے : ومتی مایع منک کلاما یتکلم فیجبک بعقل۔ نحاس نے کہا ہے اور طلحہ بن مصرف سے روایت ہے یحاسبکم بہ اللہ یغفر یعنی بغیر فاک کے بدل کی بنا پر، ابن عطیہ نے کہا ہے : جعفی اور خلاد نے اسی طرح پڑھا ہے اور یہ بھی روایت ہے کہ یہ حضرت ابن مسعود ؓ کے مصحف میں اسی طرح ہے، ابن جنی نے کہا ہے یہ یحاسبکم سے بدل ہونے کی بنا پر ہے اور یہی محاسبہ کی تفسیر ہے، اور یہ شاعر کے اس قول کی طرح ہے۔ رویدا بنی شیبان بعض وعیدکم تلاقوا غدا خیلی علی سفوان تلاقوا جیادا لا تحید عن الوغی اذا ما غدت فی المازق المسدانی : اور یہ بدل کی بنا پر ہے۔ شاعر نے فعل کو مکرر ذکر کیا ہے کیونکہ فائدہ اس قول میں ہے جو اس کے پیچھے آرہا ہے۔ (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 390 دارالکتب العلمیہ) نحاس نے کہا ہے : اگر بغیر فا کے ہو تو جزم کی نسبت رفع زیادہ عمدہ ہے۔ وہ حال کے محل میں ہوجائے گا جیسا کہ شاعر نے کہا ہے : متی تاتہ تعشو الی ضؤ نارہ تجد خیر نار عندھا خیر موقد :۔
Top