Al-Qurtubi - Al-Anbiyaa : 2
مَا یَاْتِیْهِمْ مِّنْ ذِكْرٍ مِّنْ رَّبِّهِمْ مُّحْدَثٍ اِلَّا اسْتَمَعُوْهُ وَ هُمْ یَلْعَبُوْنَۙ
مَا يَاْتِيْهِمْ : ان کے پاس نہیں آتی مِّنْ ذِكْرٍ : کوئی نصیحت مِّنْ رَّبِّهِمْ : ان کے رب سے مُّحْدَثٍ : نئی اِلَّا : مگر اسْتَمَعُوْهُ : وہ اسے سنتے ہیں وَهُمْ : اور وہ يَلْعَبُوْنَ : کھیلتے ہیں (کھیلتے ہوئے)
ان کے پاس کوئی نصیحت ان کے پروردگار کی طرف سے نہیں آتی مگر وہ اسے کھیلتے ہوئے سنتے ہیں
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ما یاتیھم من ذکر من ربھم محدث، محدث ذکر کی صفت ہے۔ کسائی اور فراء نے محدثاً بھی جائز قرار دیا ہے، بمعنی ما یا تیھم محدثاً نصب کی حال کی بنا پر ہے کیونکہ اگر تو من کو حذف کرے گا تو ذکر کو رفع دے گا یعنی ما یاتیھم من ذکر من ربھم محدث مراد نزول ہے اور جبرائیل کا حضرت محمد ﷺ پر تلاوت کرنا ہے، کیونکہ قرآن کی سورت کے بعد سورت اور آیت کے بعد آیت نازل ہوتی تھی جیسا کہ اللہ تعالیٰ ایک وقت کے بعد دوسرے وقت میں اسے نازل کرتا تھا نہ کہ قرآن مخلوق ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : الذکر سے مراد وہ ہے جس کے نبی پاک ﷺ انہیں نصیحت کرتے اور وعظ کرتے تھے۔ اور فرمایا : من ربھم کیونکہ نبی کریم ﷺ صرف وحی کے ساتھ بولتے تھے، پس نبی پاک ﷺ نے وعظ فرمایا اور آپ کا ڈرانا ذکر تھا اور وہ محدث تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فذکر، انمآ انت مذکر۔ (الغاشیہ) کہا جاتا ہے : فلان فی مجلس الذکر۔ یعنی وعظ کی مجلس میں ہے۔ بعض نے کہا : ذکر سے مراد نبی پاک ﷺ کی ذات گرامی ہے یہ حسین بن فضل کا قول ہے اور دلیل کلام کا سیاق ہے۔ ھل ھذآ الا بشر مثلکم اگر ذکر سے مراد قرآن ہوتا تو اللہ تعالیٰ فرماتا : ھذآ الا اساطیر الاولین۔ (الانعام) اس کی تاویل کی دلیل یہ بھی ہے : یقولون انہ لمجنون۔ وما ھو اگ ذکر للعلمین۔ (القلم) ان دونوں آیتوں میں سے مراد محمد ﷺ کی ذات ہے۔ فرمایا : قد انزل اللہ الیکم ذکراً ۔ رسوالاً (الطلاق) الا استمعوہ یعنی محمد ﷺ کو سنتے ہیں یا محمد ﷺ سے قرآن کی سنتے ہیں یا آپ کی امت سے قرآن سنتے ہیں۔ وھم یلعبون واو حالیہ ہے اس پر دلیل لا ھیۃً قلوبھم ہے یلعبون کا معنی یلھون ہے بعض نے فرمایا : یشتغلون ہے اگر تاویل کو لہو پر محمول کیا جائے تو جس کے ساتھ وہ لہو کرتے تھے اس کے دو احتمال ہیں۔ (1) اپنی لذات کے ساتھ۔ (2) جوان پر تلاوت کیا جاتا تھا اس کے سماع کے ساتھ۔ اگر اس کی تاویل کو الشغل پر محمول کیا جائے تو جس کے ساتھ وہ مشغول ہوتے تھے اس کے دو احتمال ہیں۔ (1) دنیا کے ساتھ مشغول ہوتے تھے کیونکہ وہ لہو و لہب ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : انما الحیوۃ الدنیا لعب و لھو (محمد :36) دنیوی زندگی لعب و لہو ہے۔ (2) وہ اس پر اعتراض کرنے کے ساتھ مشغول ہوتے تھے۔ حسن نے کہا : جب ان کے لیے نیا ذکر آتا تو وہ اس میں غور و فکر نہ کرتے۔ بعض علماء نے فرمایا : وہ قرآن کو استہزاء کرتے ہوئے سنتے تھے۔
Top