Al-Qurtubi - Al-Anbiyaa : 39
لَوْ یَعْلَمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا حِیْنَ لَا یَكُفُّوْنَ عَنْ وُّجُوْهِهِمُ النَّارَ وَ لَا عَنْ ظُهُوْرِهِمْ وَ لَا هُمْ یُنْصَرُوْنَ
لَوْ يَعْلَمُ : کاش وہ جان لیتے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جنہوں نے کفر کیا (کافر) حِيْنَ : وہ گھڑی لَا يَكُفُّوْنَ : وہ نہ روک سکیں گے عَنْ : سے وُّجُوْهِهِمُ : اپنے چہرے النَّارَ : آگ وَلَا : اور نہ عَنْ : سے ظُهُوْرِهِمْ : انکی پیٹھ (جمع) وَ : اور لَا هُمْ : نہ وہ يُنْصَرُوْنَ : مدد کیے جائیں گے
اے کاش کافر اس وقت کو جانیں جب وہ اپنے من ہوں پر سے (دوزخ کی) آگ کو روک نہ سکیں گے اور نہ اپنی پیٹھ پر سے اور نہ ان کا کوئی مددگار ہوگا
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لو یعلم الذین کفروا یہاں علم بمعنی معرفت ہے جو مفعول ثانی کا تقاضا نہیں کرتا جیسے : لا تعلمونھم، اللہ یعلمھم (الانفال :60) اور لو کا جواب محذوف ہے، یعنی اگر وہ اس وقت کو جان لیتے جس میں وہ اپنے چہروں سے اور اپنی پیٹھوں سے آگ کے شعلوں کو نہ روک سکیں گے اور نہ ان کی مدد کی جائے گی اگر وہ اسکو جان لیتے تو وعید کے لیے جلدی نہ کرتے۔ زجاج نے کہا : اگر وہ جان لیتے تو وعدہ کی سچائی کو جان لیتے۔ بعض نے فرمایا : اگر وہ اسے جان لیتے تو وہ کفر پر قائم نہ رہتے اور ایمان لے آتے۔ کسائی نے کہا : یہ قیامت کے وقوع کے تحقیق پر تنبیہ ہے، یعنی اگر وہ علم یقین سے جان لیتے تو جان لیتے کہ قیامت آنے والی ہے اور اس پر دلیل بل تاتیھم بغتۃ ہے یعنی قیامت ان کے پاس آئے گی۔ بغتۃ سے مراد قیامت ہے۔ بعض نے کہا : عقوبت ہے۔ بعض نے فرمایا : وہ آگ ہے جس سے بچائو کے کسی حیلہ پر قادر نہ ہوں گے۔ فتمھتھم جوہر نے کہا : بھتہ بھتا اس کا معنی اچانک پکڑ لینا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : بل تاتیھم بغتتۃ فتمھتھم۔ فراء نے کہا : اس کا معنی ہے وہ انہیں حیران و ششدر کر دے گی۔ کہا جاتا ہے : بھتہ یبھتہ جب کوئی کسی چیز کے سامنے آئے اور وہ اسے حیران کر دے۔ بعض علماء نے فرمایا : وہ ان کے پاس اچانک آئے گی۔ فلا یستطیعون ردھا وہ اپنی پیٹھوں سے اسے دور نہیں کرسکیں گے۔ ولا ھم ینظرون۔ انہیں توبہ کرنے اور عذر کرنے کی مہلت نہیں دی جائے گی۔
Top