Al-Qurtubi - An-Naml : 18
حَتّٰۤى اِذَاۤ اَتَوْا عَلٰى وَادِ النَّمْلِ١ۙ قَالَتْ نَمْلَةٌ یّٰۤاَیُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسٰكِنَكُمْ١ۚ لَا یَحْطِمَنَّكُمْ سُلَیْمٰنُ وَ جُنُوْدُهٗ١ۙ وَ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ
حَتّىٰٓ : یہانتک کہ اِذَآ : جب اَتَوْا : وہ آئے عَلٰي : پر وَادِ النَّمْلِ : چیونٹیوں کا میدان قَالَتْ : کہا نَمْلَةٌ : ایک چیونٹی يّٰٓاَيُّهَا النَّمْلُ : اے چینٹیو ادْخُلُوْا : تم داخل ہو مَسٰكِنَكُمْ : اپنے گھروں (بلوں) میں لَا يَحْطِمَنَّكُمْ : نہ روند ڈالے تمہیں سُلَيْمٰنُ : سلیمان وَجُنُوْدُهٗ : اور اس کا لشکر وَهُمْ : اور وہ لَا يَشْعُرُوْنَ : نہ جانتے ہوں (انہیں شعور نہ ہو
یہاں تک کہ جب چیونٹیوں کے میدان میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا کہ اے چیونٹیو ! اپنے اپنے بلوں میں داخل ہوجاؤ ایسا نہ ہو کہ سلیمان اور اسکے لشکر تم کو کچل ڈالیں اور ان کو خبر بھی نہ ہو
(حتیٰ اذا اتوا علی واد النمل۔۔۔۔۔۔ ) اس میں چھ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1 :۔ حتی اذا اتوا علی واد انمل قتادہ نے کہا : ہمارے لیے یہ بات ذکر کی گئی کہ یہ شام میں ایک وادی ہے۔ کعب نے کہا : یہ طائف میں ایک وادی ہے۔ قالت نملۃ یایھا النمل شعبی نے کہا : چیونٹی کے دو پر تھے وہ پرندوں میں سے تھی اس وجہ سے حضرت سلیمان (علیہ السلام) اس کی بولی سمجھ گئے۔ اگر وہ پرندہ نہ ہوتی تو آپ اس کی بولی کو نہ سمجھتے۔ یہ بحث گزر چکی ہے اور بعد میں بھی آئے گی۔ سلیمان تیمی نے مکہ میں نملۃ اور النمل نون کے فتحہ اور میم کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ ان سے دونوں کو ضمہ کے ساتھ پڑھنے کی قرأ ت بھی منقول ہے۔ نملہ کو نملہ اس لیے کہتے ہیں کیونکہ وہ اکثرحرکت کرتی رہتی ہے اور کم ہی ایک جگہ ٹھہرتی ہے۔ کعب نے کہا : حضرت سلیمان (علیہ السلام) طائف کی وادیوں میں سے وادی سدیر سے گزرے تو آپ وادی نمل پر آئے۔ ایک چیونٹی چل رہی تھی وہ لنگڑاتے ہوئے چل رہی تھی اس کی جسامت اتنی تھی جتنی جسامت بھیڑیے کی ہوتی ہے اس نے ندا کی : یایھا النمل۔ زمحشری نے کہا : حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس کی آواز تین میلوں سے سن لی۔ وہ لنگڑا کر چل رہی تھی جب کہ وہ لنگڑ تھی۔ اس کا نام طافیہ تھا۔ سہیلی نے کہا : علماء نے اس چیونٹی کا نام مکلمہ رکھا ہے جس نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے کلام کی۔ انہوں نے کہا : اس کا نام ” حرمیا “ تھا۔ میں نہیں جانتا کہ نملہ کے لیے کیسے اسم علم تصور کیا جاسکتا ہیجب کہ چیونٹیاں ایک دوسرے کو نام نہیں دیتیں اور نہ ہی انسانوں کے لیے یہ ممکن ہے کہ ان کو کوئی مخصوص نام دیں، کیونکہ انسانوں کے لیے وہ ایک دوسرے سے ممتاز نہیں ہوتیں اور نہ ہی آدم کی ملک کے تحت واقع ہیں، جس طرح گھوڑے اور کتے وغیرہ جو چیز اس طرح تھی اس کی علمیت عربوں کے ہاں موجود تھی۔ اگر تو کہے : علمیت اجناس میں موجود تھی جس طرح ثعالہ، اسامہ، جعار، قشام، بجو کے یہ اسماء ہیں۔ اس کی امثلہ بیشمار ہیں۔ چیونٹی کا نام اس قبیل سے نہیں کیونکہ انہوں نے گمان کیا کہ یہ نام چیونٹیوں میں سے ایک چیونٹی کا تھا ثعالہ وغیرہ جنس میں سے ایک کے ساتھ خاص نہیں بلکہ اس جنس سے جس کو بھی تو دیکھے تو وہ ثعالہ ہے اسی طرح اسامہ، ابن آوی، ابن عرس اور اس جیسے اسماء۔ جو کچھ انہوں نے کہا اگر وہ صحیح ہے تو اس کی کوئی وجہ ہوگی۔ وہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس بولنے والی چیونٹی کو تورات یا زبور میں یا کسی اور صحیفہ میں نام دیا گیا اللہ تعالیٰ نے اس کا یہ نام ذکر کیا اور انبیاء حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے پہلے کا نام جانتے تھے یا بعض انبیاء نام جانتے تھے۔ اس کے بولنے اور اس کے ایمان کی وجہ سے نام میں اس خاص کیا گیا تو یہ وجہ ہو سکتی ہے۔ ہمارے قول کہ اس کے ایمان کی وجہ سے مراد یہ ہے کہ اس نے دوسری چیونٹی سے کہا : لا یحطمعکم سلیمن و جنودہ وھم لا یشعرون اس کا قول۔ وھم لا یشعرون مومن کا ہی قول ہو سکتا ہے یعنی حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا عدل، ان کا فض اور ان کے لشکروں کی فضلیت کی طرف اشارہ ہے کہ وہ چیونٹی اور اس سے چھوٹی چیز کو بھی ہلاک نہیں کرتے مگر اس صورت میں انہیں احساس ہی نہ ہو۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا تبسم اس کے حکم پر اظہار مسرت ہے۔ اسی وجہ سے تبسم کو ضاحکا کے قول سے موکد کیا، کیونکہ بعض اوقات تبسم ضحک اور رضا کے بغیر ہوتا ہے کیا تم نہیں دیکھتے وہ کہتے ہیں : تبسم تبسم الغضبان، تبسم تبسم المستھزئین۔ ضحاک کا تبسم یہ خوشی سے ہی ہوتا ہے۔ نبی دنیا کے امر سے خوش نہیں ہوتا وہ تو امر آخرت اور امر معین سے خوش ہوتا ہے۔ اس کا قول : وھم لا یشعرون یہ دین، عدل، رافت کی طرف اشارہ ہے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لشکروں کے بارے میں چیونٹی کا قول ہے : وھم لا یشعرون کی مثل حضور ﷺ کے لشکروں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :” فتصیبکم منھم معرہ بغیر علم “ ( الفتح : 25) اس امر کی طرف متوجہ کرنے کے لیے ہے وہ مومن کے خون کو رائیگاں کرنے کا قصد نہیں کرتے۔ مگر فرق یہ ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لشکر کی ثناء کرنے والی چیونٹی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے اذن سے ہے اور حضور ﷺ کے لشکر کی تعریف اللہ تعالیٰ نے خود فرمائی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضور ﷺ کے لشکروں کو دوسرے انبیاء کے لشکروں پر فضلیت ہے، جس طرح حضور ﷺ کو دوسرے انبیاء پر فضلیت حاصل ہے۔ شہربن حوشب نے مسکنکم سین کے سکون کے ساتھ واحد کا صیغہ پڑھا ہے (1) حضرت ابی کے مصحف میں مساکنکن لا یحطمنکم ہے سلیمان تیمی نے مساکنکم لا یحطمنکن قرأت کی ہے۔ نحاس نے اس کا ذکر کیا ہے تمہیں روند کر تم کو توڑ پھوڑ ہی نہ دیں جب کہ وہ تمہارے بارے میں جانتے بھی نہ ہوں۔ مہدوی نے کہا : اللہ تعالیٰ نے اس چیونٹی کو یہ فہم عطاء کیا تاکہ یہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے معجزہ ہوجائے۔ وہب نے کہا : اللہ تعالیٰ نے ہوا کو حکم دیا کہ کوئی کسی چیز کا تکلم نہ کرے مگر وہ اسے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے کان میں ڈالے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ شیاطین نے آپ کے ساتھ مکر و دھوکہ کا ارادہ کیا تھا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ وادی یمن کے علاقہ میں تھی۔ وہ عام چیونٹیوں کی طرح چھوٹی چیونٹی تھی، یہ کلبی کا قول ہے۔ نوف شامی اور شفیق بن سلمہ نے کہا : اس وادی کی چیونٹیاں جسامت میں بھیڑیوں کی طرح تھیں۔ بریدہ اسلمی نے کہا : وہ بھیڑ جتنی تھیں۔ محمد بن ترمذی نے کہا : اگر وہ اس شکل و صورت پر تھی تو اس کی آواز بھی ہوگی۔ چیونٹی کی آواز اس کے چھوٹے جسم کی وجہ سے مفقود ہوتی ہے ورنہ پرندوں اور چوپائوں میں آوازیں تو ہوتی ہیں۔ یہی ان کی گفتگو ہوتی ہے۔ ان کی گفتگو میں تسبیح وغیرہ کے معانی ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان :” وَاِنْ مِّنْ شَیْئٍ اِلاَّ یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ وَلٰـکِنْ لاَّ تَفْقَہُوْنَ تَسْبِیْحَہُمْ ط “ (الاسرا : 44) یہی مقصود ہے۔ لا یحطمنکم یہ کلبی کے قول کی صحت پر دال ہے اگر وہ بھیڑیوں اور بھیڑوں کی جسامت کی ہوتیں تو وہ روندی نہ جا سکتیں۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ ادخلوا مسکنکم انسانوں سے خطاب کے طریقہ پر کلام آئی ہے کیونکہ جب چیونٹی نے کلام کیا تو اسے انسانوں نے قائم مقام رکھا جس طرح انسان گفتگو کرتے ہیں۔ ابو اسحاق ثعلبی نے کہا : میں نے بعض کتابوں کو دیکھا حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس چیونٹی سے کہا : تو نے چیونٹیوں کو کیوں ڈرایا کیا تو میرے ظلم سے خوف زدہ ہوگئی ؟ کیا تو نہیں جانتی کہ میں عادل نبی ہوں ؟ تو نے یہ کیوں کہا : یحطمعکم سلیمن و جنودہ چیونٹی نے عرض کی : کیا آپ نے میرے اس قول کو نہیں سنا : وھم لا یشعرون جب کہ میں نے نفوس کو تباہ وبرباد کرنے کا ارادہ نہ کیا۔ میں نے تو دلوں کے برباد کرنے کا ارادہ کیا اس ڈر سے کہ وہ بھی اس کی تمنا نہ کریں جس طرح کی حکومت آپ کو دی گئی یا دنیا کی وجہ سے وہ فتنہ میں مبتلا ہوجائیں یا آپ کی حکومت کو دیکھ کر تسبیح اور ذکر سے غافل ہی نہ ہوجائیں۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اسے کہا : تو مجھے نصیحت کر۔ چیونٹی نے کہا : کیا تجھے علم ہے تیرے والد کا نام دائود کیوں رکھا گیا ؟ فرمایا : نہیں۔ اس نے عرض کی : کیونکہ انہوں نے اپنے دل کے زخم کی دوا کی۔ کیا تجھے علم ہے تیرے والد کا نام دائود کیوں رکھا گیا ؟ فرمایا : نہیں۔ اس نے عرض کی : کیونکہ انہوں نے اپنے دل کے زخم کی دوا کی۔ کیا تجھے علم ہے تیرا نام سلیمان رکھا گیا ؟ فرمایا : نہیں۔ اس نے عرض کی : آپ کو جو کچھ عطاء کیا گیا ہے اس پر آپ سینہ کی سلامت کے ساتھ سلیم پہلو والے ہیں اور تیرے لیے مناسب ہے کہ تو اپنے والد کے ساتھ جا ملے۔ پھر اس نے عرض کی : آپ کو علم ہے اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے ہوا کو کیوں مسخر کیا ؟ فرمایا : نہیں۔ اس نے عرض کی : اللہ تعالیٰ نے تجھے خبر دی کہ تمام دنیا ہوا ہے۔ 1 ؎۔ المحرر الوجیز، جلد 4، صفحہ 254 فتبسم صاحگا من قولھا متعجب ہوتے ہوئے مسکرائے پھر وہ اپنی قوم کی طرف جلدی چلی گئی۔ اس چیونٹی نے کہا : کیا تمہارے پاس کوئی ایسی چیز ہے جو ہم اللہ تعالیٰ کے نبی کو ہدیہ دیں۔ انہوں نے کہا : ہم اس کو جو ہدیہ دیں اس کی کیا حیثیت ہے ؟ اللہ کی قسم ! ہمارے پاس تو صرف ایک بیر ہے۔ اس چیونٹی نے کہا : بہت اچھا ہے وہ میرے پاس لے آئو وہ بیر اس چیونٹی کے پاس لے آئے اس نے بیر کو اپنے منہ میں اٹھایا وہ اسے کھنچتے ہوئے چلی اللہ تعالیٰ نے ہوا کو حکم دیا کہ وہ اسے اٹھا لے وہ انسانوں، جنوں، علماء، انبیاء کو چیرتے ہوئے قالین پر آگے بڑھی یہاں تک کہ وہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے سامنے آ گری پھر اس بیر کو اپنے منہ سے آپ کی ہتھیلی پر رکھ دیا اور کہنے لگی : الم ترنا نھدی الی اللہ مالہ وان کان عنہ ذاغنی فھو قابلہٗ ولو کان یھدی للجلیل بقدرہ لقصر عنہ البحر یوما و ساحلہٗ ولکننا نھدی الی ما نجنہ فیرضی بہ عنا ویشکر فاعلہٗ وما ذالک الا من کریم فعالہٗ والا فما فی ملکنا ما یشاکلہٗ کیا تو ہمیں نہیں دیکھتا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس کا مال ہدیہ کے طور پر دیتے ہیں اگرچہ وہ اس سے غنی ہے تو وہ اس کو قبول کرنے والا ہے۔ اگر جلیل القدر ہستی کو کوئی چیز اس کی قدر کے مطابق ہدیہ کی جاتی تو سمندر اور اس کا ساحل اس سے قاصر ہوتے لیکن ہم وہ چیز ہدیہ کے طور پیش کرتے ہیں جسے ہم پسند کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہم سے راضی ہوجاتا ہے اور اس کا فاعل شکر گزارہوتا ہے یہ نہیں ہے مگر جس کے افعال کرامت والے ہیں اور ہمارے ملک میں تو اس کی شایان شان کوئی چیز نہیں۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اسے فرمایا : اللہ تعالیٰ تم میں برکت ڈالے۔ وہ اس دعوت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے زیادہ شکر کرنے والے اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سب سے زیادہ ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : نبی کریم ﷺ نے چار جانداروں کو قتل کرنے سے منع کیا، ہد ہد، صرو، نملہ ( چیونٹی) شہد کی مکھی۔ ابو دائود نے اسے نقل کیا ہے اور ابو محمد عبد الحق نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے۔ سورة الاعراف میں یہ بحث گزر چکی ہے۔ چیونٹی نے حضرت سلیمان کی تعریف کی اور جو مقدر کیا جاسکتا تھا اس کی خوبصورت ترین انداز میں خبر دی کہ اگر وہ تمہیں روندیں گے تو انہیں شعور نہیں ہوگا۔ وہ ارادہ سے ایسا نہیں کریں گے۔ ظلم کی ان سے نفی کی، اس وجہ سے اس کے قتل اور ہد ہد کے قتل کی نہی کی کیونکہ اسی نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو پانی پر رہنمائی اور بلقیس تک آپ کا پیغام پہنچایا۔ عکرمہ نے کہا : اللہ تعالیٰ نے ہد ہد سے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے شر کو دور کیا کیونکہ وہ اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرنے والا تھا۔ صرو کو صوام بھی کہتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ سب سے پہلے صرو نے روزہ رکھا جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) شام سے حرم کی طرف نکلے مقصد بیت اللہ کی تعمیر تھی تو سکینہ ( بادل) اور صرد آپ کے ساتھ تھا۔ صرد جگہ پر رہنمائی کرتا اور بادل اتنی مقدار پر رہنمائی کرتا۔ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بقعہ مبارکہ میں پہنچے تو بادل بیت اللہ شریف کی جگہ آ کر رک گیا اور ندا کی : اے ابراہیم ! میرے سایہ کے برابر تعمیر کرو۔ سورة الاعراف میں مینڈک کو قتل کرنے سے نہی کا سبب اور سورة نحل میں شہد کی مکھی کو قتل کرنے سے نہی کا سبب گزر چکا ہے۔ الحمد للہ۔ مسئلہ نمبر 2 :۔ حضرت حسن بصری نے لا یحطنکم اور لا یحطنکم پڑھا ہے۔ حضرت حسن بصری سے اور ابو رجاء سے یہ بھی مروی ہے۔ لا یحطمنکم حطم کا معنی توڑ دینا ہے۔ حطمتہ حطا و تحطم۔ میں نے اسے توڑ دیا اور وہ ٹوٹ گیا۔ تحصیم کا معنی کثرت سے یا شدت سے توڑنا ہے وھم لا یشعرون۔ ( النمل) یہ جائز ہے کہ یہ سلیمن و جنودہ ٗ سے حال ہو، حال میں عامل یحطمنکم ہے یا یہ السنلۃ سے حال ہے اور عامل قالت ہے۔ اس نے کہا : یہ لشکروں کی غفلت کی حالت میں ہوگا، جس طرح تیرا یہ قول ہے : قمت والناس غافلنووالنان غافلون یا یہ النمل سے حال ہے اور عامل قالت ہے معنی یہ ہے نمل نہیں سمجھتے تھے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) ان کی بات سمجھتے ہیں۔ یہ امر حقیقت سے بعید ہے اس کی وضاحت بعد آئے گی۔ مسئلہ نمبر 3 :۔ امام مسلم حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :” ایک چیونٹی نے انبیاء میں سے ایک نبی کو کاٹا تو اس نبی نے چیونٹی کو بستی کو کھودنے کا حکم دیا تو اسے جلا دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس نبی کی طرف وحی کی : کیا یہ ایک چیونٹی کے کاٹنے کے باعث ہے تو نے ایک ایسی امت کو ہلاک کردیا جو اللہ تعالیٰ کی تسبیح کیا کرتی تھی “۔ ایک اور سند میں ہے فھلا نملۃ واحدۃ (1) ہمارے علماء نے کہا : ایک قول یہ کیا جاتا ہے اس نبی سے مراد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہیں۔ انہوں نے عرض کی : اے میرے رب ! تو اہل قریہ کو ان کی نافرمانیوں کے باعث عذاب دیتا ہے جب کہ ان میں اطاعت گزار بھی ہوتے ہیں، گویا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پسند کیا کہ اللہ تعالیٰ اسے وہ دکھا دے جو اس کے پاس اس کی حکمت ہے اللہ تعالیٰ نے اس پر گرمی کو مسلط کیا یہاں تک کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک درخت کی پناہ لی آپ اس کے سایہ سے راحت حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اس درخت کے پاس چیونٹیوں کی بستی تھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نیند غالب آگئی جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے نیند کی لذت پائی تو چیونٹی نے ان کو کاٹا اور آپ کو پریشان کردیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں مسلا اور ان سب کو ہلاک کردیا اور جس درخت کے پاس ان کے مساکن تھے اس درخت کو جلادیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اس میں اسے عبرت و حکمت دکھا دی۔ جب تجھے ایک چیونٹی نے کاٹا تو تو نے کیوں دوسری چیونٹیوں کو سزا دی ؟ ارادہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ ! اسے آگاہ کرے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے عقوبت عام ہوتی ہے یہ مطیع کے لیے رحمت، طہارت اور برکت ہوتی ہے اور نافرمان کے لیے شر اور انتقام ہوتا ہے۔ اس تعبیر کی بناء پر حدیث میں کوئی ایسی چیز نہیں جو چیونٹی کے قتل کی کراہت یا امتناع پر دلالت کر دے۔ بیشک جو تجھے اذیت دے تو تیرے لیے حلال ہے کہ تو اس سے اپنا دفاع کرے اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے مومن سے بڑھ کر کوئی حرمت والا نہیں۔ تیرے لیے مباح ہے کہ تو قتل کرنے یا مارنے کے ساتھ اپنا دفاع کرے۔ تو ان کیڑے مکوڑوں اور جانوروں کی کیا حیثیت ہے جو تیرے لیے مسخر کردی گئی ہیں اور تجھے ان پر مسلط کردیا گیا ہے جب وہ تجھے اذیت دے تو تیرے لیے اس کا قتل مباح ہے۔ 1 ؎۔ صحیح مسلم، کتاب قتل الحیات وغیرھا، باب النھہی عن قتل النمل، جلد 2 صفحہ 236 ابراہیم سے مروی ہے چیونٹی میں سے جو تجھے اذیت دے تو تو اسے قتل کر۔ یہ قول الا نملۃ واحدۃ اسی امر پر دلیل ہے کہ جو اذیت دے اسے اذیت دی جائے اور اسے قتل کیا جائے۔ جب قتل نفع کے لیے ہو یا ضرر کو دور کرنے کے لیے ہو تو علماء کے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں۔ نملہ کو مطلق ذکر کیا اور اس نملہ کو خاص نہ کیا جس نے کاٹا تھا کیونکہ مراد قصاص نہیں تھا کیونکہ اگر اس کا ارادہ ہوتا تو فرماتا : الا نملتک التی لدغتک بلکہ نملہ کی جگہ فرمایا : الا نملۃ، اس کے ساتھ یہ جانی اور بری کو عام ہوگیا، تاکہ معلوم ہو کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ ارادہ کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ اسے متنبہ فرمائے کہ وہ کس لیے تمام بستی والوں کو عذاب دیتا ہے جب کہ ان میں مطیع و عاصی ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے کہ اس نبی کی شریعت میں حیوانوں کو جلانے کے ساتھ سزا دینا جائز تھا۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے صرف جلانے پر عتاب نہیں فرمایا بلکہ کثیر چیونٹیوں کو جلانے پر عتاب فرمایا۔ کیا تو یہ فرمان نہیں دیکھتا : فھلانملۃ واحدۃ یعنی تو نے ایک چیونٹی کو کیوں نہ جلایا۔ یہ ہماری شرع کے خلاف ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ نے آگ کے ساتھ عذاب دینے سے منع کیا ہے۔ لا یعذاب بالنار الا اللہ ( 1) اسی طرح اس نبی کی شریعت میں چیونٹیوں کو قتل کرنا مباح تھا۔ اللہ تعالیٰ نے چیونٹی کے قتل پر انہیں عتاب نہ کیا جہاں تک ہماری شریعت کا تعلق ہے تو اس بارے میں حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث میں اس سے نہی آئی ہے۔ امام مالک نے اسے مکروہ جانا ہے کہ چیونٹی کو قتل کیا جائے مگر اس صورت میں کہ وہ تکلیف دے اور اس کی تکلیف کو اس کو مارنے کے بغیر دورد نہ کرسکے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس نبی کو اللہ تعالیٰ نے اس لیے عتاب کیا کیونکہ انہوں نے اپنی ذات کے لیے ایسی جمعیت سے انتقام لیا جن میں سے ایک نے اسے اذیت دی تھی۔ زیادہ بہتر صبر اور در گزر کرنا تھا۔ لیکن اب نبی کے لیے یہ واقع ہوا کہ یہ نوع انسان کو اذیت دیتی ہے اور بنی آدم کی حرمت حیوانوں میں سے جو ناطق نہیں ان کی حرمت سے بڑھ کر ہے۔ اگر اس کے لیے یہ نظر منفرد ہوتی اور اس کے ساتھ طبعی تشفی شامل نہ ہوتی تو اس کو عتاب نہ کیا جاتا۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ لیکن جب طبعی تشفی اس کے ساتھ شامل تھی جس پر سیاق حدیث دلالت کرتا ہے تو اس پر عتاب کیا جاتا۔ مسئلہ نمبر 4 :۔ انی ان قرصتمک نملۃ اھلکت امۃ من الامم تسبیح (2) اس کا مقتضا تو یہ ہے کہ تسبیح قول اور نطق کی صورت میں تھی، جس طرح اللہ تعالیٰ نے نمل کے بارے میں خبر دی کہ اس کی زبان تھی جسے حضرت سلیمان (علیہ السلام) سمجھ گئے تھے۔ یہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا معجزہ تھا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اس کی بات پر مسکرائے، یہ واضح دلالت ہے کہ چیونٹی گفتگو کرتی ہے لیکن اسے ہر کوئی نہیں سنتا، بلکہ اللہ تعالیٰ جس ولی یا نبی کے لیے بطور خرق عادت ایسی صلاحیت پیدا فرما دیتا ہے۔ ہم اس لیے اس کا انکار نہیں کرتے کہ ہم اسے نہیں سنتے۔ عدم ادراک سے مدرک کا عدم لازم نہیں کرتا۔ پھر انسان اپنے نفس میں قول اور کلام پاتا ہے مگر اس سے وہ کلام اس وقت تک نہیں سنا جاتا مگر جب وہ کلام کرے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی کے لیے خرق عادت کے طور پر یہ صلاحیت پیدا کی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کی وہ کلام سنا دی جو انہوں نے آپس میں کی اور ان کے دلوں میں جو کچھ کیا اس کی بھی خبر دے دی۔ جس طرح کتب معجزات میں ہمارے کثیر ائمہ سے منقول ہے۔ اس طرح 1 ؎۔ جامع ترمذی فی التفسیر، جلد 1، صفحہ 190 2 ؎۔ صحیح مسلم، کتاب قتل الحیات وغیرھا، باب النھی عن قتل النبل، جلد 2 صفحہ 238 کثیر اولیاء سے بھی ایسا واقع ہوا جن کو اللہ تعالیٰ نے شرف سے نوازا۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے اس ارشاد میں یہی مراد لیا ہے : ان فی امتی محدثین وان عمر منھم میری امت میں محدثین ہیں اور حضرت عمر ان میں سے ہیں (1) ۔ سورة اسراء میں جمادات کی تسبیح کے بارے میں گفتگو گزر چکی ہے۔ وہ تسبیح زبانی اور قولی ہے یہ دلالت حال کی تسبیح نہیں۔ الحمد للہ۔ مسئلہ نمبر 5 :۔ فتبسم ضاحکامن قولھا ابن سمیقع نے ضحکا پڑھا ہے (2) یہ فعل محذوف کا مصدر ہے جس فعل مخدوف پر تبسم دلالت کرتا ہے گویا فرمایا : ضحک ضحکا، یہ سیبویہ کا مذہب ہے۔ سیبویہ کے علاوہ دوسرے علماء کے نزدیک یہ تبسم سے منصوب ہے، کیونکہ یہ ضعک کے معنی میں ہے جس نے ضاحکا پڑھا ہے تو وہ تبسم کے ضمیر سے ہونے کی وجہ سے منصوب ہے معنی ہے ضحک کی مقدار تبسم فرمایا کیونکہ ضحک تبسم کا مستغرق ہوتا ہے۔ اور تبسم، ضحک سے کم درجہ کا ہوتا ہے یہ اس کا آغاز ہوتا ہے یہ کہا جاتا ہے : بسم یسم بسما فھوبا سم وابتسم، تبسم، مبسم سے مراد دانت ہیں جس طرح مجلس یہ جلس یجلس سے مشتق ہے رجل جسام، بسام۔ بہت زیادہ ہنسنے والا۔ تبسم ضحک کا آغاز ہے۔ ضحک ابتداء اور انتہاء سے عبارت ہے مگر ضحک تبسم پر زیادتی کا تقاضا کرتا ہے۔ جس اس میں اضافہ کرے اور انسان اپنے نفس پر ضبط نہ کرسکے تو اس وقت کہا جاتا ہے : اس نے قہقہہ لگایا، تبسم عموماً انبیاء کا ضحک ہوتا ہے۔ صحیح میں حضرت جابر بن سمرہ ؓ سے مروی ہے آپ کو عرض کی گئی : کیا آپ نبی کریم ﷺ کی مجلس میں بیٹھا کرتے تھے ؟ فرمایا : ہاں اکثر آپ اپنے مصلیٰ سے نہ اٹھتے جس پر صبح کی نماز ادا فرماتے، یہاں تک کہ سورج طلوع ہوتا جب سورج طلوع ہوتا تو آپ اٹھ کھڑے ہوتے صحابہ باتیں کرتے اور جاہلیت کے معاملات کرتے وہ ہنستے اور حضور ﷺ تبسم فرماتے۔ اس بارے میں حضرت سعدیہ ؓ سے بھی مروی ہے کہ مشرکوں میں سے ایک آدمی نے مسلمانوں کو جلا دیا حضرت سعد کو حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” تیر پھینکیے میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں “ (3) کہا : میں نے اس ( مشرک) کے لیے ایسا تیر نکالا جس میں پھل نہیں تھا میں نے اسکے پہلو میں مارا وہ گرگیا تو اس کی شرمگاہ کھل گئی رسول اللہ ﷺ ہنسے یہاں تک کہ میں نے آپ کی داڑھیں مبارکہ دیکھیں۔ نبی کریم ﷺ اکثر تبسم فرمایا کرتے تھے۔ بعض دوسرے مواقع پر نبی کریم ﷺ تبسم سے زیادہ ضحک فرماتے جو تبسم سے بڑھ کر ہوتا اور استغراق سے کم ہوتا جس میں کوا ظاہر ہوجاتا ہے شاذ و نادر طور پر آپ زیادہ تعجب کے موقع پر ضحک فرماتے یہاں تک کہ آپ کی داڑھیں ظاہر ہوجاتیں۔ علماء نے ضحک کی کثرت کو مکروہ جانا ہے جس طرح لقمان (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے سے فرمایا : اے بیٹے ! زیادہ ہنسنے سے بچو۔ زیادہ ضحک دل کو مار ڈالتا ہے۔ حضرت ابو ذر اور دوسرے علماء سے موفوع مروی ہے نبی کریم ﷺ ہنسے یہاں تک کہ آپ کی داڑھیں ظاہرہو گئیں جب حضرت سعد نے اس آدمی کو تیرمارا تھا تو وہ تیر اس کو جا لگا تھا۔ آپ کی خوشی اس کی شرمگاہ کے کھلنے کی وجہ سے نہ تھی بلکہ تیر لگنے کی وجہ سے تھی، کیونکہ نبی کریم ﷺ ایسے عیوب سے مبرا ہیں۔ 1 ؎۔ صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب مناقب عمر بن الخطاب ؓ ، جلد 1 صفحہ 521 2 ؎۔ المحرر الوجیز، جلد 4، صفحہ 254 3 ؎۔ صحیح مسلم، باب فی فضل سعد بن ابی وقاص ؓ ، جلد 2، صفحہ 281 مسئلہ نمبر 6 :۔ علماء کے نزدیک اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ تمام حیوانات کے اذان اور عقلیں ہیں۔ امام شافعی نے کہا : حمام ( کبوتر) تمام پرندوں سے زیادہ عقل والا ہے۔ ابن عطیہ نے کہا : چیونٹی ایسا حیوان ہے جو ذہین ہے قوی ہے بہت زیادہ سونگھنے کی قوت رکھتی ہے، وہ ذخیرہ کرتی ہے، بستیاں بناتی ہیں، دانے کو دو حصوں میں کاٹتی ہے تاکہ وہ نہ اگے، دھنیا کو چار حصوں میں کاٹتی ہیں کیونکہ جب اس کو دو حصوں میں کاٹا جائے تو وہ اگ پڑتا ہے اس نے جو جمع کیا ہوتا ہے وہ سال میں اس کا نصف کھاتی ہے اور باقی بطور سامان محفوظ رکھتی ہے۔ ابن عربی نے کہا : یہ ہمارے نزدیک علوم کے خواص ہیں اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے جب پیدا کیا تو چیونٹی نے ان کا ادراک کرلیا۔ استاذ ابو مظفر شاہنور اسفراینی نے کہا : یہ کوئی بعید نہیں کہ بہائم عالم کے حادث ہونے، مخلوقات کے حادث ہونے اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو پہچانیں، لیکن ہم اس سے یہ چیز سمجھتے اور وہ ہم اسے اس چیز کو نہیں سمجھتے۔ مگر ہم ان کی تلاش کرتے ہیں تو وہ ہم سے دور بھاگتے ہیں یہ جنسیت کے حکم کی وجہ سے ہے۔ وقال رب اوزغنی ان اشکر نعمتک التی انعمت علی وعلی والدی ان مصدر یہ ہے اوزعنی یہ مجھ میں الہام فرما۔ اس کی اصل وزع ہے گویا عرض کی : مجھے ایسی چیزوں سے روک دے جو ناراضگی کا باعث ہیں۔ محمد بن اسحاق نے کہا : اہل کتاب یہ گمان کرتے ہیں کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی والد اور یا کی بیوی تھی جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود کا امتحان لیا۔ اور یا کے فوت ہونے کے بعد حضرت دائود (علیہ السلام) نے اس سے شادی کی تو اس نے حضرت دائود (علیہ السلام) کے لیے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو جنا اس کی مزید وضاحت سورة ص میں آئے گی۔ ان شاء اللہ۔ وادخلنی برحمتک فی عبادک الصلحین ی، مع کے معنی میں ہے : یہ ابن زید سے مروی ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : معنی ہے اپنے صالح بندوں کے زمرہ میں داخل فرما دے۔
Top