Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 62
قَالُوْۤا ءَاَنْتَ فَعَلْتَ هٰذَا بِاٰلِهَتِنَا یٰۤاِبْرٰهِیْمُؕ
قَالُوْٓا : انہوں نے کہا ءَاَنْتَ : کیا تو فَعَلْتَ : تونے کیا ھٰذَا : یہ بِاٰلِهَتِنَا : ہمارے معبودوں کے ساتھ يٰٓاِبْرٰهِيْمُ : اے ابراہیم
انھوں نے پوچھا کہ اے ابراہیم، کیا یہ حرکت ہمارے معبودوں کے ساتھ تم نے کی ہے۔
قَالُوْٓائَ اَنْتَ فَعَلْتَ ھٰذَا بِاٰ لِھَتِنَا یٰٓـاِبْرٰھِیْمُ ۔ قَالَ بَلْ فَعَلَـہٗ صلے ق کَبِیْرُھُمْ ھٰذَا فَسْئَلُوْھُمْ اِنْ کَانُوْا یَنْطِقُوْنَ ۔ (الانبیاء : 62، 63) (انھوں نے پوچھا کہ اے ابراہیم، کیا یہ حرکت ہمارے معبودوں کے ساتھ تم نے کی ہے۔ حضرت ابراہیم نے جواب دیا بلکہ ان کے اس بڑے نے یہ حرکت کی ہوگی، سو ان سے پوچھو، اگر یہ بولتے ہوں۔ ) استفسار اور جواب سوالوں کی نوعیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ( علیہ السلام) سے سوال کرنے والے اربابِ اقتدار بھی تھے اور پیشوایانِ دین بھی۔ انھوں نے نہایت حیرت اور غصے میں ڈوبے ہوئے لہجے میں پوچھا کہ ابراہیم ہمارے خدائوں کے ساتھ تم نے یہ حرکت کی ہے ؟ کیونکہ جس کے دل میں اپنے خدائوں کے ساتھ معمولی عقیدت بھی ہے وہ تو یہ حرکت نہیں کرسکتا اور تم بھی اسی قوم کے ایک فرد ہو، تم سے بھی یہ توقع نہیں ہوسکتی۔ لیکن تمہارے بارے میں خبر دینے والوں نے یہ کہا ہے کہ شاید تم نے یہ حرکت کی ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ آپ مجھ سے کیوں پوچھتے ہیں ؟ آپ بت کدے کا منظر دیکھ لیجیے، تمام چھوٹے چھوٹے بتوں کے جسم ٹوٹے پھوٹے بکھرے ہوئے ہیں لیکن ان میں سے بڑا کندھے پر کلہاڑا رکھے اور ان کی ساری مٹھائیوں کو اپنے سامنے ڈھیر کیے بیٹھا ہے، آپ اسے کیوں نہیں پوچھتے ؟ اور اگر ان سے پوچھنے کی ہمت نہیں ہے تو جن بتوں کے اعضاء توڑے گئے ہیں ان سے پوچھ لیجیے وہ خود بتائیں گے کہ ان پر یہ قیامت کس نے برپا کی ہے، اگر وہ بول سکتے ہیں تو۔ آپ اس پوری کارروائی کو دیکھ لیجیے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کہیں بھی انکار نہیں کررہے کہ میں نے یہ کام نہیں کیا بلکہ وہ اپنی اس جسارت کے واسطے سے ان کے نام نہاد خدائوں کی بےبسی ان کے سامنے واضح کرنا چاہتے ہیں کہ جن بتوں کو تمہارے بت گروں نے تراشا ہے اور تمہارے مجسمہ سازوں نے ان کے مجسمے بنائے ہیں اور جن پر یہ قیامت کی گھڑی آئی ہے لیکن وہ اپنے دفاع میں ہاتھ تک نہیں ہلا سکے اور اب تمہیں اس مجرم کی تلاش ہے جس نے یہ سب کچھ کیا ہے تو وہ تمہیں یہ تک نہیں بتاسکتے کہ ہمارے ساتھ یہ ظلم کس نے کیا ہے۔ یعنی نہ ان کا وجود اپنا، نہ وہ اپنے دفاع پر قادر اور نہ وہ قوت گویائی سے بہرہ ور، تو کیا ایسے ہوتے ہیں خدا ؟ اتنے گئے گزرے تو حشرات الارض تک نہیں ہوتے۔ کیڑے مکوڑے بھی اپنے مسلنے والوں کو ڈس لیتے ہیں اور چیونٹیاں بھی اپنے تحفظ کے لیے بلوں میں گھس جاتی ہیں، لیکن یہاں عجیب حال ہے کہ تم اپنی مشکلات میں جن کے سامنے دست سوال پھیلاتے ہو وہ تو اپنے جو گے بھی نہیں۔ توقع تھی وہ جن سے خستگی میں داد پانے کی وہ ہم سے بھی زیادہ کشتہ تیغ ستم نکلے ہم نے اپنی بساط کے مطابق حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے مؤقف کا صحیح محمل واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کو اگر سامنے رکھا جائے تو سچ اور جھوٹ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن بعض حلقوں میں یہ سوال اٹھایا جاتا ہے اور ایک حدیث سے استدلال بھی کیا جاتا ہے، ہم اس کی وضاحت کے لیے معارف القرآن کی تشریحات مستعار لیتے ہیں : یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کام تو حضرت ابراہیم نے خود کیا تھا پھر اس سے انکار اور ان کے بڑے کی طرف منسوب کرنا بظاہر خلاف واقعہ ہے جس کو جھوٹ کہا جاتا ہے۔ حضرت خلیل اللہ کی شان اس سے بالا و برتر ہے، اس کے جواب کے لیے حضرات مفسرین نے بہت سے احتمالات بیان فرمائے ہیں ان میں سے ایک وہ بھی ہے جس کو خلاصہ تفسیر بیان القرآن میں اختیار کیا گیا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ قول بطور فرض کے تھا یعنی تم یہ کیوں نہیں فرض کرلیتے کہ یہ کام بڑے بت نے کیا ہوگا اور بطور فرض کے کوئی خلاف واقعہ بات کہنا جھوٹ میں داخل نہیں جیسے خود قرآن میں ہے ان کان للرحمن ولد فانا اول العابدین یعنی اگر اللہ رحمن کے کوئی لڑکا ہوتا تو میں سب سے پہلے اس کی عبادت کرنے والوں میں داخل ہوتا، لیکن بےغبار اور بےتاویل وہ توجیہ ہے جس کو بحر محیط، قرطبی، روح المعانی وغیرہ میں اختیار کیا گیا ہے کہ یہ اسناد مجازی ہے جو کام ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے ہاتھ سے کیا تھا اس کو بڑے بت کی طرف بطور اسناد مجازی کے منسوب کردیا کیونکہ اس کام پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آمادہ کرنے والا یہی بت تھا اور اس کی تخصیص شاید اس وجہ سے ہو کہ ان کی برادری اس بت کی تعظیم سب سے زیادہ کرتی تھی اس کی مثال ایسی ہوگی جیسے کوئی چور کی سزا میں اس کا ہاتھ کاٹ دے اور پھر کہے کہ یہ میں نے نہیں کاٹا بلکہ تیرے عمل اور تیری کجروی نے ہاتھ کاٹا ہے کیونکہ ہاتھ کاٹنے کا سبب اس کا عمل ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے عملی طور پر بھی بتوں کے توڑنے کو بڑے بت کی طرف منسوب کیا تھا جیسا کہ روایات میں ہے کہ جس تبر یا کلہاڑے سے ان کے بت توڑے تھے یہ کلہاڑا بڑے بت کے مونڈھے پر یا اس کے ہاتھ میں رکھ دیا تھا کہ دیکھنے والے کو یہ خیال پیدا ہو کہ اس نے ہی یہ کام کیا ہے اور قولاً بھی اس کی طرف منسوب فرمایا تو یہ ایک اسناد مجازی ہے جیسے عربی کا مشہور مقولہ انبت الربیع البقلہ اس کی معروف مثال ہے (یعنی موسم ربیع کی بارش نے کھیتی اگائی ہے) کہ اگرچہ اگانے والا درحقیقت حق تعالیٰ ہے مگر اس کو ایک ظاہری سبب کی طرف منسوب کردیا گیا ہے اور اس کو کوئی جھوٹ نہیں کہہ سکتا۔ اسی طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا بڑے بت کی طرف اس فعل کو عملاً اور قولاً منسوب کردینا جھوٹ ہرگز نہیں۔ البتہ بہت سی مصالح دینیہ کے لیے یہ توریہ اختیار فرمایا۔ ان میں ایک مصلحت تو یہی تھی کہ دیکھنے والوں کو اس طرف توجہ ہوجائے کہ شاید اس بڑے بت کو اس پر غصہ آگیا ہو کہ میرے ساتھ عبادت میں ان چھوٹے بتوں کو کیوں شریک کیا جاتا ہے۔ اگر یہ خیال ان کے دلوں میں پیدا ہو تو توحید حق کا راستہ کھل جاتا ہے کہ جب ایک بڑا بت اپنے ساتھ چھوٹے بتوں کی شرکت گوارا نہیں کرتا تو رب العالمین ان پتھروں کی شرکت اپنے ساتھ کیسے گوارا کرے۔ دوسرے یہ کہ ان کو یہ خیال اس وقت پیدا ہونا قرین عقل ہے کہ جن کو ہم خدا اور مختار کل کہتے ہیں اگر یہ ایسے ہی ہوتے تو کوئی ان کے توڑنے پر کیسے قادر ہوتا۔ تیسرے یہ کہ اگر اس فعل کو وہ بڑے بت کی طرف منسوب کردیں تو جو بت یہ کام کرسکے کہ دوسرے بتوں کو توڑ دے اس میں گویائی کی طاقت بھی ہونی چاہیے۔ اس لیے فرمایا فَسْئَلُوْھُمْ اِنْ کَانُوْا یَنْطِقُوْنَ خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قول مذکور کو بلاتاویل کے اپنے ظاہر پر رکھ کر یہ کہا جائے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اس فعل کو بڑے بت کی طرف منسوب فرمایا اور یہ اسناد مجازی کے طور پر فرمایا تو اس میں کوئی جھوٹ اور خلاف واقعہ کا شبہ نہیں رہتا۔ صرف ایک قسم کا توریہ ہے۔ حدیث میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف تین جھوٹ منسوب کرنے کی حقیقت ایک سوال اب یہ رہ جاتا ہے کہ صحیح احادیث میں خود رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے ان ابراھیم (علیہ السلام) لم یکذب غیرثلاث (رواہ البخاری و مسلم) یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کبھی جھوٹ نہیں بولا بجز تین جگہوں کے پھر ان تینوں کی تفصیل اسی حدیث میں اس طرح بیان فرمائی کہ ان میں سے دو جھوٹ تو خالص اللہ تعالیٰ کے لیے بولے گئے ایک یہی جو اس آیت میں بل فعلہ کبیرھم فرمایا، دوسرا عید کے روز برادری سے یہ عذر کرنا کہ انی سقیم، میں بیمار ہوں اور تیسرا (اپنی زوجہ کی حفاظت کے لیے بولا گیا) وہ یہ کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنی اہلیہ محترمہ حضرت سارہ کے ساتھ سفر میں تھے کہ ایک ایسی بستی پر گزر ہوا جہاں کا رئیس ظالم بدکار تھا۔ جب کسی شخص کے ساتھ اس کی بیوی کو دیکھتا تو بیوی کو پکڑ لیتا اور اس سے بدکاری کرتا، مگر یہ معاملہ اس صورت میں نہ کرتا تھا جبکہ کوئی بیٹی اپنے باپ کے ساتھ یا بہن اپنے بھائی کے ساتھ ہو۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس بستی میں مع اہلیہ کے پہنچنے کی مخبری اس ظالم بدکار کے سامنے کردی گئی تو اس نے حضرت سارہ کو گرفتار کرکے بلوالیا، پکڑنے والوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے پوچھا کہ یہ عورت رشتہ میں تم سے کیا تعلق رکھتی ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ظالم کے خوف سے بچنے کے لیے یہ فرمایا کہ یہ میری بہن ہے۔ (یہی وہ چیز ہے جس کو حدیث میں تیسرے جھوٹ سے تعبیر کیا گیا ہے) مگر اس کے باوجود وہ پکڑ لیے گئے اور ابراہیم (علیہ السلام) نے حضرت سارہ کو بھی بتلا دیا کہ میں نے تم کو اپنی بہن کہا ہے تم بھی اس کے خلاف نہ کہنا اور وجہ یہ ہے کہ اسلامی رشتہ سے تم میری بہن ہو کیونکہ اس وقت اس زمین میں ہم دو ہی مسلمان ہیں اور اسلامی اخوت کا تعلق رکھتے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو مقابلے پر قدرت نہ تھی، اللہ تعالیٰ کے سامنے الحاح وزاری کے لیے نماز پڑھنا شروع کردی۔ حضرت سارہ اس کے پاس پہنچیں یہ ظالم بری نیت سے ان کی طرف بڑھا تو قدرت نے اس کو اپاہج و معذور کردیا۔ اس پر اس نے حضرت سارہ سے درخواست کی کہ تم دعا کردو کہ میری یہ معذوری دور ہوجاوے، میں تمہیں کچھ نہ کہوں گا۔ ان کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے پھر اس کو صحیح سالم کردیا مگر اس نے عہد شکنی کی اور پھر بری نیت سے ان پر ہاتھ ڈالنا چاہا پھر اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ وہی معاملہ کیا۔ اسی طرح تین مرتبہ یہ واقعہ پیش آیا تو اس نے حضرت سارہ کو واپس کردیا۔ (یہ خلاصہ مضمون حدیث کا ہے) بہرحال اس حدیث میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف تین جھوٹ کی نسبت صراحۃً کی گئی ہے جو شان نبوت و عصمت کیخلاف ہے مگر اس کا جواب خود اسی حدیث کے اندر موجود ہے وہ یہ کہ دراصل ان میں سے ایک بھی حقیقی معنی میں جھوٹ نہ تھا یہ توریہ تھا جو ظلم سے بچنے کے لیے جائز و حلال ہوتا ہے وہ جھوٹ کے حکم میں نہیں ہوتا۔ اس کی دلیل خود حدیث مذکور میں یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حضرت سارہ سے کہا تھا کہ میں نے تمہیں اپنی بہن بتلایا ہے تم سے پوچھا جائے تو تم بھی مجھے بھائی بتلانا اور بہن کہنے کی وجہ بھی ان کو بتلا دی کہ ہم دونوں اسلامی برادری کے اعتبار سے بہن بھائی ہیں۔ اسی کا نام توریہ ہے کہ الفاظ ایسے بولے جائیں جن کے دو مفہوم ہوسکیں۔ سننے والا اس سے ایک مفہوم سمجھے اور بولنے والے کی نیت دوسرے مفہوم کی ہو اور ظلم سے بچنے کے لیے یہ تدبیر توریہ کی باتفاق فقہاء جائز ہے یہ شیعوں کے تقیہ سے بالکل مختلف چیز ہے۔ تقیہ میں صریح جھوٹ بولا جاتا ہے اور اس پر عمل بھی کہا جاتا ہے توریہ میں صریح جھوٹ نہیں ہوتا بلکہ جس معنی سے متکلم بول رہا ہے وہ بالکل صحیح اور سچ ہوتے ہیں جیسے اسلامی برادری کے لحاظ سے بھائی بہن ہونا، یہ وجہ تو خود حدیث مذکور کے الفاظ میں صراحۃً مذکور ہے جس سے معلوم ہوا کہ یہ درحقیقت کذب نہ تھا بلکہ ایک توریہ تھا، ٹھیک اسی طرح کی توجیہ پہلے دونوں کلاموں میں ہوسکتی ہے۔ بل فعلہ کبیرھم کی توجیہ ابھی اوپر لکھی گئی ہے کہ اس میں بطور اسناد مجازی اس فعل کو بڑے بت کی طرف منسوب کیا ہے۔ اسی طرح انی سقیم کا لفظ ہے کیونکہ سقیم کا لفظ جس طرح ظاہری طور پر بیمار کے معنی میں آتا ہے اسی طرح رنجیدہ و غمگین اور مضمحل ہونے کے معنی میں بھی بولا جاتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اسی دوسرے معنی کے لحاظ سے انی سقیم فرمایا تھا۔ مخاطبوں نے اس کو بیماری کے معنی میں سمجھا اور اسی حدیث میں جو یہ الفاظ آئے ہیں کہ ان تین کذبات میں دو اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے تھے یہ خود قرینہ قویہ اس کا ہے کہ یہ کوئی گناہ کا کام نہ تھا ورنہ گناہ کا کام اللہ تعالیٰ کے لیے کرنے کا کوئی مطلب ہی نہیں ہوسکتا اور گناہ کا کام نہ ہونا جبھی ہوسکتا ہے جبکہ وہ حقیقۃً کذب نہ ہو بلکہ ایسا کلام ہو جس کے دو معنی ہوسکتے ہوں، ایک کذب اور دوسرا صحیح ہو۔ حدیثِ کذ بات ابراہیم (علیہ السلام) کو غلط قرار دینا جہالت ہے مرزا قادیانی اور کچھ دوسرے مستشرقین سے مغلوب مسلمانوں نے اس حدیث کو باوجود صحیح السند ہونے کے اس لیے غلط اور باطل کہہ دیا کہ اس سے حضرت خلیل اللہ کی طرف جھوٹ کی نسبت ہوتی ہے اور سند کے سارے راویوں کو جھوٹا کہہ دینا اس سے بہتر ہے کہ خلیل اللہ کو جھوٹا قرار دیا جائے کیونکہ وہ قرآن کے خلاف ہے اور پھر اس سے ایک کلیہ قاعدہ یہ نکال لیا کہ جو حدیث قرآن کیخلاف ہو خواہ وہ کتنی ہی قوی اور صحیح اور معتبر اسانید سے ثابت ہو وہ غلط قرار دی جائے۔ یہ بات اپنی جگہ تو بالکل صحیح اور ساری امت کے نزدیک بطور فرض محال کے مسلم ہے مگر علماء امت نے تمام ذخیرہ احادیث میں اپنی عمریں صرف کرکے ایک ایک حدیث کو چھان لیا ہے جس حدیث کا ثبوت قوی اور صحیح اسانید سے ہوگیا ان میں ایک بھی ایسی نہیں ہوسکتی کہ جس کو قرآن کیخلاف کہا جاسکے بلکہ وہ اپنی تمام کم فہمی یا کج فہمی کا نتیجہ ہوتا ہے کہ جس حدیث کو رد اور باطل کرنا چاہا اس کو قرآن سے ٹکرا دیا اور یہ کہہ کر فارغ ہوگئے کہ یہ حدیث خلاف قرآن ہونے کے سبب غیرمعتبر ہے جیسا کہ اسی حدیث میں آپ دیکھ چکے ہیں کہ الفاظ کذبات سے توریہ مراد ہونا خود حدیث کے اندر موجود ہے۔ رہا یہ معاملہ کہ پھر حدیث میں توریہ کو کذبات کے لفظ سے کیوں تعبیر کیا گیا تو اس کی وجہ وہی ہے جو حضرت آدم (علیہ السلام) کے قصہ میں گزر چکی ہے کہ مقربانِ بارگاہ حق تعالیٰ کی ادنیٰ کمزوری اور محض رخصت اور جائز پر عمل کرلینا اور عزیمت کو چھوڑ دینا بھی قابل مواخذہ سمجھا جاتا ہے اور ایسی چیزوں پر قرآن میں حق تعالیٰ کا عتاب انبیاء کے بارے میں بکثرت منقول ہے۔ حدیث شفاعت جو مشہور و معروف ہے کہ محشر میں ساری مخلوق جمع ہو کر حساب جلد ہونے کے متعلق انبیاء سے شفاعت کے طالب ہوں گے، آدم (علیہ السلام) سے لے کر خاتم الانبیاء سے پہلے تک تمام انبیاء کے پاس پہنچیں گے۔ ہر پیغمبر اپنے کسی قصور اور کوتاہی کا ذکر کرکے شفاعت کی ہمت نہ کرے گا، آخر میں سب خاتم الانبیاء (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور آپ اس شفاعتِ کبریٰ کے لیے کھڑے ہوں گے۔ اس حدیث میں حضرت ابراہیم خلیل اللہ ان کلمات کو جو بطور توریہ کے کہے گئے تھے حقیقۃً کذب نہ تھے مگر پیغمبرانہ عزیمت کے خلاف تھے۔ اپنا قصور اور کوتاہی قرار دے کر عذر کردیں گے، اسی کوتاہی کی طرف اشارہ کرنے کے لیے حدیث میں ان کو بلفظ کذبات تعبیر کردیا گیا جس کا رسول اللہ ﷺ کو حق تھا اور آپ کی حدیث روایت کرنے اور بیان کرنے کی حد تک ہمیں بھی حق ہے مگر اپنی طرف سے کوئی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں یوں کہے کہ انھوں نے جھوٹ بولا یہ جائز نہیں جیسا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قصہ کے ساتھ سورة طٰہٰ کی تفسیر میں قرطبی اور بحرمحیط کے حوالہ سے بیان ہوچکا ہے کہ قرآن یا حدیث میں جو اس طرح کے الفاظ کسی پیغمبر کے بارے میں آئے ہیں ان کا ذکر بطور تلاوتِ قرآن یا تعلیمِ قرآن یا روایت حدیث کے تو کیا جاسکتا ہے خود اپنی طرف سے ان الفاظ کا کسی پیغمبر کی طرف منسوب کرنا بےادبی ہے جو کسی کے لیے جائز نہیں۔ حدیثِ مذکور میں ایک اہم ہدایت اور اخلاصِ عمل کی باریکی کا بیان حدیث میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں جن کذباتِ ثلٰثہ کا ذکر آیا ہے حدیث میں ان میں سے پہلے دو کے بارے میں تو یہ آیا کہ اللہ تعالیٰ کے لیے تھے مگر تیسری بات جو حضرت سارہ کے بارے میں کہی گئی اس کو اللہ تعالیٰ کے لیے نہیں فرمایا حالانکہ بیوی کی آبرو کی حفاظت بھی عین دین ہے۔ اس پر تفسیر قرطبی میں قاضی ابوبکر بن عربی سے ایک بڑا نکتہ نقل کیا گیا ہے جس کے متعلق ابن عربی نے فرمایا کہ یہ صلحاء و اولیاء کی کمر توڑ دینے والی بات ہے وہ یہ کہ تیسری بات بھی اگرچہ کام دین ہی کا تھا مگر اس میں کچھ اپنا حظ نفس بیوی کی عصمت اور حرم کی حفاظت کا بھی تھا، اتنی سی غرض دنیوی شامل ہوجانے کی بنا پر اس کو فی اللہ اور للہ کی فہرست سے الگ کردیا گیا کیونکہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے الاللہ الدین الخالص، یہ معاملہ بیوی کی عصمت کی حفاظت کا اگر ہماری یا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو بلاشبہ اس کو بھی للہ فی اللہ میں شمار کیا جاتا مگر انبیاء کی عظمت شان کا مقام سب سے بلند ہے ان کے لیے اتنا سا حظ نفس شامل ہوں بھی اخلاص کامل کے منافی سمجھا گیا، واللہ اعلم وفقنا اللہ للاخلاص فی کل عمل۔
Top