Al-Qurtubi - An-Naml : 60
اَمَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ اَنْزَلَ لَكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً١ۚ فَاَنْۢبَتْنَا بِهٖ حَدَآئِقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ١ۚ مَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُنْۢبِتُوْا شَجَرَهَا١ؕ ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ١ؕ بَلْ هُمْ قَوْمٌ یَّعْدِلُوْنَؕ
اَمَّنْ : بھلا کون خَلَقَ : پیدا کیا السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضَ : اور زمین وَاَنْزَلَ : اور اتارا لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان مَآءً : پانی فَاَنْۢبَتْنَا : پس اگائے ہم نے بِهٖ : اس سے حَدَآئِقَ : باغ (جمع) ذَاتَ بَهْجَةٍ : بارونق مَا كَانَ : نہ تھا لَكُمْ : تمہارے لیے اَنْ تُنْۢبِتُوْا : کہ تم اگاؤ شَجَرَهَا : ان کے درخت ءَاِلٰهٌ : کیا کوئی معبود مَّعَ اللّٰهِ : اللہ کے ساتھ بَلْ : بلکہ هُمْ : وہ قَوْمٌ : لوگ يَّعْدِلُوْنَ : کج روی کرتے ہیں
بھلا کس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور (کس نے) تمہارے لئے آسمان سے پانی برسایا ؟ (ہم نے) پھر ہم ہی نے اس سے سرسبز باغ اگائے تمہارا کام تو نہ تھا کہ تم ان کے درختوں کو اگاتے تو کیا خدا کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے ؟ (ہر گز نہیں) بلکہ یہ لوگ راستے سے الگ ہو رہے ہیں
امن خلق السموت والارض ابو حاتم نے کہا، تقدیر کلام یہ ہے آلھتکم خیرام من خلق السموات والارض یہ بحث پہلے گزر چکی ہے معنی ہے جو ان چیزوں کو پیدا کرنے پر قادر ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : معنی ہے جن بتوں کی تم عبادت کرتے ہو وہ عبادت بہتر ہے یا اس ذات کی عبادت بہتر ہے جس نے زمینوں اور آسمانوں کو پیدا کیا ؟ تو یہ پہلیم عنی کی طرف لوٹا دیا جائے گا۔ اس میں ان کے لئے تو بیخ کا معنی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور ان کے معبودوں کے عجز پر تنبیہ ہے۔ فانبتنا بہ حدآئق ذات بھجۃ حدیقہ اس باغ کو کہتے ہیں جس کے اردگرد دیوار ہو۔ بھجۃ سے مراد خوبصورت منظر ہے۔ فراء نے کہا : حدیقہ سے مراد وہ باغ ہے دیوار جس کی حفاظت کرے اگر دیوار نہ ہو تو اس کو بستان کہتے ہیں۔ وہ حدیقہ نہیں ہے۔ قتادہ اور عکرمہ نے کہا : حدائق سے مراد کھجور کے درخت ہیں جو خوبصورت منظر والے ہوں۔ بھجۃ سے مراد زینت اور حسن ہے جو بھی اسے دیکھتا ہے خوش ہوجاتا ہے۔ ما کان لکم ان تنبتوا شجرھا مانا فیہ ہے اس کا معنی فعل سے انہیں روکنا ہے یعنی بشر کو زیبا نہیں، یہ ان کے لئے تیار نہیں ہوتا، یہ ان کی قدرت کے تحت داخل نہیں کہ وہ اس کے درخت کو اگائیں کیونکہ وہ اس کی مثل سے عاجز ہیں کیونکہ اس سے مراد کسی شے سے وجود کی طرف نکالنا ہے۔ میں کہتا ہوں : اس سے یہ استدلال بھی کیا جاتا ہے کہ کسی شے کی تصویر بنانا منع ہے، خواہ اس کی روح ہو یا نہ ہو، یہ مجاہد کا قول ہے اس کی تائید نبی کریم ﷺ کا ارشاد بھی کرتا ہے : قال اللہ عزوجل و من اظلم ممن ذھب یخلق خلقا کخلقی فیغلقوا ذرۃ او لیخلقوا حبۃ او لیغلوا شعیرۃ (1) ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اس آدمی سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو میری تخلیق جیسی تخلیق بناتا ہے پس چاہے وہ ایک چیونٹی کو بنائیں، دانہ بنائیں یا جو بنائیں۔ امام مسلم نے اپنی صحیح میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت نقل کی ہے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا :” اللہ تعالیٰ نے فرمایا “ پھر اس حدیث کو ذکر کیا تو یہ ارشاد مذمت دھمکی اور تقبیح میں ہر اس فرد کو عام ہے جو کہ ایسی شے کی تصویر بناتا ہے جسے اللہ تعالیٰ بنائے اور اس شے کی تخلیق میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ مشابہت اختیار کرے اللہ تعالیٰ جس کی تخلیق میں منفرد ہے۔ یہ کلام واضح ہے جمہور بھی اس طرف گئے ہیں کہ اس چیز کی تصویر بنانا جائز ہے جس میں روح نہ ہو۔ یہ جائز ہے اور اس کے ساتھ روزی کمانا بھی جائز ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے اس شخص سے فرمایا تھا جس نے آپ سے تصویر بنانے کے بارے میں پوچھا تھا : اگر تیرے لئے ان تصویروں کے بنانے کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو تو درختوں اور ایسی چیز کی تصویریں بنائو جن میں روح نہیں۔ امام مسلم نے بھی اسے نقل کیا ہے۔ منع کرنا بہتر ہے اس روایت کی وجہ سے جو ہم نے ذکر کی ہے اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ سورة سبا میں اس کی مزید وضاحت آئے گی۔ انشاء اللہ اللہ تعالیٰ پھر تو بیخ کے طریقہ پر کہا : ء الہ مع اللہ کیا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود ہے جو اس امر پر اس کی مدد کرتا ہے ؟ بل ھم قوم یعدلون بلکہ وہ ایسی قوم ہیں جو غیر اللہ کو اللہ تعالیٰ کا ہم پلہ قرار دیتے ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : وہ حق اور میانہ ردی سے اعراض کرتے ہیں یعنی وہ کفر کرتے ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : الہ، مع کے ساتھ مرفوع ہے تقدیر کلام یہ ہے امع اللہ ویلکم الہ۔ مغ اللہ پر وقف کرنا اچھا ہے۔
Top