Anwar-ul-Bayan - An-Naml : 60
اَمَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ اَنْزَلَ لَكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً١ۚ فَاَنْۢبَتْنَا بِهٖ حَدَآئِقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ١ۚ مَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُنْۢبِتُوْا شَجَرَهَا١ؕ ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ١ؕ بَلْ هُمْ قَوْمٌ یَّعْدِلُوْنَؕ
اَمَّنْ : بھلا کون خَلَقَ : پیدا کیا السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضَ : اور زمین وَاَنْزَلَ : اور اتارا لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان مَآءً : پانی فَاَنْۢبَتْنَا : پس اگائے ہم نے بِهٖ : اس سے حَدَآئِقَ : باغ (جمع) ذَاتَ بَهْجَةٍ : بارونق مَا كَانَ : نہ تھا لَكُمْ : تمہارے لیے اَنْ تُنْۢبِتُوْا : کہ تم اگاؤ شَجَرَهَا : ان کے درخت ءَاِلٰهٌ : کیا کوئی معبود مَّعَ اللّٰهِ : اللہ کے ساتھ بَلْ : بلکہ هُمْ : وہ قَوْمٌ : لوگ يَّعْدِلُوْنَ : کج روی کرتے ہیں
بھلا کس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور (کس نے) تمہارے لئے آسمان سے پانی برسایا ؟ (ہم نے) پھر ہم ہی نے اس سے سرسبز باغ اگائے تمہارا کام تو نہ تھا کہ تم ان کے درختوں کو اگاتے تو کیا خدا کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے ؟ (ہر گز نہیں) بلکہ یہ لوگ راستے سے الگ ہو رہے ہیں
(27:60) امن۔ مرکب ہے ام اور من موصولہ سے اور اس میں تقدیر کلام یوں ہےء الاصنام خیر ام الذی خلق السموت والارض کیا بت (جن کی یہ پوجا کرتے ہیں) بہتر ہیں یا وہ ذات جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ ماء : ای المطر۔ بارش۔ فانبتنا بہ۔تعقیب کی ہے۔ انبتنا ماضی جمع متکلم انبات (افعال) مصدر۔ ہم نے اگایا۔ ب سببیہ ہے اور ہ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع ماء ہے۔ پھر ہم نے اس پانی کے ذریعے اگائے۔ حدائق : حدیقۃ کی جمع ہے بمعنی باغ جس کی چار دیواری ہو۔ ذات بھجۃ مضاف مضاف الیہ۔ ذات والی صاحب ۔ ذو کا مؤنث ہے۔ ذو ہمیشہ مضاف ہو کر استعمال ہوتا ہے اور اسم ظاہر ہی کی طرف مضاف ہوتا ہے ضمیر کی طرف نہیں۔ نجھۃ رونق۔ نازگی۔ خوشنما۔ خوش منظر۔ ذات بھجۃ۔ بارونق ۔ خوش نما۔ مضاف مضاف الیہ مل کر حدائق کی صفت ہے۔ فانبتنا بہ حدائق ذات بھجۃ پھر ہم نے اس پانی کے ذریعہ خوشنما بارونق باغات اگائے۔ یہاں غیبت سے تکلم کی طرف التفات ہے اس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ یہ فعل صرف ذات باری تعالیٰ سے مخصوص ہے جیسا کہ آگے فرمایا ما کان لکم ان تنبتوا شجرھا تمہاری طاقت نہ تھی کہ تم ان کے درخت اگاسکتے۔ تنبتوا مضارع منصوب (نون اعرابی بوجہ عمل ان ساقط ہوگیا) صیغہ جمع مذکر حاضر تم اگاؤ گے۔ تم اگا سکوگے۔ تم اگا سکو۔ شجرھا۔ مضاف مجاف الیہ ھا ضمیر واحد مؤنث کا مرجع حدائق ہے۔ ء الہ مع اللہ۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا خدا بھی ہے (جو اس کی اس کاریگری میں معاون و مدد گار ہو ؟ ) بل حرف اضراب ہے ماقبل کی تصحیح اور مابعد کے ابطال کے لئے ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی اس صناعی میں اس کا کوئی مدد گار نہیں ہے بلکہ یہ لوگ ہی راہ حق سے بھٹکے جا رہے ہیں۔ یعدون ۔ مضارع جمع مذکر غائب ۔ (1) العدل مصدر سے ہے تو اس میں مساوات کے معنی پائے جاتے ہیں عدل یعدل فلانا بفلان (باب ضرب) ایک کو دوسرے کے ساتھ برابر گرداننا۔ قرآن مجید میں ہے اوعدل ذلک صیاما (5:95) یا اس کے برابر روزے رکھنا اس صورت میں معنی ہوں گے ای یسادون بہ غیرہ اس کے ساتھ غیر اللہ کو برابری دیتے ہیں۔ (2) اگر العدول مصدر سے ہے تو بمعنی انحراف کے ہے ای انحراف عن طریق الحق راہ راست سے بھٹکنا یا انحراف کرنا۔ اور بل ھم قوم یعدلون کا ترجمہ ہوگا : بلکہ یہ لوگ ہیں ہی حق سے انحراف کرنے والے۔
Top