Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 27
تُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّهَارِ وَ تُوْلِجُ النَّهَارَ فِی الَّیْلِ١٘ وَ تُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ تُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ١٘ وَ تَرْزُقُ مَنْ تَشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ
تُوْلِجُ : تو داخل کرتا ہے الَّيْلَ : رات فِي النَّهَارِ : دن میں وَتُوْلِجُ : اور داخل کرتا ہے تو النَّهَارَ : دن فِي الَّيْلِ : رات میں وَتُخْرِجُ : اور تو نکالتا ہے الْحَيَّ : جاندار مِنَ : سے الْمَيِّتِ : بےجان وَتُخْرِجُ : اور تو نکالتا ہے الْمَيِّتَ : بےجان مِنَ : سے الْحَيِّ : جاندار وَتَرْزُقُ : اور تو رزق دیتا ہے مَنْ : جسے تَشَآءُ : تو چاہے بِغَيْرِ حِسَابٍ : بےحساب
تو وہی رات کو دن میں داخل کرتا اور تو ہی دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور تو ہی بےجان سے جاندار پیدا کرتا ہے اور تو ہی جاندار سے بےجان پیدا کرتا ہے اور تو ہی جس کو چاہتا ہے بیشمار رزق بخشتا ہے
آیت نمبر : 27۔ حضرت ابن عباس، مجاہد، حسن، قتادہ، اور سدی رحمۃ اللہ علہیم نے ارشاد باری تعالیٰ (آیت) ” تولج الیل فی النھار “۔ کے معنی میں بیان کیا ہے کہ تو دونوں (رات اور دن) میں سے ایک کی کمی کو دوسرے میں داخل کردیتا ہے۔ (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 417 دارالکتب العلمیہ) یہاں تک کہ دن پندرہ ساعت کا ہوجاتا ہے اور وہ طویل ترین دن ہوتا ہے اور رات نو ساعت کی ہوجاتی ہے اور وہ چھوٹی ترین رات ہوتی ہے، اور اسی طرح (آیت) ” تولج الیل فی النھار “۔ کا معنی بھی ہے۔ اور یہ کلبی کا قول ہے اور حضرت ابن مسعود ؓ سے مروی ہے اور آیت کے الفاظ یہ احتمال بھی رکھتے ہیں کہ اس میں رات اور دن کا ایک دوسرے کے پیچھے آنا داخل ہو اور ان میں سے ایک کا زوال دوسرے میں داخل ہونا ہو (3) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 417 دارالکتب العلمیہ) اور ارشاد باری تعالیٰ : (آیت) ” وتخرج الحی من المیت “۔ کے معنی میں مفسرین نے اختلاف کیا ہے، پس حسن (رح) نے کہا ہے : اس کا معنی ہے تو مومن کو کافر سے اور کافر کو مومن سے نکالتا ہے، اسی طرح حضرت سلمان فارسی ؓ سے مروی ہے، اور معمر نے حضرت زہری (رح) سے روایت کیا ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ اپنی عورتوں کے پاس تشریف لے گئے تو وہاں ایک حسین و جمیل عورت موجود تھی، آپ ﷺ نے پوچھا : ” یہ کون ہے ؟ “ تو انہوں نے عرض کی : یہ آپ کی خالاؤں میں سے ایک ہے، آپ نے پھر ارشاد فرمایا : ” یہ کون ہے ؟ “ انہوں نے عرض کی : یہ خالدہ بنت اسود بن عبد یغوث ہے، تب حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : سبحان الذی یخرج الحی من المیت “ (پاک ہے وہ ذات جو زندہ کو مردہ سے نکالتی ہے) وہ عورت نیک اور صالحہ تھی اور اس کا باپ کافر تھا، تو اس قول کی بنا پر مراد یہ ہے کہ کافر کا دل مردہ ہے اور مومن کا دل زندہ ہے، پس موت اور حیات دونوں مستعار ہیں۔ اور اکثر علماء نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ آیت میں حیات اور موت دونوں حقیقت ہیں، اور حضرت عکرمہ نے کہا ہے کہ اس سے مراد مرغی کو انڈے سے نکالنا ہے اس میں مرغی زندہ ہے اور انڈا مردہ ہے اور انڈا جو کہ مردہ ہے اسے مرغی سے نکالتا ہے جو کہ زندہ ہے۔ اور حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا : مراد نطفہ ہے جو آدمی سے خارج ہوتا ہے اور اس میں نطفہ مردہ ہے اور آدمی زندہ ہے اور آدمی نطفہ سے زندہ نکلتا ہے حالانکہ نطفہ مردہ ہے۔ اور حضرت عکرمہ اور سدی (رح) نے کہا ہے : مراد دانہ ہے جو بالی سے نکلتا ہے اور بالی دانے سے نکلتی ہے اور گٹھلی کھجور سے نکلتی ہے اور کھجور گٹھلی سے نکلتی ہے اور کھجور اور بالی میں حیات تشبیہا موجود ہے (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 418 دارالکتب العلمیہ) پھر فرمایا : (آیت) ” وترزق من تشآء بغیر حساب “۔ گویا کہ وہ جو کچھ عطا کرتا ہے اس کا حساب نہیں لے گا۔
Top