Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 33
اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰۤى اٰدَمَ وَ نُوْحًا وَّ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ وَ اٰلَ عِمْرٰنَ عَلَى الْعٰلَمِیْنَۙ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ اصْطَفٰٓي : چن لیا اٰدَمَ : آدم وَنُوْحًا : اور نوح وَّاٰلَ اِبْرٰهِيْمَ : اور ابراہیم کا گھرانہ وَاٰلَ عِمْرٰنَ : اور عمران کا گھرانہ عَلَي : پر الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہان
خدا نے آدم اور نوح اور خاندان ابراہیم اور خاندان عمران کو تمام جہان کے لوگوں میں منتخب فرمایا تھا
آیت نمبر : 33۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ان اللہ اصطفی ادم ونوحا “۔ اصطفی بمعنی اختیار ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے چن لیا، سورة البقرہ میں اس کا ذکر گزر چکا ہے، اسی طرح آدم کا مادہ اشتقاق اور آپ کی کنیت کا تذکرہ بھی ہوچکا ہے اور تقدیر کلام یہ ہے ” ان اللہ اصطفی دینھم “۔ بیشک اللہ تعالیٰنے ان کا دین چن لیا اور وہ دین، دین اسلام ہے، سو مضاف کو حذف کردیا گیا ہے۔ اور زجاج نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کے زمانے کے رہنے والوں پر نبوت کے لئے چن لیا اور ” ونوحا “ کے بارے کہا گیا ہے کہ یہ ناح ینوح سے مشتق ہے اور یہ عجمی اسم ہے مگر یہ منصرف ہے کیونکہ یہ سہ حرفی ہے (اور اس کا درمیان والا حرف ساکن ہے) اور آپ مرسلین کے شیخ ہیں اور آپ ہی پہلے رسول ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کے بعد اہل زمین کی طرف مبعوث فرمایا اور ساتھ ہی بیٹیاں، بہنیں، پھوپھیاں، خالائیں اور تمام قرابت رکھنے والی عورتیں حرام قرار دیں، اور جس کسی نے یہ کہا ہے کہ بعض مؤرخین کے نزدیک حضرت ادریس (علیہ السلام) آپ سے پہلے تھے، اسے وہم ہی ہے اس کا بیان سورة الاعراف میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” وال ابرھیم وال عمرن علی العلمین “۔ ال کا معنی اور جس پر اس کا اطلاق کیا جاسکتا ہے مکمل طور پر اس کا بیان سورة البقرہ میں ہوچکا ہے، اور بخاری شریف میں حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا : آل ابراہیم اور آل عمران سے مراد وہ مومنین ہیں جو آل ابراہیم، آل عمران، آل یاسین، اور آل محمد ﷺ میں سے مومینن ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (آیت) ” ان اولی الناس بابرھیم للذین اتبعوہ وھذا النبی والذین امنوا، واللہ ولی المؤمنین “۔ (1) (آل عمران) ترجمہ : بیشک نزدیک تر لوگ ابراہیم (علیہ السلام) سے وہ تھے جنہوں نے ان کی پیروی کی نیز یہ نبی (کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور جو (اس نبی پر) ایمان لائے اللہ تعالیٰ مددگار ہے مومنوں کا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آل ابراہیم سے مراد حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ، حضرت اسحاق (علیہ السلام) ، حضرت یعقوب (علیہ السلام) اور ان کی اولاد ہے اور یہ کہ حضور نبی رحمت ﷺ بھی آل ابراہیم میں سے ہیں (2) (معالم التنزیل، جلد 1، صفحہ 452) اور یہ قول بھی ہے کہ آل براہیم سے مراد ان کی اپنی ذات ہے، اور اسی طرح آل عمران ہے، اس کے بارے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” وبقیۃ مما ترک ال موسیٰ وال ھرون “۔ (البقرہ : 248) ترجمہ : اور (اس میں) بچی ہوئی چیزیں ہوں گی جنہیں چھوڑ گئی ہے اولاد موسیٰ اور اولاد ہارون (3) (صحیح بخاری، فضائل القرآن، جلد 2، صفحہ 755، ) اور حدیث میں ہے : ” مجھے آل داؤد کی دعاؤں میں سے ایک دعا عطا کی گئی “۔ (4) (صحیح بخاری، باب حسن الصوت باالقرائۃ للقران، حدیث 4660، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور شاعر نے کہا ہے : ولا تبک میتا بعد میت احبہ علی وعباس وال ابی بکر (5) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 423 دارالکتب العلمیہ) اور تو نہ رو کسی میت پر اپنے سب سے زیادہ محبت کرنے والوں کے مرنے کے بعد یعنی حضرت علی ؓ ، حضرت عباس ؓ ، اور آل ابی بکر رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اس میں آل ابی بکر سے مراد ان کی ذات ہے۔ اور ایک دوسرے شاعر نے کہا ہے : یلاتی من تذکر ال لیلی کما یلقی التسلیم من العداد : اس میں تذکر آل لیلی سے مراد اس کی ذات ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آل عمران ہی آل ابراہیم ہے۔ جیسا کہ فرمایا (آیت) ” ذریۃ بعضھا من بعض “۔ اور یہ قول بھی ہے کہ مراد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں، کیونکہ آپ کی والدہ عمران کی بیٹی ہے اور یہ قول بھی ہے : ان کی اپنی ذات مراد ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے، مقاتل نے کہا ہے : وہ عمران حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کے باپ ہیں اور وہ عمران بن یصہر فاھاث بن لاوی بن یعقوب ہیں۔ (1) (معالم التنزیل جلد 1، صفحہ 453) اور کلبی نے کہا ہے : وہ مریم باپ عمران ہیں اور وہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہیں۔ اور سہیلی نے بیان کیا ہے : وہ عمران ابن ماتان ہیں اور ان کی بیوی حنہ (بالنون) ہے، انبیاء (علیہم السلام) میں سے خاص طور پر ان کا ذکر کیا ہے، کیونکہ تمام کے تمام انبیاء ورسل (علیہم السلام) انہیں کی نسل میں سے ہیں، اور عمران غیر منصرف ہے کیونکہ اس کے آخر میں الف نون زائدتان ہے۔ اور قولہ تعالیٰ (آیت) ” علی العلمین “۔ کا معنی ہے علی عالمی زمانھم “۔ (یعنی انہیں اپنے زمانے کے باسیوں پر چن لیا) یہ اہل تفسیر کے قول کے مطابق ہے اور ترمذی حکیم ابو عبداللہ محمد بن علی نے کہا ہے : جمیع الخلق کلھم یعنی تمام مخلوق پر۔ اور کہا گیا ہے : (آیت) ” علی العلمین “۔ صور پھونکنے کے دن تمام مخلوق پر (انہیں چن لیا) اور یہ اس لئے کہ یہ رسل اور انبیاء (علیہم السلام) تھے اور یہی مخلوق میں چنے ہوئے تھے۔ اور رہے حضور نبی رحمت محمد مصفطی ﷺ تو آپ کا مرتبہ (مقام) اصطفاء سے کہیں بلند ہے کیونکہ آپ تو اللہ تعالیٰ کے حبیب اور رحمت ہیں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) ” وما ارسلنک الا رحمۃ اللعلمین “۔ (الانبیائ) پس اور رسول (علیہم السلام) رحمت کے لئے پیدا کئے گئے اور حضرت محمد ﷺ کی ذات کو سراپا رحمت تخلیق فرمایا گیا، اسی لئے آپ مخلوق کے لئے امان بن گئے، جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو مبعوث فرمایا تو مخلوق یوم قیامت تک عذاب سے محفوظ ومامون ہوگئی، اور بقیہ تمام انبیاء (علیہم السلام) اس مقام پر فائز نہ ہوئے، اسی لئے آپ ﷺ نے فرمایا ” انا رحمۃ مھداۃ (2) (شعب الا ایمان، کتاب حب النبی ﷺ جلد 2 صفحہ 164، حدیث نمبر 1446) آپ خبر دے رہے ہیں کہ آپ کی ذات اللہ تعالیٰ کی جانب سے مخلوق کے لئے رحمت ہے۔ اور آپ کا قول مھداۃ کا معنی ہے : آپ اللہ تعالیٰ کی جانب سے مخلوق کے لئے ہدیہ اور تحفہ ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ﷺ کو پانچ چیزوں کے ساتھ چنا، ان میں سے پہلی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نین انہیں اپنے دست قدرت کے ساتھ انتہائی حسین صورت میں تخلیق فرمایا، دوسری یہ ہے کہ انہیں تمام چیزوں کے اسماء سکھادیئے، تیسری یہ ہے کہ ملائکہ کو حکم ارشاد فرمایا کہ وہ انہیں سجدہ کریں، چوتھی یہ ہے کہ انہیں جنت میں سکونت عطا فرمائی اور پانچویں یہ ہے کہ انہیں ابو البشر بنایا اور پانچ چیزوں کے ساتھ حضرت نوح (علیہ السلام) کو منتخب فرمایا : پہلی یہ کہ آپ کو ابوالبشر بنایا کیونکہ پہلے تمام لوگ غرق کردیئے گئے اور صرف آپ کی ذریت اور اولاد ہی باقی رہی اور دوسری یہ کہ آپکو طویل عمر عطا فرمائی اور کہا جاتا ہے : مبارک اور بشارت ہے اس کے لئے جس کی عمر طویل ہو اور اس کا علم حسین اور اچھا ہو۔ (3) (جامع ترمذی باب ما جاء فی طول العمر للمومن حدیث نمبر 2251، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور تیسری یہ کہ کفار اور مومنین کے بارے میں آپ کی دعا کو قبول فرمایا اور چوتھی یہ ہے کہ آپ کو کشتی پر اٹھایا اور پانچویں یہ کہ آپ پہلے آدمی تھے جنہوں نے احکام شرعیہ کو منسوخ کیا، آپ سے پہلے خالاؤں اور پھوپھیوں سے شادی کرنا حرام نہ تھا، اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بھی پانچ چیزوں کے ساتھ چنا : پہلی یہ کہ آپ کو ابو الانبیاء بنایا، کیونکہ یہ روایت ہے کہ آپ کے زمانہ سے لے کر حضور نبی مکرم ﷺ کے زمانہ تک آپ کی صلب سے ایک ہزار نبی تشریف لائے اور دوسری یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنا خلیل بنایا، تیسری یہ کہ آپ کو نار نمرود سے نجات عطا فرمائی (اور اسے آپکے لئے گلزار بنا دیا) اور چوتھی یہ کہ آپ کو لوگوں کا امام بنایا اور پانچویں یہ کہ آپ کو کچھ کلمات کے ساتھ آزمایا اور آپ کو توفیق عطا فرمائی یہاں تک کہ آپ نے انہیں مکمل فرما لیا، (یعنی آپ تمام آزمائشوں میں کامیاب وکامران ہوئے) پھر فرمایا (آیت) ” وال عمرن “۔ اگر عمران حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کے والد ہیں تو یقینا اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو عالمین پر چن لیا اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم پر من وسلوی نازل فرمایا اور عالم میں انبیاء (علیہم السلام) میں سے کسی ایک کے لئے بھی ایسا نہیں ہوا، اور اگر عمران حضرت مریم (علیہا السلام) کے باپ ہیں، تو پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے مریم کو چن لیا کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بغیر باپ کے جنم دیا اور عالم میں کسی کے لئے بھی ایسا نہیں ہوا۔ واللہ اعلم۔
Top