Tafseer-e-Mazhari - Al-Ghaafir : 67
قَالَتْ رَبِّ اَنّٰى یَكُوْنُ لِیْ وَلَدٌ وَّ لَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ١ؕ قَالَ كَذٰلِكِ اللّٰهُ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ١ؕ اِذَا قَضٰۤى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ
قَالَتْ : وہ بولی رَبِّ : اے میرے رب اَنّٰى : کیسے يَكُوْنُ لِيْ : ہوگا میرے ہاں وَلَدٌ : بیٹا وَّلَمْ : اور نہیں يَمْسَسْنِىْ : ہاتھ لگایا مجھے بَشَرٌ : کوئی مرد قَالَ : اس نے کہا كَذٰلِكِ : اسی طرح اللّٰهُ : اللہ يَخْلُقُ : پیدا کرتا ہے مَا يَشَآءُ : جو وہ چاہتا ہے اِذَا : جب قَضٰٓى : وہ ارادہ کرتا ہے اَمْرًا : کوئی کام فَاِنَّمَا : تو يَقُوْلُ : وہ کہتا ہے لَهٗ : اس کو كُنْ : ہوجا فَيَكُوْنُ : سو وہ ہوجاتا ہے
مریم نے کہا پروردگار میرے ہاں بچہ ہاں کیونکر ہوگا کہ انسان نے مجھے ہاتھ تک تو لگایا نہیں ؟ فرمایا کہ خدا اسی طرح جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جب وہ کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو ارشاد فرما دیتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہوجاتا ہے
آیت نمبر : 47۔ قولہ تعالیٰ (آیت) ” قالت رب “ مریم بولیں اے میرے سردار، آپ حضرت جبریل (علیہ السلام) کو خطاب کر رہی ہیں، کیونکہ جب وہ اس کے پاس انسانی شکل میں آئے اور اسے کہا : بلاشبہ میں تیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں تاکہ وہ تجھے ایک پاکیزہ کو برو بچہ عطا فرمائے تو جب مریم نے ان کا یہ قول سنا تو آپ نے ان سے بچہ کے طریقہ کے بارے پوچھا اور کہا : میرے ہاں بچہ کیوں کر ہو سکتا ہے حالانکہ کسی انسان نے مجھے ہاتھ نہیں لگایا ؟ یعنی نکاح کے ساتھ (سورۃ مریم میں ہے) (آیت) ” ولم اک بغیا “۔ (مریم) (اور نہ میں بدچلن ہوں) انہوں نے یہ بطور تاکید ذکر کیا ہے، کیونکہ ان کا یہ قول (آیت) ” لم یمسسنی بشر “۔ (مجھے کسی انسان نے ہاتھ نہیں لگایا) حرام اور حلال دونوں طریقوں کو شامل ہے، آپ کہتی ہیں : وہ عادت جاریہ جو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں جاری کر رکھی ہے وہ یہ ہے کہ بچہ پیدا ہوتا ہے نکاح سے یا زنا سے، اور کہا گیا ہے : اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کوئی بھی بعید نہیں سمجھا، لیکن ارادہ یہ کیا کہ یہ بچہ کیسے ہوگا، کیا مستقبل میں خاوند کی جانب سے یا بتداء ہی اللہ تعالیٰ اسے پیدا فرمائے گا ؟ اور روایت ہے کہ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے جس وقت مریم کو کہا : (آیت) ” کذالک اللہ یخلق مایشآء (بات یونہی ہے اللہ پیدا فرماتا ہے جو چاہتا ہے) (آیت) ” قال کذالک قال ربک ھو علی ھین “۔ ترجمہ ؛ اس نے کہا اسی طرح ہے تیرے رب نے فرمایا ہے وہ مجھ پر آسان ہے۔ انہوں نے مریم کی قمیص کے گریبان اور ان کی آستین میں پھونک ماری ابن جریج نے یہی کہا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا ہے : حضرت جبریل (علیہ السلام) نے اپنی انگلی کے ساتھ انکی قمیص کی آستین کو پکڑا اور وہ اسی ساعت میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے حاملہ ہوگئیں، اس کے علاوہ بھی کئی اقوال ہیں۔ اس کا بیان سورة مریم میں آگے آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اور بعض نے کہا ہے : جبریل امین (علیہ السلام) کی پھونک مریم کے رحم پر پڑی پس وہ اس کے سبب حاملہ ہوگئی، اور بعض نے کہا ہے : یہ جائز نہیں ہے کہ تخلیق جبریل امین (علیہ السلام) کی پھونک سے ہو کیونکہ اس طرح جزوی طور پر بچہ ملائکہ میں سے ہوجائے گا اور اس کا بعض انسانوں میں سے ہوگا لیکن اس کا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب آدم (علیہ السلام) کو تخلیق فرمایا اور ان کی اولاد سے عہد و پیمان لیا تو کچھ پانی باپوں کی صلبوں میں رکھ دیا اور کچھ ماؤں کی رحموں میں پس جب یہ دونوں پانی جمع ہوں تو بچہ بن گیا اور اللہ تعالیٰ دونوں پانی اکٹھے مریم میں رکھ دیئے کچھ ان کی رحم میں اور کچھ ان کی صلب میں پس جبریل امین نے اس میں پھونک ماری تاکہ ان کی شہوت بھڑک جائے، کیونکہ عورت کی شہوت میں جب تک ہیجان پیدا نہ ہو وہ حاملہ نہیں ہوتی پس جب حضرت جبریل امین کی پھونک سے انکی شہوت میں انگیخت پیدا ہوئی تو وہ پانی جو ان کی صلب میں تھا وہ رحم میں آ گرا اور اس طرح دونوں پانی آپس میں مل گئے تو اس طرح استقرار حمل ہوگیا، پس اسی کے بارے ارشاد باری تعالیٰ : (آیت) ” اذقضی امرا یعنی جب وہ کسی شے کو پیدا کرنے ارادہ فرماتا ہے تو اسے کہتا ہے کن تو ہوجا، تو وہ شے ہوجاتی ہے، اس بارے میں مکمل گفتگو سورة البقرہ میں گر چکی ہے۔
Top