Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 98
قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ١ۖۗ وَ اللّٰهُ شَهِیْدٌ عَلٰى مَا تَعْمَلُوْنَ
قُلْ : کہ دیں يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ : اے اہل کتاب لِمَ : کیوں تَكْفُرُوْنَ : تم انکار کرتے ہو بِاٰيٰتِ : آیتیں اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ شَهِيْدٌ : گواہ عَلٰي : پر مَا تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو
کہو کہ اے اہل کتاب تم خدا کی آیتوں سے کیوں کفر کرتے ہو ؟ اور خدا تمہارے سب اعمال سے باخبر ہے
آیت نمبر 99۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” قل یاھل الکتب لم تصدون عن سبیل اللہ “۔ یعنی (اے اہل کتاب) تم کیونکر اللہ تعالیٰ کے دین سے پھرتے ہو۔ (آیت) ” من امن “۔ (اے جو ایمان لا چکا) حسن نے تصدون ’ تاء کے ضمہ اور صاد کے کسرہ کے ساتھ قرات کی ہے اور یہ دونوں لغتیں ہیں (یعنی) صد اور اصد مثلا صل اللحم اور اصل جب گوشت بدبودار ہوجائے، اور ختم اور اختم بھی ہے جب تغیر اور تبدیلی آجائے، (آیت) ” تبغونھا عوجا “۔ یعنی تم اس کے لئے چاہتے ہو۔ (یعنی تبغونھا بمعنی تطلبون لھا ہے) پھر اس سے لام کو حذف کردیا گیا ہے جیسا کہ واذا کالوھم میں کہا گیا ہے، کہا جاتا ہے : بغیت لہ کذا یعنی طلبتہ میں نے اسے طلب کیا، چاہا، اور ابغیتہ کذا یعنی میں نے اس کی مدد کی، اور العوج کا معنی جھکنا اور ٹیڑھا ہونا ہے دین میں، قول میں اور عمل میں اور ہر وہ جو سیدھے راستے سے نکل جائے۔ (یہ معنی تب ہے جب عین مسکور ہو۔ ) اور اگر عین مفتوح ہو تو پھر معنی ہے دیوار کا ٹیڑھا ہونا اور ہر کھڑے ہونے والے شخص کا ٹیڑھا ہونا، یہ ابو عبیدہ وغیرہ سے منقول ہے، اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد ” یتبعون الداعی لاعوج لہ “۔ کا معنی ہے وہ اس کی دعوت سے ٹیڑھا ہونے کی قدرت نہیں رکھتے، اور عاج بالمکان وعوج کا معنی ہے (سیدھا) کھڑا ہوا اور ٹھہرا، اور المعائج ٹھہرنے والے کو کہتے ہیں۔ شاعر کا قول ہے : ھل انتم عائجون بنا لعنا نری العرصات اواثرالخیام : اور الرجل الاعوج کا معنی ہے بداخلاق آدمی اور وہ جس کا ٹیڑھا پن واضح اور ظاہر ہو اور العوج من الخیل سے مراد وہ گھوڑا ہے جس کی ٹانگوں میں ٹیڑھا پن اور دوری ہو۔ اور اعوجیۃ من الخیل کی نسبت ایسے گھوڑے کی طرف کی جاتی ہے جو زمانہ جاہلیت میں (تیز رفتار اور) دوسروں پر سبقت لے جانے والا ہوتا۔ اور کہا جاتا ہے : فرس محنت یعنی جب دونوں ٹانگوں کے درمیان بغیر پھیلاؤ کے دوری ہو اور یہ مدح اور تعریف ہے اور کہا جاتا ہے : الحنب یعنی دونوں پنڈلیوں میں ٹیڑھا پن ہونا، خلیل نے کہا ہے : التخنیب جو شدت (قوت) سے متصف ہے اور یہ اعوجاج (ٹیڑھا پن) نہیں ہے۔ قولہ تعالیٰ (آیت) ” وانتم شھدآئ “ حالانکہ تم عقلمند ہو (اور سمجھ بوجھ رکھتے ہو) اور یہ بھی کہا گیا ہے : حالانکہ تم تو رات میں اسے لکھتے ہوئے پر گواہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کا وہ دین جس کے بغیر کوئی دین قبول نہ کیا جائے گا وہ اسلام ہے، کیونکہ اس میں حضور نبی رحمت محمد مصطفیٰ ﷺ کی نعت (اور اوصاف کا بیان) ہے۔
Top