Al-Qurtubi - Faatir : 20
وَ لَا الظُّلُمٰتُ وَ لَا النُّوْرُۙ
وَلَا الظُّلُمٰتُ : اور نہ اندھیرے وَلَا النُّوْرُ : اور نہ روشنی
اور نہ اندھیرا اور روشنی
آیت : ولا الظلمت ولا النورا خفش اور سعید نے کہا : لا زائدہ ہے اس کا معنی ہے ولا الظلمات والنور ولا الظل والحر ورنہ تاریکیاں اور نور اور نہ سائے اور تپش۔ اخفش نے کہا : حرور (تپش) سورج کے ساتھ ہوتی ہے اور سموم رات کے ساتھ ہوتی ہے (2) ( تفسیر الماوردی، جلد 4، صفحہ 469) ایک قول اس کے برعکس کیا گیا ہے۔ مہدوی نے حکایت بیان کی ہے، فراء نے کہا : سموم دن کے وقت ہوتی ہے اور حرور دن اور رات میں ہوتی ہے (3) (ایضا) ۔ نحاس نے کہا : یہ قول زیادہ صحیح ہے، کیونکہ حرور فعول کا وزن ہے یہ حر سے مشتق ہے اس میں کثرت کا معنی پایا جاتا ہے یعنی تکلیف دہ گری۔ میں کہتا ہوں : حضرت ابوہریرہ ؓ سے صحیح مسلم میں روایت مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :” جہنم نے عرض کی : اے میرے رب ! میرے بعض نے بعض کو کھالیا ہے مجھے اجازت دیجیئے کہ میں دو سانس لے لوں ایک سانس موسم سرما میں اور ایک سانس موسم گرما میں۔ تم جو سردی یا سخت ٹھنڈک پاتے ہو تو یہ جہنم کے سانس لینے کی وجہ سے ہے اور تم جو گرمی یا شدید گرمی پاتے ہو تو یہ جہنم کے سانس کی وجہ سے ہے “ (4) ( صحیح مسلم، کتاب المساجد، و مواضع الصلوۃ، استحباب الا براد با الظھر، جلد 1، صفحہ 224 ) ۔ زہری نے سعد سے وہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں ” تم جو گرمی پاتے ہو تو یہ اس کے سموم سے ہے اور تم جو شدت کی سردی پاتے ہو تو اس کی زمہریر سے ہے “ (5) (صحیح مسلم، کتاب الصلوۃ۔۔۔۔۔۔ ، جلد 1، صفحہ 224 ) ۔ یہ ان تمام اقوال کے جامع ہے۔ سموم اور حرور یہ رات اور دن کو ہوتے ہیں۔ جنت دائمی سائے والی ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : آیت : اکلھا دآم وظلھا (الرعد :35) جہنم گرمی والی ہے ؛ یہ معنی سدی نے کیا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : رات کا سایہ اور دن کے وقت سموم کی گرمی (6) (تفسیر الماوردی، جلد 4، صفحہ 469) قطرب نے کہا : حرور سے مراد گرمی اور ظل سے مراد سردی ہے۔
Top