Al-Qurtubi - Al-Ghaafir : 77
فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ١ۚ فَاِمَّا نُرِیَنَّكَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُهُمْ اَوْ نَتَوَفَّیَنَّكَ فَاِلَیْنَا یُرْجَعُوْنَ
فَاصْبِرْ : پس آپ صبر کریں اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ : بیشک اللہ کا وعدہ حَقٌّ ۚ : سچا فَاِمَّا : پس اگر نُرِيَنَّكَ : ہم آپ کو دکھادیں بَعْضَ : بعض (کچھ حصہ) الَّذِيْ : وہ جو نَعِدُهُمْ : ہم ان سے وعدہ کرتے تھے اَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ : یا ہم آپ کو وفات دیدیں فَاِلَيْنَا : پس ہماری طرف يُرْجَعُوْنَ : وہ لوٹائے جائیں گے
تو (اے پیغمبر ﷺ صبر کرو خدا کا وعدہ سچا ہے اگر ہم تم کو کچھ اس میں سے دکھا دیں جس کا ہم تم سے وعدہ کرتے ہیں (یعنی کافروں پر عذاب نازل کریں) یا تمہاری مدت حیات پوری کردیں تو انکو ہماری طرف ہی لوٹ کر آنا ہے
فاصبر ان وعد اللہ حق یہ نبی کریم ﷺ کو تسلی دینے کے لیے ہے۔ ہم تیرے لیے ان سے انتقام ضرور لیں گے اس دنیا میں اور آخرت میں فاما نرینک شرط کی وجہ سے محل جزم میں ہے ” ما “ تاکید کی وجہ سے زائدہ ہے اسی طرح نون بھی تاکید کے لیے ہے جزم زائل ہوگئی اور فعل منبی پر فتحہ ہوگیا۔ اوتتو فینک اس کا اس پر عطف ہے فالینا یرجعون یہ شرط کا جواب ہے ولقد ارسلنا رسلا ًمن قبلک اس آیت میں بھی نبی کریم ﷺ کو تسلی دی گئی کہ ان سے قبل رسولوں نے تکلیفیں پائی ہیں منھم من قصصنا علیک یعنی ہم نے ان خبریں تمہیں بتائیں اور انہوں نے اپنی قوموں سے جو کچھ حاصل کیا وہ تمہیں بتایا ومنھم من لم نقصص علیک وما کان الرسول ان یاتی یاتہ یعنی کوئی رسول بھی اپنی جانب سے کوئی آیت نہیں لایا تھا الا باذن للہ فاذا جاء امر اللہ یعنی جب ان کے عذاب کا مقررہ وقت آپہنچا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ہلاک کردیا اس میں تاخیر اس لیے ہو رہی ہے تاکہ وہ لوگ اسلام لے آئیں جن کے اسلام لانے کا اللہ تعالیٰ کو علم ہے اور اسی طرح جو ان کی پشتوں میں ہیں اور انہوں نے اسلام قبول کرنا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس کے ساتھ غزوہ بدرہ میں قتل کی طرف اشارہ ہے قضی بالحق و خسرھنا لک المبطلون۔ مبطلون سے مراد ہے جو باطل اور شرک کی اتباع کرتے ہیں۔
Top