Al-Qurtubi - Al-Hijr : 45
وَ سْئَلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُّسُلِنَاۤ اَجَعَلْنَا مِنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِهَةً یُّعْبَدُوْنَ۠   ۧ
وَسْئَلْ : اور پوچھ لیجئے مَنْ اَرْسَلْنَا : جس کو بھیجا ہم نے مِنْ قَبْلِكَ : آپ سے قبل مِنْ رُّسُلِنَآ : اپنے رسولوں میں سے اَجَعَلْنَا : کیا بنائے ہم نے مِنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ : رحمن کے سوا اٰلِهَةً : کچھ الہ يُّعْبَدُوْنَ : ان کی بندگی کی جائے
اور (اے محمد ﷺ جو اپنے پیغمبر ہم نے تم سے پہلے بھیجے ہیں ان سے دریافت کرلو کیا ہم نے (خدائے) رحمن کے سوا اور معبود بنائے تھے کہ ان کہ عبادت کی جائے
سے مراد مسجد بیت المقدس ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم اور آپ کی اولاد میں سے مرسلین کو بھیجا جبکہ جبریل امین نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے حضرت جبریل امین نے آذان کہی پھر نماز کے لئے اقامت کہی پھر کہا، اے محمد ! ﷺ آگے بڑھو اور انہیں نماز پڑھائو، جب رسول اللہ ﷺ فارغ ہوئے جبریل امین نے کہا، اے محمد ! آپ سے قبل جن رسولوں کو بھیجا گیا ہے ان سے پوچھئے : کیا اللہ تعالیٰ نے رحمٰن کے علاوہ اور الہ بنائے ہیں جن کی عبادت کی جاتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :” میں نہیں پوچھوں گا تو ہی کافی ہے “ حضر ابن عباس نے کہا، وہ ستر نبی تھے جن میں حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تھے آپ نے ان سے سوال نہ کیا کیونکہ ان کی بنسبت اللہ تعالیٰ کے بارے میں زیادہ علم رکھتے تھے۔ حضرت ابن عباس ؓ کے علاوہ دوسری روایت میں ہے انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سات صفیں بنا کر نماز پڑھی مرسلین کی تین صفیں تھیں اور انبیاء کی چار صفیں تھیں رسول اللہ ﷺ کے متصل پیچھے حضرت ابراہیم خلیل اللہ تھے ان کی دائیں جانب حضرت اسماعیل اور ان کے بائیں جانب حضرت اسحاق پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تھے پھر باقی ماندہ مرسلین تھے رسول اللہ ﷺ نے انہیں دو رکعتیں پڑھائیں جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو کھڑے ہوئے اور کہا، ” میرے رب نے میری طرف وحی کی کہ میں تم سے سوال کروں کیا تم میں سے کوئی ایسا رسول بھی بھیجا گیا ہے جو غیر اللہ کی عبادت کی طرف دعوت دیتا ہو ؟ “ انہوں نے کہا : اے محمد ! ﷺ ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہم سب ایک ہی دعوت کے ساتھ بھیجے گئے ہیں وہ لا الہ الا اللہ ہے اللہ تعالیٰ کی ذات کو چھوڑ کر جن کی وہ عبادت کیا کرتے ہیں وہ سب باطل ہے آپ خاتم النبین اور سید المرسلین ہیں آپ نے ہمیں جو امات کرائی ہے اس سے یہ امر ہمارے لئے ظاہر ہوچکا ہے تیرے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں مگر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں انہیں حکم دیا گیا ہے کہ وہ آپ کے نقش قدم کی پیروی کریں۔ (1) سعید بن جبیر نے اللہ تعالیٰ کے فرمان وسئل من ارسلنا من قبلک من رسلنا کے بارے میں فرمایا کہ نبی کریم ﷺ لیلتہ المعراج کو رسولوں سے ملے۔ ولید بن مسلم نے اس ارشاد کی وضاحت میں کہا، میں نے اس بارے میں خلید بن وعلج سے پوچھا تو انہوں نے کہا مجھے قتادہ نے بیان کیا کہا، معراج کی رات ان سے سوال کیا آپ انبیاء سے ملے حضرت آدم سے ملے اور جہنم کے خازن سے ملاقات کی۔ میں کہتا ہوں : اس آیت کی تفسیر میں یہی صحیح ہے۔ اس تعبیر کی بنا پر رسلنآ سے پہلے من زائد نہیں۔ مبرد اور علماء کی ایک جماعت نے کہا، اس کا معنی ہے تم سے قبل جو رسول بھیجے گئے ان کی امتوں سے پوچھو۔ یہ بھی روایت کی گی ہے کہ حضرت ابن مسعود کی قرأت میں ہے واسال الذی ارسلنا الیھم قبلک رسلنا یہ قرأت تفسیر کی بنا پر ہے اس تعبیر کی بنا پر من زائد ہے، یہ مجاہد، سدی، ضحاک، قتادہ، حسن بصری اور حضرت ابن عباس کا قول ہے (2) یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے پوچھیے جو دو کتابوں یعنی تو رات و انجیل والے ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : معنی ہے اے محمد چ ﷺ ہم سے ان انبیاء کے بارے میں پوچھیں جو آپ سے قبل مبعوث کئے گئے عن کو حذف کردیا گیا اور رسلنآ پر وقف تام ہے پھر انکا رکے طریقہ پر استفہام سے ابتدا کی گی۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے، آپ ان رسولوں کے پیروکاروں سے پوچھیں جن کو ہم نے آپ سے پہلے بھیجا تو یہاں سے مضاف محذوف ہے۔ خطاب نبی کریم ﷺ کو ہے اور مراد ساری امت ہے۔ اجعلنا من دون الرحمٰن الھۃ یعبدون۔ آلھۃ کی خبر اس صیغہ کے ساتھ لگائی گی جس صیغہ کے ساتھ ذوالعقول کی خبر لگائی جاتی ہے فرمایا یعبدون۔ تعبد اور یعبدن نہیں فرمایا کیونکہ ان کے نزدیک آلھتہ ذوالعقول کے قائم مقام ہیں تو ان کی خبر اسی طریقہ پر لگائی گئی جیسے ذوالعقول کی خبر لگائی جاتی ہے۔ سوال کے امر کا سبب یہ تھا کہ یہودیوں اور مشرکین نے نبی کریم ﷺ سے کہا تھا : جو آپ لاتے ہیں وہ اس کے مخالف ہے جو آپ سیق بل انبیاء لائے تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ آپ انبیاء سے سوال کریں (1) نبی کریم ﷺ نے ان سے سوال کیا تو رسولوں نے جواب دیا ہمیں توحید کا اعلان کرنے کے لئے مبعوث کیا گیا : یہ واقدی کا قول ہے۔ (2) نبی کریم ﷺ نے ان سے سوال نہیں کیا تھا کیونکہ انہیں اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں یقین تھا یہاں تک کہ یہ حکایت بیان کی گئی کہ حضت میکائیل نے حضرت جبریل امین سے پوچھا : کیا حضرت محمد ﷺ نے اس کے بارے میں سوال کیا ہے ؟ حضرت جبریل امین نے ہا، حضرت محمد ﷺ کا ایمان اور یقین اس سے ظعیم ہے کہ وہ اس کے بارے میں سوال کریں (1) یہ بحث دونوں روایات میں گذر چکی ہے جس کا ہم نے ذکر کیا ہے۔
Top