Tafseer-e-Mazhari - Az-Zukhruf : 45
وَ سْئَلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُّسُلِنَاۤ اَجَعَلْنَا مِنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِهَةً یُّعْبَدُوْنَ۠   ۧ
وَسْئَلْ : اور پوچھ لیجئے مَنْ اَرْسَلْنَا : جس کو بھیجا ہم نے مِنْ قَبْلِكَ : آپ سے قبل مِنْ رُّسُلِنَآ : اپنے رسولوں میں سے اَجَعَلْنَا : کیا بنائے ہم نے مِنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ : رحمن کے سوا اٰلِهَةً : کچھ الہ يُّعْبَدُوْنَ : ان کی بندگی کی جائے
اور (اے محمدﷺ) جو اپنے پیغمبر ہم نے تم سے پہلے بھیجے ہیں ان سے دریافت کرلو۔ کیا ہم نے (خدائے) رحمٰن کے سوا اور معبود بنائے تھے کہ ان کی عبادت کی جائے
وسئل من ارسلنا من قبلک من رسلنا اجعلنا من دون الرحمن الھۃ یعبدون اور آپ ان سب پیغمبروں سے (یعنی ان کی کتابوں سے اور تعلیم سے) جن کو آپ سے پہلے ہم نے بھیجا تھا ‘ پوچھ لیجئے کہ کیا ہم نے خدائے رحمن کے سوا اور معبود مقرر کر رکھے تھے کہ ان کی عبادت کی جاتی ہو ؟ بغوی نے لکھا ہے : اس بات میں علماء کا اختلاف ہے کہ آیت مذکورہ میں کن لوگوں سے دریافت کرنے کا حکم دیا گیا ہے (پیغمبروں سے یا پیغمبروں کی امتوں سے) عطاء کی روایت ہے کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا : جب معراج میں رسول اللہ ﷺ کو لے جایا گیا تو حضرت آدم اور آپ کی نسل میں جو انبیاء ہوئے ‘ سب کو رسول اللہ ﷺ سے ملنے کیلئے بھیجا گیا۔ حضرت جبرئیل نے اذان اور اقامت کہی اور کہا : محمد ﷺ ! آگے بڑھ کر نماز پڑھاؤ۔ رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھائی ‘ نماز سے فراغت کے بعد جبرئیل نے کہا : محمد ﷺ ! سل من ارسلنا قبلک من رسلنا (محمد ﷺ ! آپ سے پہلے جو انبیاء ہم نے بھیجے تھے ‘ ان سے دریافت کرو) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے پوچھنے کی ضرورت نہیں ‘ میرے لئے اتنا ہی کافی ہے۔ زہری ‘ سعید بن جبیر اور ابن زید کا قول بھی یہی ہے کہ شب معراج میں تمام انبیاء کو اللہ نے جمع کیا اور رسول اللہ ﷺ کو ان سے دریافت کرنے کا حکم دیا ‘ لیکن حضور ﷺ کو کوئی شک نہ تھا ‘ اسلئے آپ نے کسی سے کچھ سوال نہیں کیا۔ اکثر اہل تفسیر کا خیال ہے کہ مَنْ اَرْسَلْنَا سے پہلے اُمَم کا لفظ محذوف ہے ‘ یعنی گذشتہ انبیاء کی امتوں کے عالموں سے دریافت کرلو۔ علماءِ اُمم سے مراد ہیں وہ اہل کتاب جو ایمان لے آئے تھے (عطاء کے علاوہ) باقی تمام روایات میں حضرت ابن عباس کی طرف اس قول کی نسبت کی گئی ہے۔ مجاہد ‘ قتادہ ‘ ضحاک ‘ سدی ‘ حسن اور مقاتل کا بھی یہی قول ہے۔ حضرت ابن مسعود اور حضرت ابی بن کعب کی قرأت میں وَسْءَلِ الَّذِیْنَ اَرْسَلْنَا اِلَیْھِمْ قَبْلِکَ مِنْ رُّسُلِنَا (اور دریافت کرلیجئے ان لوگوں سے جن کے پاس آپ سے پہلے ہم نے اپنے پیغمبر بھیجے تھے) آیا ہے ‘ اس قرأت سے بھی حضرت ابن عباس وغیرہ کی مشہور تفسیر کی تائید ہوتی ہے۔ سوال کا مطلب (اپنے شک کا ازالہ نہیں بلکہ) مشرکین قریش کو یہ بتانا اور یقین دلانا مقصود ہے کہ ہر پیغمبر جو اللہ کی طرف سے بندوں کیلئے بھیجا گیا ‘ اس نے اللہ کے سوا دوسروں کو معبود قرار دینے کی ممانعت کی۔
Top