Al-Qurtubi - Al-Fath : 16
قُلْ لِّلْمُخَلَّفِیْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ اِلٰى قَوْمٍ اُولِیْ بَاْسٍ شَدِیْدٍ تُقَاتِلُوْنَهُمْ اَوْ یُسْلِمُوْنَ١ۚ فَاِنْ تُطِیْعُوْا یُؤْتِكُمُ اللّٰهُ اَجْرًا حَسَنًا١ۚ وَ اِنْ تَتَوَلَّوْا كَمَا تَوَلَّیْتُمْ مِّنْ قَبْلُ یُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا
قُلْ : فرمادیں لِّلْمُخَلَّفِيْنَ : پیچھے بیٹھ رہنے والوں کو مِنَ الْاَعْرَابِ : دیہاتیوں میں سے سَتُدْعَوْنَ : عنقریب تم بلائے جاؤگے اِلٰى : طرف قَوْمٍ : ایک قوم اُولِيْ بَاْسٍ شَدِيْدٍ : سخت لڑنے والی (جنگجو) تُقَاتِلُوْنَهُمْ : تم ان سے لڑتے رہو اَوْ : یا يُسْلِمُوْنَ ۚ : وہ اسلام قبول کرلیں فَاِنْ : اگر تُطِيْعُوْا : تم اطاعت کروگے يُؤْتِكُمُ اللّٰهُ : تمہیں دے گا اللہ اَجْرًا حَسَنًا ۚ : اجر اچھا وَاِنْ تَتَوَلَّوْا : اور اگر تم پھرگئے كَمَا تَوَلَّيْتُمْ : جیسے تم پھرگئے تھے مِّنْ قَبْلُ : اس سے قبل يُعَذِّبْكُمْ : وہ تمہیں عذاب دے گا عَذَابًا : عذاب اَلِيْمًا : دردناک
جو اعراب پیچھے رہ گئے تھے ان سے کہہ دو کہ تم جلد ایک سخت جنگجو قوم کے (ساتھ لڑائی کے) لئے بلائے جاؤ گے ان سے تم (یا تو) جنگ کرتے رہو گے یا وہ اسلام لے آئیں گے اگر تم حکم مانو گے تو خدا تم کو اچھا بدلا دے گا اور اگر منہ پھیر لو گے جیسے پہلی دفعہ پھیرا تھا تو وہ تم کو بری تکلیف کی سزا دے گا
اس میں چار مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: یعنی ان سے کہیں جو صلح حدیبیہ کے موقع پر پیچھے چھوڑے گئے تھے (1) حضرت ابن عباس ؓ ، عطا بن ابی رباح، مجاہد، ابن ابی لیلی اور عطا خراسانی نے کہا : وہ ایرانی لوگ ہیں۔ کعب، حضرت حسن بصری اور عبدالرحمن بن ابی لیلی نے کہا : وہ رومی ہیں : حضرت حسن بصری سے یہ بھی مروی ہے : وہ ایرانی اور رومی لوگ تھے۔ ابن جبیر نے کہا : مراد ہوازنثقفیف ہیں۔ عکرمہ نے کہا : مراد ہوازن ہیں۔ قتادہ نے کہا : مراد غزوہ حنین کے موقع پر ہوازن او غطفان ہیں۔ (2) زہری اور مقاتل نے کہا : مراد بنو حنیفہ ہیں جو اہل یمامہ تھے (3) جو مسلمہ کذاب کے ساتھی تھے۔ رافع بن خدیج نے کہا : اللہ کی قسم : ہم اس آیت پڑھا کرتے تھے ہم نہیں جانتے تھے کہ وہ کون لوگ ہیں یہاں تک کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے ہمیں بنو حنیفہ سے قتال کی دعوت دی تو ہمیں علم ہوگیا کہ وہ لوگ بنو حنیفہ ہی ہیں (4) حضرت ابوہریرہ نے کہا : اس آیت کا مصداق ابھی ظاہر نہیں ہوا جبکہ آیت کا ظاہر اس کا رد کرتا ہے۔ مسئلہ نمبر 2: یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق ؓ کی امات کی صحت پر دلیل ہے کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے لوگوں کو بنو حنیفہ سے جنگ کرنے کی دعوت دی اور حضرت عمر ؓ نے انہیں ایرانیوں اور رومیوں سے جنگ کرنے کی دعوت دی۔ جہاں تک عکرمہ اور قتادہ کا قول ہے کہ مراد ہوازن اور غطفان ہیں جن سے غزوہ حینن میں مقابلہ ہو تو اس میں دلیل یہ نہیں کیونکہ یہ امر ممتنع ہے کہ ان کے لئے داعی رسول اللہ ﷺ کی ذات ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (التوبہ 83) تو یہ اس امر پر دال ہے کہ داعی سے مراد نبی کریم ﷺ کی ذات کے علاوہ کوئی اور ذات ہے۔ یہ بات بھی معلوم و مشہور ہے کہ نبی کریم ﷺ کے بعد اس قوم کو دعوت نہیں دی مگر حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق نے انہیں دعوت دی زمحشری نے کہا : اگر یہ قتادہ سے ثابت ہو تو معنی ہوگا تم اس وقت تک میرے ساتھ نہیں نکل سکے گے جب تک تم میں دل کا مرض اور دین میں اضطراب موجود ہے۔ یا یہ مجاہد کے قول کے مطابق ہے تو ان کے ساتھ معاہدہ یہ ہوگا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی پیروی نہیں کریں گے مگر بطور نفل ان کا غنیمت میں کوئی حصہ نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ مسئلہ نمبر 3: یہ ان لوگوں کے لئے حکم ہے جس سے جزیہ وصول نہیں کیا جاتا : کا عطف پر ہے یعنی دو امروہوں میں سے ایک امر ہوگا یعنی جنگ یا اسلام۔ ان کی تیسری صورت نہیں۔ حضرت ابی کی قرأت میں یسلموا کے معنی میں ہے جس طرح تو کہتا ہے شاعر نے کہا : میں نے اسے کہا : تیری آنکھ نہ روئے بیشک ملک حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہاں تک کہ ہمیں موت آجائے تو ہم معذور ہوجائیں۔ زجاج نے کہا فرمایا : کیونکہ معنی ہے یعنی جنگ کے بغیر اطاعت قبول کرلیں۔ یہ حکم مشرکوں سے جنگ کرنے کے بارے میں ہے اہل کتاب کے بارے میں نہیں ہے۔ اجر حسن سے مراد دنیا میں غنیمت اور مدد ہے اور آخرت میں جنت ہے قبل سے مراد حدیبیہ کے موقع پر سفر ہے عذاب الیم سے مراد آگ کا عذاب ہے۔
Top