Al-Qurtubi - Al-Hujuraat : 9
وَ اِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَا١ۚ فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىهُمَا عَلَى الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰى تَفِیْٓءَ اِلٰۤى اَمْرِ اللّٰهِ١ۚ فَاِنْ فَآءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَ اَقْسِطُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ
وَاِنْ : اور اگر طَآئِفَتٰنِ : دو گروہ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں سے، کے اقْتَتَلُوْا : باہم لڑپڑیں فَاَصْلِحُوْا : توصلح کرادو تم بَيْنَهُمَا ۚ : ان دونوں کے درمیان فَاِنْۢ : پھر اگر بَغَتْ : زیادتی کرے اِحْدٰىهُمَا : ان دونوں میں سے ایک عَلَي الْاُخْرٰى : دوسرے پر فَقَاتِلُوا : تو تم لڑو الَّتِيْ : اس سے جو تَبْغِيْ : زیادتی کرتا ہے حَتّٰى : یہاں تک کہ تَفِيْٓءَ : رجوع کرے اِلٰٓى اَمْرِ اللّٰهِ ۚ : حکم الہی کی طرف فَاِنْ : پھر اگر جب فَآءَتْ : وہ رجوع کرلے فَاَصْلِحُوْا : تو صلح کرادو تم بَيْنَهُمَا : ان دونوں کے درمیان بِالْعَدْلِ : عدل کے ساتھ وَاَقْسِطُوْا ۭ : اور تم انصاف کیا کرو اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُقْسِطِيْنَ : انصاف کرنے والے
اور اگر مومنوں میں سے کوئی دو فریق آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو اور اگر ایک فریق دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف رجوع لائے پس وہ رجوع لائے تو دونوں فریق میں مساوات کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف سے کام لو کہ خدا انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے
اس میں دس مسائل ہیں :۔ مسئلہ نمبر 1:۔ معتمر بن سلیمان، حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت نقل کرتے ہیں (2) انہوں نے کہا : میں نے عرض کی : اے اللہ کے نبی : کاش آپ عبداللہ بن ابی کے ہاں جاتے : نبی کریم ﷺ اس کے پاس تشریف لے گئے آپ گدھے پر سوار ہوئے اور مسلمان ساتھ چل رہے تھے۔ یہ سوریدہ زمین تھی جب نبی کریم ﷺ اس کے پاس آئے تو اس نے کہا : مجھ سے دور ہی رہیئے اللہ کی قسم : آپ کے گدھے کی بو مجھے اذیت دیتی ہے تو ایک انصاری نے کہا : اللہ کی قسم : رسول اللہ ﷺ کا گدھا خوشبو میں تجھ سے بڑھ کر ہے عبداللہ کے لئے اس کی قوم کا ایک فرد غصے میں آگیا ہر ایک کے لئے اس کے ساتھی غصے میں آگئے ان کے درمیان شاخوں، ہاتھوں او جوتوں سے لڑائی شروع ہوگئی ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی مجاہد نے کہا : اوس اوخزرج کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ مقاتل نے کہا : انصار کے دو قبیلے ڈنڈوں اور جوتوں سے باہم لڑے تو یہ آیت نازل ہوئی اس کی مثل سعید بن جبیر سے روایت مروی ہے کہ اوس اوخزرج کے درمیان رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں لڑائی ہوئی جو کھجور کی شاخوں جوتوں وغیرہ کے ساتھ ہوئی اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی۔ قتادہ نے کہا : یہ انصار کے دو آدمیوں کے بارے میں نازل ہوئی ان دونوں کا کسی حق کے بارے میں باہم جھگڑا تھا (1) ان میں سے ایک نے کہا میں اپنا حق سختی سے لوں گا کیونکہ اس کے خاندان کے افراد زیادہ تھے دوسرے نے اسے دعوت دی کہ رسول اللہ ﷺ کی بارہگاہ میں مسئلہ پیش کرتے ہیں تو پہلے ساتھی نے ایسا کرنے سے انکار کردیا معاملہ ان کے درمیان ہی رہا یہاں تک وہ لڑ پڑے اور ان میں بعض نے بعض کو ہاتھوں، جوتوں اور تلواروں سے مارا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ کلبی نے کہا : یہ سمیر اور حاطب کی لڑائی کے بارے میں آیت نازل ہوئی سمیر نے حاطب کو قتل کیا تھا تو اوس خزرج آپس میں لڑ پڑے یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ ان کے پاس تشریف لائے تو یہ آیت نازل ہوئی اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی مکرم اور مومنوں کو حکم ارشاد فرمایا کہ دونوں کے درمیان صلح کرائیں۔ 2 سدی نے کہا : انصار کی ایک عورت تھی جسے ام زید ﷺ کہا جاتا وہ ایک غیر انصاری کے عقد میں تھی وہ اپنے خاوند سے الجھی اس عورت نے ارادہ کیا کہ وہ اپنی قوم کے افراد کے پاس چلی جائے اس کے خاوند نے اسے محبوس کردیا اسے دوسری منزل میں رکھا جس میں اس کے خاندان کا کوئی فرد نہ تھا وہ عورت نے اپنی قوم کے افراد کو پیغام بھجیا اس کی قوم کے لوگ آئے انہوں نے اسے نیچے اتارا تاکہ اسے لے جائیں وہ آدمی نکلا اس نے اپنے خاندان کے لوگوں سے مدد مطلب کی اور اس کے چچازاد نکلے تاکہ عورت اور اس کے گھر والوں کے درمیان حائل ہوجائیں انہوں نے ایک دوسرے کو دھمکے دیئے اور جوتوں سے ایک دوسرے کو مارا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ طائفہ کا لفظ ایک آدمی، جمع اور دو کو شامل ہوتا ہے یہ معنی پر محمول ہوتا ہے لفظ پر محمول نہیں ہوتا کیونکہ دونوں طائفہ قوم الناس کے معنی میں ہے۔ حضرت عبداللہ کی قرآت میں بالقسط ہے ابن ابی عملہ نے اقلسستا پڑھا ہے کیونکہ طائفہ دو ہیں اس کے بارے میں گفتگو سورة برات میں گزر چکی ہے حضرت ابن عباس ؓ نے اللہ تعالیٰ کے فرمان (النور) کے بارے میں کہا : مراد ایک اور اس سے اوپر ہے اور طائفہ سے مراد اس کا ٹکڑا ہے۔ انہیں اللہ تعالیٰ کی کتاب کی طرف دعوت دے کر ان کے درمیان صلح کر ائو خوان کے حق میں ہو یا ان کے خلاف ہو۔ یعنی ایک حد سے تجاوز کرے اور اللہ تعالیٰ کے حکم اور کتاب کو نہ مانے یعنی اس سے مراد بات کو طول دینا اور فساد برپا کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب کی طرف لوٹے اگر وہ لوٹے یعنی ان دونوں کو انصاف اور برانگختیہ کرو اے لوگوْ انصاف سے کام لو تم باہم نہ لڑو۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے یعنی عدل سے کام لو۔ یعنی اللہ تعالیٰ عدل کرنے والوں اور حق پرستوں کو پسند کرتا ہے۔ مسئلہ نمبر 2:۔ علماء نے کہا : مسلمانوں میں دو جماعتیں قتال کرنے میں دو حالتوں سے خالی نہ ہوں گی یا تو وہ دونوں میں سرکشی کے راستہ پر باہم قتال کریں گی یا ایسا نہیں ہوگا اگر پہلی صورت ہو تو اس میں یہ ضروری ہوگا کہ دونوں کے درمیان ایسے آدمی کو لایا جائے جو دوری کو ختم کرے اور ایک دو سے سے ہاتھ روک لیں اور الگ الگ ہوجائیں اگر وہ نہیں رکتے صلح بھی نہیں کرتے اور سرکشی پر ہی کمر بستہ رہتے ہیں تو ان دونوں سے جنگ کی جائے گی اور دوسری صورت یہ ہے کہ ایک جمات دوسری جماعت پر زیادتی کرتی ہو تو ضروری ہوگا کہ باغی گروہ سے جنگ کی جائے یہاں تک وہ وہ رک جائے اور توبہ کرلے اگر وہ ایسا کرے تو اس کے درمیان اور جس کے ساتھ زیادتی کی گئی اس کے درمیان عدل و انصاف سے مصالحت کرائی جائے اگر کسی شبہ کی بناء پر دونوں میں جنگ چھڑ جائے دونوں فریق اپنی جگہ حق پر ہوں تو ضروری ہے کہ دلائل اور براہین کے ساتھ شبہ کو زائل کیا جائے اور اگر وہ لڑائی جھگڑے پر گامزن رہیں اور جس امر کی طرف ان کی رہنمائی کی گئی اور حق کے واضح ہونے کے بعد جو انہیں اتباع حق کی نصیحت کی گئی اس پر عمل پیرا نہ ہوں تو دونوں باغی گروہ بن جائیں گے اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ مسئلہ نمبر 3: اس آیت میں دلیل ہے کہ اس باغی گروہ کے ساتھ قتال واجب ہے جس کی بغاوت امام یا کسی مسلمان کے خلاف معلوم ہو اور جو آدمی مومنوں کے ساتھ جنگ کرنے سے منع کرتا ہے اس کے قول کو فاسد کرنے پر تگ و دو کرتا ہو اس کے خلاف بھی جنگ کرنا لازم ہے رسول اللہ ﷺ کے اس قول سے استدلال کیا گیا ہے (1) مومن سے جنگ کرنا (علامت) کفر ہے اگر مومن باغی سے قتال کرنا کفر ہے تو اللہ تعالیٰ نے کفر کا حکم دیا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ اس سے بالا ہے حضرت صدیق اکبر نے ان لوگوں کے ساتھ جہاد کیا جو اسلام سے وابستہ رہے اور زکوۃ دینے سے رک گئے آپ نے حکم دیا : پیٹھ پھیر جانے والوں کا پیچھا نہ کیا جائے کسی زخمی کو نہ مارا جائے ان کے اموال لینا حلال نہیں جبکہ کافر میں یہ چیزیں واجب ہیں۔ طبری نے کہا : اگر ہر وہ اختلاف جو دو فریقوں کے درمیان ہوتا اس میں واجب بھاگ جاتا اور گھروں میں بیٹھ رہنا ہوتا تو کوئی حد قائم نہ ہوتی اور نہ باطل کو باطل کہا جاتا تو اہل نفاق اور فسق و فجور کا ارتکاب کرنے والے ہر چیز کو حلا کرنے کی راہ اپنا لیتے جسے اللہ تعالیٰ نے ان پر حرام کیا تھا جس طرح مسلمانوں کے اموال لینا ان کی عورتوں کو قیدی بنا لینا اور ان کے خون بہانا وہ ان مسلمانوں کے خلاف لشکر کشی کریں اور مسلمان ان سے اپنے ہاتھوں کو روک لیں یہ نبی کریم ﷺ کے قول کے خلاف ہے : (1) اپنے بیوقوف لوگوں کے ہاتھوں کو روکو۔ مسئلہ نمبر 4: قاضی ابوبکر بن عربی نے کہا : یہ آیت مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے میں اصل میں ہے اور غلط تاویل کرنے والوں کے ساتھ جنگ کرنے میں بنیاد ہے۔ صحابہ نے اسی پر بھروسہ کیا اور ملت کے بڑے لوگوں نے اسی کی پناہ لی (2) نبی کریم ﷺ نے اپنے ارشاد میں یہی آیت مراد لی عمار کو ایک باغی جماعت قتل کرے گی خارجیوں کے بارے میں حضور ﷺ کا ارشاد ہے وہ بہترین جماعت پر خروج ریں گے پہلی روایت زیادہ صحیح ہے کیوند کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے : دو جماعتوں میں سے ایسی جماعت انہیں قتل کرے گی جو حق کے زیادہ قریب ہے ‘ جس ہستی نے ان سے جنگ کی وہ حضرت علی شیر خدا اور جو لوگ آپ کے ساتھ مسلمان علماء کے نزدیک یہ ثابت ہے اور دینی دلیل سے یہ امر ثابت ہوتا ہے کہ حضرت علی شیر خدا امام تھے اور جس نے بھی ان پر خروج کیا وہ باغی تھا اور اس کے ساتھ تو قتال واجب تھا یہاں تک کہ وہ حق کی طرف لوٹ آئے اور صلح پر راضی ہوجائے کیونکہ حضرت عثمان ؓ کو شہید کیا گیا جبکہ صحابہ ان کے خون سے بری تھی کیونکہ جن لوگوں نے آپ کے خلاف شورش کی تھی ان کے ساتھ جنگ کرنے سے حضرت عثمان غنی ؓ نے منع کردیا تھا : فرمایا : میں وہ پہلا شخص نہیں بننا چاہتا جو رسول اللہ ﷺ کی امت میں قتل کے ساتھ نیابت کرے آپ نے آزمائش پر صبر کیا، امتحان کے سامنے سر تسلیم خم کیا اور امت کو اپنی جان کا نذرانہ دے دیا پھر یہ ممکن نہ تھا کہ لوگوں کو بےمقصد چھوڑ دیا جاتا حضرت عمر نے شوری میں جن افراد کا ذکر کیا تھا خلافت کو ان پر پیش کیا گیا اور انہوں نے اسے قبول نہ کیا حضرت علی شیر خدا اور اس کے زیادہ حقدار اور اہل تھے تو آپ نے امت پر احتیاط کی غرض سے اسے لے لیا کہ ان کے خون باطل طریقہ سے نہ بہتے رہیں اور بےمقصد ان کا معاملہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہوجائے بعض اوقات دین میں تبدیلی رونما ہوگئی اور اسلام کے ستون ٹوٹ گئے جب آپ کی بیعت کی گئی تو اہل شام نے مطالبہ کردیا وہ تب بعیت کریں گے کہ جن لوگوں نے حضرت عثمان کو قتل کیا ہے ان پکڑیں اور ان سے قصاص لیں حضرت علی شیر خدا نے انہیں فرمایا : بعیت میں داخل ہو جائو اور حق کا مطالبہ کرو تم اس تک پہنچ جائو گے۔ انہوں نے کہا : آپ بیعت مستحق نہیں جبکہ حضرت عثمان کے قتال صبح و شام آپ کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں حضرت علی شیر خدا ؓ کی رائے اس بارے میں درست تھی کیونکہ حضرت علی شیر خدا اگر ان میں سے فورا قصاص لیتے تو قبائل ان کی عصبیت میں کھڑے ہوجاتے تو تیسری جنگ شروع ہوجاتی آپ نے انتظار کیا کہ خلافت کا معاملہ مضبوط ہوجائے اور بیعت منعقد ہوجائے اور مجلس حکم میں اولیا کی جانب سے مطالبہ ہو اور حق و انصاف کے ساتھ فیصلہ ہوجائے۔ امت میں اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ امام کے لئے یہ جائز ہے کہ قصاص میں تاخیر کرے خصوصاً جب قصاص فتنہ بڑھاکانے اور جمعیت کو منتشر کرنے کا باعث ہو حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کے لئے بھی ایسا ہی ہو اور دونوں حضرت علی ؓ سے دلایت کے مسئلہ پر الگ نہ ہوئے تھے اور نہ ہی انہوں نے دیانت کے اعتبار سے ان اعتراض کیا تھا ان کی رائے۔ یہ تھی کہ حضرت عثمان غنی ؓ کے قاتلیں سے بدلہ لینا یعنی انہیں پہلے قتل کرنا ضروری ہے۔ (1) ۔ میں کہتا ہوں : ان کے درمیان جو جنگ واقع ہوئی اس کا سبب بھی یہی قول تھا جلیل القدر علماء کہتے ہیں کہ بصرہ میں ان کے درمیان جو واقع ہوا وہ جنگ کے ارادہ سے نہ ہوا تھا بلکہ اچانک ہوا تھا ہر ایک فریق نے اپنا دفاع کیا کیونکہ اس کا گمان یہ تھا کہ دوسرے فریق نے اس کے ساتھ دھوکہ کیا ہے کیونکہ معاملہ ان کے درمیان منظم ہوچکا تھا صلح مکمل ہوچکی تھی باہم رضا مندی سے وہ الگ الگ ہونے والے تھے حضرت عثمان غنی ؓ کے قاتلیں کو خوف ہوا کہ انہیں پکڑ لیا جائے گا اور ان کو گھیر لیا جائے گا وہ اکٹھے ہوئے باہم مشاورت کی اور اختلاف کیا پھر ان کا اس رائے پر اتفاق ہوا کہ وہ دونوں فریقوں میں بٹ جائیں اور دونوں لشکروں میں سحری کے وقت جنگ شروع کریں تیر ان کے درمیان چلے وہ فریق جو حضرت علی ؓ کے لشکر میں تھا اس نے شور مچایا کہ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر نے دھوکہ کیا اور جو فریق حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کے لشکر میں تھا اس نے شور مچایا کہ حضرت علی نے دھوکہ کیا کہ اس طرح وہ امر تکمیل پذیر ہوا جس کی انہوں نے تدبیر کی تھی اور جنگ نے ان میں اپنی جگہ بنا لی ہر فریق اپنے کئے کا اپنے ہاں دفاع کررہا تھا اور خون بہائے جانے سے مانع تھا یہ دونوں فریقوں کی جانب سے درست عمل تھا اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت تھی کیونکہ باہم جنگ اور دفاع اس طریقہ سے ہوا تھا : یہی قول صحیح اور مشہور ہے اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ مسئلہ نمبر 5: یہ قتال کا حکم ہے اور فرضہ کفایہ ہے جب کچھ لوگ اس کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے تو باقی ماندہ افراد سے یہ حکم ساقط ہوگیا یہی وجہ ہے کہ صحابہ میں سے ایک جماعت اسی وجہ سے گھروں میں بیٹھی رہی جس طرح حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت محمد بن مسلمہ ؓ وغیرہ۔ حضرت علی شیر خدا نے ان کی رائے کو درست قرار دیا ان میں سے ہر ایک نے اپنا عذر پیش کیا جسے آپ نے قبول کیا۔ یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ جب یہ معاملہ حضرت امیر معاویہ ؓ تک پہنچا تو انہوں نے حضرت عسد کو ان کے کئے پر عتاب کیا اور انہیں کہا : نہ تو آپ ان میں سے ہوئے جنہوں نے دو ایسے گروہوں کے درمیان صلح کرائی جو آپس میں لڑ رہے تھے اور نہ ہی باغی جماعت سے جنگ کی حضرت سعد نے کہا : میں نے باغی گروہ سے جو جنگ نہیں کی میں اس پر شرمند ہوں اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہر ایک نے جو کیا اس کا وہ کامل طور پر ادراک نہیں رکھتا تھا یہ سب کچھ اجتہاد کے نتیجہ اور شرع کے حکم پر عمل کرنے کی وجہ سے تھا۔ (2) مسئلہ نمبر 6: ان کی صلح میں عدل یہ ہے (3) کہ ان کے درمیان جو خون خرابہ ہوا اور جال کا ضیاع ہوا اس کا مطالبہ نہ کریں کیونکہ جو کچھ نقصان ہوا وہ کسی تاویل کی بناء پر ہوا اور ان کے مطالبہ کی صورت میں حقیقت میں یہ صلح سے بھاگنا اور بغاوت میں دور تک جانا ہے۔ مصالحت میں یہی اصل و قانون ہے لسان الامت : نے کہا : صحابہ کے درمیان جنگ میں حکمت یہ ہے کہ اہل اجتہاد کے قتال کے احکام کو جانا جاسکے کیونکہ اہل مشرک کے ساتھ قتال کے احکام رسول اللہ ﷺ کی زبان اور آپ کے عمل سے معلوم ہوچکے ہیں۔ مسئلہ نمبر 7:۔ جب کوئی باغی خروج کرنے والا عادل امام پر خروج کرے جبکہ اس کے پاس کوئی دلیل نہ ہو تو امام تمام مسلمانوں کو ساتھ لے کر قتال کرے جو ایسے کفایت کریں جنگ سے پہلے وہ انہیں اطاعت اور جماعت میں داخل ہونے کی دعوت دے اگر وہ اطاعت کی طرف لوٹے اور صلح سے انکار کریں تو ان کے ساتھ جنگ کی جائے ان کے قیدیوں کو قتل کیا جائے، ان کے بھاگ جانے والے کا پیچھا نہ کیا جائے، ان کے زخمی کو قتل کرنے میں جلدی نہ کی جائے ان کے بچوں کو قیدی نہ بنایا جائے اور ان کے اموال پر قبٗضہ نہ کیا جائے ان کے زخمی کو قتل کرنے میں جلدی نہ کی جائے ان کے بچوں کو قیدی نہ بنایا جائے جب عادل (امیر کا وفادار) باغی کو قتل کرے یا باغی عادل کو قتل کرے جبکہ وہ ایک دوسرے کے ولی ہوں تو وہ ایک دوسرے کے وارث نہ ہوں گے جان بوجھ کر قتل کرنے والا کسی صورت میں وارث نہیں بنے گا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : عادل باغی کا وارث بنے گا : قصاص پر قیاس کیا گیا ہے۔ مسئلہ نمبر 8: باغیوں او خارجیوں نے جو خون یا مال برباد کیا پھر وہ تائب ہوئے تو اس کی جہ سے ان کا مواخذہ نہیں ہوگا : امام ابوحنیفہ نے کہا : وہ ضامن ہوں گے امام شافعی کے دو قول ہیں امام ابوحنیفہ کے قول کی یہ دلیل ہے کہ یہ ظلم و زیادتی کے ساتھ اتلاف ہے توضمانت لازم ہوگی ہمارے نزدیک قابل اعتماد بات یہ ہے کہ صحابہ ؓ اپنی باہم جنگوں میں بھاگ جانے والے کا پیچھا نہیں کرتے تھے اور زخمی کو قتل نہیں کرتے تھے اور قیدی کو قتل نہیں کرتے تھے جان کے اتلاف اور مال ضائع ہونے کی صورت میں وہ ضمانت نہیں لیتے تھے وہی مقتداء ہیں۔ حضرت ابن عمرؓ نے کہا : نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : اے عبداللہ : کیا تو جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں کیا حکم دیا ہے جو اس امت میں سے بغاوت کرتا ہے (1) ‘ عرض کی : اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتا ہے اور فرمایا : اس کے زخمی کو قتل نہ کیا جائے گا اس کے قیدی کو قتل نہیں کیا جائے گا بھاگ جانے والی کی تلاش نہیں کی جائے گی اور ان کا مال تقسیم نہیں کیا جائے گا۔ ‘ جو مال اصل حالت میں ہو اس کو واپس کردیا جائے گا یہ سب کچھ آدمی کے بارے میں ہے جو کسی تاویل کی بناء پر خروج کرتا ہے جو تاویل اس خروج کو جائز قرار دیتی تھی۔ زمحشری نے اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے : اگر باغیوں کی تعداد تھوڑی ہو اس حیثیت میں کہ وہ اپنا دفاع نہ کرسکیں تو اس نے جو جنابت کی تھی تو لوٹ آنے کے بعد جماعت ضامن ہوگی اگر ان کی تعداد زیادہ ہو تو وہ قوت و شوکت والے ہوں تو وہ ضامن نہ ہوگی مگر محمد بن حسن شیبانی کا نقطہ نظر ہے آپ فتوی دیا کرتے تھے کہ ضمانت اس پر لازم ہوگی جب وہ رکوع کرے گا مگر جمع ہونے اور لشکر کشی کرنے سے قبل یا جنگ ختم ہونے کے وقت اوزار رکھنے کے وقت کا معاملہ ہے تو اس نے جنابت کی تو وہ سب کے نزدیک ضامن ہوگا۔ عدل کے ساتھ اصلاح پر برانگختیہ کرنا اللہ تعالیٰ کے اس فرمان : میں امام محمد کے نزدیک واضح ہے آیت کریمہ کے لفظ پر منطبق ہے (2) دوسرے علماء کے قول کے مطابق اس کی توجیہ یہ ہے کہ باغی جماعت کو قلیل تعداد پر محمول کیا جائے جس امر کا انہوں نے ذکر کیا ہے وہ یہ ہے کہ غرض کینوں کو ختم کرنا ہے جنایات کی ضمانت دینا نہیں ہے یہ اس عدل حکم کے ساتھ حسن مطابقت نہیں رکھتا : زمحشری نے کہا : اگر تو سوال کرے : دوسرے کے ساتھ عدل کو ملایا گیا ہے پہلے کے ساتھ نہیں ملایا گیا ؟ میں اس کا جواب دوں گا : آیت کے شروع میں قتال سے مراد ہے کہ وہ دونوں باغی کی حیثیت میں قتال کریں یا ان میں شبہ پایا جائے کوئی بھی صورت ہو مسلمانوں پر یہ واجب ہے کہ حق کا ارادہ کرتے ہوئے شافی مواعظ کے ساتھ اور شبہ کی نفی کرنے کا اہتمام کرتے ہوئے جو جدائی واقع ہوچکی ہے اس میں اصلاح احوال کریں آگ کو ٹھنڈا کریں مگر جب وہ دونوں اصرار کریں تو ان سے جنگ ضروری ہے جہاں تک ضمانت کا تعلق ہے اس کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ جب ان میں سے ایک باغی ہو تو معاملہ اس طرح نہ ہوگا کیونکہ مذکوہ صورتوں میں ضمانت قابل توجہ ہوگی۔ مسئلہ نمبر 9: اگر وہ کسی علاقہ پر غلبہ پا لیں اور صدقات وصول کرلیں حدود قائم کریں اور ان میں فیصلہ کریں ان پر نہ تو دوبارہ صدقات لازم کئے جائیں گے اور نہ حدود قائم کی جائیں گی اور انہوں نے جو فیصلے کئے ان کے خلاف کوئی حکم نہیں دیا جائے گا مگر جو کتاب سنت اور اجماع کے خلاف ہو جس طرح جو باغی ہو تو اس کے فیصلے کے خلاف کوئی حکم نہیں دیا جاتا یہ مطرف اور ابن ماجشون کا قول ہے ابن قاسم نے کہا : کسی حال میں بھی یہ جائز نہیں (1) اصبغ سے مروی ہے، یہ جائز ہے، ان سے یہ بھی مروی ہے کہ یہ جائز نہیں جس طرح ابن قاسم کا قول ہے، امام ابوحنیفہ کا بھی یہی قول ہے کیونکہ اس نے ناحق ان لوگوں کے بارے میں عمل کیا ہے جس پر اس کی تولیت جائز نہ تھی تو یہ جائز نہ ہوگا جس طرح اگر وہ باغی نہ ہوتے تو بھی جائز نہ ہوتا ہمارے لئے قابل اعتماد وہی ہے جو ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں کہ جب فتنہ فرور ہوگیا اور صلح کی وجہ سے اختلاف کیا گیا تو صحابہ نے کسی کے حکم میں کوئی معارضہ نہ کیا ابن عربی نے کہوا : جو چیز میرے پاس پسندیدہ ہے کہ یہ درست نہیں کیونکہ فتنہ جب ختم ہوگیا تو امام وہی باغی تھا تو وہاں کون تھا کو معترض بنتا (2) ۔ مسئلہ نمبر 10:۔ یہ جائز نہیں کہ صحابہ میں سے کسی صحابی کی طرف قطعی طور پر خطا کو منسوب کیا جائے کیونکہ ہر ایک نے جو بھی عمل کیا اس میں وہ مجتہد تھا وہ سب اللہ تعالیٰ کی ضرا کا ہی ارادہ کرتے تھے وہ سب ہمارے آئمہ ہیں ان کے درمیان جو اختلاف ہوا ہم اس سے باز رہنے کے پابند ہیں ہم ان کا ذکر احسن انداز میں ہی کریں گے کیونکہ صحابہ احترام کے مستحق ہیں اور نبی کریم ﷺ نے انہیں برا بھلا کہنے سے منع کر رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی مغفرت کا ذکر کیا ہے اور ان سے راضی ہونے کی خبر دی ہے یہ چیز مختلف سندوں سے نبی کریم ﷺ سے مروی ہے کہ حضرت طلحہ شہید ہوئے جو روئے زمین پر چل پھر رہے ہیں جس جنگ کے لئے وہ نکلے تھے وہ نافرمانی ہوتی (3) تو اس میں قتل ہونے والا شہید نہ ہوتا اس طرح اگر جس جنگ میں وہ نکلے تھے تو تاویل میں غلطی کرتے اور واجب کوتاہی کرتے کیونکہ شہادت تو اسی وقت ہوتی ہے جب اطاعت کی صورت میں قتل ہو اس لئے ضروری ہے کہ ان کے معاملہ کو اس امر پر محمول کیا جائے جو ہم نے بیان کیا ہے اس امر پر جو چیز دلالت کرتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت علی شیر خدا کی روایات میں صحیح اور عام روایت ہے کہ حضرت زبیر کو قتل کرنے والا جہنم میں جائے گ اور ان کا یہ قول ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا : ابن صفیہ کے قاتل کو جن ہم کی بشارت دے دو “ جب معاملہ اس طرح ہے تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر نافرمانی کرنے والے اور قتال کے ذریعے گناہ گار نہ تھے کیونکہ اگر معاملہ اس طرح ہوتا یعنی وہ عاصی اور گناہ گنار ہوتے تو نبی کریم ﷺ حضرت طلحہ کے بارے میں یہ نہ کہتے کہ وہ شہید ہے او یہ خبر نہ دیتے کہ حضرت زبیر کا قاتل آگ میں ہے اس طرح جو گھر میں بیٹھ گیا وہ تاویل میں غلطی کرنے والا نہیں بلکہ وہ درست ہے اللہ تعالیٰ نے انہیں اجتہاد کی راہ دکھائی جب معاملہ اس طرح ہے تو یہ امرا نہیں لعن طعن کرنے اور ان سے برات کا اظہار کرنے اور ان کو فاسق قرار دینے کو ثابت نہیں کرتا ان کے فضائل اور ان کے جہاد کو باطل نہیں کرتا اور دین میں جو ان کا عظیم مقام ہے ان کو ختم نہیں کرتا۔ بعض سے اس خون ریزی کے بارے میں پوچھا گیا جو ان کے درمیان واقع ہوئی تو یہ آیت پڑھی (البقرہ) ۔ بعض سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا : وہ ایسی خونریزی تھی اللہ تعالیٰ نے میرا ہاتھ اس سے پاک رکھا میں اپنی زبان کو اس سے آلودہ نہیں کروں گا یعنی خطا میں واقع ہونے اور بعض پر ایسا حکم لگانے سے جو درست نہ ہو اس سے بچوں گا ابن فورک نے کہا : ہمارے دونوں میں سے کچھ نے کہا کہ صحابہ کے درمیان جو تنازعہ ہوئے ان کے بارے میں وہی رویہ ا پنائو جو حضرت یوسف اور ان کے بھائیوں کے درمیان تنازعہ ہوا اس میں اپناتے ہوئے اس کے باوجود وہ دلایت اور نبوت کے دائرہ سے باہر نہ نکلے اور صحابہ کے درمیان جو معاملہ ہوا وہ بھی اسی طرح ہے۔ محاسبی نے کہا : جہاں تک خونریزی کا تعلق ہے ان کے اختلاف کی وجہ سے ہمارے لئے قول کرنا بہت مشکل ہے حضرت حسن بصری سے ان کے قتال کے بارے میں پوچھا گیا : فرمایا : اس میں حضرت محمد ﷺ کے صحابہ حاضر ہوئے جبکہ ہم غا ئب تھے وہ عالم تھے ہم جاہل ہیں وہ اکٹھے ہوگئے تو ہم نے ان کی اتباع کی اور انہوں نے اختلاف کیا تو ہم نے توقف کیا (1) ۔ محاسبی نے کہا : ہم وہی بات کرتے ہیں جس طرح حسن بصری نے کی ہے ہم جنتے ہیں جو اس میں داخل ہوئے تھے وہ ہم سے زیادہ علم رکھنے والے تھے جس امر پر انہوں نے اتفاق کیا ہم اس کی پیروی کریں گے جس میں انہوں نے اختلاف کیا ہم اس کے متعلق توقف کریں گے اور ہم اپنی جانب سے کسی رائے کو پیش نہیں کریں گے ہم جانتے ہیں کہ انہوں نے اجتہاد کیا اللہ تعالیٰ کی رضا سے توفیق کے طالب ہیں۔
Top