Al-Qurtubi - Ar-Rahmaan : 6
وَّ النَّجْمُ وَ الشَّجَرُ یَسْجُدٰنِ
وَّالنَّجْمُ : اور تارے وَالشَّجَرُ : اور درخت يَسْجُدٰنِ : سجدہ کر رہے ہیں
اور بوٹیاں اور درخت سجدہ کر رہے ہیں
والنجم والشجر یسجدن۔ حضرت ابن عباس اور دور سے علماء نے کہا، نجم اسے کہتے ہیں جس کا تنا نہ ہوا اور درخت اسے کہتے ہیں جس کا تنا ہو (6) نجم یہ نجم الشی ینجم نجوما سے مشتق ہے جب وہ ظاہر و طلوع ہو۔ اس کے سجود سے مرادان کے سایہ کا سجدہ کرنا ہے (1) یہ ضحاک کا قول ہے۔ فراء نے کہا : دونوں کے سجدہ سے مراد یہ ہے جب سورج طلوع ہوتا ہے تو یہ سورج کے بالمقبال ہوتے ہیں پھر اس کے ساتھ مائل ہوتے ہیں یہاں تک کہ سایہ چھوٹا ہوجاتا ہے (2) زجاج نے کہا : ان دونوں کے سجود سے مراد ان کے سایہ کا ان کے ساتھ گھومنا ہے (3) جس طرح فرمایا : یتفیوا ظللہ (النحل : 48) حضرت حسن بصری اور مجاہد نے کہا، نجم سے مراد آسمان کا ساترہ ہے اور مجاہد کے قول کے مطباق اس کے سایہ کا گردش کرنا ہے، یہ طبری کا پسندیدہ نقظہ نظر ہے، یہ مہدوی نے بیان کیا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس کے سجود سے مراد اس کا غروب ہوتا ہے اور درخت کے سجدہ سے مراد اس کیپ ھل کے چنن کا ممکن ہونا ہے، یہ ماوردی نے بیان کیا ہے (4) ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ سب اللہ تعالیٰ کے سامنے مسخر ہیں تم ستارے کی پوجا نہ کرو سج طرح صابیوں میں سے ایک قوم نے ستاروں کی پرستش کی اور عجمیوں سے کثیر لوگوں نے درخت کی پوجا کی۔ سجود کا معنی خضوع ہے اس سے مقصود حادث ہونے کے آثار ہیں : قشیری نے اسے بیان کیا ہے۔ نحاس نے کہا، لغت میں سجود کی اصل اللہ تعالیٰ کی اطاعت گزاری ہے۔ تمام جامد چیزوں سے سجود اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرنا ہے۔ حیوانات سے بھی یہ اسی طرح ہے اس سے مراد نماز کا سجدہ بھی ہو سکتا ہے۔ محمد بن زید بن نجم کو نجوم کے معنی میں لیا ہے۔ قباتت تعذ النحم اس نے رات ستارے گنتے ہوئے گزاری۔
Top